اسلام اور فنون لطیفہ:تحقیقی جائزہ

ایڈمن

 سید محمود عالم

فن کا لفظ عربی ہے اور اس کے معنی ہنر اور کاری گری کے ہیں جب کہ فنون فن کی جمع ہے۔

لطیفہ کے معنی اچھی چیز،انوکھا،عجیب کسی بھی اچھی خوبیوں،عمدگی اور کمال کو فنون لطیفہ کے طور پر کہا،پڑھا اور لکھا جاتا ہے جو اس کی پہچان یا تعارف ہوتی ہے کہ یہ چیز دلچسپ،انوکھی،عجیب اور لطف اندوزی کا ذریعہ ہے۔امر حقیقت ہے کہ کسی بھی قوم کے خوبصورت اور لطیف احساسات اور جمالی کمالات کو فنون لطیفہ کہتے ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ وہ شے معنوی طورپر جتنی حسین اور جمیل ہوگی صوری طور پر بھی وہ اتنی ہی حسین اور جمیل ہوگی۔اسی لیے اسلام نے جمال اور کمال کا معیار پاکیزگی پر رکھا ہے۔کسی بھی جمال کو پرکھا،چھا نا،چھانٹا پھر اس کو جمال یا جمالیات کا ممتاز مقام و مرتبہ دیا۔ گویا اسلام کی نظریں صرف ظاہر ہی تک نہیں بلکہ باطن اور اصل تک ہے۔ اسی لیے اسلام اور ایمان ظاہر اور باطن کے دو مجموعوں کا نا م دین ہے اور اللہ کے نزدیک دین اسلام اس  لیے ٹھہر ا ہے کہ یہ صرف سننے،سنانے،فصاحت و بلاغت کے ظاہری اظہار تک نہیں بلکہ اس کی اصل بھی ہے جو حق اور ثابت ہے۔

آدمی کی فہم و فراست اور اس کی ذکاوت کی جانچ اس کے عیش اور طیش سے ظاہر ہو جاتی ہے اسی لیے سورہ العصر میں انسان کو خسارہ والوں میں قرار دیا گیاہے لیکن فرق کرتے ہوئے کہا گیا سوائے ایمان اور عمل صالح پر کاربند رہنے والا، خوشی اور غم میں حق پر یکساں طورپرکا ربند رہنے والا، اس خسارے سے مستثنی ہے۔

جیسا کہ فرمان باری تعالیٰ ہے: ”قُل مَن حَرَّمَ زِینَتَ اللَّہِ الَّتِی اَخرَجَ لِعِبَادِہِ“

تم فرماؤ کس نے حرام کی اللہ کی وہ زینت جو اس نے اپنے بندوں کے لیے نکالی“

جب کہ حدیث نبویﷺ ہے”اِنَّ اللَّہَ جَمِیلٌ یُحِبُّ الجَمَالَ“۔”اللہ جمیل ہے،دوست رکھتا ہے جمال کو۔“

یاد رہے اہل عرب ہنر کے لیے فن کا لفظ استعمال کرتے ہیں اور فنون لطیفہ کو ”الفنون الجمیلہ“کہتے ہیں اور انگریزی میں اس کے لیے آرٹ(Art)کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے جو پہلے صرف نقاشی کے لیے استعمال ہوتا تھا،مجسمہ سازی،شعر،رقص،موسیقی وغیرہ کے لیے بھی استعمال ہوتاہے۔فن یا ہنر کی تخلیق لفظوں سے بھی ہوتی ہے،قلم سے بھی،مو قلم سے بھی،ساز سے بھی اور حرکات جسم سے بھی۔فن نازک احساسات سے تخلیق پاتا ہے۔فن کار اپنے فن کے ذریعہ سے حسن،خیر،نیک،حق،صداقت اور عشق و محبت کی ابدی اقدار کو پیش کرنے کی سعی کرتا ہے۔بت تراش(مصور)عالم لاہوت زمین پر لے آتا ہے،مغنی یا موسیقار غیر محسوس اور غیر محدود کو حسیات میں محدود کر دیتاہے لیکن شاعر فطرت گویاتمام فنون کا خلاصہ بلکہ جو ہر ہے۔ (3)اور اسی کے اوپر یعنی سماعِ شاعری ہی اصلاً اس مقالے کی تحقیق و غرض ہے۔

ناظم تعلیمات جامعہ نعیمیہ دستگیر کراچی پاکستان مفتی جمیل احمد نعیمی فرماتے ہیں۔”اللہ تعالیٰ نے انسان کو اس کرۂ ارض پر مبعوث فرمایا اور اس کی تمام ضروریات اور رہنمائی کے لیے نظام نبوت اور نظام عقل و فہم کے سات ساتھ انسان کی جمالیاتی جبلتوں کو فروغ دینے اور ان کو قائم رکھنے کا اہتمام فرمایا درحقیقت  ان اللہ جمیل یحب الجمال کا تقاضہ بھی یہی ہے۔“(4)

حدیث رسول ﷺ میں ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہؓ کے گھر میں پردہ لٹکا ہو اتھا جس پر تصویریں بنی ہوئی تھیں۔حضور ﷺ تشریف لائے۔آپ نے نماز ادا فرمائی۔ بعدمیں آپﷺ نے پردہ اتروا دیا۔ فرمایا کہ اس نے مری توجہ کو مشغول کر دیا تھا۔ اس حدیث سے حرمت (تصویر یا مجسمہ)کے قائل علمائئ استنباط کرتے ہیں کہ تصویر (یا مجسمہ) حرام ہے،اگر جائز ہوتی آپﷺ پردہ ہٹانے کا حکم نہ دیتے۔جب کہ دوسرے علمائئ کا موقف یہ ہے کہ اگر تصویر کلیتہً  تو کیاحضور ﷺ کو معلوم نہ تھا کہ گھر میں تصویر والا پردہ لٹکا ہوا ہے۔ خود حجرت عائشہ صدیقہؓ دین کا مکمل فہم رکھتی تھیں۔ آپﷺ نے انہیں نصف دین قرار دیا۔ اس کے باجود گھر میں پردے کا لگا ہوا ہونا اور آپ ﷺ کا نماز پڑھ لینا اس بات پر دلالت کرتا ہے وہ اسے مباح اور جائز سمجھتی تھیں۔پردہ ہٹانے کی حکمت یہ تھی کہ نماز میں یکسوئی متاثر نہ ہو اور توجہ اللہ کی طرف قائم رہے۔(5)

ایک اور حدیث میں آپﷺ نے اپنے نعلین میں نیا تسمہ لگا ہوا ہونے کو بھی نما ز کی یکسوئی میں خلل کا ذریعہ فرمایا۔دراصل یہ بات امت کی تربیت کے لیے تھی۔اگر کسی کی توجہ میں خلل پڑے تو وہ اسے ہٹادے۔ اس کو عبات کی قبولیت میں مانع نہ جانے۔ہاں فحش تصویریں،یا دعوت فحش دینے والے پوسٹر،اشتہار،پمفلٹ یا اس قبیل کی دیگر چیزیں یا عبادت کی مورتیوں کو یا کسی مذہب کی خاص نشانی جس سے عبادت کی یکسوئی اور عقیدے کی پامالی خدشہ ہو،ا س سے اجتناب کرنا بہتر اور اولیٰ ہے۔

ام المومنین حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ ام حبیبہؓ اور ام سلمہؓ نے رسول اللہ ﷺ سے ایک گرجہ کا ذکر کیا جس کو انہوں نے حبش میں دیکھا تھا۔اس میں تصویریں لگی تھیں۔آپ نے فرمایا ان لاگوں کا یہی حال تھاجب ان میں کوئی نیک آدمی مر جاتا تو وہ اس کی قبر پر مسجد بناتے اور وہاں صورتیں بناتے۔یہ لوگ قیامت کے دن خدا کے سامنے سب سے بدتر ہوں گے۔(6)اس علمی تحقیق کو فقہا ء اور علماء دو طرح سے سمجھاتے ہیں (الف)حرمت بالذات(ب) حرمت بالعرض

بالذات حرمت یہ ہے کہ وہ چیز ہر حالت میں فی نفسہ حرام ہو جیسے خنزیر،شراب وغیرہ۔جب کہ حرمت بالعرض یہ ہے کہ وہ چیز فی نفسہ حرام نہ ہو بلکہ کسی وصف کی وجہ سے حرام ہو۔اگر وہ وصف او ر عرض اٹھ جائے تو اس میں حرمت باقی نہیں رہتی وہ چیز مباح ہو جاتی ہے۔

حضور نبی اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا”جس گھر میں کتا یا تصویر ہو اس میں رحمت کے فرشتے نہیں آتے۔“کتا ایک نجس جانور ہے۔ طبع سلیم میں کتے اور تصویر کا نجاست و قباحت میں ایک ہونا سمجھ میں نہیں آتا۔جب کہ طبع سلیم اور احکام دین میں تضاد نہیں ہو سکتا۔ لیکن حرمت میں نبی اکرم ﷺ نے دونوں کو برابر گردانا۔لہذا پتہ چلا اس تصویر میں کوئی ایسی علت موجود ہے جسے آپ نے کتے کے برابر نجس قرار دیاا ور وہ اعتقادی علت و قباحت کفر و شرک ہے۔اس زمانے میں کفار نے لات،منات،عزی و ہبل وغیرہ کی مورتیاں بنا رکھی تھیں۔ یہ وہ تصویریں تھیں جن کی  وہ پوجا کیا کرتے تھے، اس لیے انہیں حرام قرار دیا گیا۔پس جو مورتیاں عبادت کی غرض سے بنائی جائیں وہ قطعی حرام ہیں اور عبادت و تعظیم کے لیے نہ بھی ہوں تو مشابہت اور مماثلت کی وجہ سے ان کی ممانعت ہے۔(7)آج سکہ،دینار،ریال،ڈالر،یورو،روپیہ پیسہ وغیرہ و دیگر ایسی بے شمار چیزیں ہیں جس میں با ضابطہ تصویریں بنی ہوتی ہیں مگر جن کا مقصد عبادت،پوجا یا پاٹ سے نہیں بلکہ خریدو فروخت میں آسانی کی غرض ہوتاہے۔ اسی لیے علماء،عوام و خواص سب ہی بلا تکلف اس کو صرف کرتے ہیں۔ شاعری کو قرآن نے سورہ الشعراء میں فرمایا،الشُّعَرَاءُ یَتَّبِعُھُمُ الغَاوُئون (8) ”اور شاعری کی پیروی گمراہ کرتے ہیں“۔ اِلَّا الَّذِینَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَات وَ ذَکَرَ اللَّہَ کَثِیرًا وَ انتَصَرُ وا مِن بَعدِ مَا ظَلَمُوا (9)”مگر وہ جو ایمان لائے اور اچھے کام کیے اور بکثرت اللہ کی یاد کی اور بدلہ لیا بعد اس کہ ان پر ظلم ہوا۔“

کفار شعرا ء کی ہجو،تضحیک،طنز،نفرت،عداوت،حقارت،قساوت،مداومت کا ایمان بااللہ و بالرسول سے ان کے کلمات فضول کا جواب:مشکواۃ باب البیان و الشعر کی پہلی فصل میں شاعری کے جواز میں فرمان رسول اللہ ﷺ ہے:  وَعَن عَاءِشَۃ  ؓ اَنَّ رَسُولَ اللَّہِ ﷺ قَالَ ”اِھجُوا قُرَیشَاً فَاِنَّہُ اَشَدُّ عَلَیہَا مِن رَشقِ بِالنَّبلِ“حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہا:رسول اللہ ﷺ نے فرمایا”قریش کی ہجو کرو،ہجو ان کے لیے تیر پھینکنے سے بڑھ کر ہے۔“ (10)

وَعَن اَبِی کَعبٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ ﷺ ”اِنَّ مِنَ الشِّعرِ حِکمَۃٌ“ابوکعب ؓ سے روایت ہے کہا:رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ”بعض اشعار حکمت ہوتے ہیں۔“(11)

یاد رہے مغنی یا موسیقار غیر محسوس و غیر محدود کو حسیات میں محدود کر دیتاہے۔آپ ﷺ سے شاعری بالدف سماع کے بھی نظائر ملتے ہیں جسے آپؐ نے متعدد مرتبہ سماعت کیا ہے اور دف کے ساتھ بھی شاعری پسند فرمائی ہے اور ان کے لیے دعا کی ہے۔ جیسا کہ معروف روایت ہے حضرت سعدؓ کو اور حضرت حسانؓ کو آپ نے دعا دیتے ہوئے فرمایا”میرے ماں باپ تم پر قربان“۔ایسا فن جو دین کا محافظ ہو اسلام نے اس کی ہر سطح پر حوصلہ افزائی کر کے دین فطرت کو ثابت کیا،اور ایسی تلوار جو فن،جو ہر مردانگی اور بہادری سے گریز کرے اس کی حوصلہ شکنی کی۔جیسا کہ بخاری کتاب الجہاد و السیر سے ثابت ہے۔امام بخار ی روایت کرتے ہیں کہ حضرت ابو امامہ ؓ کو فرماتے ہوئے سنا:اہل اسلام فتح پر فتح پاتے رہے جب تک اپنی تلواروں پر سونے چاندی کا کام نہیں کرواتے تھے۔ان کی تلوارں میں چمڑا،لوہا اور رانگ ہوتا تھا۔(12)

حدیث طیبہ میں معروف غنا ء سماع کو منع کرتے ہوئے اس کے بے ہودہ مشاغل کو اللہ کے عذاب کا ذریعہ فرمایا گیا اور اس کو بطور ترہیب بیان کرتے ہوئے فرمایا گیا جیسا کہ حضرت علیؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا”جب میری امت پندرہ چیزوں کی عادی ہوجائے تو اس پر مصائب نازل ہوں گے“۔آپ ﷺ نے پندرہ چیزوں میں سے ایک یہ بھی بتائی کہو التخذ القیان و المعازف’’جب مغنی عورتیں اور باجے تاشے رواج پکڑ جائیں“۔(13)امام ترمذی ؒ نے اس حدیث کو غریب قرار دیتے ہوئے لکھا ہے کہ اس طریق کے علاوہ کسی دوسرے طریق سے اس حدیث کے روایت ہونے کا علم نہیں،اور نہ ہمیں فرج بن فضالہ کے علاوہ کسی ایسے شخص ہی کا علم ہے جو یحیٰ بن سعید انصاری سے اس حدیث کو روایت کرتا ہو۔ فرج بن فضالہ پر بعض محدثین نے کلام کیا ہے،اور ان کے حافظے کو کمزور بتایا ہے،وکیع اور دوسرے ائمہ حدیث ان سے روایت کرتے ہیں۔(14)

 حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا ”قَالَ اَعلِنُوا ھَذَا النِّکَاحَ۔۔۔وَاضرِبُوا عَلَیہِ بِالدُّفُوفِ“ ”نکاح کا اعلان کیا کرو اور اس موقع پر دف بجاؤ۔“(15)

ترمذی کتاب النکاح باب ما جا فی اعلان النکاح میں مکمل حدیث یوں ہے ”اعلنوا ھذا النکاح و اجعلوفی المساجد و اضربوا علیہ بالدفوف“ نکاح کا اعلان کیا کرو اور نکاح مسجد میں پڑھا کرو اور اس موقع پر دف بجایا کرو۔“(16)امام ترمذیؒ اس حدیث پرتبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:”یہ حدیث حسن غریب ہے اور اس میں ایک راوی عیسیٰ بن میمون انصاری ہیں،جو کہ ضعیف ہیں۔“نواب صدیق حسن خان فتح العلام شرح ”بلوغ المرام“جلد 2 صفحہ 93 پراس پر بحث کرتے ہوئے فرماتے ہیں ”نکاح کے موقع پر دف بجانے کے حکم پر احادیث خاصی ہیں،اگر چہ ان سب پر کلا م ہے،مگر پھر بھی وہ ایک دوسرے کی تائید کا کام دیتی ہیں۔یہ احادیث دف بجانے کے جواز پر دلالت کرتی ہیں،کیوں کہ نکاح کا اعلان دف کی صورت میں زیادہ اچھا ہو سکتا ہے۔نیز حدیث میں امر کا صیغہ استعمال کیا گیا ہے،جو بظاہر وجوب کے لیے آتاہے،مگر شاید وجوب کا کوئی ایک بھی قائل نہیں،لہذا بیاہ شادی کے وقت دف بجانا مسنون ہوگا۔مگر اس کے لیے بھی یہ شرط ہے کہ اس عمل کے ساتھ کسی حرام کام کاارتکاب نہ ہو۔“(17)

اِنَّ امرَاءۃ  جَاءَت اِلَی النَّبِیِّ ﷺ فَقَالَ یَا عَاءِشَۃ تَعرِفِینَ ھَذِہِ؟ قَالَت لَا،قَالَ ھَذِہِ قینۃ بَنِی فُلَانٍ تُحِبِّینَ اَن تُغَنِّیَکَ قَالَت نَعَم فَاَعطَاھَا طَبَقاً فََغَنَّتھَا فَقَالَ لَہُ نَفَخَ الشَّیطَانُ فِی مَنخِرَیھَا“ ”ایک عورت حضورﷺ کے پاس آئی۔ آپ ﷺ نے حضر ت عائشہؓ سے پوچھا عائشہ!اسے پہچانتی ہو؟عرض کیا نہیں۔آپ نے فرمایا”یہ فلاں قبیلہ کی مغنیہ ہے کیا تم اس کا گانا سننا چاہوگی“عرض کیا جی ہاں!آپ ﷺ نے اس عورت کو ایک طباق دیا،اس نے گانا سنایا،تو حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا”شیطان نے اس کے نتھنوں میں پھونک ماری ہے۔“(18)

عَن اَنَسِ بنِ مَالِک ؓ اَنَّ النَّبِیَّ ﷺ مَرَّ بِبَعضِ المَدِینَۃِ فَاِذَا ھُوا بِجَوَارٍ یَضرِبنَ بِدُفِّھِنَّ وَ یَتَغَنَّینَ وَ یَقُلنَ نَحنُ جَوَارٍ مِن بَنِی النَّجَّارِ یَاحََّبَذَامُحَمَّدُ مِن جَارِ۔فَقَاَل الَّنِبیُّﷺ: اللَّہُ یَعلَمُ اِنِّی لَاُحِبُّکُنَّ۔“حضرت انسؓ کہتے ہیں ایک مرتبہ نبی کریم ﷺ کسی مقام سے گزر رہے تھے کہ دیکھا چند لڑکیاں بیٹھی دف بجا رہی ہیں اور یہ اشعار گا رہی ہیں (ترجمہ)ہم بنو نجار کی لڑکیاں ہیں کتنی خوش نصیبی ہے کہ محمد ﷺ ہمارے پڑوسی ہیں۔ حضورﷺ نے ارشاد فرمایا”اللہ خوب جانتا ہے کہ مجھے تم کتنی عزیز ہو“۔(19) حوالہ 18 والی حدیث کی سند میں ایک راوی یزید بن ابی حفصہ ہیں جن کے بارے میں امام احمد ؒ کا قول ہے کہ وہ منکر الحدیث ہیں۔اسلام اور موسیقی کے مصنف عبدالمعز لکھتے ہیں کہ گانا سننا حرام لعینہ نہیں لغیرہ ہے،اس کی حرمت کا سبب فتنہ کا خوف ہے۔(20)اب جب کہ سبب خوف فتنہ نہ رہا تو گانا بھی مباح ہو گیا۔ یوں کہیں جب علت نہ رہی معلول خود بخود مباح ہو گیا۔حرام لغیرہ سے وہ وصف اور عرض اٹھ جائے تو ا س میں حرمت باقی نہیں رہتی علت کے اٹھتے ہی وہ چیز مباح ہو جاتی ہے۔مگر اس کی بھی ایک حد ہے جو اللہ اور رسول ﷺ اور ان کے صالح جانشین علماء،فقہاء اور اولیا صالحین نے متعین کر دیا ہے جو ضرورت شرعیہ کے نام سے معروف ہیں۔اسلامی تاریخ کے منصفانہ مطالعہ سے جا بجا ایسے نظائر ملتے ہیں کہ خواتین نے ہر محاذ پراپنی اعلی صلاحیتوں کے جوہر دکھائے ہیں گھر سے لے کر میدان کارزار تک میں بر سر پیکار رہی ہیں۔ عہد نبویؐ میں باضابطہ خواتین بھی غزوات میں اس اعلی مقصد کے تحت شامل کی گئیں اور ان کو غزوات میں شمولیت اس بات پر ملی کہ وہ شریک غزوات اللہ اور اللہ کے رسول ﷺ کے سپاہیوں کو جوش دلانے کے لیے رجز خوانی کریں گی یعنی جذبہ جہاد کو مہمیز دینے والا گاناگائیں گی۔

اسلامی تاریخ کی معروف غزوہ،غزوۂ خیبر میں خواتین صحابیات ؓنے اسلامی سپاہیوں کے جوش کو گرمانے کی خدمت انجام دی۔ جیساکہ ’امّ زیاد اشجعیہ‘بیا ن کرتی ہیں کہ وہ غزوۂ خیبر میں شامل ہونے والی چھ میں چھٹی خاتون تھیں اور ان کو اس بات پر شامل لشکر ہونے کی اجازت ملی کہ وہ جوش دلانے کے لیے رجز خوانیکریں گی۔ (21) اِذَا فَاتَ الشَّرطُ فَاتَ المَشرُوطُ شرط  باقی نہ رہی تو مشروط بھی  باقی نہ رہا،اسی طرح محقق علماء،صوفیاء اور فقہاء سماع کے بارے میں فرماتے ہیں۔اس میں حرمت لغیرہ ہے۔علامہ ڈاکٹر یوسف القرضاوی فرماتے ہیں کہ ”گانا اگر فحش ہے اور ہیجان انگیزی پیدا کرتا ہے تو اس سے اسے پرہیز کرنا چاہیے اور ایسے دروازہ کو بند کر دینا چاہیے جہاں سے گمراہی اور فتنے کی ہوائیں اس کے دل و دماغ کو متاثر کر رہی ہوں۔“(22)

دسمبر 2019

مزید

حالیہ شمارہ

امتیازی سلوک کے خلاف منظم جدو جہد کی ضرورت

شمارہ پڑھیں

فلسطینی مزاحمت

شمارہ پڑھیں