ایس آئی او آف انڈیا کی سرگرمیوں کا ایک اہم مرکز ملک کے تعلیمی ادارے بھی ہیں، ان اداروں کے تعلق سے تنظیم کی ایک بہت ہی سوچی سمجھی پالیسی ہے، جس کے تحت تنظیم گزشتہ ۳۲؍سالوں سے ملک بھر کے کیمپسس میں سرگرم عمل ہے۔ الحمدللہ اس وقت ملک کے تعلیمی اداروں میں ایس آئی او آف انڈیا ایک معروف طلبہ تنظیم کے طور پر جانی جاتی ہے، ذیل کے صفحات میں تنظیم سے وابستہ کچھ ساتھیوں نے کیمپس میں جدوجہد کے تعلق سے اپنے احساسات اور مشورے پیش کئے ہیں، امید کہ ان سے استفادہ کیا جائے گا، اور یہ ہماری جدوجہد کو ایک نیا رخ دینے میں معاون ہوں گے۔۔۔۔۔ ادارہ
محمد سلمان احمد، کیمپس سکریٹری ایس آئی مہاراشٹر ساؤتھ
’ہمارا کیمپس ہماری جدوجہد‘ ، جب اس موضوع پر غوروفکر کرتے ہیں تو چند اہم سوالات سامنے آتے ہیں، اس مختصر تحریر میں کیمپس ایکٹوزم یا ہماری جدوجہد سے متعلق چند بنیادی سوالات پر غور کیا جائے گا:
(۱) کام کیوں کیا جائے؟ Why to work?) (
اگر تنظیم کے بنیادی مقصد اور مشن سے ہی سے متعلق شرح صدر حاصل نہ ہو تو کیمپس اور معاشرے کی تفریق ، نیز اُن میں کام کرنے کے انداز اور طریقے کا جاننا بہت زیادہ کارآمد نہیں ہے۔ اس لیے پہلا اور بنیادی سوال تنظیم کے بنیادی مقصد کو ماننا، جاننا اور اس پر اس بات کا مکمل یقین ہونا کہ اسی مقصد میں میری حقیقی وابدی کامرانی وکامیابی چھپی ہوئی ہے۔ اپنے مقصد پر یہ کامل یقین اور حصول مقصد کے لیے جدوجہد کے نتیجے میں رضائے الہی کے حصول کی توقع اور امید ہی کسی شخص کو جدوجہد پر ابھار سکتی ہے۔
(۲)کیمپس میں کام کیوں کیا جائے؟ (Why campus activism?)
بحیثیت خیرامت ہم پورے معاشرے میں الہی ہدایات کے مطابق تبدیلی اور انقلاب کے لیے جدوجہد کے مکلف ہیں، تو آخر ہم کیمپسس پر خصوصی توجہ کیوں دینا چاہتے ہیں۔ اس کی دو وجوہات ہیں:
(۱لف): کسی بھی انقلاب کی دو بنیادی ضروریات ہوتی ہیں، ایک تو وہ نظریہ جس کی بنیاد پر انقلاب برپا کیا جائے، اور دوسری وہ قوت جو اس انقلاب کے برپا کرنے کے لیے درکار ہے۔ یہ قوت علمی، فکری، نظریاتی اور عملی ہرسطح پر مطلوب ہے۔ دورحاضر میں اس قوت کا منبع ومرکز وہ کیمپس ہیں جو ملک کے طول وعرض میں پھیلے ہوئے ہیں، اور نوجوانوں اور طلبہ کی ذہن سازی میں مصروف ہیں۔
(ب): ایس آئی او بنیادی طور سے ایک طلبہ تنظیم ہے اور تحریک اسلامی کا ہراول دستہ ہے۔ اس اعتبار سے ہمارا اصل دائرہ کار تعلیم، تعلیمی ادارے اور طلبہ برادری ہے۔ اس لحاظ سے بھی کیمپس خصوصی توجہ کے مستحق ہیں۔
(۳) کام کا آغاز کیسے کیا جائے؟ (How to start with??)
اب اگر آپ تنظیم کے بنیادی مقصد سے مطمئن بھی ہیں اور کیمپس میں کام کی اہمیت بھی آپ پر واضح ہوگئی ہے تو اگلا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اِن کاموں کی شروعات کس طرح کی جائے۔ کیمپس میں ہمارے کاموں کا آغاز اللہ رب العزت کی ذات پر کامل ایمان اوراس کے بعد اپنے کیمپس کے تجزیے سے ہوگی۔ اپنے کیمپس کی خصوصیات، ضروریات، نیز وہاں موجود مواقع کے استحضار کے بغیر کی جانے والی منصوبہ بندی دیرپا اور بہت زیادہ کارگر نہیں ہوسکتی۔ اس ضمن میں کیمپس SWOT Analysis ضروری ہے، اس سے مراد ہیں:
(۱) قوت وخصوصیات (Strength)
(۲) کمزوریاں (Weakness)
(۳) مواقع (Opportunities)
(۴) خدشات اور اندیشے (Threats)
SWOT Analysis کس طرح کیا جائے اور اس کے لیے کیا کیا طریقے ہیں، یہ ایک تفصیل طلب موضوع ہے۔ ان شاء اللہ اس پر کبھی تفصیل سے گفتگو کی جائے گی، فی الحال اس بات کا سمجھ لینا ضروری ہے کہ ہمیں اپنے کیمپس اور اپنے کیڈر کی قوت اورخصوصیات کو جان کر ان کے مطابق وہاں موجود مواقع کا استعمال کرنا ہوگا، نیز نئے مواقع بنانے ہوں گے۔ ایک مومن کے لیے کائنات کی ہر چیز ایک Opportunity کی حیثیت رکھتی ہے، اور وہ وقوع پذیر ہونے والے ہر واقعہ کو منزل کی جانب قدم بڑھانے کا ایک ذریعہ بناتا ہے۔ اس کی بہترین مثال سیرت میں کوڑا پھینکنے والی بڑھیاکی عیادت کے لیے حضورؐ کا بذات خود تشریف لے جانا ہے۔ بظاہر یہ ایک Threat (خدشہ) تھا، لیکن آپؐ نے اس کو Opportunity میں تبدیل کردیا۔ اس طرح اپنے کیمپس اور وہاں کے حالات اور ضروریات کا صحیح ادراک ہمارے لیے ضروری ہے۔
(۴) کیا کام کیا جائے؟؟ (What to do??)
SWOT Analysis کے بعد اگلا مرحلہ منصوبہ بندی کا ہے کہ آخر کیا کام کیے جائیں۔ اس سوال کا جواب کیمپس کے SWOT Analysis کے نتیجے میں حاصل ہونے والی معلومات پر مشتمل ہے، لیکن یہاں کچھ بنیادی عملی کام جو تقریبا تمام کیمپسس میں کرنا ممکن ہے، ان پر توجہ دلائی جارہی ہے:
۱) ہر کیمپس کا ایک ذمہ دار طے کیا جائے، جو لازما اس کیمپس کا حصہ ہو۔
۲) مختلف کیمپسس کے لیے ان کے اکیڈمک شیڈول، اسٹریم، یونیورسٹی وغیرہ کے مطابق مختلف منصوبہ بندی کی جائے، اور مختلف اسٹریٹجیز اختیار کی جائیں۔
۳) کیمپس میں موجود وابستگان اپنے ذاتی ہمہ جہت ارتقاء پر خصوصی توجہ دیں اور اپنی ذات کو پورے کیمپس کے لیے معروف اور باعث رحمت بنائیں، اس ضمن میں ہر قسم کی فلاحی سرگرمی انجام دی جاسکتی ہے۔
۴) کیمپس میں ہرہفتہ یا پندرہ دن میں ایک بار وہاں موجود وابستگان کے ذریعہ ڈسکشن پروگرام کا انعقاد کیا جائے، جس میں اپنے قریبی دوستوں اور ذہین طلبہ کو بلا کر informal انداز میں مختلف موضوعات پر تبادلہ خیال کیا جائے، اور اس کے ذریعہ بنیادی ٹیم تیار کی جائے (Basic team development)۔
۵) اس بنیادی ٹیم کو ساتھ لے کر کیمپس میں وقتا فوقتا مختلف اشوز پر کام کیا جاسکتا ہے، نیز ہر دوماہ پر کم ازکم ایک دفعہ کوئی فلاحی سرگرمی انجام دی جائے، وال میگزین اور پوسٹر وغیرہ چسپاں کیے جائیں، سوشل نیٹ ورکنگ کے ذریعہ طلبہ کے گروپس بناکر انہیں اپنے ساتھ کیا جائے۔ نیز کیمپس کے باہر موجود یونٹس کے ذریعہ وقتا فوقتا کیمپس اسکواڈ ورک بھی کیا جائے۔
۶) طلبہ کے مسائل کے حل کو خصوصی ترجیح دی جائے اور مسائل کی نوعیت کے اعتبار سے ان کے حل کی کوشش کی جائے، نیز اس بات پر خصوصی توجہ ہو کہ ہم اپنی اس جدوجہد میں عام طلبہ کی وسیع تر شمولیت کو یقینی بنانے کی کوشش کریں گے۔
جب آپ ان تمام کاموں کو حکمت عملی کے ساتھ مستقل طور پر انجام دیں گے، تو آپ خود بخود طلبہ کی آواز بن کر ابھریں گے، آپ ایس آئی ا وکی جانب سے appointed campus secretaryکی جگہ طلبہ کی جانب سے selected campus secretary بنیں گے۔ پھر کیمپسس سے لے کر ہر جگہ آپ اپنی دعوت کو دنیا کے سامنے پیش کرنے میں کامیاب ہوں گے، اور اسی کے نتیجے میں وہ مقصد حاصل ہوگا، جس کا گفتگو کے آغاز میں ذکر کیا گیا۔
شارق انصر، سکریٹری ایس آئی او آف انڈیا نئی دہلی
ایس آئی او آف انڈیا کے قیام سے اب تک اگر ہم جائزہ لیں تو اس بات کا احساس ہوتا ہے کہ ہماری سرگرمیاں ابتداء سے ہی مسلم طلبہ اور نوجوا نوں پر ہی مرکوز رہی ہیں۔ شروعاتی دور میں ہم مسلم نوجوان اور طلبہ کے بیچ ہی محلہ ،قصبوں، اور عام مسلم علاقوں میں کام کوفوکس کرتے رہے ۔ شروعات سے ہی ہماری پہچان ایک مسلم طلبہ تنظیم کی رہی ہے۔ ہم نے ملت کے مسلم طلبہ ونوجوانوں کی بھرپور نمائندگی کی ہے۔اس دوران ملت کے مختلف اشوز اور مسائل پر دیگر ملی تنظیموں کے ساتھ مل کر آواز اٹھاتے رہے۔ شریعت بچاؤ مہم، جامعیہ ملیہ اسلامیہ کے اقلیتی کردار کی بحالی سے لے کر مسلم طلبہ و نوجوانوں کی گرفتاری پر ملک گیر احتجاج وغیرہ وغیرہ۔
تنظیم کے قیام کی دوسری دہائی میں کچھ الگ انداز سے پیش رفت ہوئی ۔ سال ۱۹۹۶ میں شمالی ہندوستان میں کام کی توسیع و استحکام کے پیش نظر شمالی ہند کانفرنس پٹنہ میں منعقد کی گئی۔ جس کی تشہیر کے لیے اور اس میں طلبہ کی شمولیت کو یقینی بنانے کے لئے بڑے پیمانے پر کیمپسس کا رخ کیا گیا۔ اس میقات کے دوران ہی شمالی ہند میں طلبائی ایکٹیوزم کی باضابطہ شروعات کی گئی۔ جنوبی ہندوستان میں اس سے قبل ہی کیمپس میں ہمارا نفوذ ہو چکا تھا، لیکن شمالی ہند میں اس دوران توجہ شروع ہوئی۔
سال ۲۰۰۲ کے بعد تنظیم کے طلبائی رخ اور کیمپس ایکٹیوزم کی باضابطہ شروعات ہوئی، لیکن شروعات سے لے کر اب تک ہمارا فوکس مسلم طلبہ، مسلم یا اقلیتی تعلیمی ادارے، تحریکی و مسلم اسکول، جونےئر کالج،ڈگری کالج،اور چند یونیورسیٹیوں ( جامعیہ ملیہ اسلامیہ، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، مولانا آزاد یونیورسٹی وغیرہ) میں ہمارے کام کا انداز محلہ کی یونیٹوں کی سرگرمیوں کے جیسا رہاہے۔ ہفتہ وار اجتماعات، تزکیہ میٹ، کیمپس لکچرس، فولڈر کی تقسیم،ٹی پارٹی وغیرہ۔ ہمارے زیادہ تر پروگرام داخلی نوعیت کے رہے۔
اس وقت تنظیم کے طلبائی رخ اختیار کرنے کی وجہ سے ہمارے کیڈر میں ۷۰؍ سے۸۰؍ فیصد طلبہ۲۰؍ سے ۲۵؍ سال کے آ رہے ہیں۔ یہ شرح خوش آئند ہے ۔ ہم کو اسے برقرار رکھنا چاہئے۔ یہی ایج گروپ ہے جو کیمپسس میں تنظیم کی نمائندگی کرتا ہے۔تنظیم میں آنے کے بعدان کی علمی اور فکری تیاری رُک سی جاتی ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان کا اسلام اوردیگر نظریات کا مطالعہ، تنظیمی سمجھ اور پختگی ،اپنے مقصد اور مشن سے گہرا لگاؤ اور کسی سے بغیر متأثر ہوئے لگاتار جدو جہد کرنے کی صلاحیت میں کمی پائی جاتی ہے۔ اس لئے کیمپس کی موجودہ ز بان میں اپنے فکر کی نشوونما بھی ضروری ہے، اور اپنے Work Styleکو بھی Redefineکرنے کی ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں افراد کی اکیڈمک تیاری کے ساتھ Creativityاور افراد کے مؤثر استعمال پر بھی غور ہونا چاہئے۔
ایس آئی او بنیادی طور پرایک نظریاتی طلبہ تنظیم ہے۔ اپنے نظریات کی بنیاد پرہماری تمام سرگرمیاں ہوتی تو ہیں، لیکن عام طالب علم کے بیچ ہم اس انداز سے متعارف نہیں ہو پاتے۔تنظیم نے تعلیمی اداروں میں نفوذ کچھ حد تک تو کر لیا ہے، لیکن ہمارے طلبہ ساتھی ہر کام کو تنظیمی فریم ورک میں ہی کرنے کے عادی ہیں۔ ان کا پرفارمنس، صلاحیت اور Exposerتنظیمی دائرے میں ہی ہوتا ہے۔ عام طلبہ کے بیچ اپنی پہچان طلبہ کے ایک نمائندے کی حیثیت سے نہیں بنا پاتے۔ایک فرد کی علمی ، فکری،تقریری، تحریری،انتظامی اور فنکارانہ صلاحیت کا اظہار جس شدت کے ساتھ تنظیمی دائرے میں ہوتا ہے ویسا کیمپسس یا عام طلبہ کے بیچ نہیں ہوتا۔ اپنے طلبہ کو اس انداز سے تربیت دینے کی کوشش کرنی چاہئے کہ وہ کیمپس کے مختلف مسائل کے ساتھ جڑے رہیں۔ ساتھ ہی ملک و سماج کے مختلف مسائل کو بھی موضوع بحث بنائیں۔ یہ بات واضح ہونی چاہئے کہ تنظیم پوری طلبہ برادری اور مکمل طلبائی سماج پر اثر انداز ہونے کے لئے ہے۔کیمپس میں ہم کچھ گوشوں اور کونوں میں کام کر مطمئن ہوجاتے ہیں۔ کیرلا اور بنگال کو چھوڑ کر ہم اب تک اس سے باہر نہیں آ سکے ہیں۔ اس سمت میں افراد تنظیم کی بہتر تیاری اور ان کومکمل Orientationدینے کا خاکہ بننا چاہئے۔
کیمپس میں کام کو مستحکم کرنے کا مقصد صرف ہنگامہ کھڑ اکرنا اور چند سرگرمیاں انجام دے لینا نہیں ہے، بلکہ تحریک اسلامی کی طلبہ تنظیم ہونے کی حیثیت سے اس کی کچھ اہم ضروریات کو پورا کرنا بھی ہے۔اس اعتبار سے علم اور تحقیق کا میدان ہمارے لئے خاصا اہم ہے۔اس سلسلے میں کچھ اجتماعی سطح پر اور کچھ افراد کی سطح پر ایک واضح ٹارگیٹ کے ساتھ کام کرنے کی ضرورت ہے۔ ملک کی بڑی یونیورسیٹیاں ہمارے ٹارگیٹ میں ہونی چاہئیں۔ وہاں کے مختلف شعبوں میں افراد کا داخلہ اور ان کی مکمل اسٹڈی ایک منصوبہ بند عمل کے تحت ہونی چاہئے۔ہم ایسی ۲۰؍ یونیورسیٹیز کو منتخب کرکے علمی افراد کی تیاری کا ایک مکمل خاکہ بنائیں ۔لیفٹ تنظیمی اعتبار سے بھلے کمزور ہوا ہے لیکن اس نے ایسے سیکڑوں افراد کی تیاری کا ایک مکمل خاکہ اپنے پاس رکھا ہے، جس کے ذریعہ علمی دنیا میں اپنی مضبوط پہچان بنا سکے۔ جے این یو میں لیفٹ اپنے پودھوں کو تیار کرنے کے لئے نہ صرف وہاں کے اپنے احباب ( پروفیسر و طلبہ) کو لگائے رکھتا ہے بلکہ پارٹی کی سطح پر بھی ایک فرد مکمل طور پر اس کی نگرانی کرتا ہے۔ اکیڈمک افراد کی تیاری ، رہنمائی اور ان کے نشوونما کی کوشش ہمارے کیمپس ورک کا فوکس ہونی چاہئے۔یہ ہمارے لئے اور تحریک اسلامی کے مستقبل کے لئے بھی اہم ہے۔ اس سلسلے میں ہمیں سنجیدگی سے ایک مکمل خاکہ بنانا چاہئے۔
ملک میں ۲۲۰۰۰؍ سے زائد کالج اور تقریباََ۶۰۰ یونیورسیٹیز ہیں۔ پرائیویٹ تعلیمی اداروں کی تعداد بھی ہزاروں میں ہے۔ کیمپس در اصل معاشرے کا ایک پاور سینٹر ہوتا ہے۔ ملک کے ذہین ترین افراد کی تیاری یہیں سے ہوتی ہے۔ اسی لئے کہا جاتا ہے کہ اگر ملک کو ترقی کرنی ہے تو ان پاور سنٹرس پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
کیمپس میں Physical Activismسے کہیں زیادہ علم اور تحقیق کے مواقع ہیں، ہم نے اس Spaceکا استعمال مؤثر طریقے سے نہیں کیا ہے۔ Research Scholar Forum of Indiaکے طور پر ایک شروعات کی گئی لیکن وہ سلسلہ مضبوتی سے آگے نہیں بڑھ سکا ہے۔ دیگر تحریکات ملک گیر سطح پر و عالمی سطح پر اس پر خاصی توجہ دیتی ہیں لیکن ہم نے اس میدان میں پیش رفت تو کی ہے لیکن اس کو منظم نہیں کر سکے ہیں،البتہ کیرلہ کی جماعت اور ایس آئی او نے اس سمت میں اچھی کوششیں کی ہیں۔ جہاں ایک طرف Physical Activismدیکھنے کو ملتا ہے وہیں Intellectual Activistکی تیاری کی بھی منظم کوششیں ہو رہی ہے، ہمیں اس پہلو پر غور کرنا چاہئے۔
حالیہ انتخابی نتائج نے ہمارے لئے کئی طرح کے چیلنجزپیدا کر دیئے ہیں۔ ماضی میں طلبہ، تعلیم اور تعلیمی اداروں کو جس طرحd Safforniseاور Communalised کرنے کی کوششیں کی جا تی رہی ہیں، اور اس کے دورس اثرات دیکھنے کو ملے ہیں اس پر بھی ہمیں غور کرکے کوئی لائحہ عمل تیار کرنا چاہئے۔ کیونکہ یہ کامیابی صرف ایک پارٹی یا گروپ کی کامیابی نہیں ہے، بلکہ ایک منظم قوت کے ملک بھر میں پھیلے پورے نیٹ ورک کی کامیابی ہے۔ملک کے Intellectualطبقے اور اس نظریے کے حامی طلبہ نے اس میں اہم رول ادا کیا ہے۔ موجودہ سیاسی حا لات کے پیش نظر کیمپسس میں سیاسی سرگرمیاں بھر پور طریقے سے دیکھنے کو مل رہی ہے۔ موجودہ حالات اور چیلنجز کا سنجیدگی سے مقابلہ کرنے کے لئے اپنے افراد کی اکیڈمک اور سیاسی تربیت بھی ضروری ہے۔اس سلسلے میں چند امور توجہ طلب ہیں:
۱) مسلم طلبہ تنظیم کے اس خول سے ہمیں باہر نکلنا چاہئے، عام طلبہ کے لئے ہمیں اپنے دروازے کھولنے چاہئیں۔ اس سلسلے میں تنظیم اپنی پالیسی عام طلبہ کے لئے تو بناتی ہے، لیکن ہماری سرگرمیاں، ورک اسٹائیل، شرکاءTarget Audience میں عام طلبہ کے لئے مواد موجود نہیں رہتا۔ عام طلبہ کے اشوز کو ہمیں مؤثر طریقے سے اٹھانے کی ضرورت ہے۔ہمارے تنظیمی کلچر کو عام طلبہ کے لئے دلچسپ بنانے کی ضرورت ہے۔
۲) فورمس کا قیام ایک بہتر کوشش تھی اس کے بہتر نتائج آ سکتے ہیں، لیکن اس کے اسٹرکچر اور دیگر Technical Issue کی وجہ سے وہ کامیاب نہیں ہو سکا ہے، کیمپس میں ہمیں مختلف فورمس بنا کر عام طلبہ کے ساتھ بھی اپنی سرگرمیاں کرنی چاہئے۔ کیمپس کی سطح پر عام طلبہ کے علاوہ طالبات کو بھی اپنی سرگرمیوں کے علاوہ مختلف فورمس میں شامل کرانا چاہئے۔
۳) کیمپس زون کے پورے اسٹرکچر پر از سر نو غور کرنے کی ضرورت ہے۔( اس سلسلے میں مکمل اسٹڈی کے بعد اسےRe- Structured کرنا چاہئے)۔
۴) سینٹرل یونیورسیٹیز اور بڑی یونیور سیٹیز( جو مرکزی یونیورسیٹیز نہیں ہیں، جیسے، ممبئی یونیورسیٹی، عثمانیہ یونیورسٹی، پٹنہ یونیورسٹی، اور لکھنؤ یونیورسٹی وغیرہ) کو تنظیمی سطح پر جوڑاجائے ، وہاں کے لئے اچھے پرگرام اور بڑے اشوز کو Identifyکرکے مکمل تحریک چلائی جائے، مثال کے طور پر ممبئی یونیورسیٹی کو مرکزی یونیورسیٹی کا درجہ دلانے کے لیے ایک مکمل تحریک کا خاکہ تیار کیا جائے۔ اس سلسلے میں ایک تحقیقاتی رپورٹ کی تیاری ہو جس میں اس بات کا جائزہ لیا جائے کہ گزشتہ کئی سالوں میں یونیورسٹی میں تعلیمی گراوٹ، امتحانات اور نتائج میں دھاندلی ، تعلیمی سیشن میں تاخیر، طلبہ کی بنیادی ضرورتوں کا فقدان، اکیڈمک کرپشن وغیرہ، اس سلسلے میں سروے، دستخط مہم، RTIکا استعمال وغیرہ کے ذریعہ مکمل تیاری کے ساتھ عام طلبہ و اساتذہ کو لے کر مکمل تحریک چلائی جا سکتی ہے، یہ کام دیگر بڑے کیمپسس میں بھی کیا جا سکتا ہے، تاکہ ایک وقت میں پورے ملک کی بڑی یونیورسیٹیوں کے نیٹ ورک کا بہتر استعمال کیا جا سکے۔
۵) اوپن یونیورسیٹیز اور Virtual Campusکے لئے بھی ہمیں کوششیں کرنی چاہئیں۔وہاں کے طلبہ کے لئے Online Guidanceکی کوششیں کی جا سکتی ہے۔
۶) ملک کے بڑے کیمپسس کو سامنے رکھتے ہو ئے کیمپس کے لئے ایک الگ پالیسی بنانے کی ضرورت ہے۔( سماجی علوم کے کیمپس، انجنےئرنگ، میڈیکل، مینجمنٹ کالجز کے لئے خاص پالیسی بنائی جائے)
۷) دیگر امن پسند تنظیموں، گروپس ، تعلیم اور تعلیمی اداروں میں کام کرنے والی تحریکات کے ساتھ مل کر تعلیم اور طلبہ کے لئے جدو جہدکا کلچر پروان چڑھانے کی ضرورت ہے۔عام پچھڑے اور دبے کچلے دلت اور آدی واسیوں کے مسائل کو بھی اٹھایا جائے۔ہمارا Work CultureبالکلInclusiveہو۔
۸) مختلف تعلیمی گروپس یا کالج یونیورسیٹیز کے شعبہ جات کے ساتھ مل کر اکیڈمک پروگرامس کیے جائیں۔( کرناٹک زون اور یونیورسیٹی آف میسورUniversity of Mysoreکے اشتراک سے تعلیمی کانفرنس ایک بہتر شروعات ہے)
۹) ہم کیمپس،طلبہ اور تعلیم کے مسائل کو حل کرنے یا اس کوحل کروانے کے لئے مہم سے آگے بڑھ کرہر سطح پرلگاتار تحریک چلانے اوربہت ہی فعال انداز میں کام کرنے کی ضرورت ہے۔ (دہلی یونیورسیٹی کے چار سالہ ڈگری کورسFYUP کے مسئلے پر لگاتار ایک سال سے طلبہ تحریکات کی جدوجہد بہترین مثال ہے)
۱۰) ہمارے مرکز سے حلقہ کی سطح تک تمام ذمہ داران کسی نہ کسی تعلیمی ادارے میں زیر تعلیم رہیں ۔ بحیثیت طالب علم ایک طلبہ تنظیم میں نمائندگی کریں۔تعلیمی سلسلہ(Regular Distance, یا Online Coursکسی میں بھی جاری رکھا جا سکتا ہے۔
۱۱) اپنے افراد کا داخلہ Targetted Universitiesمیں کرانے کی ضرورت ہے۔ خصوصی طور پر شمالی ہند کے طلبہ کے لئے مکمل رہنمائی اور ان کی مدد کے ذریعہ ہم بڑے تعلیمی اداروں کو ٹارگیٹ کریں۔ کیرلا میں جس تیزی سے مرکزی یونیورسیٹیز میں اپنے افراد کے داخلے اور مکمل رہنمائی کی کوشش کی گئی ہے وہ قابل قدر ہے، ایسی کوششیں دیگر ریاستوں میں بھی کرنے کی ضرورت ہے۔
سید احمد مذکر، چنئی
آج کل طلبہ کئی ایک سنگین مسائل سے دوچار ہیں، جن میں کریئرزم، کنزیومرزم، مادہ پرستی، مغرب کی فکری وثقافتی یلغار نمایاں ہیں۔ اس صورت حال میں ایس آئی او آف انڈیا کا کیا کردار ہونا چاہئے، ایک اہم سوال ہے۔
گزشتہ چند میقاتوں سے ایس آئی او کی کیمپس پالیسی میں creative campus اور طلبہ میں سیاسی شعور بیدار کرنے کی بات کہی گئی ہے۔ اس ضمن میں کیمپس پالیٹکس کو فروغ دینے کی بات بھی کی گئی ہے، لیکن ہمارے ملک کے سیاسی منظرنامہ کے پیش نظر یہ خدشہ لاحق ہوتا ہے کہ کیمپس پالیٹکس کے نتیجے میں طلبہ سیاسی جماعتوں، ان کے ایجنڈوں اور ان کی باہمی رسہ کشی کا شکار ہوکر رہ جائیں گے، چنانچہ اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔
دوسری طرف محض مخصوص اشوز پر سیاسی حس بیدار کرنے یا سیاسی طور پر حساس بنانے سے زیادہ من جملہ طور پر فکری حساسیت (intellectual sensitivity) پیدا کرنا زیادہ مناسب معلوم ہوتا ہے۔ اس سلسلے میں ایس آئی او کا کردار کافی اہم ہوجاتا ہے، کیونکہ ایس آئی او واضح اور مثبت فکر اور نصب العین کی حامل ہے۔ اس لیے اگر اس فکر کو طلبہ برادری کے درمیان متعارف اور عام کیا جائے تو نہ صرف طلبہ کا سیاسی شعور صحیح خطوط پر آجائے گا، بلکہ سماجی، ثقافتی، اقتصادی، فکری اور سب سے بڑھ کر زندگی کا صحیح اور مثبت تصور ان کو ملے گا، اور اس سے تحریک اسلامی کا ایجنڈہ سارے معاشرے پر اثرانداز ہوگا۔
کسی بھی کیمپس کے چار اہم اجزاء ہوتے ہیں، جن میں سے ہر ایک پر کام کرنے کی ضرورت ہے، اس تمام صورتحال کو پیش نظر رکھتے ہوئے ہمارے لائحہ عمل کے متعلق چند مشورے پیش ہیں:
(۱) ادارہ (Administration)
(۲)اساتذہ (Faculty)
(۳) نصاب(Syllabus)
(۴)طلبہ(students)
الف: نصاب(Syllabus) کے تعلق سے تو ایس آئی او اسلامی فلسفہ علم وتعلیم کو فروغ دینے کے لیے سرگرداں ہے۔
ب: ہم اپنا دائرہ اثر وسیع تر کریں۔ اس ضمن میں ہمارے رفقاء علم اور کردار میں طلبہ واساتذہ کی نظروں میں ممتاز مقام حاصل کریں۔ اس سے ان کا ذاتی حلقہ اثر پیدا ہوگا، جہاں وہ تنظیمی ایجنڈے کو آسانی سے فروغ دے سکیں گے۔
ج: ہم طلبہ برادری کے ساتھ گہرے روابط پیدا کریں، اور ان کے مسائل، ضروریات اور دلچسپیوں میں شامل ہوں، اور اثرانداز ہونے کی کوشش کریں۔ اثرانداز ہونے کے لیے شمولیت (Involvement) انمول موقع فراہم کرتی ہے۔
د: طلبہ میں فکری حساسیت بیدار کرنے کے لیے ان کی ہمہ جہت ترقی ناگزیر ہے، اس لیے رفقاء اپنے اپنے شعبوں میں مسابقتی پروگرامس میں، سیمینارس میں، کھیل وتفریح اور دوسری صلاحیتوں کو نکھارنے والی سرگرمیوں میں خود بھی حصہ لیں اور دوسروں کی بھی ہمت افزائی کریں۔
ہ: اساتذہ کے ساتھ درس؍ لکچرس کے علاوہ بھی مراسم رکھیں اور ان سے استفادہ کریں، اس سے اساتذہ کے درمیان ایک اچھا تأثر جائے گا۔
و: ادارے کے ساتھ طلبہ مثبت رویہ رکھیں اور تصادم کے بجائے (جیسا کہ عموماََ دیکھنے کو ملتا ہے) شمولیت کا طریقہ اختیار کریں۔ اس سے خود ادارے میں اثرورسوخ پیدا ہوگا، اور اس کے فیصلوں پر بھی اثرانداز ہونے کا موقع ملے گا۔
نجم الثاقب فلاحی، صدرحلقہ ایس آئی او یوپی سینٹرل
طلبہ تنظیم ہونے کے ناطے ہمارا اصل میدان کیمپس ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ ہر دور میں کچھ ایسے ادارے ہوتے جہاں ذہن سازی ہوتی ہے اس کے بعد اس خاص جگہ سے نکل کر کچھ تربیت یافتہ افراد سماج کی قیادت کرتے ہیں۔ آج کے دور میں یہ تعلیمی ادارے اس فریضہ کو انجام دے رہے ہیں۔ ہر دور میں جو قوتیں زیادہ طاقتور اور اثر انداز ہوتی ہیں، وہ اپنی ضرورتوں کے لحاظ سے اس طرح کے تعلیمی ادارے کا قیام اور اپنے مقاصد کے حصول کے لئے نظام تعلیم ترتیب دیتی ہیں۔ اس وقت پوری دنیا میں جو نظام تعلیم رائج ہے تھوڑے ردوبدل کے ساتھ عملاً وہی ہے جس کا ارتقاء اٹھارہویں صدی کے آغاز میںیورپ میں ہوا تھا۔ یہ نظام اس وقت کی دو بڑی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے ترتیب دیا گیا تھا۔ ایک صنعتی انقلاب کے لئے ہنر مند افراد کی تیاری، اور دوسرے نیشنلسٹ افراد کی تیاری، یعنی اس نصاب تعلیم کا مقصد چند اخلاقی اقدار پیدا کرنا تھااور نالج ورکرس۔ اس کانقصان یہ ہوا کہ ایک طالب علم ان انسانی بنیادی سوالوں کا جواب دینے سے قاصر رہا،جو اس دنیا میں اس کے رویے کو منضبط کرنے کے لئے انتہائی ضروری تھے، مثلاً انسان کہاں سے آیا ہے اور کہاں جانا ہے، اس کائنات سے اس کا کیا رشتہ ہے، بالآخر اس کا انجام کیا ہونے والا ہے وغیرہ ، زندگی کے اٹھارہ بیس سال گزارنے کے بعد بھی طالب علم تذبذب میں رہتا ہے۔
الغرض طلبہ برادری میں ایک خاص ذہنی ساخت کی تشکیل ہورہی ہے، چنانچہ موجودہ طلبائی ذہن کیریئرزم، بے مقصدیت، تعلیم برائے معاش، سماجی جدوجہد سے فرار، اخلاقی اقدار سے بیزاری اور بے راہروی، تشددپسندی اور لادینیت جیسے جال میں جکڑا ہوا ہے۔
اب ایسے حالات میں ہم کو کیمپس میں کام کرنا ہے۔ قرآن کریم پر جب ہم طائرانہ نظر ڈالتے ہیں تو ہم کو جو رہنمائی ملتی ہے، وہ تزکیہ کے ضمن میں آتی ہیں۔جس کو ہم اگر تزکیہ ایکٹوزم کانام دیں تو ہمارے کام کی تصویر صاف ہو جاتی ہے۔ تزکیہ کے سلسلے میں مولانا صدرالدین اصلاحی ؒ کی وضاحت بہت ہی جامع ہے: ’’تزکیہ کے لفظی معنی ہیں کسی چیز کو نامناسب عناصر سے پاک صاف کر کے اس کی فطری نشوونما کے مواقع فراہم کرنا تاکہ وہ اپنے کمال مطلوب تک پہنچ جائے، پس دلوں کا تزکیہ یہ ہے کہ انسان کے دل ودماغ کو غلط افکار وتصورات سے محفوظ کرکے اس کو ایسا بنا دیا جائے کہ انسانی تخلیق کا مقصود بلا روک ٹوک اس سے پورا ہونے لگے، اس کی نگاہ کبھی اپنے نصب العین سے ہٹنے نہ پائے اور اس کی قلبی کیفیت ایسی ہو جائے کہ حکم الٰہی پر عمل کرنے کے لئے ہمہ آن تیار رہے، اس طرح اس تزکیہ کا تعلق انسان کی پوری زندگی،اس کے سارے افکار اور اس کے سارے اعمال سے وہ پوری حیات انسانی پر چھایا ہوا ہے۔‘‘
سورۃ البقرۃ (151,129)سورۃ آل عمران(164)،سورۃ الجمعہ(62) میں انبیاء کی بعثت کا بنیادی مقصد نفوس کا تزکیہ بیان کیا گیا ہے۔ ہم کو بھی داعی امت کے فرد ہونے کے ناطے تزکیہ کے ہمہ گیر تصور کو طلبہ برادری اور تعلیمی اداروں میں پیش کرنا ہے، اس کے لئے ہمیں کافی کچھ تیاری کرنی ہوگی۔
وژن:۔ ہم میں ہر فرد کا وژن صاف اور واضح ہو کہ ہم کو کیا کرنا ہے، کس انداز سے کرنا ہے، اپنی شخصیت کو کیمپس میں کیسے متعارف کرانا ہے، اور کیمپس میں تنظیم کو کہاں تک لے جانا ہے وغیرہ۔
طویل المیعاد منصوبہ بندی:۔مرکز ، زون، یونٹ کے پاس کچھ مخصوص کیمپس کے سلسلے میں Dynamic Planکم ازکم پانچ سالہ ہو۔ہم کو کس کس کیمپس میں نفوذ کرنا ہے۔ مین اسٹریم میں کیسے آنا ہے وغیرہ وغیرہ۔
کیمپس اسٹڈی:۔ ہر کیمپس کا اپنا ایک مزاج ہوتا ہے، اپنی مخصوص زبان ہوتی ہے،اپنا مخصوص کلچر ہوتا ہے، اس کی اچھی طرح سے اسٹڈی ہونی چاہئے کہ ہم کہاں سے مؤثر طریقہ سے کیمپس میں نفوذ کر سکتے ہیں۔
کیمپس ڈیولپمنٹ:۔ہم جس بھی کیمپس کو ٹارگیٹ کریں ہمارے پاس کیمپس کو ایک آئیڈیل کیمپس بنانے کے لئے منصوبہ ہو، اور ہماری پہچان انتظامیہ اور طلبہ کے اندر مثبت کام کرنے والے لوگوں کی طرح ہونی چاہئے۔
کیمپس فلو:۔ملک کے کچھ خاص کیمپسس میں اپنے کیڈر کو بھیجے جانے کا کلچر پروان چڑھایا جائے۔ اس کے لئے منصوبہ بند تیاری ہو،اور جب کیمپس میں نیا شخص آتا ہے تو جتنا جلد ممکن ہو سیٹ اپ سے جوڑ دیا جائے۔
کیمپس ایکٹوٹیز میں شمولیت:۔کیمپس کی ہر چھوٹی بڑی سرگرمی میں حصہ لینے کے لئے اپنے کیڈر کو متحرک کیا جائے ۔
طلبہ رخی پروگرامس:۔ کیمپس کے حالات وضروریات اور طلبہ کے مفاد اور مزاج سے ہم آہنگ ہمارے پاس پروگرام ہوں جس سے کہ ہم عام طلبہ سے جڑ سکیں اور ان کی شخصیت کا بھی ارتقاء ہو ۔
خوداعتمادی پیدا کرنا:۔ ہمیں اپنے کیڈر کو اس طرح سے امپاورکرنا ہے کہ تمہارے پاس جو نظریہ ہے ،اور جو پروگرام ہے وہی سب سے اچھا ہے ۔بغیر ہچکچاہٹ اور کسی ڈر اور خوف کے اپنی بات سب کے سامنے رکھنے کا حوصلہ ہو۔
الٰہی ہدایات کا فہم:۔قرآن کا گہرا شعور، مطالعہ قرآن جہاں رہنمائی کا سبب ہے وہیں بے پناہ اعتماد بھی فراہم کرتا ہے۔
رول ماڈل:۔ہم اپنے کیڈر اور عام طلبہ کی تربیت اس انداز سے کریں کہ وہ خود محسوس کر لیں کہ وہ اسلام کے نمائندہ ہیں ،ان کا کردار محتاجِ تعارف نہ ہو۔
سماج کی سمجھ:۔ سماج کی تعمیر نو کا اعلی ہدف یہ تقاضا کرتا ہے کہ ہم میں کا ہر فرد سماج پر غور کرے ،سما ج کے مختلف امتیازات اور خصوصیات کوگہرائی سے سمجھے۔ تعمیر نو کا ایجنڈا سماج کی مکمل سمجھ کے بغیر ادھورا ہے۔ بالخصوص طلبائی سماج کو ہر پہلو اور ہر زاویے سے سمجھنے کی کوشش کرنی چاہئے۔
افراد سازی:۔کسی بھی طلبہ تحریک کے لئے مسلسل افراد سازی کا محاذ بہت ہی اہم ہوتا ہے۔ ہمارے پاس ہر طرح کے باصلاحیت افراد کی کھیپ ہونی چاہئے جونظریاتی طور سے بہت ہی مضبوط ہوں،سماجی تبدیلی کاہدف انجام دے سکیں۔ ہر وژنری شخصیت نے عظیم کاموں کی تکمیل کے لئے افراد کی تمنا بھی کی اور افراد سازی کی عملی کوشش بھی کی۔ حضرت موسیؑ نے حضرت ہارونؑ کی معاونت طلب کی۔ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے عمومی کوشش کے ساتھ بالخصوص حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حق میں دعا فرمائی ۔حضرت عمرؓ اپنے لئے سعد بن وقاصؓ ،معاذبن جبلؓ اور حذیفہ بن یمانؓ جیسے باصلاحیت افراد کی ٹیم کی تمنا کرتے تھے۔ عمومی افراد سازی اور باصلاحیت طلبہ پر خصوصی توجہ کے ذریعہ ہی اس عظیم ہدف کا حصول ممکن ہے اور یہی وہ راستہ ہے جس کے ذریعہ تحریکات کے تیز ترین پھیلاؤ اور اس کے مطلوبہ اثرات اور نتائج کو یقینی بنایا جا سکتا ہے۔
ایک ایسی طلبہ تنظیم جو اس عظیم مشن کی تکمیل کرے اور مطلوبہ صفات سے آراستہ ہو، آج ہر سنجیدہ طالب علم کے دل کی آواز ہے۔ اس آواز پر لبیک کہنا اور اسے گلے لگانا وقت کا تقاضا ہے۔ ظاہر ہے کہ ایسی پاکیزہ طلبائی تحریک کو پاکر کون ہوگا جو یہ نہ کہہ اٹھے:الہم انصر من نصر دین محمد واجعلنا منہم (اے اللہ جو دین محمد کی تبلیغ واشاعت کے لئے سرگرم ہیں تو ان کی مدد فرما اور ہمیں بھی ان میں شامل فرما)
مطلب مرزا، صدر حلقہ ایس آئی او راجستھان
کیمپس وہ جگہ ہوتی ہے جہاں ملک کا مستقبل تیار کیا جاتا ہے، اگر کیمپس کی صورتحال خراب ہوجائے تو اس بات کا خطرہ بڑھ جاتا ہے کہ وہ ملک دوسرے ملک سے پچھڑ جائے، اس وقت ملک ہندوستان کی صورتحال بڑی تشویشناک ہے، ہندوستان کے کیمپسس میں اخلاقیات دم توڑ رہی ہیں، اور کیمپسس قتل گاہ بنے ہوئے ہیں، فسادات، قتل، نشہ اور چھیڑ چھاڑکے واقعات روزمرہ کی خبر بن گئے ہیں، ہم یہ سمجھتے ہیں کہ کیمپسس کی یہ صورتحال ہر لحاظ سے ملک کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے، اور اس چیلنج کو قبول کرنا ہر ذمہ دار شہری اور خاص طور سے طلبہ کی بڑی ذمہ داری ہے۔ کیمپسس کا ماحول اس طرح کا کردیا گیا ہے کہ وہاں صلاحیت دم توڑتی نظر آتی ہے، جبکہ ہونا یہ چاہئے تھا کہ طلبہ کی صلاحیتیں کیمپسس میں نکھاری جاتیں، طلبہ کا ہمہ جہت ڈیولپمنٹ کیمپسس میں کیا جاتا، طلبہ کو مواقع فراہم کئے جاتے کہ وہ اپنے پسندیدہ میدان کا انتخاب کرکے، اس میں مہارت حاصل کرتے، لیکن ہمارے کیمپسس ان تمام پہلوؤں سے ناکام نظر آتے ہیں۔ کیمپسس ہی وہ جگہ ہوتی ہیں جہاں اخلاقی اور علمی طور پر ایک طالب علم کو تیار کیا جاتا ہے، اور کیا جانا چاہئے۔ کیمپسس کا ماحول ایسا ہوکہ ہر طالب علم اپنے آپ کو محفوظ سمجھے، اسے اپنی رائے رکھنے کی آزادی ہو، اور وہ بنا کسی خوف کے اپنی بات کہہ سکے۔ ایک طالب علم کیمپس میں جاکراجنبی ماحول محسوس نہ کرے، بلکہ اسے وہاں اپناپن محسوس ہو۔ کیمپسس میں ایسے لوگ تیار کئے جائیں جو ملک کو صحیح رخ پر لے جانے کی صلاحیت اپنے اندر رکھتے ہوں، جن سے ملک کو اس بات کا خوف نہ ہو کہ وہ ملک میں لوٹ مار اور فساد کا ماحول پیدا کریں گے۔ اس طرح کا ایک آئیڈیل کیمپس بنانے کی جدوجہد اس وقت کی بڑی ضرورت ہے۔ اور یہ خواب اس وقت تک پورا نہیں ہوسکتا، جب تک طلبہ برادری اس کام کو کرنے کے لیے پورے جوش کے ساتھ کھڑی نہ ہو۔
حالیہ دنوں میں ہندوستان کے سب سے بڑے صوبے راجستھان میں کیمپسس کے انتخابات ہوئے، ان انتخابات کے دوران جس طرح کے واقعات پیش آئے، وہ یہ سوچنے پر مجبور کرتے ہیں کہ کیمپسس کس قدر فساد کی زد میں ہیں، انتخابات کے دوران قوانین کو جس طرح بالائے طاق رکھ کر کیمپسس میں فسادات کئے گئے ایسا محسوس ہورہا تھا کہ کیمپسس میں گویا انسان نہیں جانور تیار کئے جارہے ہیں، یہی طلبہ ہیں جو آگے چل کر ملک کے اقتدار کو چلائیں گے، کیا ان طلبہ سے ایمانداری اور امن وانصاف کے قیام کی امید کی جاسکتی ہے۔