ایمان واحتساب

ایڈمن

عن ابی ھریرۃ رضی اللہ عنہ ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال: ’’من صام رمضان ایماناََ واحتساباََ غفر لہ ما تقدم من ذنبہ‘‘۔ (متفق علیہ) حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ جس نے رمضان کے روزے ایمان واحتساب…

عن ابی ھریرۃ رضی اللہ عنہ ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال: ’’من صام رمضان ایماناََ واحتساباََ غفر لہ ما تقدم من ذنبہ‘‘۔ (متفق علیہ)
حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ جس نے رمضان کے روزے ایمان واحتساب کے ساتھ رکھے اس کے پچھلے تمام گناہ معاف کردیئے گئے۔ دوسری احادیث میں یہی بات رمضان المبارک سے متعلق دیگر عبادات یعنی قیام اللیل اور شب قدر کی عبادات کے بارے میں کہی گئی ہے۔ ان احادیث میں رمضان کے روزوں اور دیگر مشغولیات سے متعلق ایک ایسی بات بیان کی گئی ہے جو عموماََ دوسری عبادات اور نیک اعمال کے بارے میں احادیث میں نہیں پائی جاتی ہے، اور وہ ہے احتساب کی شرط۔
جہاں تک کسی عمل کے مقبول ومفید ہونے کے لیے ایمان کی شرط کا تعلق ہے یہ ایک بنیادی بات ہے اور اس کا کثرت سے ذکر قرآن وسنت میں پایا جاتا ہے۔ قرآن نے عمل صالح کو ایمان سے مشروط کردیا ہے، یعنی عمل صالح بغیر ایمان کے قابل قبول نہیں ہے۔ اصلاََ وہ عمل ‘ عمل صالح ہوہی نہیں سکتا ہے جو ایمان کے بغیر ہو۔ عمل‘ اصلاََ ایمان کا ثبوت ہو۔ احادیث میں بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اعمال کا دارومدار نیتوں کو قرار دیا ہے۔ البتہ احتساب کے ساتھ کسی عمل کو مشروط کیے جانے کی مثالیں احادیث نبوی میں شاذونادر ملتی ہیں۔ رمضان کے اعمال کے علاوہ احتساب کا ذکر مسلمان کے جنازہ میں شرکت اور چند دیگر اعمال کے ضمن میں موجود ہے۔ بہ الفاظ دیگر ایمان کی شرط تمام اعمال صالحہ کے ساتھ ہے اور احتساب کا ذکر رمضان کی عبادات اور چند دیگر اعمال صالحہ کے ساتھ کیا گیاہے۔ اس طرح اول الذکر لازم وملزوم کے مقام پر ہے اور آخر الذکر استثنائی صورتوں میں۔ اس استثنائی صورتحال اور خلاف معمول لفظ احتساب کے ذکر کو خصوصی طور پر سمجھنے کی ضرورت ہے۔
احتساب کے عمومی معنی جائزہ لینا اور احتساب کرنا ہے۔ لیکن درج بالا حدیث میں یہ لفظ اس معنی میں استعمال نہیں ہوا ہے۔ اس موقع پر اس لفظ کے اس خاص مفہوم کو نہیں جاننے کی وجہ سے اکثر لوگ یہ سمجھ لیتے ہیں کہ یہاں مراد اپنے اعمال کا جائزہ لینا ہے۔ یعنی ایمان کے ساتھ ساتھ آدمی اپنے کام کا جائزہ بھی لیتا رہے تاکہ اس عمل کے معیار کو بہتر سے بہتر کیا جاسکے۔ مثلاََ رات کو سوتے وقت یہ حساب کیا جائے کہ آج دن بھر میں کیا کام کیا اور اس میں کیا غلطیاں ہوئیں، تاکہ توبہ کی جاسکے اور آنے والے دن میں ان غلطیوں کے اعادہ سے بچا جاسکے۔ بنیادی طور پر ’’حاسبوا قبل ان تحاسبوا‘‘ کا یہ طریقہ بہت اچھا ہے، لیکن حدیث مذکور میں احتساب کا لفظ اس معنی میں استعمال نہیں ہوا ہے، اس موقع پر یہ مفہوم غلط ہے۔ اس حدیث اور اس جیسی دیگر احادیث میں احتساب کا مفہوم ’’طلب الاجر ورجاء الثواب من اللہ تعالی‘‘ ہے۔ یعنی اللہ تبارک وتعالی سے اجروثواب کی طلب اور امید کے ساتھ عمل کرنا ہے۔ دوسرے لفظوں میں احتساب کا مطلب یہ ہے کہ انسان ایک عمل صالح کرتے وقت اللہ تعالی سے اس کے بدلے میں ملنے والے اجروثواب کا طالب ہو اور ان کے حصول کے سلسلے میں حسن ظن رکھتا ہو۔ اردو زبان میں ہم اسے ’’پرامید ہونا‘‘ یا ’’امید سے بھرا ہونا‘‘ سے تعبیر کرسکتے ہیں۔ انگریزی زبان میں اس کے لیے Optimism کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے۔
یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ اسلام میں عمل صالح کی دو بنیادیں ہیں۔ ایک خوف اور دوسری رجاء۔ خوف یہ ہے کہ عمل درست نہیں ہوا تو کہیں اللہ تعالی کی ناراضگی اور نتیجہ کے طور پر اس کی پکڑ کا موجب نہ بنے۔ دوسری طرف ایک مسلمان یہ امید رکھتا ہے کہ اس کا ٹوٹا پھوٹا اور معمولی عمل بھی اللہ تعالیٰ اپنے رحم وکرم سے قبول کرلے گا اور اسے بہت زیادہ اجروثواب سے نوازے گا۔ یہ دونوں کیفیتیں ایمان کی ہیں اور دونوں یکساں اور ہمہ دم رہنا مطلوب ومقصود ہے۔ خوف کے لیے قرآن وسنت میں خشیت اور تقاء کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ یہ الفاظ اپنے اندر مثبت ومنفی دونوں مفہوم رکھتے ہیں۔ رجاء اور امید کی جوکیفیت ہوتی ہے اس کے لیے ’’احسان‘‘ کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ احسان یہ ہے کہ بندہ اللہ تعالیٰ کے بے پایاں احسانات کے اعتراف میں تشکر کے جذبہ کے ساتھ عبادت کرے جس میں خوف کی جگہ محبت اور احسان مندی نے لے لی ہو۔
ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ درج بالا حدیث میں احتساب دراصل احسان کی کیفیت کا نام ہے۔ اللہ تعالیٰ سے پوری امید اور حسن ظن کے ساتھ عمل کیا جائے، بشرطیکہ اس عامل کا ایمان درست ہو یعنی وہ اخلاص سے متصف ہو تو مالک دوجہاں اسے رحمتوں کے سایہ میں لے لے گا اور اس سے جو گناہ ماقبل ہوئے ہوں گے انہیں درگزر کرے گا۔ بندہ سے جو غلطیاں اور کوتاہیاں ہوجاتی ہیں وہ اس کے نامہ اعمال کا حصہ بن جاتی ہیں۔ اس کی تلافی صرف یہ ہے کہ بندہ اپنے مالک حقیقی کی طرف رجوع کرے اور کوئی دوسرا اتنا اچھا عمل کرے کہ خداوند تعالی اس سے راضی ہوجائے اور اس کی مغفرت فرمادے، آمینایک بندہ مومن کے لیے خشیت بھی ہے اور تقاء بھی، لیکن اس کے لیے مایوسی نہیں ہے۔ اس کے مقابلے میں اللہ تعالی سے حسن ظن، احسان اور احتساب کے جذبات ہیں جو بہت قیمتی اور انتہائی درجہ مضبوط بنیادیں ہیں۔
(ڈاکٹر وقار انور ، مرکز جماعت اسلامی ہند)

حالیہ شمارے

براہیمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے

شمارہ پڑھیں

امتیازی سلوک کے خلاف منظم جدو جہد کی ضرورت

شمارہ پڑھیں