ایران ایشیا کا ایک معروف ملک ہے۔ قدرت نے اسے مختلف وسائل سے مالا مال کیا ہے۔ ۱۹۷۹ء میں علامہ آیت اللہ خمینی ؒ کی قیادت میں اسلامی انقلاب کی جانب ایران نے پیش قدمی کی۔ گو کہ مختلف وجوہ سے اس انقلاب کو مکمل کامیابی نہیں مل پائی۔ البتہ دنیا ئے ا سلام نے اس کا خیرمقدم کیا اور اس تحریک نے تمام اسلامی جماعتوں میں ایک نئی روح پھونک دی۔ احیائے دین کی کوششوں کی تاریخ میں آیت اللہ خمینیؒ کا نام ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔
چونکہ ایران غیر واضح نیوکلیائی پروگرام رکھتا تھا۔ اس لئے عالمی سطح پر یہ سمجھا گیا کہ ایران نیوکلیئر ہتھیار بنانے کی تیاری کر رہا ہے۔ اس لئے ایران پر معاشی تحدیدات عائد کی گئیں۔ اس درمیان ایران بار بار اس بات کو دہراتا رہا کہ اس کا مقصد محض نیوکلیائی توانائی کا حصول ہے۔ لیکن اس کی ایک نہیں سنی گئی اور اس معاشی تحدید کا سلسلہ کافی عرصے تک دراز رہا۔ البتہ کچھ عرصے بعد اس میں کچھ رعایات کردی گئیں۔
معاشی تحدیدات کے باعث ایران کے عوام کو کافی مشکلات کاسامنا کرنا پڑا۔ صنعت و حرفت ، تجارت بری طرح متاثر ہوئی۔ چھوٹے تاجر اور صنعت کار فاقہ کشی پر مجبور ہوگئے۔ علاوہ ازیں درآمدبرآمد بھی بری طرح متاثر ہوئی۔ اس طرح معاشرے کا بڑا طبقہ معاشی طور سے بہت سی پریشانیوں میں گرفتار ہوگیا۔ اس بات کا قوی اندیشہ تھا کہ ملک میں Civil War کی نوبت آجائے لیکن سماجی طور سے ملک کے باشندے ثابت قدم رہے اور عزیمت کی داستان رقم کی۔ ورنہ ایران انتشار کا شکار ہوسکتا تھا۔ اس طرح عالمی سطح پر ایران کی اخلاقی برتری دنیا کے سامنے آئی۔
اس معاملے کا ایک اہم اور سبق آموز پہلو یہ ہے کہ ایران نے ان حالات میں بھی اپنے موقف کو متاثر نہیں ہونے دیا ۔ حالانکہ ایران دانے دانے کا محتاج ہوگیا تھا۔ لیکن اس نے ان ناز ک حالات میں بھی اپنے گھٹنے نہیں ٹیکے۔
کیونکہ ایران مختلف قدرتی وسائل جیسے تیل، گیس وغیرہ سے مالا مال ہے۔اس لئے حالیہ نیوکلیائی معاہدہ پوری عالمی معیشت کے لئے بہتر ثابت ہوگی۔ علاوہ ازیں ایران کی معیشت کے مزید مستحکم ہونے کے روشن امکانات بھی اس تبدیلی سے متوقع ہیں۔ موجود ہ حالات میں جبکہ مغربی ایشیا میں باہمی کشمکش پائی جاتی ہے۔ ان حالات میں ایران کا معاشی طور سے مضبوط ہونا نہایت ضروری ہے۔ اس خطے کے مختلف ممالک کے درمیان جنگ کی کیفیت پیدا ہوگئی ہے۔
یہ حالیہ تبدیلی سیاسی نقطۂ نظر سے بہتر اور خوش آئند ہے۔ مغربی ایشیا کی مضبوطی کے لئے ایران کا سیاسی طور سے مضبوط ہونا ناگزیر ہے۔ اس وقت بیرونی طاقتوں کی فوجی مداخلت بڑھی ہوئی ہے اور خانہ جنگی کے حالات پیدا ہوگئے ہیں۔ لہٰذا ایران کا سیاسی طور سے کمزور ہونا پورے مغربی ایشیا کے لئے سیاسی ہلاکت کا پیش خیمہ ہے۔
ہندوستان جیسے کثیر آبادی والے ملک میں ایک بڑی تعداد ایسے لوگوں کی ہے جو اپنے وطن سے دور رہ کر خلیج میں روزی روٹی کمانے پر مجبور ہیں۔ اعداد وشمار بتاتے ہیں کہ تقریباً چھ ملین ہندوستانی خلیج کے مختلف ممالک میں مقیم ہیں۔ وہاں مقیم ہندوستانی افراد اپنی کمائی کا بڑا حصہ ہندوستان بھیجتے ہیں۔
ہندوستان بہت سے قدرتی وسائل کا بڑا حصہ سعودی عرب سے ہی درآمد کرتا ہے۔ ہندوستان کا قومی مفاد اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ وہ سعودی عرب کا ساتھ دے اور اس سے کاندھے سے کاندھا ملاکر ترقی کے امکانات سے فائدہ اٹھائے۔ اسی نوعیت کے تعلقات ہندوستان اور دیگر عرب ممالک کے درمیان بھی موجود ہیں اور ہندوستان کی معیشت کے فروغ کے لئے ضروری سمجھے جاتے ہیں۔ عام طور پر خلیج کی اصطلاح کے معنی چھ ممالک کی اس جماعت کے ہیں جو خلیجی تعاون کونسل (Gulf Co-Operation Council) کے نام سے جانی جاتی ہے اور مشترکہ مفادات رکھتی ہے۔ یہ چھ ممالک درج ذیل ہیں:
(۱) سعودی عرب(۲) کویت(۳) بحرین (۴) قطر (۵) یو ۔ اے۔ ای (۶) عمان۔
ہمارے وطن سے گئے ہوئے افراد اکثر ان ہی چھ ممالک میں مقیم ہیں۔ ایک قابل غور پہلو یہ بھی ہے کہ ایران ایک نظریاتی مملکت ہے۔ چنانچہ بعض ممالک کو اندیشہ ہے کہ وہ اسلام پر مبنی انقلاب کو ان کے ملک میں لانے کی کوشش کرے گا۔ ایرانی مملکت کے نظریے کو جمہوری خلافت کے عنوان سے تعبیر کیا جاسکتا ہے۔ اس کے برعکس سعودی عرب میں شاہی نظام قائم ہے۔ سعودی عرب کی دستوری بادشاہت کو خطرہ تصور کرتا ہے۔ ویسے ہندوستان کے پالیسی سازوں کی دانشمندی کا تقاضا یہ ہوگا کہ اس معاملے میں کسی فریق کاساتھ دینے کے بجائے مغربی ایشیا کے اس خطے میں امن کے قیام کے لئے کوشش کریں۔ اور ان دو اہم ممالک کو تصادم سے بچائیں۔ اپنےد وستانہ تعلقات اور ایشیا کے ممالک میں اپنی دیرینہ اہمیت کی بنا پر ہندوستان اس پوزیشن میں ہے کہ اس مثبت پہلو کو ادا کرسکے۔
از: ڈاکٹر شاہد جمال