سوال: کیمپسیزمیں اکثر عورتوں اور لڑکیوں میں حیا کے تعلق سے مباحث میں یہ کہا جاتا ہے کہ عورت کے لباس سے اس کی حیا یا کردار کا اندازہ کرنا چھوٹی سوچ کی علامت ہے۔ ضروری نہیں کہ چست لباس اورآزادانہ گھومنے پھرنے والی عورتیں خراب کردار کی ہوں وغیرہ وغیرہ۔ایسے اعتراضات کا مناسب جواب کیا ہو سکتا ہے۔ (رجاءمریم)
جواب: اس سلسلے میں دو چیزوں کا خیال رکھنے کی ضرورت ہے۔ ایک یہ کہ کسی بھی عورت یا مرد کے اخلاق و کردار کے تعلق سے کوئی بھی پہلے سے فیصلہ کر کے بیٹھنے کا حق کسی اور مرد و عورت کو حاصل نہیں ہے۔ یہ حق صرف اللہ کو حاصل ہے۔ اس لئے چاہے ہماری مذہبی تعلیمات اور تہذیبی روایات کچھ بھی کہتے ہوں، ہمیں انسانوں کے تعلق سے یہ احساس کبھی پیدا نہیں ہونے دینا چاہئے کہ وہ بے حیا اور بد کردار ہیں۔ اور لازماً جہنم کا ایندھن ہیں۔ اگر یہ بات ہم نہ سمجھیں گے تو پھر حضرت عمرؓ اور حضرت ہندہؓ جیسے لوگوں سے محروم ہو جائیں گے۔ یہ صرف اللہ کی مرضی کی بات ہے۔ وہ جسے چاہے ہدایت دے۔
دوسری بات یہ کہ اسلام نے مرد و عورت دونوں کے لئے حیا کے پیمانے بہت واضح انداز میں پیش کئے ہیں۔ حتیٰ کہ حیا کو آدھا ایمان کہا گیا ہے۔ اللہ کے رسول حضرت عثمانؓ کے لئے خصوصی اہتمام کیا کرتے تھے کیونکہ وہ بہت زیادہ شرمیلے مزاج کے تھے۔ گویا یہ کہ اسلامی سماج میں باحیا مرد اور عورت کا ایک مخصوص اعلیٰ مقام ہے۔ اس لئے ہر مسلمان مرد و عورت کے لئے لازم ہے کہ وہ ان حیا کے پیمانوں پر پورا اترنے کی کوشش کریں۔ ان میں سے کچھ پیمانوں کا تذکرہ بے جا نہ ہوگا۔ مردوں اور عورتوں کے لئے لازم ہے کہ وہ نگاہ کو نیچی رکھیں، آواز میں لوچ پیدا نہ ہونے دیں، تنہائی میں ملاقات نہ کریں اور اپنی زینت کا اظہار نہ کرتے پھریں۔ ان دونوں باتوں کو ذہن میں رکھیں تو ایک رویہ ہم ترتیب دے سکتے ہیں۔ وہ یہ کہ ہم سب سے پہلے خود حیا کے علمبردار بنیں گے۔اور دوسروں کے تئیں نفرت اور حقارت کے جذبات سے خود کو پاک رکھیں گے۔
آج کل کے مباحث میں جب ’خراب کردار‘ کا تذکرہ کیا جاتا ہے تو عموماً اس سے مراد کسی عورت کے بکاؤ ہونے اور جنسی طور پر بے راہ رو ہونے سے مراد لی جاتی ہے۔ اور اس معاشرے میں، بالخصوص بڑے شہروں میں اس طرح سے جنسی آوارگی کوئی معیوب بات نہیں سمجھی جاتی جب کہ اس کو مردوں اور عورتوں کا ایک ہنر سمجھا جاتا ہے۔ لیکن اس کے علیٰ الرغم ایک بڑا طبقہ خراب کردار کی خرابی کا معترف ہے۔ اسی لئے کسی کم لباسی کو اختیار کرنے والی لڑکی کو ان معنوں میں ذلیل کرتا ہے۔ لیکن اصل چیز یہ ہے کہ اس معاشرے میںٹھوس بنیادوں والا کردار کا تصور موجود نہیں ہے۔ یہاں یہ کم لباسی کو عورتوں کا حق قرار دیتا ہے وہیں اس کے کردار پر نام بھی رکھتا ہے۔ جدید سماج کی اس دوغلی آزادی کے بالمقامل اسلام کے پیش نظرمردوعورت دونوں کے لئے ایک باحیا اور پاکیزہ معاشرے کا تصور دیتا ہے، جو صرف ایک نظریہ نہیں بلکہ آزمایہ ہوا نسخہ ہے، جو برائیوں اور مسائل سے آزاد نتائج کا واضح ثبوت بھی رکھتا ہے۔
اس کالم کے تحت قارئین کے سوالات کے جوابات دینے کی کوشش کی جائے گی۔ اپنے سوالات بذریعہ ای میل یا وہاٹس ایپ (اس نمبر 9673022736 پر) بھیج سکتے ہیں۔