!!ذمہ داری : ۔ ایک بڑی امانت! ایک بڑا بوجھ

0

یوں تو ہرفرد کسی نہ کسی حیثیت میں ذمہ دار، سربراہ اور مسؤل ہوتا ہے، لیکن اسلامی تحریکات اور پاکیزہ اجتماعی زندگی میں فرد کی ایک الگ ذمہ دارانہ حیثیت ہوتی ہے۔ تحریک ایک قبیلہ ہے اور افراد اس قبیلے کے دست و بازو اور یقیناًشعوری رشتے کی معنویت نسبی رشتوں سے بڑھ کر ہوتی ہے۔ ہمارے درمیان کوئی بھی فرد سربراہی اور قیادت کا متمنی اور طلبگار نہیں ہوتا۔ اس لیے کہ یہاں قیادت وسربراہی مادّی منفعتوں سے پرے، جوابدہی اور فرائض کا بہت بڑا بوجھ ساتھ لاتی ہے۔ فرد قیادت کا خواہشمند نہیں ہوتا۔ اسے لاکر قیادت کے مقام پر بٹھایا جاتا ہے۔ اور اس انتخاب کی بنیاد امتیازی اوصاف اور نمایاں صفات ہوتی ہیں۔ اسلامی تحریک کی ضرب کاری کے لیے ضرور ی ہے کہ ہمارے وہ تمام افراد جو کسی نہ کسی حیثیت میں ذمہ دار ہیں، کچھ حقیقتوں کو اپنے سامنے رکھیں۔ ان کی مدد سے ہم اپنا جائزہ بھی لے سکتے ہیں اور تحریک کو بھی آگے بڑھا سکتے ہیں۔ وہ کیا چیز ہے جس نے ہمیں ایک دوسرے سے قریب کیا ہے؟ ہم ایک دوسرے کے لیے اجنبی تھے۔ ہم میں کوئی قرابت داری نہ تھی‘ پر اللہ تعالیٰ نے ہمارے دلوں کو جوڑ دیا ، ہمیں ایک دوسرے کا بھائی اور عزیز بنایا۔ ہمیں ایک دوسرے سے جوڑنے والی چیز مشترک مقصد اور ہدف ہے۔ ایمان کا رشتہ تو تمام ہی مومنوں کو ایک دوسرے سے جوڑتا ہے لیکن موروثی ایمان جب شعوری ایمان میں بدلتا ہے تو باشعور افراد کے درمیان تعلق اور قربت کی ایک نئی فضا پروان چڑھتی ہے۔ سامنے ایک منزل ہوتی ہے اور اس منزل کو پالینے کی تمنا میں ہم ایک دوسرے کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن جاتے ہیں۔ ہم اپنے ہدف کو پانے کے لیے مختلف سطح پر مختلف افراد کو ذمہ داریاں سونپتے ہیں۔
یہ ذمہ داریاں امانت ہیں! بھاری امانت!! اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول پر قول ثقیل نازل فرمایا اور اسی بھاری کلام کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے ہمیں آگے بڑھنا ہے۔ تحریکی سفر میں آگے بڑھتے ہوئے ہم سے فکری پختگی بھی مطلوب ہے! مستئ کردار بھی!! اور ضربِ کاری بھی!!! فکری عمارت کی پہلی اینٹ مقصد کا شعور ہے۔ یہ شعور جتنا گہرا اور مستحکم ہوگا دیواریں اور اور عمارت اتنی ہی مستحکم ہوں گی۔ ہمارے تعلق کی بنیاد یہ ہے کہ ہمارا مقصد ایک ہے، لہٰذا ضروری ہے کہ ذمہ دارانہ منصب پر فائز افراد کو اس مقصد کا گہرا شعور اور اس سے پوری واقفیت ہو۔ ہماری تحریک کی دعوت ،دعوت الی اللہ، شہادتِ حق اور اقامتِ دین ہے۔ اس دعوت کو رگ وپے میں اتار لینا اور شعور کی سطح پر پورے اخلاص کے ساتھ قبول کرنا تحریک کے ہر فرد کی ذمہ داری ہے لیکن سالارِ قافلہ کے لیے تو یہ ضروری ہے کہ منزل کے نشانات سے وہ پوری طرح واقف ہو کیونکہ نئے آنے والے افراد کے دلوں میں اس مقصد سے گہری وابستگی کا احساس اور شعور پیدا کرنے کی ذمہ داری سالارِ قافلہ پر دوسروں سے کہیں زیادہ عائد ہوتی ہے۔ ہماری فکر کا سرچشمہ قرآن اور رسول اللہؐ کے ارشادات ہیں۔ تحریکی فرائض کا مرکز و محور بھی قرآنی مطالبات ہیں۔ قرآن سے ہمارا تعلق محض رسمی نہ ہو بلکہ شوق، محبت اور رہنمائی کی طلب کا ہونا چاہیے۔ اسی سے ہمیں فکری غذا مل سکتی ہے۔ اور یہیں سے ہمیں ہمارے مسائل کا حل مل سکتا ہے۔ اگر ہم قرآن کا مطلوبہ انقلاب لانا چاہتے ہیں، قرآن کے رنگ میں اپنی ذات، سماج ، وطن اور انسانیت کو رنگنا چاہتے ہیں تو آخر یہ کیسے ممکن ہے قرآن سے ہمارا تعلق کمزور ہو۔ قرآن کی تلاوت، قرآن کا فہم، قرآن سے استفادہ اور رہنمائی ضروری ہے۔ قرآن سے تعلق صرف تفاسیر کے مطالعہ کی حد تک محدود نہیں ہونا چاہیے بلکہ ہمارا تعلق تدبّر کا ہونا چاہیے۔ تدبّر تو ترجمہ ، اور تفسیر کے مطالعہ سے آگے کی منزل کا نام ہے۔ تدبر نام ہے۔ قرآن میں ڈوب کر رہنمائی کے موتی تلاش کرنے کا۔ تدبر کے نتیجے میں حکمت ملتی ہے اور جسے حکمت ملی اسے خیر کثیر ملا۔ (ومن یؤت الحکمۃ فقد أوتی خیرا کثیراً)
تحریک میں مختلف قسم کے افراد ہوتے ہیں۔ افراد سے معاملہ کرتے ہوئے مختلف طبائع اور صلاحیتوں کا ہمیں ادراک ہونا چاہیے۔ ان میں سے ہر فرد قیمتی ہے۔ زمین کی سینکڑوں گردش کے بعد ہمیں کچھ افراد ملتے ہیں۔ ہمارے مقصد سے اتفاق رکھنے والا اور اس مقصد میں ہمارا ساتھ دینے کا عزم کرنے والا ہر ہر فرد ہمارے لیے قیمتی سرمایہ ہے۔ تحریک میں جو افراد ذمہ دارانہ مقام رکھتے ہیں انہیں یہ حقیقت اپنے سامنے رکھنی چاہیے۔ ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ ہمارے پاس آنے والے افراد اور ان کی کوششیں سب مل کر اللہ کی نصرت کا ذریعہ بنیں گی۔ ساتھیوں سے محبت اور ان کے ساتھ رأفت رسولؐ کے نقشِ قدم پر چلنے کا دعویٰ کرنے والے ہر فرد کی صفت ہونی چاہیے۔ قیادت تو اسی کانام ہے کہ نہ صرف لوگوں سے کام لیا جائے بلکہ ان کی قدر کی جائے، ان سے دلی تعلق اور محبت ہو۔ ہماری محبت تمام رفقاء کے لیے عام ہو۔اسلامی قیادت اصولی معاملات میں سخت ہوتی ہے۔ اصولوں کے ساتھ سمجھوتہ نہیں کیا جاتا۔ حق کی لڑائی اصولی لڑائی ہے۔ اس راہ میں اہلِ حق نے بے دریغ قربانیوں کی عظیم الشان تاریخ رقم کی ہے۔ اصولی معاملات سے ہٹ کر مزاجی اعتبار سے رفقاء کے ساتھ معاملات کرتے ہوئے منصبِ قیادت پر فائز افراد نرمی کا پیکر ہوتے ہیں: ’’نرم دمِ گفتگو، گرم دمِ جستجو۔۔۔ رزم ہو یا بزم ہو پاک دل و پاکباز‘‘۔ آپؐ نے تو دشمنوں، منافقین اور اذیت پہنچانے والوں کے ساتھ بھی نرمی کامعاملہ کیا ، کیا ہمارا سینہ اپنے رفقائے سفر کے لیے بھی کشادہ نہ ہوگا؟
پہلے یہ بات آچکی ہے کہ اجتماعیت میں مختلف مزاج ، صلاحیتوں اور دلچسپیوں کے افراد ہوتے ہیں۔ افراد کی صلاحیتوں کے مطابق ان سے اس طرح کام لینا کہ ان کی صلاحیتوں کا بھرپور استعمال ہوسکے اور اس میں مزید اضافہ ہو یہ ذمہ دار کا کمال ہوتا ہے۔ سماجی تبدیلی کے عمل میں ہر صلاحیت قیمتی ہوتی ہے۔ ہمارے لیے علمی اور روایتی تحریکی سرگرمیاں جتنی اہم ہیں اتنی ہی اہم ثقافتی سرگرمیاں بھی ہیں۔ اگر ہم صحیح معنوں میں مستقبل کے سنہرے خواب دیکھنا جانتے ہیں تو اس خواب میں رنگ بھرنے کے لیے سماج کی ہر اکائی میں کام کرنے والے افراد کی ضرورت ہوگی۔ ایسے افراد کی صلاحیتوں سے استفادہ اور ان کی نشوونما کی اہمیت سے دور بیں نگاہیں انکار نہیں کر سکتیں۔
اشتیاق عالم فلاحی، (حال مقیم قطر)

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Verified by MonsterInsights