ایک مجاہدصوفی ۔ ایک تحریکی پیر

0

(معروف اسلامی دانشور مولانا محمد فاروق خاں سے ایک ملاقات کا تذکرہ)
تری خوشبو نہیں ملتی، ترا لہجہ نہیں ملتا۔۔۔ہمیں تو شہر میں کوئی ترے جیسا نہیں ملتا

السلام علیکم ۔۔۔۔ !! وعلیکم السلام۔۔۔!
’’یہ ہمارے ساتھی ہیں۔ شانتاپرم سے اسی سال انہوں نے اپنی پڑھائی مکمل کی ہے۔ ‘‘
’’اچھا بھئی! بڑی خوشی ہوئی مل کر۔۔۔ بیٹھئے‘‘۔ (کرسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے) اور ہم کرسی پر براجمان ہوگئے۔
ایک چھوٹا سا کمرہ جو مختصر ہونے کے باوجود بڑے بڑے محلوں کو منھ چڑھارہا تھا، بائیں جانب دیوار سے لگا ایک بیڈ جو بے چارہ منتظر ہی رہتا ہے۔ کمرے کے وسط میں ایک کالے رنگ کی کرسی جو سب سے زیادہ آپ کی خدمت میں لگی رہتی ہے، اور اپنی خوش قسمتی پر نازاں رہتی ہے۔ اس کے سامنے پڑی ایک بوسیدہ سی میز جس پر بہت سا سامان مختلف شکلوں میں پڑا ہوا ہے، ٹھیک مولاناکی زندگی کی ترجمانی کررہا تھا۔ اور اس کالے رنگ کی کرسی پر بیٹھا وہ شخص جو چاروں طرف سے کتابوں سے گھرا ہوا تھا۔ کمرے کے چاروں جانب رکھیں وہ کتابیں جن کی حالت بتارہی تھی کہ اس نے جتنا ان کتابوں کو پڑھا ہوگا اس سے کہیں زیادہ ان کتابوں نے اسے پڑھا ہوگا۔ ان کتابوں کا حال یہ کہہ رہا تھا کہ انہوں نے استفادے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہوگی۔ اس کی زندگی کے ہر حرف کو نچوڑ نچوڑ کر پیا ہوگا۔
آواز میں لطیف رعب اور شخصیت میں بلا کی جاذبیت، پہلی نگاہ میں ہی مرعوب ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔
دراصل مولانا کو ایک انٹرویو دینا تھا، وہ اس میں مصروف ہوگئے اور میں مولانا کی شخصیت کو جذب کرنے لگا، یہ جانتے ہوئے کہ میں ڈوب کر بھی اس کی تہہ تک نہیں پہنچ سکتا۔
شانتاپرم میں تعلیم کے دوران میرے استاذ نے مولانا کی شخصیت کی بعض جھلکیاں دکھائی تھیں۔ اس سے پہلے بھی مولانا سے تعارف کسی نہ کسی حد تک تھا، مولانا کی تحریروں کے حوالے سے۔ پر مولانا کی تحریریں اس وقت اس کم سن ذہن میں نہیں سماتی تھیں۔ اپنے استاذ کے بار بار متوجہ کرنے پر رفیق منزل میں شائع ہونے والے مولانا کے مضامین پڑھنا شروع کئے اور اب کیفیت یہ ہے کہ رفیق کے مضامین میں جو مضمون سب سے پہلے اور آخری حرف تک پڑھتا ہوں وہ مولانا کا ہی ہوتا ہے۔
فکراسلامی کی جو خوبصورت ترجمانی آپ کی تحریریں کرتی ہیں وہ کم ہی ملتی ہے۔
مولانا کے چہرے پر غور کررہا تھا، چہرے کی سلوٹیں جو چہرے کی مختلف کیفیات کے ساتھ تبدیل ہورہی تھیں پون صدی کی داستان بیان کررہی تھیں، جن میں صدیوں کے تحیر کے پڑے تھے ڈورے۔۔۔
آواز میں ٹھہراؤ، مگر جذبات میں طوفانی اٹھان، جو اس وقت دیکھنے کے لائق ہوتا جب بولتے بولتے قرآن کی کوئی ایسی آیت آجاتی جو جذبات سے جڑی ہوتی، اس وقت آپ کی آواز ہی اس میں موجود تمام جذبات کی ترجمانی کے لیے کافی ہوتی۔
مولانا کا Sense of humour بھی کمال کا ہے۔ ٹھیٹھ، خشک علمی نکات میں بھی آپ لطافت کے پہلو نکال کر اس خوبصورتی سے ہنستے کہ دیکھنے والا کنفیوژ ہوجائے۔ پریشان بے چارہ اس خوبصورت مسکراہٹ کو محسوس کرے یا وہ لطیف پہلو تلاش کرے جس پر مولانا نے ابھی ابھی اپنے جبڑوں کو پیاری سی تکلیف دی تھی۔
مولانا کا ہنسنے کا انداز بھی بڑا نرالا، قہقہے بھی لگاتے تو بنا آواز نکالے، ایک مسکراہٹ ہنسی کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کررہی ہوتی۔
ویسے تو آپ کے مداحوں اور عقیدتمندوں کی ایک بھیڑ ہے، مگر میں ان دنوں آپ کے ایک عجیب عقیدتمند سے ملا۔ ایک بے باک عاشق، جس کی باتیں آپ کے تئیں بلا کی عقیدت اور بے پناہ محبت کی آئینہ دار تھیں۔ ان کی آواز میں مولانا کے لیے اچھلتا، تڑپتا درد عشق دیکھنے لائق تھا۔موصوف نے بتایا کہ مولانا اس قدر پیرانہ سالی اور ناسازئ طبیعت کے باوجود کئی کئی گھنٹے لگاتار کام کرتے ہیں۔
مولانا کی وہ بات جس سے میں سب سے زیادہ متأثر ہوا، وہ مولانا کی نئی نسل سے بے پناہ محبت اور جدید ذہن پر بلا کا اعتماد ہے۔ عام طور سے ’’بڑی عمر‘‘ کے لوگوں کو نئی نسل اور جدید ذہن سے کافی خوف اور اندیشے لاحق رہتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے لیے ’ماڈرنو فوبیا‘ ایک بڑا مسئلہ ہے۔ ان کو ہروقت یہ خیال ستائے رہتا ہے کہ نئی نسل ہاتھ سے نکلی جارہی ہے۔ مولانا اس کے برعکس سوچتے ہیں۔ اس اعتماد اور الفت ومحبت کا مشاہدہ میں نے اپنی آنکھوں سے کیا۔ اس بیمار ذہنیت کو منھ چڑھاتا ہوا آپ کا یہ جملہ میں نے اپنی ڈائری میں بہت ہی خوبصورتی کے ساتھ رکھ لیا:
’’کانٹوں کے اندیشوں سے پھولوں کو کھلنے اور مہکنے سے نہیں روکا جاسکتا‘‘۔
مولانا کا یہ جملہ جدید ذہن سے آپ کے والہانہ لگاؤ اور ان پر اعتماد کا اظہار ہے۔ نئی نسل سے ہمیشہ شکوہ شکایت کے برتاؤ سے ’’دوری‘‘ اور ’’نااتفاقیوں‘‘کے علاوہ کچھ حاصل نہیں ہوسکتا۔ ان کے لیے خواب دیکھنا، انہیں خواب دکھانا، اور ان کی تعبیر تلاش کرنے کے لیے ان کو آمادہ کرنا، اپنے درد اور محبت کے احساسات ان کے ساتھ شیئر کرنا جدید ذہن کے لیے ناگزیر ہے۔
مولانا کی دنیائے جمالیات بھی بہت وسیع اور نہایت ہی خوبصورت ہے۔ ہرے بھرے پودوں اور ہزاروں رنگ کے بیل بوٹوں نے آپ کی اس دنیا کو بڑی رونق بخشی ہے۔
آپ کی غزلیں سننے کا جو ارمان میں نے پال رکھا تھا، یہاں آکر اس سے میں نے سمجھوتہ کرلیا۔ بہت ساری خواہشوں سے سمجھوتہ کرلینا ہی بعض دفعہ ان کے ساتھ انصاف ہوتا ہے۔
مولانا کی ادبی شخصیت کا خاص پہلو آپ کی بے نیازی ہے۔ کلیم عاجز کا یہ شعر آپ کی شخصیت سے جھانکتا نظر آرہا تھا ؂
جو بھی غم ملا اٹھایاپھر اسے غزل میں ڈھالا
یہی درد سر خریدا یہی روگ ہم نے پالا
مولانا کے جمالیاتی حس کی کہانی آپ کی البم بڑے چاہ سے ہمیں سنا رہی تھی۔ کتنے ہی خوبصورت قدرتی مناظر کو آپ نے اپنی البم میں رکھ کر مزید خوبصورت بنادیا تھا۔ کہیں ہرے بھرے پہاڑوں کے بیچ سے چھک چھک کرتی ہوئی ٹرین ، کہیں اونچائی سے گرتا خوبصورت جھرنا، اور کہیں خوبصورت جنگلات میں رنگ اور خوشبوؤں کے حسین سنگم۔ ٹھیک اس البم کی طرح آپ کی زندگی کی البم بھی یہی غزل سنا رہی تھی۔
حقیقت میں وہ ایسا ’ہیر‘و ہے جس نے زندگی کو زندگی کی طرح جیا ہے۔ ایسا سورج جو ڈوب کر اپنی شفق چھوڑ جاتا ہے، ایسا شخص جسے خوشبوئیں پسند ہیں چاہے وہ کانٹوں کا جگر چیر کر ہی کیوں نہ حاصل ہوں۔

نجم السحر، بدایوں۔ یوپی

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Verified by MonsterInsights