“یہ درگاہ تو ہندؤوں نے ہی بنوائ تھی اس درگاہ پر دھاگے بھی زیادہ تر وہی باندھتے تھے اور نذریں بھی وہیں مانتے تھے جانے یہ کس شری رام کے ماننے والے تھے جنہوں نے اس مزار کو برباد کیا ہے ہندو تو آج بھی میرے پاس آۓ تھے اور اس کو دوبارہ بنوانے کو کہ رہے تھے”.
یہ الفاظ ہیں بھجن پورا مزار کے متولی کے جو اس تباہ حال مزار کے پاس کھڑے ہوکر مزار کے متعلق بتا رہا تھا.
یہ وہی درگاہ ہے جس کی تصویریں بہت زیادہ وائرل ہو رہی ہیں اس سے متصل ہی دہلی پولس کی چوکی ہے جس پر “شانتی, سیوا, نیاۓ” مطلب “امن, خدمت, انصاف” لکھا ہوا ہے لیکن مزار کی تباہ حالی دیکھنے کے بعد یہ الفاظ محض الفاظ ہی لگتے ہیں.
یہ یاد دلا دوں کہ جلانے والوں نے مسجد بھی جلائ ہیں (ہر مسلک کی) اور مزار بھی جلاۓ ہیں مجھے اس موقعہ پر منٹو کے یہ الفاظ یاد آگے کہ ” میں اتنا مسلمان تو ہوں کہ دنگوں میں مارا جاسکوں”.
یاد رکھئے آپ کی عبادت گاہوں کو جلانے والا آپ کو صرف ایک نام سے جانتا ہے (مسلمان) خدارا آپ بھی اپنی ایک ہی پہچان رکھئے کہ آپ مسلمان ہیں صرف اور صرف مسلمان. میں نے ایک شہید کی گئ مسجد کے ذمہ دار سے پوچھ لیا کہ مسجد کس مسلک کی تھی؟ ان کے چہرے کی سلوٹوں نے بتایا کہ یہ سوال ان کو پسند نہیں آیا. میں نے دل میں سوچا کاش کہ ہم ہمیشہ سے مسلک کے سوال کو نکارتے ہوتے تو آج…
~فواز جاوید, لقمان, معاذ
ٹیم SIO DELHI