ہندوستانی طبقاتی سماج : چند قابل توجہ پہلو

ایڈمن

اسامہ اکرمانسانی سماج میں ہمیشہ سے ایک خاص گروہ کے ذریعہ اپنے مفاد ات کی غرض کے لئے ایسے محرکات پیدا کئےگئے ہیں جن کی بنیاد پر سماج کو کھڑا کیاجائے۔ جس میں ایک خاص طبقہ کو آرام دہ زندگی…

اسامہ اکرم

انسانی سماج میں ہمیشہ سے ایک خاص گروہ کے ذریعہ اپنے مفاد ات کی غرض کے لئے ایسے محرکات پیدا کئےگئے ہیں جن کی بنیاد پر سماج کو کھڑا کیاجائے۔ جس میں ایک خاص طبقہ کو آرام دہ زندگی میسر ہو اور دوسرے طبقات اس کی خدمت کرسکیں۔جیسے یورپ میں وائٹ سپریمیسی کا تصور، اسی طرح ہندوستانی سماج میں ذات پات کا نظام ویدک زمانہ میں برہمن طبقہ کے ذریعہ شروع کیا گیا۔ جس کی بناء پر دلت طبقہ پر ناانصافی اور ظلم کی ایک داستان کا آغاز ہوا۔ اور پھر ذات پات کا نظام ہندوستان کے سسٹم کا نا قابل فراموش حصہ بن گیا۔ مسلمانوں کا اپنے نظریہ کی بنیاد پر اور ہندوستانی سماج کا حصہ ہونے کی حیثیت سے اسے موضوع بحث بنانا، جائزہ لینا اور ان مسائل کے حل کے لئے جدوجہد کرنا ان کی اہم ذمہ داری ہے۔


ذات پات کا نظام انتہائی غیر معقول نظام ہے۔ ایک انسان صرف اپنی پیدائش کی بنیاد پر اچھوت کیسے تصور کیا جاسکتا ہے؟ اس کا ایک خاص گروہ یا ایک خاص بستی میں پیدا ہونا اسے قابل نفرت کیسے بناسکتا ہے؟ ایک انسان اپنی پہچان کی وجہ سے ظلم و زیادتی کا شکار ہوتا ہے۔ ذات پات کی بنیاد پر جب انسانوں کے درمیان تفریق کی گئی اس کے نتیجہ میں انہیں حقیر تصور کیا گیا۔ اور جسمانی اور ذہنی ہر قسم کی زیادتی کا شکار بنایا گیا۔ یہ نفرت، ظلم و زیادتی کچھ سالوں پہلے کی نہیں بلکہ صدیوں سے چلی آرہی داستان ہے۔ جو ہندوستان کی سماجی تاریخ کا اہم حصہ بن چکی ہے۔ اس لمبے عرصہ سے ہورہے ظلم و ناانصافی کے نتیجہ میں دلت /پسماندہ طبقہ سماجی ترقی کی دوڑ میں کہیں بہت پیچھے رہ گیا ہے۔ اس طبقہ کے حقوق کی بات کرنا اور اس کے لئے میدان عمل میں اترنا ہندوستانی سماج کی اصلاح اور مبنی بر انصاف ترقی کا تقاضہ ہے۔

طبقاتی نظام کو موضوع بحث بناتے ہوئے ان کے طویل المیعاد حل کے سلسلے میں کچھ وقتی پروگرام بنانا ضروری ہے۔ تاریخی طور پر پیچھے رہ گئے سماج کو ترقی کی دوڑ میں لانے کے لئے لازم ہے کہ ان کے لئے تعلیم، نوکریوں اور ایڈمنسٹریشن میں خاص تحفظات ہوں۔تاکہ اس سماج کا نوجوان طبقہ بنیادی تعلیم آسانی سے حاصل کرسکے ،اعلی تعلیم کے بھرپور مواقع حاصل ہوں اور اسے روزگار فراہم کیا جائے۔ ان سب کے مدنظر دلت اور دوسرے پسماندہ طبقات کے لئے ریزرویشن تجویز کیا گیا۔ یہاں سوال اٹھتا ہے کہ کیا ریزرویشن کوئی حل ہے؟

یہ بات تو صحیح ہے کہ ریزرویشن کوئی مستقل حل نہیں ہے بلکہ یہ مسئلہ کے حل کا ایک چھوٹا ذریعہ ہے۔ تمام انسانوں کو سماج میں یکساں مواقع حاصل ہوں، سماج کے ہر انسان کو تعلیم حاصل کرنے، روزگار حاصل کرنے اور سماج میں ترقی کرنے کی راہیں یکساں طور پر کھلی ہوئی ہوں یہ ایک مستقل حل ہے۔ لیکن یہ ریزرویشن کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ کیوں کہ یکساں مواقع کا حصول اسی وقت کارگر ہوگا جب سماج کے تمام ممبرس کی یکساں حالت ہو۔ مثلا کلاس میں کسی مسابقہ مضمون نویسی کا اعلان ہو۔ جس میں شرکت کرنے کے لئے دس روپیہ فیس طے کی جائے۔ اور انتظامیہ کے ذریعہ کہا جائے کہ تمام طلبہ کو یکساں مواقع ہیں کہ وہ انعام حاصل کرسکیں۔ لیکن وہاں وہ طلبہ بھی ہیں جو فیس ادا کرنے سے قاصر ہیں۔ جس کی بنا پر وہ طلبہ مسابقہ میں حصہ نہیں لے سکتے۔

ان طلبہ کا حصہ لینا اور مقابلہ کرنا اسی وقت ممکن ہے جب کہ ادائیگی فیس کی شرط نہ ہو۔ ایسی صورت میں آپ انتظامیہ کے یکساں مواقع” کے دعوے کو معقول گردانیں گے؟ یا ممبئی کی غریب بستی سے آنے والا اور ایک ہائی فائی اسکول سے تعلق رکھنے والے دو نوں طلبہ سے کہا جائے کہ آپ کے پاس آئی اےایس بننے کے یکساں مواقع ہیں۔ تو ایسی صورت حال میں “یکساں مواقع” کہنا مبنی بر انصاف ہوگا؟ مختصرا یہ کہ حالت کے یکساں ہونے کے بغیر مواقع کے یکساں ہونے کی بات غیر معقول ہے۔ اس کے ذریعہ نا انصافی کا خاتمہ نہیں بلکہ ناانصافی کا بڑھ جانا یقینی ہے۔ جس طریقہ سے برہمن ازم نے طبقاتی نظام کاتحفظ کیا اسی طرح طبقاتی نظام کے ذریعہ ہورہی ناانصافی سے نمٹنے کے لئے خصوصی رعایات اور مراعات کا حاصل ہونا لازمی ہے۔


بحیثیت امت مسلمہ اس بات کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ ہندوستانی سماج میں رہتے ہوئے ہم نے اپنے فرض منصبی کے سلسلے میں کیا کوششیں کیں؟ہم مظلوموں کے ساتھ کھڑے ہونے والے اور ان کی دادرسی کرنے والے لوگ ہیں۔ اور موجودہ ہندوستان میں ہماری اپنی اس پہچان کا کتنا تعارف ہوسکا ہے؟ آیا ہم صرف نری تنقید اور ان کی غلطیوں کی نشان دہی میں مصروف ہیں یا ان سے اظہار ہمدردی اور اظہار محبت کے جذبات بھی رکھتے ہیں؟ ہندوستانی مسلمان سماج کا مشاہدہ تو یہ بتاتا ہے کہ یہاں کے سماج کے زیر اثر مسلم سماج میں بھی ذات پات کسی حد تک داخل ہوچکا ہے۔ ان کا بھی صفائی کرنے والے دلت طبقہ سے کہیں نا کہیں دوری بنائے رکھنے کا رویہ ہے۔ خود مسلمانوں کے درمیان شادیوں کے سلسلے میں ڈھیروں مسائل ہیں جنہیں موضوع بحث بنانا چاہئے۔

مسلمانوں میں الگ الگ طبقات کی بنا پر ریزرویشن پر بھی سوچا جانا چاہئے۔ کیا مسلمانوں میں صرف مخصوص طبقہ کو ریزرویشن دینا (جب کہ مسلمانوں میں ذات پات کی نوعیت مختلف ہے) ان میں طبقاتی نظام کو مزید مضبوط نہیں کررہا ہے؟ جب کہ “انصاری سماج” اور”دوسرے مسلمانوں “کے درمیان سماجی معاشی اور سیاسی سطح پر بہت زیادہ فرق نہیں ہے۔ ہندوستان میں مسلمانوں کوریزرویشن بحیثیت مسلمان ملے، اس نقطہ پر بھی غور کیا جاسکتا ہے۔ مختصرا یہ کہ ہندوستانی سماج کی گہری سمجھ دورحاضر کی ضرورت ہے۔ صرف ‘ان اکرمکم عنداللہ اتقاکم کا بیان نہیں بلکہ اس کا عملی نمونہ مسلمانوں کو پیش کرنا ہوگا۔ نا انصافی پر مبنی اونچ نیچ کے اس نظام کے خلاف مہم کا آغاز کرنا ہوگا۔نوجوان اور طلبہ طبقہ کو اس پر غور و فکر کی دعوت دینا اور اس سلسلے میں گھر گھر تک پہنچنا اور لوگوں میں مساوات اور بھائی چارہ کی تعلیم کے تعلق سے تازہ بیداری کی ضرورت ہے۔


آخری پہلو یہ ہے کہ ہم دلت اور مظلوم طبقات کے ساتھ جدوجہد میں شریک ہوں لیکن اپنی پہچان ’’اخرجت للناس‘‘ کو تازہ کرتے رہنا ضروری ہے۔ ہمارا کام صرف اپنے حقوق کے لئے آواز اٹھانا نہیں ہے بلکہ ہم دوسروں کو حق اور انصاف دلانے والی امت ہیں۔ ہمارا ایمان ہے کہ خالق کائنات نے سب کو عزت اور شرف بخشا ہے ۔ اگر سماج میں کسی انسان کی عزت پامال کی جائے گی تو ہم اس کے ساتھ کھڑے ہوں گے۔ ہماری پہچان ایک داعی امت کی ہے۔ یہ جذبہ جب جب تازہ ہوگا احساس مظلومیت کا شکار ہونے سے ہم دور رہیں گے۔ اور احساس مظلومیت کے ساتھ کار دعوت تو بعید کچھ کونٹریبیوشن کی امید بھی نہیں کی جاسکتی ۔ اور داعی امت کی ذمہ داری ہے کہ سماج کی اصلاح کا کام کرے اور اپنا پیغام عام کرے۔

حالیہ شمارے

براہیمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے

شمارہ پڑھیں

امتیازی سلوک کے خلاف منظم جدو جہد کی ضرورت

شمارہ پڑھیں