ڈاکٹر سلیم خان
مودی راج میں پہلی بار ایک وزیراعلیٰ کی نصف شب میں حلف برداری ہوئی ۔ اس سے قبل عدالت عظمیٰ نے کرناٹک اسمبلی کے معاملے میں نصف شب کواپنا فیصلہ سنا کر گورنر کے پر کتر دیئے تھے۔ یہ دونوں واقعات میں جمہوری نظام سیاست پر اسی طرح سرجیکل اسٹرائیک نظر آتا ہے جس طرح یعقوب میمن کو پھانسی کی سزا سنانے کے لیے عدالت کو نصف شب میں زحمت دی گئی تھی ۔ ہندوستان میں ایک زمانے تک عوام کے نمائندےاپنے عوام کی خدمت کرتے تھے اس لیے انہیں وزیر بننے میں کوئی خاص دلچسپی نہیں تھی ۔ اس وقت وزیراعظم یا وزیراعلیٰ جن لوگوں کو ضروری سمجھتے اپنے تعاون کے لیے ملک یا صوبے کی راجدھانی میں بلالیتے۔ وقت کے ساتھ جذبۂ خدمت ختم ہوگیا اور وزیر بن کر عیش کرنے کی ہوس ہر رکن پارلیمان و اسمبلی کے دل میں انگڑائیاں لینے لگی۔ اس کے چلتے آیا رام گیا رام کا دور دورہ ہوا ۔ اصول و نظریات اور عوام کی فلاح و بہبود کو طاق پر رکھ کر اقتدار حاصل کرنے کے لیے عوام کے نمائندے نے اپنی وفاداریاں فروخت کرنے لگے ۔
بڑی بڑی وزارتیں تشکیل دی جانے لگیں اور سرکاری خزانے کی لوٹ مار بہت بڑھ گئی۔ اس لیے آئین میں ۹۱ ویں ترمیم کرنی پڑی جس کی روُسے وزیراعظم سمیت وزراء کی کل تعداد پر ۱۵ فیصد کی تحدید لگا دی گئی۔ وزیراعظم کے اختیارات کی محدود کرنے والی اس تاریخی ترمیم کوبی جے پی نے یکم جنوری ۲۰۰۴ کو منظور کروایا اور جولائی ۲۰۰۴ میں کانگریس نے نافذ کیا۔ اس قانون کا اطلاق صوبائی اسمبلیوں پر بھی ہوا۔ اترپردیش کی ملائم سنگھ سرکار ۲۸ وزراء ہٹانے پڑے۔ مہاراشٹر میں سشیل کمار شندے کو ۲۶ اور بہار کو ۱۶ کی کمی کرنی پڑی ۔ ان بڑی ریاستوں کے بالمقابل چھوٹے صوبوں کی حالت اور بھی خراب تھی ۔ اروناچل پردیش میں ارکان کی جملہ تعداد ۶۰ تھی اور ان میں ۴۳ حضرات وزیر بنے ہوئے تھے ۔ اب نئے قانون کے مطابق ان میں سے ۳۱ کو اور میگھالیہ میں ۲۹ ارکان اسمبلی کو وزارت سے سبکدوش ہونا تھا ۔ کسی رکن اسمبلی کا سرکاری مراعات سے محروم ہونا ایک بڑی آزمائش ہوتی ہے اور وزیراعلیٰ کے لیے یہ ناپسندیدہ اور خطرناک ذمہ داری ہوتی ہے۔ اس لیے کہ نئی صورتحال میں یہ مضطرب روحیں اپنے لیڈر اور پارٹی سے بغاوت کرکے وزیر بننے کے لیے اور مخالفین کے ساتھ ملنے میں پس و پیش نہیں کرتیں ۔
وطن عزیز میں بیشتر علاقائی جماعتیں کسی اصولی بنیاد یا اختلاف کا نہیں بلکہ اسی اضطراب کا نتیجہ ہیں ۔ سکم ّ، میزورم اور گوا کو اس قانون کے اطلاق سے مستثنیٰ کیا گیا کیونکہ وہاں ارکان اسمبلی کی کل تعداد ۴۰ یا اس سے کم ہے۔ یعنی اگر یہ قانون نافذ ہوجائے تو وزیراعلیٰ سمیت ڈھائی وزراء کی گنجائش بنتی ہے۔ یہ حسن اتفاق ہے کہ فی الحال قومی سطح پر عملاًڈھائی افراد کی حکومت چل رہی ہے باقی ۵ء۷۵ لوگ تو بس عیش کررہے ہیں ۔ اس قانون کے تحت مذکورہ صوبوں کو زیادہ سے زیادہ ۱۲ وزیر بنانے کی اجازت دی گئی ۔ اس تناظر میں گوا کی اسمبلی کا جائزہ لیا جائے تو اس میں ۴۰ ارکان تھے جن میں سے ۴ انتقال یا استعفیٰ کے سبب موجود نہیں ہیں یعنی کل تعداد ۳۶ ہے۔ ان میں سے ۱۴ کانگریس کے ارکان ہیں اور اس کی حامی جماعت این سی پی کا ایک رکن ہے اس طرح اسے صرف ۱۵ لوگوں کی حمایت حاصل ہے۔ اس کے برعکس بی جے پی کے صرف ۱۲ ارکان ہیں لیکن اس کو ایم جی پی، جی ایف پی اور آزاد امیدواروں میں سے ہرایک کے ۳ ارکان یعنی کل ۲۱ ارکان کی حمایت حاصل ہے۔ سابق وزیراعلیٰ منوہر پریکر کے انتقال سے قبل بی جے پی ارکان کی تعداد کانگریس سے ایک کم یعنی ۱۳ ہوگئی تھی اس لیے کانگریس پارٹی نے گورنر کو خط لکھ کر حکومت سازی کی دعوت دینے کا مطالبہ کیا تھا ۔ گورنر محترمہ نے حسب توقع اس خط کو کوڑے دان کی نذر کردیا۔
کانگریس کو توقع تھی کہ وہ سارے حامیوں کو وزیر بناکراعتماد کا ووٹ حاصل کرسکتی ہے۔ بی جے پی کواس خطرے کا اندیشہ تھا اس لیے وہ علالت کے باوجود منوہر پریکر سے کام چلا رہی تھی لیکن انتقال کے بعد نئے ویزاعلیٰ کا تقرر لازمی ہوگیا اور حامیوں نے بی جے پی کو بلیک میل کرنا شروع کردیا ۔ یہی وجہ ہے کہ جہاں ایک طرف منوہر پریکر کی موت کا سوگ منایا جاتا رہا وہیں دوسری جانب حامیوں کو سمجھانے منانے کی کوششیں جاری و ساری رہیں ۔ بی جے پی چاہتی تھے کہ گوا اسمبلی کے اسپیکر ڈاکٹر پرمود ساونت کی رات ۱۱ بجے حلف برداری ہوجائے لیکن اتحادی جماعتوں اور آزاد ارکان اسمبلی نے بی جے پی کی کمزوری کا خوب فائدہ اٹھایا ۔ وہ لوگ اس وقت تک حمایت پر تیار نہیں ہوئے جب تک کہ بی جے پی مہاراشٹروادی گومانتک پارٹی کے سدھین دھولیکر اور گوا فارورڈ پارٹی کے وجے سردیسائی کو نائب وزیر اعلیٰ بنانے نیزتینوں آزاد امیدواروں کو وزارت نوازنے پر راضی نہیں ہوئی ۔ اس مشق میں رات کے ڈیڑھ بج گئے۔ بی جے پی کو اندیشہ لاحق تھا کہ اگر حلف برداری کو اگلے دن تک ٹال دیا جائے تو کانگریس ان لوگوں کو یہی پیشکش کردے گی اور یہ لوٹے اس کی جانب لڑھک جائیں گے ۔ قومی انتخاب سے قبل بی جے پی یہ خطرہ نہیں مول لے سکتی تھی اس لیے دنیا کی سب سے بڑی سیاسی پارٹی نے گھٹنا تو دورماتھا ٹیک دیااور جمہوریت کو سولی پر چڑھا کر اپنی صوبائی حکومت بچالی ۔یہ بی جے پی پر ہی نہیں موقوف، اس موقع پر کانگریس سمیت کوئی بھی سیاسی جماعت یہی کرتی۔ جمہوریت کے اس بے روح جسد خاکی کو پھانسی پر لٹکاتے ہوئے کسی کو رحم نہیں آتا۔ گوا کی مثال سے یہ غلط فہمی ہوتی ہے کہ مخلوط حکومت سازی میں حلیفوں کو خوش کرنے کے لیے وزراء کی تعداد زیادہ رکھنی پڑتی ہے ۔
٨٩٩١ کے بعد سے مرکز میں مخلوط حکومتوں کا دور جاری رہا ۔ اس لیے حامی جماعتوں کو ساتھ رکھنے کے لیے بڑی بڑی وزارتیں تشکیل دی گئیں ۔ منموہن سنگھ نے ابتداء ۵۰ سے کی لیکن انتخاب سے قبل انہیں بیش از بیش ۷۸ ارکان کو وزارت کا لالی پاپ پکڑانا پڑا۔ ۲۵ سالوں کے بعد پہلی بات مرکز میں بی جے پی کے اپنے ۲۸۲ یعنی معمولی اکثریت سے ۱۰ زیادہ ارکان کامیاب ہوگئے۔ اس کے حلیفوں کی تعداد صرف ۵۶ تھی اس لیے بی جے پی کے اوپردوسروں کے دباو بالکل نہیں تھا ۔ ایسی صورتحال میں مودی جی کے لیے اپنے وزراء کی تعداد کم رکھنا بہت آسان تھا ۔ مودی جی چونکہ کسی پر اعتبار نہیں کرتے اور سارے کام اپنے دفتر سے چلانے کے قائل ہیں اس لیے وہ اپنی وزارت مختصر رکھ سکتے تھے لیکن ان سے بھی یہ نہیں ہوسکا ۔ اپنے مخالفین کو کمزوراور خود کو مضبوط کہنے والے نریندر مودی بھی اس معاملے میں مجبور ہی نظر آئے ۔ وہ بھی ۷۸ کی زیادہ سے زیادہ تعداد پر چپکے رہے ۔ ۱۵ سال قبل جب یہ قانون بنایا گیا تو مرکزی اور صوبائی سطح پر ۲۶۰ ارکان کو وزارت چھوڑنی پڑی ۔ وزارت خزانہ کے مطابق اس وقت ایک صوبائی وزیر پر اوسطاً ڈیڑھ کروڈ سالانہ خرچ ہوتا تھا ۔ اس طرح کل ۳۹۰ کروڈ روپیوں کی بچت ہوگئی ۔ پچھلے ۱۵ سالوں میں ان وزراء کی تنخواہوں اور مراعات پر نہ جانے کتنے گنا اضافہ ہوچکا ہے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ وزراء تو دور ارکان پارلیمان و اسمبلی کی آمدنی کا واحد ذریعہ سرکاری تنخواہ اور سہولیات نہیں ہیں بلکہ اس کے علاوہ بھی یہ لوگ سرمایہ داروں اور غنڈوں بدمعاشوں کی مدد کرکے کروڈوں روپئے کماتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے ایک سائیکل پر چلنے والا میونسپل کاونسلر بھی منتخب ہونے کے بعد دیکھتے دیکھتے بی ایم ڈبلیو گاڑی میں سوار نظر آتا ہے ۔ یہ بات اس قدر عام ہوگئی ہے کہ اس پر کوئی حیرت زدہ نہیں ہوتا بلکہ اگر ایسا نہ ہوتو تعجب ہوتا ہے۔ عام لوگ ایسے سیاسی رہنما کو مواقع ضائع کرنے والا بیوقوف سمجھتے ہیں ۔ جس ملک کے رائے دہندگان خود یہ چاہتے ہوں کہ اگر انہیں موقع مل جائے تو خوب لوٹ مار کریں تو بھلا وہ بدعنوان نیتا کو کیوں شکست فاش سے کیونکردوچار کر سکتے ہیں ۔ یہی سبب ہے کہ موجودہ سیاست میں بدعنوانی کو مدعا نہیں رہا اور سیاسی رہنماوں کے دل سے رشوت کا خوف ختم ہوگیا۔ سرمایہ دارانہ سیکولر جمہوریت کے پاس اس مرض کا کوئی علاج نہیں ہے۔ اس کے باوجود لوگ اس کے متبادل پر غورنہیں کرتے۔ افسوس کہ علامہ اقبال جب خبر و نظر کی بات کرتے ہیں تو نظریہ مراد ہوتا ہےاور جب وہ نظریاتی علاج کی جانب اشارہ کرتے ہیں تو ہم اسے کھوجاتی سرمہ سمجھ لیتے ہیں؎ خرد کے پاس خبر کے سوا کچھ اور نہیں ترا علاج نظر کے سوا کچھ اور نہیں