سوامی رام تیرتھ (گذشتہ سے پیوستہ) ۔

0

کے پرچار کے لیے ،جس سفر پر سوامی جی اور نارائن نکلے تھے ،اس کے لیے دونوں میں سے کسی کے پاس روپیہ نہ تھا۔سوامی جی جب امریکہ پہنچے اور جہاز بندرگاہ پر لنگر انداز ہوا تو ایک امریکن نے سوامی جی کو جہاز کی چھت پر لوٹ پوٹ ہوتے ہوئے دیکھا تو ان سے پوچھا:’’آپ کا سامان کہاں ہے ؟‘‘سوامی جی نے کہا:’’سارا سامان بس یہی ہے ‘‘۔ جب اس امریکن کو معلوم ہوا کہ سوامی جی کے پاس روپے پیسے نہیں ہیں تو اسے سخت تعجب ہوا۔ اس نے پوچھا:
’’آپ کا کام کیسے چلتا ہے؟‘‘
سوامی جی کا جواب تھا :
’’میں سبھی لوگوں کو پیار کرتا ہوں ،اس لیے میرا کام چل جاتا ہے ‘‘۔
اس نے دریافت کیا کہ کیا امریکہ میں آپ کا کوئی دوست ہے ؟سوامی جی نے کہا کہ ہاں ہے ۔اور یہ کہتے ہوئے سوامی جی نے اس کے بازوؤں پر اپنے ہاتھ رکھ دیے ۔اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ شخص بھی سوامی جی کے قدر دانوں میں شامل ہو گیا اور آگے چل کر اس نے اس کا اعتراف کیا کہ رام تیرتھ کی محض موجودگی سے لوگوں کو ایک نئی زندگی حاصل ہو جاتی ہے ۔
امریکہ میں سوامی جی کا کوئی نہ تھا ۔لیکن زیادہ وقت نہیں گزرا کہ امریکیوں نے انھیں اپنے وطن کے ایک محترم مہمان کی حیثیت سے قبول کر لیا۔سوامی جی نے دو سال سے زیادہ وقت امریکہ میں گزارا۔تقریباً اٹھارہ مہینے وہ سنفرانسسکو کے ڈاکٹر البرٹ ہلر کے مہمان بن کر رہے ۔وہ جہاں بھی رہتے لوگ ان کو سننے کے لیے جمع ہو جاتے تھے ۔ڈاکٹر البرٹ ہلر کے ساتھ رہتے ہوئے سوامی رام تیرتھ ان کے باورچی خانہ کے لیے پڑوس کی پہاڑی سے ایندھن کی لکڑی لایا کرتے تھے ۔
امریکہ میں رہ کر سوامی جی نے پورے ملک کا دورہ کیا ۔امریکہ کی کئی یونیورسٹیوں میں ان کی تقاریر ہوئیں ۔کتنے ہی لوگوں سے ان کی گفتگو ئیں رہیں۔کیلیفورنیا میں پالین ہوٹ مین نے ،جو ایک مذہبی اور ذہین خاتون تھیں سوامی جی کی اسٹونو گرافر کی حیثیت سے کام کیا۔انھوں نے سوامی جی کے بارے میں لکھا ہے کہ وہ پہاڑی پر ایک خیمہ میں رہتے تھے ۔با لکل فطرت کی گود میں ۔ یہاں انھوں نے کتنی ہی کتابیں پڑھیں اور کتنی ہی روحانی نظمیں لکھیں۔وہ ایک ایک بار میں مسلسل کئی گھنٹے دھیان میں گزار دیتے تھے ۔کئی کئی دن کے لیے وہ خدا میں ڈوب جاتے تھے ۔
امریکہ کے ایک اخبار ’’روکی مائونٹین نیوز‘‘نے جنوری ۱۹۰۴ء میں سوامی جی کے بارے میں لکھا کہ سوامی جی کہتے ہیں : ’’میرا دھرم ایسا ہے جس کا کوئی نام نہیں ۔یوں اسے ساری فطرت کا دھرم کہا جاسکتا ہے ۔میں اسے ’’سب کا راستہ‘‘کہتا ہوں ۔اس دھرم کی مرکزی تعلیم کیا ہے ،اسے میں نے نظم میں بیان کیا ہے :
پیارے نیلے پھول
اوس سے بھیگی آنکھ اٹھا
چپکے چپکے سنے نہ کوئی
تو ہے کیا؟
بتا تو دوں تم کو چپکے سے
مگر ہائے کہوں میں کیسے
کوئی کبھی نہ جان سکے گا
ہوں میں کیا؟
یہی سمجھ لو سمجھ سکو گر
سب ہیں میرے بہن ،برادر
آکاشوں میں اور زمیں پر
سب ویسے ہیں
میں ہوں جیسا
مطلب یہ ہے کہ سوامی جی کے نزدیک وہ لطافت ہے ،جس کا بتانا بھی مشکل ہے او ر اس کا سمجھنا بھی آسان نہیں ۔لیکن اسی کی کارفرمائی سے یہ ساری کائنات ہست و بود ہے ۔زمین و آسمان کی تمام چیزوں میں گہرا رشتہ ہے ۔سب باہم بہن یا بھائی کی طرح ہیں ۔ان میں بیگانگی کے بجائے یگانگت پائی جاتی ہے ۔
سوامی رام تیرتھ ایک مہینہ پورٹ لینڈ (اورے گان) میں رہے ۔ایک مہینہ ڈینور (Denver) میں اور دو ہفتے شکاگو میں گزارے ۔ان سبھی مقامات پر انھوں نے ویدانت سماج قائم کیا۔مینا پولس سے وہ بفیلو،بوسٹن،نیویارک،فلاڈیلفیا،اور واشنگٹن ڈی۔ سی گئے ۔امریکہ کے سفر میں ان کی ملاقات امریکہ کے صدر روز ولٹ سے بھی ہو گئی تھی ۔اس موقع پر انھوں نے اپنی کتاب ’’اپیل ‘‘کی ایک کاپی صدر کو پیش کی ،جو انھوں نے بھارت کے لوگوں کی طرف سے امریکہ کے باشندوں سے کی تھی۔
امریکہ سے لوٹتے ہوئے سوامی جی چند روز مصر ٹھہرے۔وہاں ایک مسجد میں ان کی ایک تقریر ہوئی جو ’الوہاب‘ میں پوری کی پوری شائع ہوئی ۔تقریباً ڈھائی برس کے بعد سوامی جی وطن واپس آئے۔ ۸؍دسمبر ۱۹۰۴ کو ان کے بمبئی پہنچنے پر بڑی گرم جوشی کے ساتھ ان کا استقبال کیا گیا ۔بھارت واپس آنے کے بعد سوامی جی پشکر میں کوئی تین ماہ رہے ۔یہاں نارائن اور پورن سنگھ بھی ان سے ملے۔نارائن کو انھوں نے سندھ اور افغانستان بھیج دیا اور خود دارجلنگ چلے گئے ۔وہاں فطرت کی گود میں انھیں بڑی خوشی حاصل ہوئی ۔انھوں نے اگست ۱۹۰۵ء کے اپنے ایک مکتوب میں لکھا کہ تین مہینہ تک ایورسٹ کے سامنے رہتے ہوئے میں نے بیس کتابیں پڑھیں اور پانچ لکھیں ۔ ستمبر کی ابتدا میں وہ دارجلنگ سے بنگال اور بہار کے کچھ شہروں کے دورے پر گئے ۔اکتوبر میں وہ لکھنؤ پہنچے ۔صبح کو وہ طلبہ سے ملاقات کرتے ،سہ پہر میں اسکولوں اور کالجوں میں لکچر دیتے اور شام کو قیصر باغ میں ان کے خطاب عام کا پروگرام رہتا ۔ہزاروں آدمی انھیں سننے کے لیے جمع ہو جاتے تھے۔لکھنؤ میں ان کا قیام دو ہفتے سے زیادہ نہیں رہا۔وہاں سے وہ ہر دوار چلے گئے ۔ان کی صحت ٹھیک نہیں تھی ۔تبدیلیٔ آب و ہوا کے لیے مظفر نگر گئے ۔اور یہ فیصلہ کیا کہ انھیں ہمالیہ کے مغربی خطے میں جا کر پہلے کی طرح پھر تنہائی اختیار کر لینی چاہیے تاکہ امریکہ میں کی گئی اپنی تقاریر کو مرتب کر کے ان کو کتاب کی شکل میں شائع کرا سکیں ۔ چنانچہ وہ اور نارائن ہر دوار پہنچے ۔ہر دوار میں انھوں نے اپنے خیالات کی اشاعت کے پیش نظراردو میں تین کتابیں لکھیں۔
۱۹۰۵ء میں سوامی جی نارائن کو لے کر رشی کیش پہنچے ۔کسی پر سکون جگہ کی تلاش میں وہ رشی کیش سے ۳۰ میل دور ویاس آشرم سے موسوم مقام پر جا پہنچے۔یہ مقام ویاس گنگا اور گنگا کی خاص دھارا کے سنگم پر واقع تھا ۔اس مقام پر آدھے آدھے میل کے فاصلے پر تین جھونپڑیاں ڈال دی گئیں ۔اس آشرم میں رہنے والوں کو الگ الگ ایک دوسرے سے ہٹ کر رہنا تھا ۔صرف باورچی خانہ ایک جگہ تھا۔ سوامی رام تیرتھ نے یہاں اپنی داڑھی بڑھالی ،یہاں رہ کر انھوں نے ویدک ادب کا اچھا خاصا مطالعہ کیا۔ ریسرچ اور تحقیق کے مغربی اصولوں سے بھی وہ واقف تھے۔ پورن سنگھ کا بیان ہے کہ اس مطالعہ کے بعد ان کی چڑیوں جیسی چہک اور مسرت میں کمی آگئی اور اس کے ساتھ ہی ان لوگوں سے ان کا اختلاف بھی ہو گیا ،جو ویدوں کو دلیل قاطع اور سائنس کی کتاب کی حیثیت دیتے تھے ۔ سوامی جی شنکرا چاریہ کو ویدانت ادب میں دلیلِ راہ سمجھتے تھے ۔
سوامی جی کی خواہش ہوئی کہ وہ اور زیادہ سرد اور دنیا سے اور زیادہ دور تنہائی کی جگہ جا کر رہیں ۔اس کے لیے انھوں نے وششٹ آشرم کو پسند کیا ۔یہ مقام بارہ تیرہ ہزار فٹ کی بلندی پر واقع ہے۔ ۱۹۰۶ میں وہ وششٹ آشرم پہنچے ۔ یہاں وہ ایک ماہ کے بعد ہی بیمار ہو گئے، لیکن یہ جگہ انھیں بے حد پسند تھی ۔یہ مقام برف سے ڈھکے ہوئے سلسلۂ کہسار پر تھا ۔جس غار میں وہ رہتے تھے اس کے نیچے ہی بہت قریب سے گنگا کی دھارا بہتی تھی ۔وہاں کے پہاڑ دیودار ،چیڑ وغیرہ درختوں سے ڈھکے ہوئے تھے ۔ایک نوجوان تین میل کے فاصلے سے آکر روز کھانا پکا جاتا تھا ۔۔یہاں کا اناج سوامی جی کے لیے مضر ثابت ہوا اور وہ دبلے ہو گئے ۔وہ پانچ میل اور اوپر کی طرف چلے گئے ۔لیکن ان کی طبیعت نہ سنبھل سکی ۔فلسفہ کا ان کا مطالعہ جتنا گہرا ہوتا گیا وہ انھیں اداس کرتا گیا۔ انھوں نے پورن سنگھ کی تعریف کی کہ انھوں نے شادی کر کے اپنی زندگی کو استحکام بخشا ۔پھر سوامی جی کو اپنی بیوی کا خیال آیا۔ وہ ہر دوار آئی تھیں، لیکن انھوں نے ٹھہرنے نہ دیا ۔اس پر پورن سنگھ کو غصہ بھی آیا تھا۔
اکتوبر ۱۹۰۶ء کی بات ہے ۔دیوالی کا دن تھا۔وہ باورچی کے ساتھ ندی پر غسل کے لیے گئے ۔ندی میں غوطہ لگایا ۔دریا کا تیز بہائو انھیں اپنے ساتھ لے گیا ۔انھوں نے بھنور سے نکلنے کی آخری وقت تک کوشش کی لیکن ہوا وہی جو ہونا تھا۔وہ دھارا کے بیچوں بیچ پہنچ گئے اور پھر نکل نہ سکے ۔ایک ہفتہ کے بعد ان کی لاش اس مقام پر تیرتی ہوئی ملی جہاں وہ ڈوبے تھے ۔کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ سوامی جی نے خود کشی کی ہے ۔لیکن یقین کے ساتھ کچھ نہیں کہا جا سکتا ۔ان کے باورچی نے اس سلسلے میں جو کچھ بیان کیا ہے اس سے تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ ان کی موت کا سبب افسوسناک حادثہ ہے ،خود کشی نہیں۔سوامی جی کو زندگی کے صرف ۳۳ یا ۳۶ سال ملے ۔لیکن اتنی کم عمری میں جتنا کام انھوں نے کیا وہ غیر معمولی ہے ۔
تصنیفات:
سوامی جی کی زندگی میں ان کی کچھ تقاریر کا ایک چھوٹا سا مجموعہ شائع ہوا تھا۔باقی کتابیں ان کے انتقال کے بعد شائع ہوئیں ۔جن کی تفصیل یہ ہے:
۱۔سوامی رام تیرتھ کے مضامین اور اپدیش ،یہ کتاب دو جلدوں میں ہندی میں شائع ہوئی ۔جس میں انگریزی اور اردو و ہندی کی تقاریر اور مضامین شامل کیے گئے۔ جن میں سے چند کے عنوان یہ ہیں: The Nature of Inspiration,The Real Self,Happiness within, The rod of Moses عشق الٰہی ،مذہب کی ماہیت ،فرض اولی، برمھ چریہ،عملی ویدانت وغیرہ ۔
۲۔رام ورشا ____یہ کتاب دو جلدوں میں شائع کی گئی ۔اس میں بھگت شاعروں ،کبیر میرا بائی وغیرہ کے ان بھجنوں کو مرتب کیا گیا ہے ،جو سوامی جی کی نوٹ بک میں لکھے ہوئے پائے گئے۔
۳۔سوامی رام کے دیش آدیش ____یہ سوامی جی کے صرف اردو اور ہندی کے مضامین اور تقاریر کا مجموعہ ہے۔
۴۔شری رام تیرتھ گرنتھاولی ____یہ سیریز کی شکل میں ۲۸؍ جلدوں میں شائع ہوئی ۔اس میں سوامی جی کا تمام تحریری و تقریری سرمایہ جمع کر دینے کی کوشش کی گئی ہے۔
۵۔رام پتر___یہ سوامی جی کے خطوط کا مجموعہ ہے۔
۶۔آتم سا کچھا تکار کی کسوٹی ____یہ سوامی جی کی اردو کتاب ’معیار المکاشفہ ‘کا ہندی ترجمہ ہے ۔
۷۔Woods of God realization یہ کتاب تین جلدوں میں شائع ہوئی ۔اس میں سوامی جی کی تمام تخلیقات Complete works کو انگریزی زبان میں پیش کیا گیا ہے۔ پہلی جلد میں جاپان اور امریکہ میں دیے ہوئے ۲۰ لکچر شامل ہیں۔اس کا مقدمہ پروفیسر پورن سنگھ نے لکھا ہے۔دوسری جلد میں ان کی گفتگوؤں وغیرہ کے علاوہ امریکہ میں دیے ہوئے ان کے سات لکچر بھی شامل کیے گئے ہیں ۔تیسری جلد میں لکچروں کے علاوہ ان کے خطوط بھی شامل ہیں۔
۸۔Heart of Rama(ہارٹ اوف راما)___اس میں سوامی جی کے اقوال جمع ہیں ۔جن کا موضوع مذہب، روحانیت، فلسفہ، بھکتی، دھیان، تیاگ وغیرہ ہے۔
۹۔Poems of rama (پوئمس اوف راما)__اس کتاب میں سوامی جی کی نظموں کو جمع کیاگیا ہے ۔
تعلیمات :یہاں ہم سوامی جی کے کچھ اقوال نقل کر رہے ہیں ،جس سے ان کے افکار کا اندازہ کیا جا سکتا ہے :
٭ جیسے تمھارے خیالات ہوں گے ویسے ہی تم ہوگے۔
٭ خدا کی مرضی کے آگے جھک جانے سے ہمارے چہروں کی رونق بڑھ جاتی ہے ۔
٭ کسی آدمی کو تم اس وقت تک نہیں جان سکتے جب تک اس سے پریم نہ کرو۔
٭ جسے ہم برا وصف کہتے ہیں وہ خود اپنے کو نقصان پہنچانے کے علاوہ کچھ نہیں ہے ۔
٭ دنیوی دولت و ثروت وہ لنگوٹی ہے ،شرمندہ ضمیر جس سے اپنی برہنگی کو چھپانے کی کوشش کرتا ہے ۔
٭ تھورو کے نزدیک فرصت کی قیمت زیورات سے زیادہ تھی ۔
٭ ’’کچھ کرنا ہے ‘‘ کے بجائے ’’یہ کر رہا ہوں ‘‘ہی ویدانت ہے ۔
٭ سبھی دھرموں میں صرف اپنے ’’خود‘‘کے اوپر پڑے ہوئے پردے کو ہٹا کر اس کے راز سے واقف کرانے ہی کی کوشش ہے ۔
٭ ’’میں اس کا(خدا کا)ہوں‘‘ ۔یہ مذہب کی ابتدائی حالت کی بات ہے ۔’’میں تیرا ہوں ،مجھے ہر لمحہ تیری ضرورت ہے ‘‘۔پہلی حالت بھی مدھر(پرکیف) تھی لیکن یہ اس سے بھی مدھر ہے ۔’’میں تو ہی ہوں ‘‘۔اس آخری حالت میں دونوںمل کر ایک ہو جاتے ہیں۔محب اور محبوب ایک دوسرے کی محبت میں اپنے کو کھو دیتے ہیں ۔
٭ مذہبی احساس و خیال کی تہذیب و تحسین یا پردے کا باریک ہونا (کہ حقیقت کی جھلک دکھائی دے )خاص طور سے ذہنی فکری ریاضت پر منحصر ہے۔ پردے کو اگر ہٹایا جا سکتا ہے تو وجد و کیف (بھاو)کے ذریعہ سے ہی ۔
٭ فلسفہ عقل مندوں اور تعلیم یافتہ لوگوں کے لیے ہے ،پورانک روایتی کتھائیں اور حکایات جذباتی لوگوں کے لیے ہیں اور کرم کانڈ (رسوم و ضابطے)عامۃ الناس کے لیے ۔
٭ دھرم وہ ہے ،جو ہمیں اصل منبع و سرچشمہ کے ساتھ باندھ دیتا ہے ۔
٭ زندگی کے مسائل کا حل خود کشی نہیں ہے ۔کیا اسکول کا طالب علم سلیٹ پر سے اپنے سوال کو مٹا کر اسے حل کر سکتا ہے ۔
٭ جب ہم اہم کام انجام دینے اورانسان کی فلاح کے پیش نظر اپنے کو درست رکھنے کے لیے گوشت کھاتے ہیں تو یہ پاپ نہیں رہ جاتا ۔
٭ ویدوں کی سبھی شرحیں اغلاط اور غلط فہمیوں سے مملو ہیں ۔ویدوں کو سائنس کی کتاب سمجھنا بھول ہے ۔
٭ دنیا میں ہمارا کوئی بیگانہ نہیں ہیں ۔سب ہمارے بھائی ہیں ۔
٭ دنیا کے فرائض سے بیزار ہونے کو بیراگ نہیںکہا جاتا۔
٭ ویدانتی کو چاہیے کہ دنیا میں رہ کر دنیا سے اوپر رہے ۔
٭ وہ دھرم جس کی بنیاد کسی اور کی گواہی پر ہو ،دھرم نہیں ہے ۔حق وہی ہے ،جو ہمارے اپنے تجربہ میں آیا ہو ۔
اس میں شبہہ نہیں کہ سوامی جی بہترین صلاحیت لے کر پیدا ہوئے تھے ۔کاش وہ کتاب الٰہی کی روشنی میں اپنی زندگی کے سفر کی راہ متعین کرتے۔اس صورت میں وہ یقینا

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Verified by MonsterInsights