آنگن کی چڑیا

ایڈمن

سعیداختراعظمی

            دروازے کاباہری قفل کھول کرجوں ہی میرے قدم دہلیز کے اندرداخل ہوئے گرد و غبار اور تنکوں کے ڈھیردیکھ کرغصہ آناعین فطری تھا۔’غضب میرے خدا!اب یہ صفائی بھی کرنی پڑے گی‘۔زچگی کے بعداسپتال سے ڈسچارج ہوکر میرے ہمراہ آنے والی شریک رنج وراحت زرمینہ کے تأثرات بھی مجھ سے مختلف نہیں تھے۔’شایدآرام کاایک بھی لمحہ نصیب میں نہیں ہے۔ فوری کمربستہ نہ ہوجاؤں تویہ گھر رہنے کے قابل نہ رہے گا‘۔مجھے بھی زرمینہ کی تکلیف کااحساس تھااسی لیے اس کے شانوں پرتسلی بھراہاتھ رکھا۔’تم بالکل پریشان نہ ہو۔اس مہم میں تمہیں میرابھرپورتعاون ملے گا‘۔وہ مسکرائی تواس کے سفیددانت چمک اٹھے۔’آپ ایساکیجیے۔ ننھی گڑیاکوسنبھال لیجیے اورمیرے ساتھ ساتھ رہیے۔ یہ کام چٹکی بجاتے ہوجائے گا‘۔چندلمحوں میں واقعی کمال ہوگیا۔زرمینہ نے خاتون خانہ کی ذمہ داری نبھاتے ہوئے منٹوں میں گھرکوآئینہ کی طرح چمکاڈالاتھا۔

نکاح کے دوبول سے دل وجاں سے قریب آجانے والی زرمینہ میری خالہ زادتھی۔مجید خالو اورخالہ برکت کی اکلوتی اولاد، جواُن کی جان تھی۔خالہ برکت اماں رحمت سے دوبرس چھوٹی تھیں۔اباشرافت علی پورے علاقہ میں میاں شرافت کے نام سے مشہورتھے۔انتہائی صابروشاکر انسان،جوتھوڑی سی زمین سے ہونے والی فصل کوگھرلاکریوں سجدہ شکراداکرتے جیسے اناج سے گودام بھرلیا ہو۔اماں بھی خوب تھیں۔وہ اسی اناج سے تھوڑاسابچاکربازارمیں فروخت کرآتیں اوراس سے ملنے والی رقم آڑے وقتوں کے لیے محفوظ کرلیتیں۔ان کاخیال تھاکہ مصیبت بتاکرنہیں آتی۔ایسے میں یہ رقم ضرورکام آئے گی۔

اماں کی شادی کے دوسرے برس ہی رب کریم نے میرے وجودسے ان کی سونی آغوش آباد کردی۔ننھے جمال کی کلکاریوں سے درودیوارمسکرااٹھے۔اسی دوران نانی اماں اکلوتی خالہ برکت کی شادی کے لیے بھاگ دوڑ میں لگی رہیں جودومحلہ آگے مجیدمیاں پہ جاکرختم ہوئی۔ان کے ابااماں برسوں پہلے انھیں اکیلاچھوڑکرشہرخموشاں آبادکرچکے تھے۔آگے پیچھے کوئی نہ تھا۔وہ ایک آفس میں بطورکلرک کام کرتے تھے۔تنخواہ کم تھی مگرکبھی حرام رقم کو ہاتھ نہ لگایا۔یہی ادانانی اماں کوپسندآئی۔اتفاق کی بات ابا کے بھی آگے پیچھے کوئی نہ تھا۔دونوں دامادوں میں قدرمشترک ایمانداری اور شرافت تھی جس کاتذکرہ ہرزبان پرتھا۔نانی اماں نے بھی رشتہ جوڑنے میں دیرنہیں لگائی۔یوں چندہی دنوں میں مجید خالو کی ویران زندگی میں بہارآگئی۔

            نانی اماں نے امی کی شادی کے وقت اپنامکان گروی رکھ کرتھوڑی سی رقم ساہوکارسے لی تھی۔اس کی دوسری قسط خالہ کی شادی کے وقت لے کر انہوں نے خودکوبے گھر کر ڈالا۔ ساہوکار میں شاید تھوڑی سی انسانیت برقرارتھی جواس نے مکان پہ مکمل قبضہ ہونے کے بعد بھی ایک ماہ تک رہائش کی مہلت دے دی تھی۔اس گھرسے نانی اماں کی بہت سی یادیں وابستہ تھیں۔ ناناکے انتقال کے بعدجب کوئی سہارا نہ رہاتو انہوں نے ایک کمرہ کرایے پہ دے کر روزمرہ کے اخراجات پورے کیے۔یہ ایسا سائبان تھاجس نے ہرسردوگرم سے انہیں محفوظ رکھاتھا۔اس سے ابدی جدائی کاانہیں قلق تھا،لیکن کیاکرتیں،کوئی دوسراراستہ بھی نہ تھا۔

            امی کی شادی کے بعدبرکت خالہ کا ساتھ انھیں ملا۔ جب یہ بھی پیادیس سدھاریں تو نانی اماں اکیلی رہ گئیں۔امی اورخالہ نے انہیں اپنے ساتھ رکھنے کے ہزارہاجتن کیے جوبے سودثابت ہوئے۔ان کامانناتھاکہ اس گھرسے اب ان کاجنازہ ہی نکلے گا۔تھک ہارکریہ ترکیب نکالی گئی کہ صبح وشام وقت نکال کرامی اورخالہ وہاں چلی جائیں اورکھانے پینے کاانتظام کرآئیں۔گھرسے مستقل جدائی کاغم نانی اماں کوگھُن کی طرح کھوکھلا کرتاگیا۔ایک ماہ پورے ہونے میں ابھی چوبیس گھنٹے باقی تھے۔رات کوامی اورخالہ سے مل کر بستر پہ جانے والی نانی اماں ایسی گہری نیند سوئیں کہ صبح جاگنے جگانے کی ضرورت ہی پیش نہ آئی۔

            خالہ برکت کی شادی کوایک برس گزرگیالیکن ان کے آنگن میں کوئی پھول نہ کھلا۔وہ پریشان ہوگئیں۔ مجیدخالونے ڈاکٹروں سے رجوع کیاتوپتہ چلاکہ مشیت ایزدی یہی ہے،سوصبرکرلیا۔یہ پانچواں برس تھاجب قدرت کوان کی تنہائی پہ رحم آگیا۔ انہیں ڈاکٹروں نے ماں بننے کی نوید سنائی تووہ خوشی سے نہال ہوگئیں۔وقت مقررہ پہ جب ان کی آغوش میں ننھی گڑیاآئی تو ممتاکے احساس سے وجودسرشارہوگیا۔مجیدخالوکامانناتھاکہ یہ گڑیاان کی زندگی میں بہاربن کرآئی ہے اس لیے اسے ’بہار‘نام دینامناسب رہے گا۔ برکت خالہ نے اس کی مخالفت کی اورکہاکہ یہ میری زندگی کے اندھیرے میں نوربن کرآئی ہے اس لیے اس کانام ’نورٌ   علیٰ نور‘ہوگا۔خالونے اس شرط پر مان لیاکہ وہ اتنے طویل نام کومختصرکرکے اسے ’اجالا‘ کہیں گے۔’اجالا‘اپنے نام کی طرح سرخ وسفید رنگت کی تھی،گول مٹول پیاری سی،جوبھی دیکھتااسے دُلارضرورکرتا۔جب عقیقہ کامرحلہ آیاتومسجدکے امام صاحب نے کہاکہ یہ کوئی نام نہیں ہے،کوئی اچھاسانام رکھیں۔یوں ان کی تجویز پہ ’زرمینہ‘ نام دیاگیا۔اس تقریب میں امی بھی شریک ہوئیں اور مبارک موقعے کویادگار بناتے ہوئے اسے اپنے گھرکااجالابنانے کاوعدہ بھی کروالیا۔

            اٹھارہ برس جیسے پل جھپکتے گزرگئے۔امی اورخالہ کے بالوں میں چاندی کے تار جھلملانے لگے تھے۔ ایک خوبصورت شام سادہ سی تقریب میں زرمینہ میری دلہن بنی اورخالہ برکت کا گھر چھوڑ کر امی کاآنگن آبادکرلیا۔بیٹی کی شادی سے سبکدوش ہونے کی خوشی تھی یاگھرکی ویرانی کاغم،دوسرے دن کاسورج انہیں دیکھنانصیب نہ ہوا۔رات کے کسی پہردونوں میاں بیوی خاموشی سے اپنے رب کے حضورپہنچ گئے۔دوسرے دن ولیمہ سے ذراپہلے انہیں ان کی آخری منزل پہنچادیاگیااورپہلوبہ پہلو ان کی آرام گاہ بنادی گئی۔ ابوکئی برس قبل اچانک دورہ ئ قلب سے جاں بحق ہوگئے تھے۔امی نے شایدزرمینہ کواپنے گھرکااجالابنانے کے لیے چندسانسیں رب کائنات سے مستعارلے رکھی تھیں۔دن ہفتے،مہینوں میں بدلے اورایک برس گزرگیا۔امی کی دلی خواہش میرے آنگن میں کسی نئے مہمان کی آمدکی تھی جوپوری نہ ہوسکی۔یہ ارمان دل میں لیے وہ گھرآنگن کوویران کرگئیں۔ان کے انتقال کے چندماہ بعدہی ڈاکٹروں نے زرمینہ کے ماں بننے کی نوید دی۔مجھے باپ بننے کی خوشی بھی تھی اوردل میں ایک کسک بھی کہ کاش امی زندہ ہوتیں۔شاید یہ ان کی قسمت میں نہیں تھا۔اب ہم دونوں اس بھرے پُرے گھرمیں تنہارہ گئے تھے۔مجھے ایک پرائمری اسکول میں ملازمت مل گئی تھی جوپڑوس کے گاؤں میں تھا۔تنخواہ زیادہ تونہ تھی پھربھی ہم دونوں اس میں ہنسی خوشی گزاراکررہے تھے۔

            زچگی سے چنددنوں قبل زرمینہ کوہسپتال میں داخل کراناپڑا۔اس دوران میراایک قدم اسکول میں اور دوسراہسپتا ل میں رہتا۔کیاکرتا؟کوئی آگے پیچھے تھابھی نہیں جواس مشکل گھڑی میں ساتھ دیتا۔وقت مقررہ پہ جب نرس نے مجھے باپ بننے کی خوشخبری سنائی اورایک ننھی منی سی گڑیامیری گودمیں لاکررکھ دی تومجھے ایسالگاجیسے میراوجودمکمل ہوگیاہے۔یہ ننھی کلی ہمارے چمن میں کھلی توزندگی میں بہارآگئی۔ہم دونوں نے مشترکہ طورپرایک دوسرے کی تجویزسے اتفاق کرتے ہوئے اس کانا م ’کشمالہ گل‘ رکھا۔ اتنابڑانام پکارنامشکل تھا،سودونوں اسے گڑیاکہہ کربلاتے تھے۔ اسپتال سے گھرآکرصفائی مہم میں سرخروہوکرہم دونوں تھکے ہارے بستر پہ گرے تواپناہوش ہی نہ رہا۔گڑیاکے رونے کی آواز پہ دونوں ہڑبڑاکراُٹھ بیٹھے۔چندمنٹوں کی نیندنے کچھ حدتک تھکان کاازالہ کردیا تھا۔

            اگلے دن صبح کمرے میں بکھرے تنکے دیکھ کرمجھے حیرت ہوئی۔اسپتال جاتے ہوئے شاید روشن دان بندکرنایادنہ رہاتھاجس کے نتیجہ میں گردوغباراورتنکوں نے یہا ں اڈہ جمالیاتھا۔میں نے مطالعہ گاہ سے کرسی لاکراپنے بیڈکے پاس رکھی اوراسٹول رکھ کرروشن دان کوہاتھ بڑھاکربندکرنے کی کوشش کرنے لگا۔یہ دیکھ کرمجھے حیرانی ہوئی کہ وہاں ایک گوریانے اپنا گھونسلہ بنا رکھاہے جس میں دوتین انڈے بھی موجودہیں۔میں نے اپناارادہ ترک کرتے ہوئے روشن دان  بندکرنے کاخیال دل سے نکال دیا۔مجھے وہاں موجوددیکھ کرگوریاخوف ز دہ ہوگئی تھی کہ شایداس کاآشیانہ اجڑنے والاہے۔کرسی اوراسٹول ہٹاتے دیکھ کروہ واپس انڈوں پہ جاکر بیٹھ گئی۔تبھی زرمینہ کمرے میں آگئی۔اسے بھی حالات کااندازہ ہوگیاتھا۔اسٹول اورکرسی کومقررہ جگہ رکھنے میں اس نے میری مدد کی۔میرا اسکو ل جانے کاوقت قریب آرہاتھا،سوجلد ی سے غسل خانہ میں داخل ہوگیا۔غسل سے فراغت کے بعدآملیٹ اورگرماگرم روٹیاں ناشتے کی میز پہ میری منتظرتھیں۔یہ روزکامعمول تھاجس میں کسی قسم کی تبدیلی نہیں آئی تھی۔

            دیوارگیرکیلنڈر کے صفحات بدلے اورکئی کیلنڈ ر تبدیل ہوگئے۔ گڑیااب بڑی ہوگئی تھی۔ پہلے اس نے پاؤں پاؤں چلناشروع کیا،پھرمیزکرسی کاسہارالے کراپنے پاؤں پہ کھڑی ہونے لگی۔ایک وقت وہ بھی آیاکہ وہ کسی سہارے کے بغیرگھربھرمیں دوڑنے لگی تھی۔میں نے اسے اسکول میں داخل کرادیا۔اس دوران چڑیااس گھرکی باقاعدہ فردبن گئی تھی۔زرمینہ اس کے لیے چاول کے کچے پکے دانے آنگن میں بکھیردیتی،وہ خاموشی سے اپنے گھونسلے سے نکلتی اوردانہ چگنے لگتی۔اس کے انڈوں سے بچے بھی نکلے جو اپنی راہ بناکرنئے مسکن کے راہی بن گئے۔ابتدامیں گڑیاجب پاؤں پاؤں چلتی تھی تب چڑیااس سے کچھ دوری پہ بیٹھ کراسے اپنے پاس آنے کی دعوت دیتی۔جوں ہی گڑیااس کے نزدیک آتی وہ اُڑکرتھوڑااوردورچلی جاتی۔یوں آنکھ مچولی کھیل کروہ گڑیاکادل بہلاتی تھی۔ گڑیا تھوڑی بڑی ہوگئی توچڑیا اس کے شانوں پہ بیٹھ جاتی۔اس پروہ زورسے چلّاتی۔’امی دیکھوچڑیامجھے دبارہی ہے‘۔زرمینہ دوڑ کرآتی اوراس کی حرکت پہ قہقہہ لگاکرلوٹ پوٹ ہوجاتی۔ بھلاچڑیاکے بوجھ سے بھی کوئی دب سکتاہے؟بچپن کی یہ معصومیت ہی تواس عہدکاحسن ہے جودوبارہ کبھی نہیں ملتی۔اسکول سے کالج کاسفرگڑیانے طے کیاتوزرمینہ کواس کی شادی کی فکردامن گیرہونے لگی۔مہنگائی کے سبب تنخواہ مہینہ ختم ہونے سے پہلے ہی غائب ہوجاتی تھی۔ناشتے کی میز پہ جب زرمینہ نے اس کااحساس دلایاتومجھے بھی مستقبل کے خدشات گھیرنے لگے۔ بچت کیے بغیرگڑیاکی شادی کے معاملات سے نمٹناآسان نہ تھا۔یہ تنخواہ ناکافی تھی جوصرف گھریلواخراجات کی تکمیل کرسکتی تھی۔

            ایک دن ہم دونوں سرجوڑکربیٹھے تو کافی غوروخوض کے بعد اس نتیجہ پرپہنچے کہ مجھے اس تنخواہ پرقناعت کرنے کے بجائے دوسراراستہ اختیارکرناچاہیے۔زرمینہ نے رائے دی کہ کسی ایجنٹ سے بات کرکے خلیجی ممالک میں تدریس کے لیے کوشش کریں۔اس کامشورہ درست تھا۔میں نے اپنے جاننے والے ایجنٹ سے بات کی،اس نے ایک لاکھ میں ٹکٹ، ویزااوراسکول میں تدریس کے یقینی بنانے کی ذمہ داری لے لی۔یہ مسئلہ امی کے آڑے وقتوں کے لیے بچاکررکھی گئی رقم اورزرمینہ کے زیورات کی فروخت سے حل ہوگیا۔میں ملازمت سے مستعفی ہوکر پردیس جانے کی تیاری کرنے لگا۔گڑیااپنی تعلیم میں مگن تھی،اسے خبرہی نہ ہوئی کہ میرا پردیس کے لیے رخت سفرباندھنے کالمحہ قریب آپہنچاہے۔روانگی کے دن زرمینہ اورگڑیادونوں میرے شانوں سے لگ کرروپڑیں۔زرمینہ کوحالات کابخوبی اندازہ تھااسی لیے اس نے مجھے روکنے کی کوشش نہ کی،بس خاموشی سے آنسوبہاتی رہی۔گڑیاکاحال مختلف تھا۔وہ نہیں چاہتی تھی کہ میں اسے چھوڑ کراتنی دورجاؤں۔اس نے اخراجات کی بھرپائی کے لیے ٹیوشن کرنے اورکوچنگ کلاس میں بچوں کوپڑھانے کی تجویز بھی رکھی۔یہ تجویز معقول تھی،لیکن میرے خوابوں میں رنگ بھرنے کے لیے ناکافی تھی۔ روانہ ہوتے وقت ننھی چڑیابھی آکرمیرے سرپہ بیٹھ گئی تھی۔اس نے چوں چوں کانغمہ سنانے کے بجائے مکمل خاموشی اختیارکررکھی تھی۔شایداسے بھی میرے جانے کاغم تھاجس کا اظہار وہ خاموش رہ کے کررہی تھی۔

            پردیس میں چھ سال تیز ی سے گزرگئے۔اس دوران اتنی بچت ہوگئی تھی کہ گھرآکرکوئی کاروبار کیا جا سکے اورگڑیاکی شادی کی ذمہ داریاں بھی بحسن وخوبی اداکی جاسکیں۔میں نے اسکول کے منتظمین کواپنااستعفیٰ پیش کیااورپردیس کوہمیشہ کے لیے خیرباد کہہ دیا۔گھرپہنچاتومحبتوں کی انمول کائنات زرمینہ اورگڑیامیری منتظرتھیں۔گڑیامجھ سے لپٹ کردیرتک روتی رہی۔’باباآپ کو پتہ ہے،ان پانچ برسوں میں آ پ کومیں نے کتنایادکیا۔جب بھی ہاتھ اُٹھے یہی دعالب پہ آئی کہ باباہمیشہ میرے ساتھ رہیں۔آج میری ساری دعائیں قبول ہوگئیں۔میرے بابامیرے پاس آگئے‘۔ چڑیاکی چوں چوں سے میرادھیان بٹ گیا۔روشن دان  پہ موجود ننھی چڑیا اپنی خوشی کااظہارکررہی تھی۔

            زرمینہ نے اپنی کسی دُورکی عزیزہ کے بیٹے سے کشمالہ کی شادی طے کردی تھی۔تمام ترکوائف اس نے میرے سامنے رکھ دیے جوتسلی بخش تھے۔میں نے فوری مہراثبات لگادی۔جب زرمینہ نے اسے اس رشتہ سے آگاہ کیاتواس نے خاموشی سے سرجھکادیا۔میں نے اسے چھیڑا۔’اب ہماری گڑیااپنے گُڈّے کے پاس چلی جائے گی۔بیٹیاں توآنگن کی چڑیاں ہوتی ہیں جوکچھ دن چہچہاکررونق بکھیرتی ہیں اورپھرایک نیا آشیانہ بسانے چل پڑتی ہیں۔ہرلڑکی اپنے والدین کاگھرچھوڑکرایک نئے گھرکی بنیادرکھتی ہے۔ یہی دستوردنیاہے جسے نبھاناپڑتاہے۔تمہاری امی بھی ایک دن اپنی امی کواکیلاچھوڑکریہاں آئی تھیں۔زندگی یوں ہی چلتی رہتی ہے،کبھی اکیلے توکبھی مل جل کر۔ یقینا میری بیٹی اپنے والدین کاسرنیچانہیں ہونے دے گی۔‘وہ مجھ سے لپٹ گئی۔’باباکیاآپ کواپنی بیٹی پہ بھروسہ نہیں‘۔

            گھرمیں شادی کے ہنگامے جاگ اُٹھے۔محلے پڑوس کی عورتوں اورکشمالہ کی سہیلیوں نے اپنا کردار بخوبی نبھایا۔دلہن بنی کشمالہ گل بے حدپیاری لگ رہی تھی۔نکاح کے دوبول کے بعدو ہ پرائی ہوگئی۔رخصتی کے وقت وہ ماں سے لپٹ کر رو پڑی۔’امی! یہ کیسی رسم ہے کہ ایک بیٹی اپنے گھررہ بھی نہیں سکتی،اسے دوسرے گھربھیج کرہی سکو ن کی سانس لی جاتی ہے‘۔’ہاں بیٹی! یہی دستور زندگی ہے جس پرہرماں باپ کوعمل کرتے ہوئے بیٹی کونئے گھربھیجناپڑتاہے‘۔ میری آوازبھیگنے لگی تھی۔’باباآپ رو رہے ہیں۔ مجھے روتے ہوئے بابااچھے نہیں لگتے‘۔اسے گاڑی میں بٹھاتے ہوئے سارامنظردھندلاسالگنے لگا۔شایدجدائی کے درد نے آنکھوں میں بسیراکرلیاتھا۔کارچل پڑی توننھی چڑیااسے دورتک رخصت کرنے کے لیے محوپروازہوگئی۔کہیں دورریڈیوپہ ابھرنے والا نغمہ فضاؤں میں تیر رہاتھا۔’بابل تیرے انگناکی میں ہوں ایک چڑیارے، رات بھربسیراہے، صبح اُڑ جاناہے‘۔

دسمبر 2019

مزید

حالیہ شمارہ

امتیازی سلوک کے خلاف منظم جدو جہد کی ضرورت

شمارہ پڑھیں

فلسطینی مزاحمت

شمارہ پڑھیں