حیاء خیر ہی خیر ہے

1

الحیاءُ لا یأتی الا بخیرٍ۔ (عن عمران بن حصینؓ؍ متفق علیہ) وفی روایۃ لمسلم: الحیاءُ خیرٌ کلہ، أو قال: الحیاء کلہ خیرٌ۔
حضرت عمران بن حصینؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ حیاء خیر کے علاوہ کچھ اور نہیں لاتی (متفق علیہ)۔ اور مسلم کی ایک روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ حیاء خیر کل ہے یا یہ فرمایا کہ حیاء کل کی کل خیر ہے۔
حدیث کی روایت کرنے والے افراد اور انہیں کتابوں میں درج کرنے والوں نے جس درجہ احتیاط برتی ہے اس کا ایک ثبوت درج بالا حدیث میں موجود ہے۔ حقیقتاً مفہوم کے لحاظ سے تینوں طرح کے الفاظ میں کوئی خاص فرق نہیں ہے۔ یہ کہنا کہ حیاء صرف خیر کا سبب بنتی ہے یا یہ کہ یہ خیر کل ہے یا خیر ہی خیر ہے۔ اس کے باوجود حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث ہم تک حددرجہ احتیاط سے پہنچانے کے لیے راویوں اور محدثین نے ہرممکن سعی کی ہے۔
آنحضرتؐ کی دوسری احادیث میں حیاء اور ایمان کا تعلق بیان کیا گیا ہے۔ مسلم کی ایک حدیث جس کے راوی حضرت ابوہریرۃؓ ہیں، اس میں حیاء کو ایمان کا شعبہ کہا گیا ہے (والحیاء شعبۃ من الایمان)۔ ترمذی کی ایک دوسری حدیث میں حیاء کو ایمان کا حصہ کہا گیا ہے (الحیاء من الایمان)۔ دراصل ایمان کے نتیجہ میں جو صفات بندہ مومن میں پیدا ہوتی ہیں ان میں حیاء ایک لازمی صفت ہے۔ ایمان کی طرح حیاء بھی ایک حِس ہے کہ جسے اگر بڑھایا جائے تو انسان گناہ میں ملوث ہونے سے باز رہتا ہے اور اگر بشری تقاضے، نفس کی کوتاہی اور شیطان کے فتنے کے نتیجے میں کوئی غلطی ہوجاتی ہے تو ایک باحیاء اور باایمان شخص فوراً نادم ہوتا ہے اور اسے توبہ کا شرف حاصل ہوجاتا ہے۔ دوسری طرف اگر کوئی بے حیاء ہوجائے تو کسی بھی غلط کام کو کر گزرتا ہے اور اسے محسوس نہیں ہوتا کہ اس نے کیسی ذلیل حرکت کی ہے۔
حیاء کے سلسلے میں حضرت محمد ؐ کی اپنی کیفیت کو ایک صحابیؓ نے اس طرح بیان کیا ہے کہ آپؐ ایسے حیاء دار تھے کہ جیسے کوئی کنواری دوشیزہ ہوتی ہے۔ آپؐ کے سامنے کسی کے کسی غلط کام یا بیہودگی کی کوئی بات آتی تو چہرہ پر ناگواری کے آثار صاف نظر آجاتے۔
حیاء کے بنیادی طور پر تین درجات ہیں۔ دوسرے لفظوں میں یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ حیاء کی تین قسمیں ہیں۔ ایک یہ کہ بندہ کو اپنے خدا سے حیاء ہو اور وہ معصیت سے اس لیے بچتا ہو کہ اسے اپنے مالک کے رحیم وکریم ہونے کا احساس ہو۔ اسے یہ احساس ہو کہ اللہ تبارک وتعالی کی بے پایاں نعمتوں سے فیضیاب ہوکر آخیر کیسے وہ اس کی ناراضگی مول لینے کا کام کرے۔ یہ حیاء ہر حال میں اسے کسی گناہ کے کام سے روکنے کا سبب بنتی ہے۔
حیاء کا دوسرا سبب انسانوں کے درمیان روابط ہیں۔ انسان کی فطرت میں یہ بات شامل ہے کہ دوسرے انسانوں کی نگاہ میں پسندیدہ ہو۔ گناہوں میں لت پت شخص بھی یہ پسند نہیں کرتا کہ اس کے بیوی بچے، دوست احباب اور دیگر عزیزواقارب وشناسا اسے برا سمجھیں۔ یہ حیاء کم ازکم جلوت میں اسے غلط سمت میں جانے سے روکتی ہے۔ ایک حدیث میں رسولؐ نے گناہ کی پہچان یہ بتائی ہے کہ یہ وہ کام ہے جس کے سلسلے میں ایک شخص پسند نہیں کرتا کہ وہ دوسروں کو معلوم ہوجائے۔
حیاء کی تیسری قسم انسان اور اس کے اپنے نفس کا رشتہ ہے۔ انسان کی فطرت میں یہ چیز ودیعت کردی گئی ہے، جسے قرآن وسنت کی اصطلاح میں معروف کہتے ہیں۔ منکرات پر نفس قدغن لگانے کی کوشش کرتا ہے، ٹوکتا ہے اور اسے خود اپنی نگاہ میں گرادینے کی سعی کرتا ہے۔
جس طرح ایمان گھٹتا اور بڑھتا ہے ایسے ہی حیاء کی کیفیت ہمیشہ یکساں نہیں رہتی۔ جس طرح ایمان کو تازہ رکھنے اور بڑھاتے رہنے کے لیے مسلسل اس جانب متوجہ رہنے اور اس کے لیے سعی کرنے کی حاجت ہوتی ہے اسی طرح حیاء کی حس کو مردہ نہ ہونے دینا اور اسے جگائے رکھنے اور پروان چڑھانے کے لیے تزکیہ کا عمل جاری رکھنے کی ضرورت ہے۔
نتیجہ کے لحاظ سے حیاء ہمیشہ خیر کا سبب بنتی ہے۔ دنیا میں شرافت کی علامت اور آخرت میں رضائے الٰہی کا حصول اس کا لازمی نتیجہ ہے، ان شاء اللہ
ڈاکٹر وقار انور، مرکز جماعت اسلامی ہن

1 تبصرہ
  1. […] کیا  ۔ آج کے اس دور میں لباس کے حوالے سے جہاں زینت اور ستر و حیا کا کوئی تصور نہیں ہے ، ضروری ہے کہ صحیح اور حقیقی لباس […]

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Verified by MonsterInsights