اے ایم یو ایس یو: جماعت اسلامی جموں کشمیر نہ ہی خفیہ تنظیم ہے اور نہ ہی دہشت گرد

0

ہندوستان ایک ہنگامی صورتحال سے گزر رہا ہے. مودی حکومت نے ہر طریقہ سے مزاحمت کاروں کی آواز کو دباتے ہوئے ملک میں ایمرجینسی جیسی صورتحال پیدا کردی ہے. اور ملک میں قون پرستی کا بھیانک نریٹیو نافذ کیا ہے. جماعت اسلامی جموں کشمیر جو کہ ایک سماجی، سیاسی و مذہبی تنظیم ہے اس پر پابندی عائد کیا جانا ایک صدمہ والا اقدام ہے. جماعت اسلامی جموں کشمیر پر غیر قانونی سرگرمیوں کے ایکٹ کے تحت پاببدی عائد کی گئی.


ایک پریس ریلیز میں اے ایم یو اسٹوڈنٹس یونین نے محمد سلمان امتیاز (صدر یونین) کی نگرانی میں جماعت اسلامی جموں کشمیر پر پابندی کے فیصلے پر اپنے گہرے غم و غصہ کا اظہار کیا.
ملک کو یہ بتایا جانا ضروری ہیکہ جماعت اسلامی جموں کشمیر اس کے دستور کے مطابق کام کرتی ہے، دستور کے آرٹیکل 5،شق 3 میں یہ واضح طور پر درج ہیکہ یہ تنظیم جمہوری اور دستوری طور پر اپنی سرگرمیاں انجام دے گی.


اس پریس ریلیز میں مزید کہا گیا کہ جماعت اسلامی جموں کشمیر نا ہی خفیہ تنظیم ہے اور نا ہی دہشت گرد تنظیم، ریاست میں یہ تنظیم 1971،1975، 1977،1983 اور 1987 میں انتخابی سیاست کا حصہ بھی رہی ہے. 1989 میں انتخابات میں بڑے پیمانے پر دھاندلیوں کی وجہ سے سے جماعت نے انتخابات میں حصہ لینا ترک کردیا.


اس پریس ریلیز میں یہ تسلیم کیا گیا کہ جماعت اسلامی جموں کشمیر ایک بڑے نیٹورک کے تحت رفاہی خدمات انجام دیتی ہے اور ریاست میں بیواؤں و یتیموں کے لیے ذریعہ معاش کا سبب اور راحت فراہم کرتی ہے. تنظیم تعلیمی میدان میں نمایاں کام کرتی ہے، جس کے اداروں میں 1 لاکھ سے زاید طلبا ہیں. جماعت نے 2005 کے زلزلے اور 2014 کے کشمیر فلڈ میں قابل ذکر خدمات انجام دی ہیں. جس نے انسانی ہمدردی کے بحران کو ختم کیا ہے.


1990 میں کشمیر میں تشدد بھڑک اٹھنے کے بعد امیر جماعت اسلامی جموں کشمیر غلام محمد بھٹ نے یہ واضح کردیا تھا کہ جماعت کا عسکریت پسند تنظیموں سے کوئی تعلق نہیں. جماعت نے اپنی سماجی و ملی خدمات کو پرامن انداز میں جاری رکھا، ریاست میں کہیں بھی عوامی طور پر جماعت کے خلاف ایسا کوئی ثبوت نہیں جو اسے غیر قانون تنظیم قرار دے سکے. حکومت نے مضحکہ خیز بیان دیا اور جماعت کو UAPA کے تحت بند کردیا.


علی گڑھ مسلم یونیورسٹی طلباء یونین کے مطابق جماعت اسلامی جموں کشمیر پر پابندی کہ وجہ غیر قانونی سرگرمیوں سے زیادہ کٹر ہندوتوا سیاست ہے. کیونکہ پارلیمانی انتخابات کے لئے کچھ ہفتے ہی باقی ہے اور بی جے پی اس کی آڑ میں سیاسی کھیل کھیلے گی. تقریباً تمام ہی سیاسی جماعتوں نے بشمول نیشنل کانفرنس پی ڈی پی اور کانگریس نے اس پابندی کی مخالفت کی. کشمیر کے مذہبی قائدین، سول سوسائٹی اور تاجرین نے بھی اس پابند کی مذمت کی اور اسے سیاسی محرک کہا ہے.


ہم، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں اس ناقابل قبول پابندی کا سختی سے نوٹس لیتے ہیں اور حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ فوری جماعت کے خلاف لگائے گئے الزامات کو مسترد کریں.
دیکھا جائے تو جماعت اسلامی جموں کشمیر کی کارکردگی قابل تحسین ہے اور جماعت اسلامی کا جموں کشمیر کے فروغ و ترقی میں بڑا رول ہے. ہاروڈ یونیورسٹی، یو ایس اے، یونیورسٹی آف زیورچ، ایمپیریل کالج لند، یونیورسٹی آف ایسٹرن فن لینڈ، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، یونیورسٹی کالج آف لندن، کینٹ اسٹیٹ یونیورسٹی، امریکہ، نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ٹکنالوجی، سرینگر، یونیورسٹی آف پینسلوانیہ امریکہ، کون کورڈیا یونیورسٹی کینیڈا، ٹیکنیکل یونیورسٹی کو کیسر سوڑن وغیرہ سے تعلق رکھنے والے تقریباً 200 افراد جو کہ جماعت اسلامی کے زیر سرپرستی چلنے والے تعلیمی ادارے FAT کے سابق طلبا ہیں نے ایک کھلا خط لکھا کہ وہ قانون سازوں، جیورسٹ، ڈاکٹرس، ٹیچرز، انجینئرس، انتظامی افسران، ملٹی رنگ آفیس برئیر بنانے میں اور جموں کشمیر میں بہتر حکمرانی میں جماعت اسلامی کی شراکت داری کو تسلیم کریں، کھلے خط کے ساتھ منسلک دستخطوں اور اعلی یونیورسٹیوں سے ان کے تعلق سے ازخود تعلیمی میدان میں جماعت اسلامی کی خدمات ظاہر ہوتی ہیں. بلکہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے فارغ سینکڑوں طلباء اسی فلاح عام ٹرسٹ FAT سے تعلق رکھتے ہیں.
اے ایم یو یونین نے یہ مطالبہ کیا کہ جموں کشمیر کے لوگوں کے ساتھ جارحانہ ذہنیت اور طاقت کے استعمال کو بند کیا جائے اور بات چیت کا راستہ کھولا جائے. مشیر برائے جموں کشمیر، سابق وزیر اعلیٰ اور اٹلی جینس افسران نے حکومت کو یہی رائے دی کہ جموں کشمیر کو سیاسی حل کی ضرورت ہے، طاقت کے استعمال کا نظریہ صرف اور صرف کشمیریوں کو ہم سے دور کردے گا.


جماعت اسلامی جموں کشمیر پر پابندی کے اس فیصلے پر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی طلباء یونین نے عاجلانہ نظر ثانی کی مانگ کی، ساتھ ہی ریاست میں مختلف نظریات کو جگہ دے کر جمہوریت کو مضبوط بنانے کی مانگ کی. حکومت کو چاہیے کہ وہ ایسے تمام اقدامات سے دور رہیں جس سے کشمیر میں اینٹی انڈیا جذبہ پیدا ہو. گورنر ستیہ پال ملک کو یہ چاہیے کہ وہ مرکزی حکومت کو جماعت اسلامی پر پابندی سے آئے ردعمل سے آگاہ کریں اور ایسے اقدامات اٹھائیں جس سے وہاں امن قائم ہونے میں معاون ہوں.
تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Verified by MonsterInsights