مسلم بچوں کی تعلیم سے آراستگی: وقت کی اہم ترین ضرورت

0

حکومت کی جانب سے مسلسل جاری قومی تعلیمی پالیسیاں، متعدد قوانین، رائٹ ٹو ایجوکیشن ایکٹ اور بے شمار سرویز کے حوالے سے مسلمانانِ ہند کو تعلیم سے جوڑے رکھنے کی کوشش رہی، لیکن اس کے باوجود مسلمان تعلیم کے معاملے میں نچلی سے نچلی سطح پر ہیں۔ سچر کمیٹی کے ذریعے ملت کی دل اندوہ سماجی و تعلیمی پسماندگی رپورٹ اور سابقہ مختلف کمیشن مسلم تعلیمی معیار کی پستی کی عکاسی کرتے ہیں۔ اس موقع پر یہ شعر بار بارذہن میں آتا ہے ؂
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا
خدائے رحمن کی مدد اسی وقت حاصل ہوگی جب ہم اپنی حالت بدلنا چاہتے ہوں۔ مسلمانان ہند کے لیے یہ بات ضرورفکرمندی کا باعث ہونی چاہئے۔ ملت کے ساتھ کتنی ہی حق تلفی حکومت کی طرف سے کیوں نہ ہوئی ہو، ان منفی حالات سے زیادہ منفی ذہنوں نے مسلمانان ہند کو پسپائی کا شکار بنایا ہے، اور پچھلی کئی نسلیں یہی وجہ ہے کہ تعلیم سے کوسوں دور رہی ہیں۔ نام نہاد مسلم قیادت نے یہ بات ملت کے ذہن میں بٹھارکھی ہے کہ انہیں تعلیم کے باوجود ملازمت ملنی مشکل ہے۔ اس چیلنج کا مقابلہ ملت کی ایک مختصر ترین تعداد کرتی رہی ہے جو اعلی تعلیم، ملازمت اور فکری پختگی میں اپنا ایک مقام رکھتی ہے، لیکن بہرحال یہ تعداد بہت ہی مختصر رہی ہے۔
آزادی کے بعدغیرمسلموں کی تین چار نسلوں کو ریزرویشن ملتے رہے، اور غریب مسلم آج بھی محروم ہیں۔ بہرحال اگر ملت کے درمیان اس رجحان کو ہی عام کیا جاتا کہ وہ تعلیم کو برائے تعلیم ہی حاصل کریں تو آج ملت کی یہ حالت نہ وتی اور وہ بہتری کی جانب گامزن ہوتی۔ آج ملت میں ڈاکٹر س، پروفیسرس، آئی آئی ٹی ماہرین، آئی اے ایس، آئی پی ایس، ماہرین معاشیات وسیاست اور اہل فکرونظر کی ایک اچھی تعداد ہوتی۔ بہر کیف حالات کی تبدیلی کے لیے سخت محنت اور کڑی جدوجہد درکار ہے۔ یقیناًہمارے آباء واجداد نے ملک پر حکمرانی کی، ہزار سال تک اس ملک پر ان کی حکومت رہی۔ مگر اب ہم کیا ہیں اور کیا کررہے ہیں؟ لاکھوں نہیں کروڑوں مسلمان آج ٹھیلہ بندی، رکشاکھینچنے، اور پان ڈبوں وغیرہ چھوٹے موٹے کاروبار اور انتہائی معمولی درجہ کی ملازمتوں میں لگے ہوئے ہیں۔ ۶؍تا ۱۴؍سال کی عمر کے بچوں کی بڑی تعداد ہوٹلوں، گیرج اور بعض دوسرے کاموں میں لگی ہوئی ہے۔ جن ننھے منے بچوں کے ہاتھ میں قلم ہونا چاہئے تھاانہیں آج معمولی اجرت پر بچہ مزدوری کی جانب ڈھکیلا جا رہا ہے۔ حکومت کی جانب سے بچہ مزدوری کے خلاف سخت اقدامات کیے جاتے رہے، لیکن ملت پر اس کا کوئی خاطرخواہ اثر نہیں دکھائی دیا۔
افسوس صد افسوس! ہزار سالہ دور حکومت میں بہت کچھ کیا جاسکتا تھا، مگر نہیں کیا گیا۔ تاریخی عمارات بنیں لیکن یادگار تعلیمی ادارے نہیں بن سکے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ بعد میں آنے والے پہلی وحی ’’اقرأ‘‘ کو بھول گئے۔ پیٹ کی آگ بجھانے کے لیے تعلیم کو چھوڑ کر چھوٹے موٹے کاموں میں لگ گئے اور پھر پسماندگی کا شکار ہوتے چلے گئے۔ نامساعد حالات کا مقابلہ اگر بہترانداز سے کیا گیا ہوتا تو آج سیاست، ریاست، حکومت ومعیشت ہر جگہ ایک اچھی نمائندگی ہوتی۔ بہر حال ناامیدی کفر ہے۔ تکلیف کے بعد ہی راحت نصیب ہوتی ہے۔ حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی جدوجہد سے بھرپور زندگی ملت کے لیے زبردست نمونہ بن سکتی ہے۔ سونا بھٹی سے گزر کر ہی کندن بنتا ہے۔ ہمیں بھی حالات اور حادثات کی بھٹی سے گزرنا ہوگا،اور جستجو جاری رکھنی ہوگی کہ یہ شرط ہے۔
اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ دور جدید اقتصادیات کا، علم کا، مسابقوں کا، صلاحیتوں اور لیاقتوں کا دور ہے، یقیناًاس دور میں تعلیم کی اہمیت میں یک گونہ اضافہ ہوجاتا ہے، اس کا خیال رکھنا ہوگا، علامہ اقبال کے اس شعر کو ہمیشہ ذہن میں تازہ رکھیں ؂
دیا عشق میں اپنا مقام پیدا کر
نیا زمانہ نئے صبح وشام پیدا کر
اب بھی سنبھل جانے کا موقع ہے۔ اپنی کوتاہیوں، کمزوریوں، اور خامیوں کا جائزہ لیں، اور انہیں دور کرنے کے لیے ہمہ تن مصروف ہوجائیں۔ لاعلمی کو دور کریں۔ جینے کے لیے علم وہنر اور صلاحیتوں کی سخت ضرورت ہے۔ نئی نسل کو تعلیم سے آراستہ کریں۔ یہ وقت کا لازمی تقاضا ہے۔ جب تک روش تبدیل نہ کریں گے کچھ بدلنے والا نہیں۔یہ مسابقتی دور ہے۔ ڈٹ کر مقابلہ کرنا ہوگا۔ ہر قسم کے چیلنج کا سامنا کرنے کے لیے خود کو تیار کرنا ہوگا۔ وہ صبح ہم ہی سے آئے گی اور پھر وہ وقت دور نہیں کہ ہم دیکھیں گے ملت اسلامیہ ہند کے افراد ملک کی تعلیمی ترقی میں سب سے بڑا رول ادا کرنے والے ہوجائیں گے۔

عبیدالرحمن عبدالعظیم، ممبئی

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Verified by MonsterInsights