جو لوگ اپنی زندگی کا کوئی اعلی مقصد رکھتے ہیں، یعنی قرآن کی زبان میں جن لوگوں کا مقصد زندگی شہادت حق اور دعوت الی اللہ ہے اور اس پرفتن دنیا میں اصلاح اور قیام عدل کا فریضہ انجام دینا چاہئے۔۔۔ اور اسی پر دراصل انسان کی اخروی اور دنیوی زندگی کی کامیابی کا دارومدار ہے۔۔۔ ان کو اپنے اندر وہ اعلی صفات پیدا کرنی اور پروان چڑھانی ہوں گی جن کی نشاندہی قرآن وحدیث میں بار بار کی گئی ہے۔ ان میں ایک اہم صفت ہے، اللہ پر ایمان، اس پر بھروسہ اور اس سے گہرا اور زندہ تعلق۔ دوسری اہم صفت جو اپنے اندر پیدا کرنی ہوگی وہ ہے آخرت کی زندہ فکر۔ ان کے علاوہ جو ایک اہم صفت اپنے اندر پیدا کرنی ضروری ہے وہ حسن سیرت اور اعلی کردار ہے۔ اس کے بغیر مندرجہ بالا صفات اور دیگر مطلوبہ صفات کا کوئی وزن نہ ہوگا۔ حسن سیرت اور اعلی کردار کے سلسلے میں ہمارے بزرگ مرشد مولانا مودودی علیہ الرحمہ کی مندرجہ ذیل تحریر بار بار پڑھنے کے لائق ہے اور اس لائق ہے کہ ہر مسلمان خاص طور سے ہمارا نوجوان اپنی زندگی کو اس کے مطابق ڈھال لے اور پھر حسن سیرت کا جادو اور کرشمہ اپنے سر کی آنکھ سے دیکھے۔ مولانا مودودیؒ فرماتے ہیں:
’’ان دواوصاف (تعلق باللہ اور فکر آخرت) کی تاثیر کو، جو چیز عملاََ ایک زبردست قوتِ تسخیر میں تبدیل کردیتی ہے وہ حسن سیرت ہے۔ خدا کی راہ میں کام کرنے والے لوگوں کو عالی ظرف اور فراخ حوصلہ ہونا چاہئے۔ ہمدرد خلائق اور خیرخواہِ انسانیت ہونا چاہئے اور کریم النفس اور شریف الطبع ہونا چاہئے، خوددار اور خوگرِ قناعت ہونا چاہئے۔ متواضع اور منکسرالمزاج ہونا چاہئے۔ شیریں کلام اور نرم خو ہونا چاہئے۔ وہ ایسے لوگ ہونے چاہئیں، جن سے کسی کو شر کا اندیشہ نہ ہو اور ہر ایک ان سے خیرخواہی کا متوقع ہو، جو اپنے حق سے کم پر راضی ہوں اور دوسروں کو ان کے حق سے زیادہ دینے پر تیار ہوں، جو برائی کا جواب بھلائی سے دیں یا کم سے کم برائی سے نہ دیں۔ جو اپنے عیوب کے معترف اور دوسروں کی بھلائیوں کے قدردان ہوں، جو اتنا بڑا دل رکھتے ہوں کہ لوگوں کی کمزوریوں سے چشم پوشی کرسکیں، قصوروں کو معاف کرسکیں، زیادتیوں سے درگزر کرسکیں، اور اپنی ذات کے لیے کسی سے انتقام نہ لیں۔ جو خدمت لے کر نہیں، خدمت کرکے خوش ہوتے ہوں، اپنی غرض کے لیے نہیں بلکہ دوسروں کی بھلائی کے لیے کام کریں، ہر تعریف سے بے نیاز اور ہر مذمت سے بے پرواہ ہو کر وہ اپنا فرض انجام دیں اور خدا کے سوا کسی کے اجر پر نگاہ نہ رکھیں، جو طاقت سے دبائے نہ جاسکیں، دولت سے خریدے نہ جاسکیں، مگر حق اور راستی کے آگے بے تأمل سرجھکادیں، جن کے دشمن بھی ان پر بھروسہ رکھتے ہوں کہ کسی حال میں ان سے شرافت اور انصاف کے خلاف کوئی حرکت سرزد نہیں ہوسکتی۔ یہ دلوں کو موہ لینے والے اخلاق ہیں۔ ان کی کاٹ تلوار کی کاٹ سے بڑھ کر اور ان کا سرمایہ سیم وزر کی دولت سے گراں تر ہے۔ کسی فرد کو یہ اخلاق میسر ہوں تو وہ اپنے گردوپیش کی آبادی کو مسخر کرلیتا ہے۔ لیکن اگر کوئی جماعت ان اوصاف سے متصف ہو، اور پھر وہ کسی مقصد عظیم کے لیے منظم سعی بھی کررہی ہو تو ملک کے ملک اس کے آگے مسخر ہوتے چلے جاتے ہیں، حتی کہ دنیا کی کوئی طاقت اس کو شکست دینے میں کامیاب نہیں ہوسکتی۔‘‘ (تحریک اسلامی کامیابی کے شرائط، اسلامی تزکیۂ نفس)
حسن سیرت اور اعلی کردار کی یہ تعلیم جتنی پندرہ سوسال قبل ضروری اور مؤثر تھی آج بھی اتنی ہی ضروری اور مؤثر ہے۔ بس ضرورت یہ ہے کہ ہماری سمجھ میں یہ بات آجائے اور ہم اس کو اپنالیں۔
(نسیم غازی فلاحی، سکریٹری اسلامک ساہتیہ ٹرسٹ، دہلی)