یہ لڑائی ہندوستانی فرقہ پرستوں کے خلاف لڑی جارہی ہے

ایڈمن

محمدفراز احمد علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں 2 مئی کو ہوا واقعہ انتہائی شرمناک اور ملک کے امن و امان کی دھجیاں اڑانے والا واقعہ ہے، یہ واقعہ کوئی عام واقعہ نہیں ہے کہ اس پر سے سرسری گزرجایا جائے،…

محمدفراز احمد

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں 2 مئی کو ہوا واقعہ انتہائی شرمناک اور ملک کے امن و امان کی دھجیاں اڑانے والا واقعہ ہے، یہ واقعہ کوئی عام واقعہ نہیں ہے کہ اس پر سے سرسری گزرجایا جائے، یہ انتہائی حساس اور قابل غور بات ہے کہ دن دھاڑے غنڈوں کی ٹولی مرکزی یونیورسٹی میں داخل ہوتی ہے اور سابق نائب صدر پر حملہ کی کوشش کرتی ہے. ہم سلام پیش کرتے ہیں ان علیگ برادری کو ساتھ ہی ان طلبہ تنظیموں اور تعلیمی اداروں کو جو گزشتہ 4 دنوں سے اس کے خلاف احتجاج کررہے ہیں. یہ احتجاج یہ بتانے کے لیے ہے کہ ہندوستان کسی کی جاگیر نہیں ہے کہ وہ آئے دن یہاں کی اقلیتوں، ان کے کردار اور تاریخ کو مسخ کرنے کی کوشش کرتے رہیں، بلکہ یہ ملک پورے ہندوستانیوں کا ورثہ ہے جسے تمام نے اپنے خون جگر سے سینچا ہے جس میں مسلمانوں نے سب سے زیادہ بڑھ چڑھ کر حصہ لیا.

جناب حامد انصاری صاحب پر حملہ کی کوشش کرنے والے آج آزاد گھوم رہے ہیں اور ان شر پسندوں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کرنے والے طلبہ پولیس کے ظلم و جبر کا شکار ہوئے ہیں، لیکن اس پورے معاملے کو جذباتیت سے ہٹ کر دیکھنے کی ضرورت ہے. حکومتی افراد کی طرف سے اس معاملے کو دوسرا رنگ دینے کی کوشش کی جارہی ہے جس کو رد کرنا اور حقیقت سے آگاہ کرانا ضروری ہے. یہ شر پسند عناصر کسی جناح کی تصویر کو نکالنے کا مطالبہ لے کر نہیں داخل ہوئے بلکہ ان کی منصوبہ بند سازش تھی کہ وہ سابق نائب صدر جمہوریہ پر حملہ کریں گے. لیکن بعد میں اس کو جناح کی تصویر کا معاملہ بتاکر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کو بدنام کرنے کی کوشش کی جارہی ہے.

اس پورے واقعہ سے جو باتیں نکل کر آتی ہیں وہ یہ ہے کہ اول تو اے ایم یو کا اقلیتی کردار حکومت کو ناپسند ہے جس کی وجہ سے وہ اس کو نشانہ بنا رہے ہیں، دوسرا یہ کہ طلبہ برادری جو کہ سوال کرنا جانتی ہے ان کے خلاف یہ لوگ مورچہ کھولے ہوئے ہیں کہ وہ ان کو ڈرا کر رکھیں اور سوال کرنے سے روکے رکھیں جس کی مثال HCU, JNU اور BHU ہے اور اب AMU اس کا نشانہ بنا ہے. تیسرا یہ کہ اس ملک کے مستقبل کو ابھی سے ہندو مسلم کے درمیان تفریق کرکے ان کے درمیان میں پرامن فضا کو ختم کرنا ہے اور ایک دوسرے کے خلاف زہر گھولنا ہے اور اپنی گدی برقرار رکھنا ہے، جس کی مثال سوشل میڈیا پر آئے دن ہندومسلم مباحثہ ہے جس میں نوجوان بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں، اس کا اور ایک فائدہ یہ بھی ہوتا ہے لوگ حقیقی مسائل سے ہٹ کر ان ہی معاملوں میں اپنا وقت ضائع کرتے ہیں.اس لیے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے طلبہ کا یہ احتجاج کرنا لازمی ہے اور اپنی قوت کا اظہار ضروری ہے.

یہ جنگ پاکستانی جناح کی تائید میں نہیں بلکہ ہندوستانی جناح کے خلاف ہے، پاکستانی جناح نے بھی ہندو مسلم تفریق کے ذریعہ پاکستان کو قائم کیا(اس میں صرف جناح ہی نہیں بلکہ بہت سارے کانگریسی اور آر ایس ایس کے افراد کا بھی ہاتھ ہے، یہ ایک طویل بحث ہے جس پر بہت ساری کتابیں لکھی جا چکی ہیں) اور آج “ہندوستانی جناح” دہشتگرد تنظیم آر ایس ایس اور اس کی دیگر شاخیں بھی ملک کو ہندومسلم کے نام پر بانٹ رہے ہیں جو کہ پاکستانی جناح سے کم نقصاندہ نہیں ہے اور یہ ہندوستانی جناح ملک کی سالمیت کے لئے شدید خطرہ ہے. پروفیسر فیضان مصطفی نے اپنے ایک ویڈیو میں بہت خوب کہا کہ “یہ ہندو شدت پسندوں نے جناح کو پھر سے زندہ کردیا ہے، میں نے آج تک جناح کی تصویر کو اے ایم یو طلبہ یونین کے ہال میں نہیں دیکھا لیکن یہ ہندو شدت پسندوں نے آج جناح کی تصویر کو ہر ہندوستانی اخبار میں چھپوادیا ہے”.

ہمیں چاہیے کہ اس لڑائی کو ہندومسلم لڑائی کے بجائے امن پسند اور آر ایس ایس کے خلاف لڑائی قرار دیں، کیونکہ اس جنگ میں صرف مسلمان نہیں ہیں بلکہ وہ غیر مسلم طلبہ بھی ہیں جو کھلی آنکھوں سے دیکھتے ہیں ان شدت پسندوں کی چالوں کو. ساتھ ہی اس معاملے کو جناح کہ تصویر کے معاملے سے ہٹا کر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی پر حملہ کی طرف توجہ مبذول کرواکر لیگل طریقے سے لڑائی جاری رکھیں. اللہ ان تمام نوجوانوں کی قربانیوں کو قبول فرمائے اور باطل کو نیست و نابود کردے “یقیناً باطل مٹنے کے لئے ہی آیا ہے”(القرآن)

حالیہ شمارے

براہیمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے

شمارہ پڑھیں

امتیازی سلوک کے خلاف منظم جدو جہد کی ضرورت

شمارہ پڑھیں