نام کتاب: بے گناہ قیدی
مصنف: عبدالواحد شیخ
ناشر: فاروس میڈیا
زبان: اردو
صفحات: 408
مبصر: ندیم علی، مغربی بنگال
بقول فیض احمد فیض۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
بول یہ تھوڑا وقت بہت ہے
جسم و زباں کی موت سے پہلے
بول کہ سچ زندہ ہے اب تک
بول جو کچھ کہنا ہے کہہ لے
کچھ مہینے قبل شہر کلکتہ کے ایک معروف ادارے میں منعقدہ ایک سماجی پروگرام میں پہلی بار میں نے اس کتاب (جو ہندی زبان میں تھی) کو برادر محترم شاہنواز علی ریحان (ریسرچ اسکالر، آکسفورڈ یونیورسٹی ) کے ہاتھوں دیکھا تو اس کتاب کے عنوان نے مجھ میں تجسس پیدا کیا۔ برادر شاہنواز علی ریحان نے اُسی وقت اُس کتاب اور اسکے مصنف کے بارے میں مختصراً متعارف کرایا۔
کتاب کا عنوان ہی کچھ ایسا تھا کہ اُس دن کے بعد سے ہی اس کتاب کو پڑھنے کی ایک بے چینی نے میرے اندر گھر کر لیا۔ اور میں نے اس کتاب کے لیے اپنے کئ جاننے والوں سے رجوع کیا لیکن یہ کوشش کارآمد ثابت نہیں ہوئی۔ بہر حال جب مجھے پتہ چلا کہ یہ کتاب بے گناہ قیدی Amazon پر دستیاب ہے تو میں نے اس کو با آسانی حاصل کیا۔
یہ کتاب ’’بے گناہ قیدی‘‘ دہشتگردی کے واقعات کو آشکار کرنے والی ایسی چشم کشا کتاب ہے جو اس بات کا دعوٰی کرتی ہے کہ دہشت گردی جیسے گھناونے الزام میں ملوث نوجوان (بالخصوص گیارہ جولائی ممبئی لوکل ٹرین سیریل بم دھماکوں میں قید سبھی مسلم نوجوان) معصوم ہوتے ہوئے بھی سالہا سال ملک کی مختلف عدالتوں کی نام نہاد کارروائیوں، پولس کی زیادتیوں سےپُر تفتیشی عمل،تفتیشی ایجنسیوںکے کام کرنے کے غیر انسانی طریقے اور قانونی اداروں کے داؤ پیچ کا شکار ہوئے ہیں۔ اس کتاب کے مطالعے کے بعد آپ کی آنکھوں کے سامنے وہ ہولناک مناظر آتے ہیں کہ کس طرح سے ان (معصوموں) پر دہشت گردی کے غلط الزام عائد کر، ملزم سے مجرم اور قصوروار ٹھہرا دیا جاتا ہے۔ اور بالفرض عدالت کا فیصلہ ان تفتیشی ایجنسیوں کی کارروائیوں کے برعکس آ بھی گیا (جیسا کہ کئ بم بلاسٹ کے کیسوں میں ہوا) تو تب تک اس میں اتنی دیر ہو چکی ہوتی ہے کہ ان ملزموں کی عمر کا ایک بڑا دور قید و بند کی زندگی میں ختم ہو چکا ہوتا ہے۔
درج بالا کتاب عبدالواحد شیخ کے ذریعہ لکھی گئی ہے جسے فاروس میڈیا اینڈ پبلشنگ پرائیویٹ لمیٹڈ نے شائع کیا ہے۔ یہ صرف ایک کتاب ہی نہیں بلکہ دہشت گردی (مثلاََ کے طور پر گیارہ جولائی لوکل ٹرین سیریل بم دھماکے، جرمن بیکری بم دھماکہ، مالیگاؤں بم دھماکہ و دیگر) کی زد میں آنے والے ان نوجوانوں (بالخصوص مسلم نوجوان) کی سچّی آپ بیتی ہے جن پر دہشت گرد ہونےکا پَٹَّہ لگا کر اُن کی عمر کے ایک سنہرے دَور کو برباد کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔
اس کتاب کے مصنف عبدالواحد شیخ ہیں۔ جوبذات خود عدالتی نظام کے تعصب پرست فیصلوں، پولس، تفتیشی ایجنسیوں اور سسٹم کے دردناک ٹارچرز کا شکار رہ چکے ہیں،بعد ازاں ملت اسلامیہ کے کچھ اداروں کی امداد، وکیلوں اور دیگر لوگوں کی انتھک کوششوںکے باعث ان الزامات سے باہر آئے۔ مصنفنے اس کتاب کے مختلف ابواب میں اُن سیریل بم دھماکوں کے بعد تفتیشی ایجنسیوں، آفیسر وغیرہ کی تلخ حقیقت کو، اشیش کھیتان، ساگنیک چودھری جیسے دیگر بے باک صحافیوں کی تفتیشی رپورٹ، اور دیگر ثبوت بھی قابل اعتماد ذرائع سے اِکٹھا کرتے ہوئے سامنے لانے کا دعوٰی کیا ہے اور یہ بھی بتایا کہ کس طرح اپنی نااہلی کو چُھپانے کے لیے وہ طرح طرح کے ہتھکنڈے اورحربے اپناتے ہیں۔ مصنف نے، اس کتاب کے ذریعہ ان حقائق کو منظر عام پر لانے کی کوشش کی ہے کہ کس طرح سے تفتیش اور انکوائری (نارکو ٹیسٹ، برین میپنگ و دیگر سائنسی ٹیسٹ) کے نام پر ملزموں اور ان کے قریبی لوگوں کو طرح طرح (جھوٹے الزامات، قانون و اقتدار کا غلط استعمال کر) سے ہراساں کیا جاتا ہے۔
جمہوریت کا چوتھا ستون سمجھی جانے والی میڈیا (خبر رساں ادارے، سوائے چند ایک کے) تو ایسے معاملات میں اپنی جانبدارانہ رویہ میں پیش پیش رہتے ہیں۔جوکورٹ میں مقدمہ چلنے سے قبل ہی میڈیا ٹرائل کر کے ملزموں کو مجرم اور گنہگار ہونے کے اعلانات کے ساتھ مشتہرکر دیتےہیں۔ یہ کتاب میڈیا کے اُس تعصب پسند کرداراور غیر ذمہ دارانہ رویّوں، جن کی وجہ سے معصوم ملزموں اور ان کے گھر کے لوگوں کو طرح طرح کی اذیتیں بھی اُٹھانی پڑتیں ہیں، کا ذکر کرتی ہے۔ عہدے اور طاقت کا غلط استعمال کر پولس اور جیل کے اہلکاروں کے ذریعہ ملزموں کو قانونی امداد حاصل کرنے سے کافی حد تک ڈرا نے دھمکانے کے عمل کی وضاحت بھی مصنف نے کی ہے۔ اور بتایا کہ اگر وہ کسی طرح سے اپنے لیے قانونی امداد کا انتظام کر بھی لیں تو ان ملزموں پر کیے جانے والے ٹارچر کی شدت میں اضافہ کرتے انہیں بالکل بھی دیر نہیں لگتی۔ قانون کا محافظ کہا جانے والا طبقہ، پولس اور انکے حامی ادارے، اپنی نا اہلی کو چھپانے کے لیے ملزموں کو فرضی انکاؤنٹرز کا شکار بناتے ہیں، کوڑیوں کے مول بکنے والے جھوٹے گواہوں کو بہ آسانی تیار کر لیتے ہیں اور اگر کوئی راضی نہ بھی ہوا تو ان انصاف پسند لوگوں کو ڈرا دھمکا کے تیار کرلینا ان کے لیے کوئی بڑی بات نہیں۔ انسانیت کو شرمسار کرنے والے سرکاری اسپتال کے اُن ڈاکٹروں کا بھی ذکر بھی اس کتاب میں کیا گیا ہے جنہوں نے ڈاکٹری جیسے نیک پیشے کی عظمت کو محض ذاتی مفادات کے لیے بالائے طاق رکھ دیا اور تفتیشی ایجنسیوں کے ہر شاطرانہ اقدامات میں انکا ساتھ دینے میں کوئی کجی نہیں برتی۔
یہ کتاب جہاں ایک طرف سرکاری اداروں (پولس، اے ٹی ایس و دیگر) کے کئی ظالم و کرپٹ افسران (اے ٹی ایس چیف رگھو ونشی، پولس کمیشنر اے این رائے، پولس آفیسر پھڑکے، پولس آفیسر الکنورے اور ان جیسے کئی) کا ذکر کرتی ہے تو وہیں دوسری طرف ان نیک افسروں، ججوں، وکیلوں ( پولس آفیسر ہیمنت کرکرے، اے سی پی ونود بھٹ، شری ابھئے تھپسے جیسے انصاف پسند جج، مرحوم ایڈووکیٹ شاہد اعظمی) کا بھی تذکرہ اس میں شامل ہے جو کہ آج بھی حق اور سچائی کی بقاء کے لیے اس کرپٹ سسٹم سے لڑتے ہیں۔ لیکن اکثر انہیں مایوسی اور ناکامی کے علاوہ کچھ ہاتھ نہیں آتا۔ بلکہ ان جیسے کتنوں کو یا تو قتل کروا دیا جاتا ہے یا تو اس قدر ذہنی دباؤ ان پر ڈالے جاتے ہیں کہ ان کے سامنے بس ایک ہی راستہ رہ جاتا ہو اور وہ بھی خودکشی کا۔
مصنف نے اس کتاب میں وہ مشورے بھی رکھنے کی کوشش کی ہے جن کو اگر وقت رہتے خاطر میں لایا جائے تو کئی بے قصوروں (جن پر دہشتگرد ہونے کا الزام عائد کر انکی زندگی کے ایک اچھے خاصے دور کو تباہ و برباد کر دیا جاتا ہے) کو قانونی امداد فراہم کر انہیں ان الزامات سے بری کرایا جاسکتا ہے۔ خودمصنف کی رہائی اس کی بہترین مثال ہے۔ مصنف کا ماننا ہے کہ اس نے ان سارے واقعات کو یکجا کر ایک کتابی شکل اس لیے دی ہے تاکہ خدانخواستہ اگر ایسے دور سےکسی معصوم کو گزرنا پڑا اور ایسے ستم زدہ حالات نے انہیں گھرکر لیا، تو وہ بالکل بھی ہمت نہ کھوئیں اور خدا وحدہُ لاشریک پرمکمل بھروسہ رکھتے ہوئے صبر کے ساتھ اپنی بے گناہی کو ثابت کرنے کی جدوجہدمیں کوئی کمی نہ چھوڑیں۔
یہ کتاب اپنے ساتھ کئی سوالات چھوڑ جاتی ہے کہ۔۔۔
آخر کب تک قانون کا سہارا لے کر پولس اور تفتیشی ادارے اپنی نا اہلی کو چھپانے کے لیے بے گناہ نوجوانوں کو ایسے ہی قید کرتے رہیں گے اور اس طرح اس ملک کے بے قصور نوجوانوں کا استحصال کیا جاتا رہے گا؟
ان بے گناہوں کے ساتھ ان کے گھر والوں کو کب تک ذہنی و جسمانی اذیتوں سے دو چار ہوتا رہنا پڑے گا؟
کب تک قانون کے رکشک ہی قانون کے بھکشک بنے رہیں گے؟
کب تک انصاف پسند لوگ جنہوں نے حق و انصاف کی بقاء کے لیے اس کرپٹ سسٹم کا مقابلہ کیا،شکار بنتے رہیں گے؟
کیا ہمارے ملک کے قانون کے تحت اس کرپٹ سسٹم میں ملوث ان آفیسران کے خلاف کوئی مقدمہ نہیں بنتا جن کی وجہ سے کئی معصوم ملزموں نے اپنے عمر کا ایک سنہرا دور کھو دیا؟ اگر واقعی میں ایسا کوئی قانون ہے تو اسکا نفاذ عمل میں کیوں نہیں آتا؟ یہ کچھ ایسے سوالات ہیں جن کا جواب اگر جلد از جلد نہیں ملا تو وہ دن دُور نہیں کہ جب پولس، قانون، عدالت، انصاف، انسانیت وغیرہ سے عام شہریوں کا دل اُچاٹ ہوتا ہوا نظر آئے گا اور یہ ساری باتیں ان کے نزدیک محض کتابی باتوں سے زیادہ کی حیثیت نہ رکھیں گی۔
رونے کا بھی ثبوت عدالت کو چاہیے
آنسو تمہارے گال پہ ٹھہرا ہوا ملے