مضمون نگار: سعد بن اسلم
مترجم: عزیر احمد رنگریز
ہندوستان دنیا کا سب سے بڑا جمہوری ملک ہے. ہندوستان کل 28 ریاستوں اور 8 مرکزی زیرانتظام علاقوں پر مشتمل ہے جس میں کل 718 اضلاع ہیں . ہندوستان کے کچھ اضلاع زیادہ گنجان آبادی والے ہیں اور کچھ کم گنجان آبادی والے، کچھ اضلاع دنیا کے سرد اضلاع میں شمار ہوتے ہیں تو کچھ دنیا کے سب سے گرم علاقوں میں. ہندوستان میں ہر چیز کی مختلف اقسام پائی جاتی ہیں. ہر ضلع ملک کی معیشت میں منفرد انداز میں اپنا حصہ ادا کرتا ہے. ملکی سطح پر جو کچھ بھی ہوتا ہے اس کا اثر ہر ضلع میں نظر آتا ہے. لیکن ایک چیز جس کا سامنا ہر ضلع کو کرنا پڑا وہ تھا کووڈ وبا کا کرب. ویسے تو کووڈ وبا کے اثرات ہر جگہ نظر آرہے تھے لیکن دیہاتی علاقوں کے بالمقابل شہری علاقوں میں کووڈ وبا کے امراض زیادہ تیزی سے پھیلتے نظر آئے. اس وبا پر قابو پانے کے لئے ملکی سطح پر ظالمانہ لاک ڈاؤن لگایا گیا جس کی وجہ سے معاشی و تجارتی سرگرمیاں ٹھپ پڑ گئی جو ملک کی جی ڈی پی میں گراوٹ کا سبب بنا. جی ڈی پی میں گراوٹ اور بڑھوتری سالانہ طور پر نکالی جاتی ہے. مالی سال 2020-2021 کی جنوری تا مارچ کی سہ ماہی میں ہندوستان کی جی ڈی پی میں 1.6 فیصد کا اضافہ ہوا لیکن اس پورے مالی سال کے دوران 7.3 فیصد کی گراوٹ نظر آئی. گذشتہ چار دہائیوں میں یہ پہلی مرتبہ ہندوستان کی سالانہ معیشت میں کمی نظر آئی ۔اس سے قبل سن 1979-1980 میں ہندوستان کی معیشت میں 5.2 فیصد گراوٹ نظر آئی تھی۔
وزارت برائے شماریات اور نفاذ پروگرام کے بیان کے مطابق سال 2020-2021 میں جی ڈی پی کا تخمینہ 135.13 روپیے ٹریلین کی سطح تک پہنچنے کا ہے ، سال 2019-20 کے بالمقابل سال 2020-21 میں جی ڈی پی میں 7.3- (نفی) فیصد کا کل اضافہ ہوا جبکہ سال 2019-20 میں جی ڈی پی میں 4 فیصد کا کل اضافہ ہوا تھا۔ وزارت شماریات اور نفاذ پروگرام کے زیر انتظام تنظیم، نیشنل سیمپل سروے آرگنائزیشن (این ایس ایس او)،” برسرروزگار”کی اصطلاح اس طرح بیان کرتی ہے کہ ‘ لوگ جو کام کر رہے ہیں اور بے روزگار یعنی جو لوگ کام کی تلاش میں ہے یا کام کے لئے موجود ہے بے روزگاری کی شرح اس افرادی قوت کے فیصد سے طے کی جاتی ہے جو برسرروزگار نہیں ہے۔
بےروزگار کی شرح = (بے روزگار افراد / کل مزدوری قوت) × 100
ہندوستان میں درج ذیل 3 اکائیوں کی بنیاد پر بے روزگاری کو ناپا جاتا ہے۔معمول کی حیثیت کا پیمانہ، ہفتہ وار صورتحال کا پیمانہ ، اور یومیہ صورتحال کا پیمانہ۔
اپریل 2020 میں بےروزگاری کی شرح کل 24 فیصد تک پہنچ گئی. یہ ممکنہ طور پر افرادی قوت کی ضرورت نہ ہونے کے ساتھ ساتھ کمپنیوں کو درپیش افرادی قوت میں خلل کا نتیجہ تھا. آہستہ آہستہ صورتحال سنبھل رہی تھی اور بے روزگاری کا فیصد ایک عدد میں داخل ہو رہا تھا. لیکن مئی کے مہینے میں بےروزگاری کی شرح گذشتہ مہینوں کے مقابلے میں سب سے زیادہ 11.9 فیصد تک پہنچ چکی تھی. بے روزگاری کی شرح میں اضافہ دیہی اور شہری دونوں علاقوں میں ہو رہا ہے لیکن معمول کے خلاف شہری علاقوں میں بے روزگاری کی شرح دیہی علاقوں کے بالمقابل کافی زیادہ ہے. تشویش ناک بات یہ ہے کہ بے روزگاری کی شرح میں اس مستحکم اضافے کے نتیجے میں مئی کے دوران روزگار چلے جانے کا خدشہ ہوسکتا ہے ، کیونکہ روزگار کی تلاش میں لوگوں میں کوئی اضافہ نہیں ہوا ہے۔ پہلی کوویڈ لہر کے دوران ، جب ہر چیز کا انتظام مرکزی حکومت کے ذریعہ کیا گیا تھا اور پورے ملک میں لاک ڈاؤن لگا ہوا تھا ، اپریل سے جولائی 2020 کے دوران بے روزگاری نے سب سے زیادہ 15 سے 39 سال کے لوگوں کو متاثر کیا۔ جو افراد بے روزگار ہوئے ہیں ان میں 46 فیصد افراد صرف 25 سے 29 سال عمر کے افراد پر مشتمل ہے. روزگار میں مصروف لوگوں کی فیصد اپریل 2020 میں کم ہوکر 35 فیصد رہ گئی ، کیونکہ اس وقت بہت سے لوگوں کا روزگارچلا گیا تھا۔ البتہ دسمبر تک اس میں آہستہ آہستہ اضافہ ہوتے ہوئے یہ شرح 40.6 فیصد تک پہنچ گئی تھی. دوسری طرف دلچسپ بات یہ ہے کہ ، 40 سال یا اس سے زیادہ عمر کے ہندوستانیوں نے نو ملین کے قریب ملازمت حاصل کی۔ اپریل اور مئی 2020 میں ہندوستان میں کیے گئے ایک سروے کے مطابق ، شہری علاقوں میں لگ بھگ 87 فیصد Self Employed ملازمین نے کووڈ وبا کی وجہ سے اپنی ملازمت کھونے کا دعوی کیا ہے. ملک کے دیہی علاقوں میں عارضی ملازموں میں یہ سب سے زیادہ فیصد تھا. سروے کے دوران اس بات کا پتہ چلا کہ عمومی طور پر دیہی علاقوں کے بالمقابل شہری علاقوں میں زیادہ روزگار کا نقصان ہوا. کورونا وائرس اور لاک ڈاؤن کا سب سے زیادہ تباہ کن اثر معاشی طور پر پسماندہ طبقات پر ہوا. سماجی دوری (Social Distancing ) کی وجہ سے کئی ساری نوکریاں چلی گئی خصوصاً ہندوستان کے کم تنخواہ والے مزدوروں کی. متعدد گھرانوں نے گھریلو امدادی خدمات ختم کردی ، جو ایک طرح سے غیر منظم طور پر ماہانہ تنخواہ دینے والی نوکری کی طرح کام کرتا تھا.زیادہ تر ہندوستانیوں نے خود کو گھریلو کاموں میں مشغول کرنے میں بہت زیادہ وقت صرف کیا، جس کی وجہ سے یہ لاک ڈاون کی سب سے زیادہ مستعمل سرگرمی بن گئی. اور ساتھ ہی ہیلتھ کیئر اور دیگر وسائل تک محدود رسائی کی وجہ سے حالات مزید خراب ہو گئے. اس کے نتیجے میں حکومت نے ان گھرانوں کو برقرار رکھنے میں مدد کے لئے مختلف پروگراموں اور مہمات کا آغاز کیا. پردھان منتری غریب کلیان یوجنا کے ذریعے 312 بلین روپیے خرچ کیے گئے جس سے تقریباً 331 ملین لوگوں کو فائدہ پہنچا جس میں مرد، خواتین، کسان، تعمیری مزدور وغیرہ شامل ہے. اس مشکل وقت میں چھوٹے کاروباروں کو مدد کے لئے مئی کے مہینے میں حکومت کی جانب سے مزید مدد کا اعلان کیا گیا. دوسری کووڈ لہر کو پہلی لہر کی طرح نہیں دیکھا گیا کیونکہ اب ہندوستان کے پاس ٹیکہ (ویکسین) موجود تھا اور ساتھ ہی ملکی سطح پر کوئی لاک ڈاؤن بھی نہیں لگایا گیا تھا. لیکن سب سے بڑا مسئلہ اتنی بڑی آبادی کو ٹیکہ (ویکسین) لگانا تھا اور ساتھ ہی ملک کی تقریباً ریاستوں میں سخت لاک ڈاؤن لگا ہوا تھا. جبکہ اس سے قبل یہ توقع کی جارہی تھی کہ ہندوستان کی معیشت دیگر بڑے ملکوں کے بالمقابل تیزی سے آگے بڑھے گی. لیکن اس کے بر عکس دوسری کووڈ لہر نے معیشت کو شدید متاثر کیا. یہاں تک کہ ہمسایہ ملک بنگلہ دیش بھی فی کس آمدنی کے معاملے میں ہندوستان سے آگے نکل گیا ہے. کم فی کس آمدنی نہ صرف دولت مندوں اور غریبوں میں عدم مساوات کو ظاہر کرتی ہے بلکہ ہندوستان میں غربت کے عروج کو بھی نمایاں کرتی ہے. دوسری لہر کا ہندوستان کی معیشت پر تباہ کن اثر پڑا، خصوصاً غریب شہریوں اور چھوٹے کاروبار پر. یہاں تک کہ دیہی علاقے جو پہلی لہر کے دوران کسی حد تک محفوظ تھے اس مرتبہ سخت متاثر ہوئے. کوویڈ 19 کی دوسری لہر کے دوران بڑھتی ہوئی بے روزگاری سب سے بڑی معاشی تشویش کی حیثیت سے سامنے آئی ہے ، کیونکہ اس نے زیادہ تر غیر رسمی معیشت اور غریب گھرانوں کو متاثر کیا ہے۔اگرچہ اس بار ملک گیر لاک ڈاؤن کا اعلان نہیں کیا گیا تھا ، لیکن ریاستوں میں عائد مقامی پابندیوں نے چھوٹے کاروباروں اور ان کے ملازمین پر اتنے ہی تباہ کن اثرات مرتب کیے ہیں۔ممبئی میں واقع تھنک ٹینک ، ہندوستانی معیشت کی نگرانی کے مرکز(Center for monitoring Indian economy ) نے پہلے تصدیق کردی تھی کہ دوسری لہر کے دوران ایک کروڑ ہندوستانی ملازمت سے محروم ہوگئے ہیں اور تعداد اب بھی بڑھ رہی ہے. دوسری لہر کی وجہ سے ہیلتھ کیئر کے اخراجات میں تیزی سے اضافہ ہواہے اور ملک میں 97 فیصد گھر کم بچت کے ساتھ رہ گئے ہیں۔
کورونا وبا کی پہلی لہر نے بہت سارے لوگوں کو غربت کی سطح سے نیچے دھکیل دیا ہے اور وبا کی دوسری لہر صورتحال کو مزید خراب کر سکتی ہے ساتھ ہی لوگوں کے پاس جو رقم موجود ہے اس کوانہیں ہیلتھ کیئر میں صرف کرنا پڑا. ہندوستانی معیشت پر وبا کے اثرات دو سطح پر ہوئے ہیں. ایک قلیل مدتی اثر اور دوسرا طویل مدتی اثر. درجہ بندی اور تخمینوں میں تیزی سے کمی یہ تشویشناک ہے ، لیکن دیکھنے میں یہ آیا کہ دنیا بھر کی حکومتوں نے اس سنگین صورتحال کو مختلف طریقوں سے سنبھالا. ہندوستان اپنی پالیسی طے کرنے میں بدقسمت پایا گیا. لہٰذا کوئی شخص الزام کو ٹال نہیں سکتا۔دوسری کوویڈ لہر کے دوران طلب کی کمی اور صارفین کے جذبات میں کمی دو دیگر عوامل ہیں جو ہندوستان کی معاشی بحالی کو مشکل بنا دیں گے. لیکن سب سے بڑی پریشانی ہندوستان کے لیے طویل مدتی اثر ہے. موجودہ صورتحال بہت سنگین ہے اور یہ اچانک رونما ہوئی ہے. لیکن طویل مدتی اثر میں کچھ خطرات ہیں. طلب کی سست رفتاری اور صارفین کے اعتماد میں کمی کا مجموعہ معیشت کو نمایاں طور پر پٹری سے اتار سکتا ہے کیونکہ لوگوں کا صوابدیدی اشیاء پر خرچ شروع کرنے سے قبل طویل عرصے تک ہچکچاہٹ کا شکار رہنے کا امکان ہے۔ویکسین کی کمی اور تیسری کورونا وائرس کی لہر کے خوف سے شہریوں میں خوف بڑھ گیا ہے جو غیر یقینی صورتحال کی تیاری کے لیے مزید بچت کا امکان رکھتے ہیں۔دنیا بھر سے ہندوستان سے توقعات کم ہو رہے ہیں ، کیونکہ اکثریت کو لگتا ہے کہ ہندوستان اب اپنی بنیادی طاقتیں کھو چکا ہے۔ مابعد کوویڈ دور میں ہندوستان کے لیے بڑا موقع ڈیجیٹل تبدیلی (Digital Transformation ) میں ہے۔ موجودہ دور میں ٹکنالوجی میں واقع تبدیلی نے عالمی سطح پر نئے پلاٹ فارمس کو وجود میں لایا ہے. کلاؤڈ کمپیوٹنگ اور ڈیجیٹل ڈاٹا فلو میں موجود تبدیلی نے ہندوستان میں گزشتہ دو سالوں میں تقریباً 12000 نئے ڈیجیٹل ٹیک اسٹارٹ اپس کو وجود بخشا. نئے مواقع ان علاقوں میں ایسے پائے جاتے ہیں جیسے ڈاٹا سے چلنے والے قرضے اور انشورنس کی ادائیگی۔ان میں سے بہت سی ڈیجیٹل ایجادات ایک نئی قسم کی عالمگیریت (گلوبلائزیشن) کو وجود میں لائیں گے، جس میں مزدور کی تقسیم اور اس کے نتیجے میں خدمات آزادانہ طور پر ترقی یافتہ ممالک کی کمپنیوں سے ہندوستانی کمپنیوں میں منتقل ہو سکتی ہیں۔ کم اخراجات میں خلائی ٹکنالوجی میں ہندوستان کی بہترین کارکردگی دیگر ممالک کے لئے ایک بہترین موقع ہے کہ وہ ہندوستان کی مدد سے ایجوکیشنل سیٹلائٹ، گلوبل نیویگیشن چینل، براڈ بینڈ سپیکٹرم وغیرہ خلا میں لانچ کرسکتے ہیں. لیکن ایک عالمی کردار کی تعمیر کے لیے ، ہندوستانی کارپوریٹ سیکٹر کو کھلی جدت طرازی کے ماڈلز جیسے لائسنسنگ اور حکومتوں کے ساتھ کثیر جہتی شراکت داری اور سوشل انٹرپرینر کے نئی نسل کے ذریعے طاق ٹیکنالوجیز(Niche Technologies ) حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔ جدید ، مابعد کوویڈ معیشت کی تعمیر کے لیے ، حکومت اور کارپوریٹ رہنماؤں کو حکمت عملی کے ساتھ عالمی برانڈ کی پوزیشن تیار کرنی چاہیے اور عالمی مارکیٹ اور اختراعی ذہنیت کو اپنانا چاہیے۔ اس کے لیے ہندوستانی کارپوریٹ کمپنیوں کو تحقیق و ترقی اور تنظیمی ڈھانچے میں کافی سرمایہ کاری کرنے کی ضرورت ہوگی جو نئے حل ، کاروباری ماڈل اور نقطہ نظر کو روکتے ہیں۔