کشمیر کے حالات بچشم سر دیکھنے کے بعد ماہنامہ رفیق منزل سے خصوصی گفتگو۔
رفیق منزل:حکومت ہند کی جانب سے دفعہ 370کے خاتمہ کے بعد کشمیر کے حالات کا آپ نے بچشم سر مشاہدہ کیا۔ آپ کے تاثرات کیا ہیں؟
ملک معتصم خان: اس سوال کا جواب دینے سے پہلے، گفتگو کے بالکل آغاز میں ہم یہ وضاحت کردینا ضروری سمجھتے ہیں کہ اس گفتگو کے ذریعے ہم نہ کوئی سنسنی پیدا کرنا چاہتے ہیں اور نہ کشمیر کے حالیہ مسئلہ پر ایسا کوئی حماقت آمیز تبصرہ کرنا چاہتے ہیں جس سے کسی بھی قسم کا تنازعہ پیدا ہو سکتا ہو۔ اس گفتگو کا ہمارا مقصد بالکل صاف اور واضح رہنا چاہیے کہ کشمیر کے حالات کو دیکھنے، مسئلہ کشمیر کی تاریخ اور اس کی پیچیدگی کا جائزہ لینے کے بعد ہم جس نتیجے تک پہنچے ہیں،اسے آپ کے گوش گزار کرنا ہے۔
اب آتے ہیں آپ کے سوال کی طرف۔کشمیر جانے اور وہاں کے حالات کا مشاہدہ کرنے کے بعد ہمارا پہلا تاثر یہ تھا کہ ’کشمیر رک سا گیاہے‘۔بازار اور سڑکیں سنسان پڑی ہیں۔تعلیمی ادارے بند ہیں۔مہنگائی میں کافی اضافہ ہوگیا ہے اور لوگوں کی قوت خرید میں بڑی گراوٹ آگئی ہے۔
حکومت نے کرفیو ختم کردیا ہے۔ وہ چاہتی ہے اور اس کی کوشش ہے کہ حالات پہلے کی طرح نارمل ہوجائیں۔دکانیں کھل جائیں اور کاروبار شروع ہوجائیں۔ لیکن کشمیری عوام نے حکومت ہندکے رویوں کے خلاف ایک طرح سے غیر علانیہ ہڑتال جاری کر رکھی ہے۔ وہ کاروبار شروع کرنا نہیں چاہتے۔ ان کے بچے اسکول جانا نہیں چاہتے۔کشمیری عوام کے مطابق کرفیو کا ختم ہونا اور روزمرہ کی زندگی کا بحال ہونا ’حالات کا نارمل ہونا‘ نہیں ہے۔ حالات کے نارمل ہونے کے لیے ضروری ہے کہ دفعہ 370کے حوالے سے حکومت ہنداپنے فیصلے پر نظر ثانی کرے۔ملٹری، جسے بڑی تعداد میں وادی میں تعینات کیا گیا ہے، اسے واپس بلائے۔
کشمیر میں اس وقت سب سے بڑا مسئلہ یہی ہے کہ حکومت جو چاہتی ہے،کشمیری عوام وہ نہیں چاہتے اور کشمیری عوام جو چاہتے ہیں،حکومت ہند وہ نہیں چاہتی۔
ر۔ م۔: حقوق انسانی کی وہاں کیا صورت حال ہے۔ بعض عالمی خبر رساں ایجنسیوں کے مطابق وہاں کسی نہ کسی درجے میں حقوق انسانی کی پامالی ہوئی ہے۔کیا آپ اس کی تصدیق کرتے ہیں؟آپ کا تجربہ اور مشاہدہ کیا رہا؟
م۔م۔خ: آرٹیکل 370کے خاتمہ کے فیصلے کو نافذ کرنے کے لیے حکومت ہند نے جس طریقہ کار کو اختیار کیا، اسے دیکھنے کے بعد یہ کہا جاسکتا ہے کہ وادی میں حقوق انسانی کی خلاف ورزیاں ہوئی ہیں۔اس بات سے وہ حضرات بھی اتفاق کریں گے جو کشمیر نہیں گئے ہیں۔ انٹر نیٹ آج انسان کی بنیادی ضروریات میں سے ہے، لیکن آپ جانتے ہیں کہ جب سے حکومت ہند نے یہ فیصلہ کیا ہے تب سے وہاں انٹرنیٹ کی خدمات معطل ہیں۔ایک صاحب نے بتایا کہ انہیں ایک ای میل کرنا تھا۔ اس کے لیے ان کے ایک آدمی کو کشمیر سے دہلی آنا پڑا۔ دہلی سے ای میل کرکے وہ واپس کشمیر گیا۔ ایک ای میل کے لیے تقریباً آٹھ ہزار روپے صَرف کرنے پڑے۔لوگوں کے باہمی رابطے منقطع ہوگئے ہیں۔کچھ لوگوں نے بتایا کہ اگر کہیں کسی رشتہ دار کے گھر یا پاس پڑوس کے کسی گاؤں میں کسی کا انتقال ہوجائے یا کوئی اور حادثہ رونما ہوجائے تو اس کی اطلاع بھی نہیں مل پاتی۔انٹرنیٹ اور رابطے کی سہولیات کو بند کردینا،انسانی حقوق کی پامالی ہی مانا جائے گا۔
حکومت کے فیصلے پر اظہار اختلاف رائے کرنے والے کشمیریوں پر قابو پانے میں جانی نقصان بھی ہوا ہے۔ مظاہرین پر پیلیٹ گن کا استعمال ہوا۔ پیلیٹ گن کے حوالے سے آپ جانتے ہوں گے کہ اس کا شکار انسان زندہ رہ کر بھی کسی کام کا نہیں ہوتا۔ عورتیں اور بچے بھی اس کا شکار ہوئے ہیں۔مقامی باشندوں کے مطابق ایک بڑی تعداد میں بچوں کو اٹھا کر غائب کردیا گیا ہے۔ ان بچوں کی عمر 17سال سے 25سال کے درمیان ہے۔ مختلف مقامی باشندے اس کی تعداد مختلف بتاتے ہیں۔ان کے مطابق یہ تعداد 8000سے لے کر 25000تک ہوسکتی ہے۔ ان اٹھائے گئے بچوں کی کسی کو کوئی خبر نہیں ہے۔انہیں کشمیر ہی میں کہیں رکھا گیا ہے یا ملک کی کسی دوسری ریاست میں منتقل کردیا گیا، کوئی کچھ نہیں جانتا۔ مقامی باشندوں کا کہنا ہے کہ ملٹری کے ذریعے خواتین کے ساتھ بد سلوکی کے واقعات بھی پیش آئے ہیں۔
اس کے علاوہ کشمیر کی سیاسی قیادت کو پبلک سیفٹی ایکٹ (PSA)کے تحت گزشتہ تقریباً دو ماہ سے قید کرکے رکھا گیا ہے۔مقامی بار کونسل کے چیئرمن جن کی عمر اسی (80)سال ہے، جو ایک ہی کڈنی پر زندہ ہیں، انہیں بھی گرفتار کرکے رکھا گیاہے۔ اس کے علاوہ بھی بے شمار گرفتاریاں ہوئی وہیں۔گرفتار شدہ لوگوں سے ملاقات کی ان کے اہل خانہ کو اجازت نہیں دی جارہی ہے۔
کیا اس پوری تصویر کو دیکھنے کے بعد کوئی بھی ایمان دار شخص یہ کہہ سکتا ہے کہ وہاں انسانی حقوق پامال نہیں ہوئے ہیں؟
ر۔م۔: ہندوستانی میڈیا روز اول سے یہ باور کرانے کی کوشش کررہا ہے کہ کشمیر میں سب کچھ بالکل نارمل ہے۔ آپ کے مشاہدات اس حوالے سے کیا کہتے ہیں؟
م۔م۔خ۔: جیسا کہ میں نے ابھی عرض کیا کہ کشمیر کے تمام سیاسی قائدین گرفتارہیں، کاروبار ٹھپ ہیں، اسکول بند ہیں، سِوِ ل حکومت نہیں ہے، صحافتی آزادی متاثر ہے، عدلیہ کی کاروائی بھی بند ہے۔بڑی تعداد میں ملٹری کی تعیناتی کے بعد وادی کا ایک خطہ دنیا کا ایک ایسا علاقہ بن گیا ہے جہاں سب سے زیادہ فوج (Most Militarized Region) ہے۔اس صورت حال میں آپ کس پہلو سے کہہ سکتے ہیں کہ حالات نارمل ہیں؟ ہندوستانی میڈیا کا کرداراس مسئلہ میں بھی ذمہ دارانہ نہیں رہا ہے۔ میڈیا مسئلہ کشمیر کی جڑوں پر سنجیدہ گفتگو نہیں کررہا ہے۔ بلکہ وہ تو اس مسئلہ کو کچھ اس انداز میں پیش کررہا ہے جیسے کشمیر اب تک پاکستان کے قبضہ میں تھااور وزیر اعظم نریندر مودی صاحب نے اسے آزاد کرا لیا ہو۔ اس قسم کی صحافت خود صحافتی اقدار کے منافی ہے۔میڈیا کو اپنے کردار کا جائزہ لینا چاہیے۔
ر۔م۔: دفعہ 370کے خاتمہ کو آپ کیسے دیکھتے ہیں؟
م۔م۔خ۔: دفعہ 370کو ختم کرنے کے پروسیس میں دستور ہند کی روح (Sprit of the Constitution)اور پارلیمانی اقدار کو ملحوظ نہیں رکھا جا سکا ہے۔اس قسم کا فیصلہ کرنے کے لیے حکومت ہند کو دستوری اور پارلیمانی اقدار کالحاظ کرنا چاہیے تھا۔کشمیری عوام اور بالخصوص کشمیر کی منتخب قانون ساز اسمبلی کو اعتماد میں لینا چاہیے تھا۔ حکومت نے ایسانہیں کیا۔دفعہ 370کو ختم کرکے حکومت ہندہندوستان میں خود کو قومی سلامتی کا چیمپئن ثابت کرنے میں کامیاب رہی ہے۔تاہم اس تصویر کا دوسرا رخ یہ ہے کہ موجودہ حکومت نہ صرف یہ کہ کشمیری عوام کا دل جیتنے میں ناکام ہوگئی ہے، بلکہ دل جیتنے کے امکانات بھی اب سوالات کے گھیرے میں آگئے ہیں۔ کشمیر کا مسئلہ کئی دہائیوں سے جاری ہے۔ گزشتہ کئی دہائیوں میں کشمیر میں دانش وَروں کا ایک طبقہ ایسا پیدا ہوگیا تھا جو اپنے آپ کو ہندوستان کے ساتھ کرنے اور ہندوستانی انتظامیہ سے بات چیت کرنے کا میلان رکھتا تھا۔ لیکن حکومت کے موجودہ فیصلے اور رویے کے بعد وہ طبقہ بھی حکومت سے ناراض ہے۔ پھر یہ بھی واضح رہنا چاہیے کہ حکومت کے اس فیصلے کا علاحدگی پسند عناصر بھی غلط فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔اس سے وادی میں علاحدگی پسندوں کی تعداد میں اضافہ ہوسکتا ہے۔گزشتہ کئی دہائیوں سے جاری کوششوں کے نتیجے میں کشمیری عوام میں اعتماد کی جو فضا بحال ہوئی تھی، وہ بھی ختم ہوگئی ہے۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ حکوت ہند کے حالیہ فیصلے کے نتیجے میں مسئلہ کشمیر دوبارہ چالیس -پچاس سال پیچھے چلا گیا ہے۔
ر۔م۔: دفعہ 370کے خاتمہ کے پس پردہ حکومت کے اصل عزائم کے حوالے سے بھی مختلف دانش وَر مختلف تبصرے کررہے ہیں۔ کسی کا مانناہے کہ حکومت ہند کشمیر کی معیشت کو اپنے قابو میں کرکے مسلم عوام کی معاشی کمر توڑنا چاہتی ہے، تو کسی کا کہنا ہے کہ وادی میں ڈیموگرافک تبدیلی حکومت ہند کے پیش نظر ہے۔ مسلم عوام کو انخلاء پر مجبور کر کے وہاں کشمیری پنڈتوں کی بازآباد کاری حکومت کا مشن ہے۔ آپ کی رائے میں حکومت کا اصل مقصد کیا ہے؟
م۔م۔خ۔: آپ نے مختلف دانش وَروں کے حوالے سے جو بات کہی ہے وہ صحیح بھی ہوسکتی ہے اور غلط بھی۔ہم نہ اس کی تردید کرتے ہیں اور نہ تصدیق۔ دراصل ہمارے نزدیک یہ اہم نہیں ہے کہ حکومت کی اصل منشا کیا ہے، اس وقت ہم اس پر گفتگو کو مرکوز کرنا چاہتے ہیں کہ مسئلہ کشمیر کے سلسلے میں ہماری منشاکیا ہے۔ہمار ی منشا بہت واضح ہے اور وہ یہ کہ حکومت ملک کے وفاقی ڈھانچے (Federal Structure)کی حفاظت کرے۔کشمیر میں ظلم و جبر کا خاتمہ ہو۔صرف کشمیر ہی نہیں ملک کی کسی بھی ریاست کی عوام پر اگر ظلم ہوتا ہے تو ہماری یہی کوشش رہی ہے اور آئندہ بھی رہے گی کہ ظلم ختم ہو۔ رواداری اور حقوق انسانی کی پاس داری کے اعتبار سے حکومت عالمی سطح پر اپنی صاف ستھری شبیہ بنائے رکھنے کی کوشش کرے۔ اسی میں ملک اور باشندگان ملک کا فائدہ ہے۔
ر۔ م۔ آپ کی رائے میں مسئلہ کشمیر کا حل کس طرح ممکن ہے؟
م۔م۔خ۔: مسئلہ کشمیر کے حل کے سلسلے میں میں مختصراً یہ کہنا چاہوں گا کہ کشمیر کا مسئلہ ایک سیاسی مسئلہ ہے، اس کا پائیدار حل نہ Militarizationکے ذریعے ممکن ہے اور نہ Militancyکے ذریعے۔ یہ اسی طرح سے حل ہوسکتا ہے جس طرح سے کہ سیاسی مسائل حل ہوتے ہیں۔ اس کے لیے دستور، قانون، بات چیت اور باہمی اعتماد ہی کا راستہ اختیار کرنا ہوگا۔
ر۔ م۔ مناسب ہوگا اگر آپ مسئلہ کشمیر کے حل کے سلسلے میں اپنے موقف پر قدرے تفصیل سے روشنی ڈالیں۔
م۔م۔خ۔: فی الحال مسئلہ کشمیر حل کرنے کے لیے فوری ضرورت اس بات کی ہے کہ کشمیر کے حالات صحیح معنوں میں نارمل ہوں۔ سیاسی قائدین اور دیگر لوگوں کو جنہیں گرفتار کرکے رکھا گیا ہے انہیں رہا کیا جائے، اسکول اوردیگر تعلیمی ادارے دوبارہ کھلیں۔ معاشی سرگرمیاں بحال ہوں۔پھر، جیسا کہ میں نے پہلے کہا کہ وہاں سِول حکومت موجود نہیں ہے، وہاں سول حکومت بحال ہو۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ اضافی فوج کو وہاں سے واپس بلایا جائے۔ جس طرح ملک کی تمام ریاستوں میں فوج ہوتی ہے اسی تعدادمیں کشمیر میں بھی فوج ہو۔کشمیر کی اسمبلی دفعہ 370کے سلسلے میں کوئی قرارد اد پاس کرے۔کشمیر اور حکومت ہند کے نمائندے گفتگو کی میز پر آئیں۔ واضح رہے کہ کشمیر کا سیاسی مستقبل کیا ہو، اس سلسلے میں ہمارے پاس کوئی لائحہ عمل نہیں ہے۔سیاسی حل تو کشمیری قیادت اور حکومت ہندکو باہمی گفت و شنید سے طے کر نا ہوگا۔ اس وقت ہماری خواہش یہ ہے کہ وادی میں امن وامان قائم ہو۔ ہم کوئی سیاسی حل پیش نہیں کرتے، البتہ ہم کشمیری قیادت اور حکومت ہند دونوں کو دعوت دیتے ہیں کہ وہ بات چیت کے ذریعے ایک ایسے سیاسی حل تک پہنچیں جوسب کے حق میں بہتر ہو۔
ر۔ م۔: انڈین نیشنل کانگریس ملک کی سب بڑی سیاسی جماعت رہی ہے۔اس حکومت میں بھی حزب اختلاف کی قیادت بھی کانگریس ہی کے ہاتھ میں ہے۔ دفعہ 370 کے خاتمہ سے قبل اور مابعد آپ کانگریس کے کردار کو کیسے دیکھتے ہیں؟
م۔م۔خ۔: میں نے پہلے عرض کیا کہ کشمیر کا مسئلہ کئی دہائیوں سے چلا آرہا ہے۔ اس دوران کانگریس پارٹی ایک طویل مدت تک ہندوستان میں برسر اقتدار رہی۔ ایسا نہیں ہے کہ کانگریس نے مسئلہ کو حل کرنے کی کوشش نہیں کی۔ تاہم یہ بات بالکل عیاں رہی کہ صرف کانگریس ہی نہیں، کوئی بھی حکومت اس سلسلے میں سنجیدہ پہل نہیں کرسکی۔ وادی میں ظلم و زیادتی اور حقوق انسانی کی پامالی کے واقعات اخبارات کے ذریعے سے اس وقت بھی سننے میں آتے تھے جب کانگریس برسر اقتدار تھی۔
حزب مخالف کی حیثیت سے کانگریس جو کردار ادا کرسکتی تھی، وہ اسے ادا کرنے میں ناکام رہی۔صرف کانگریس ہی نہیں اور صرف مسئلہ کشمیر پر ہی نہیں بلکہ اپوزیشن کی تمام پارٹیاں متعدد مسائل میں ایک مضبوط اپوزیشن کا کردار ادا کرنے سے قاصر رہی ہیں۔موجودہ سیاسی جماعتوں کے ساتھ کئی مسائل ہیں۔ایک مسئلہ تو یہ ہے کہ اب ایسی کوئی سیاسی جماعت باقی نہیں رہی جو نظریاتی اور اصول پرست سیاست پر یقین رکھتی ہو۔ ہر سیاسی جماعت اپنی پالیسی کچھ اس انداز سے وضع کرتی ہے کہ اس کا ووٹ بینک کسی قیمت پر متاثر نہ ہو۔دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ اب سیاسی جماعتوں میں ایسی قد آور اور عبقری شخصیات بھی ناپید ہوچکی ہیں جو کسی مسئلہ پر پارٹی لائن سے اوپراٹھ کر کچھ سوچ سکیں۔تیسرا مسئلہ یہ ہے کہ سیاسی جماعتوں کے بہت سے قائدکسی نہ کسی قسم کی بدعنوانی یا مجرمانہ سرگرمی میں ملوث رہے ہیں۔ جس کی وجہ سے اب ان کے اندر یہ اخلاقی قوت باقی نہیں رہی کہ وہ حکومت وقت سے اختلاف رائے کا اظہار کرسکیں۔انہیں پتہ ہے کہ وہ آواز اٹھائیں گے اور ان کے گھر پر سی بی آئی کا چھاپہ پڑے گا اور انہیں جیل کی ہوا کھانی ہوگی۔اس لیے وہ اپنی عافیت اسی میں محسوس کرتے ہیں کہ خاموش رہیں۔
ر۔ م۔: کشمیر کی عوام کے لیے آپ کا کیا پیغام ہے؟
م۔م۔خ۔: ہم کشمیر کی عوام سے کہنا چاہتے ہیں کہ ان کے ساتھ جو بھی نا انصافی ہورہی ہے، انسانیت کے ناطے اس کا درد ہم محسوس کرتے ہیں۔ان کی مصیبت کو ہم سمجھتے ہیں۔تاہم ہماری ان سے یہ گزارش ہے کہ مصیبت کی اس گھڑی میں وہ مایوس اور مشتعل نہ ہوں۔ اگرچہ کہ یہ آسان نہیں ہے،لیکن ضروری ہے۔
حالات بہت دگر گوں اور اشتعال انگیز ہیں۔ ایسے میں اس بات کے قوی امکانات موجود ہیں کہ کشمیری عوام میں اور بالخصوص نوجوان طبقے میں شدید رد عمل پیدا ہو اور وہ کسی غلط راستے کا انتخاب کرلیں۔بعض ناعاقبت اندیش اور جذباتی عناصر اس موقع کا غلط فائدہ بھی اٹھا سکتے ہیں۔ لیکن جیسا کہ ہم نے اس گفتگو کے دوران کہا ہے کہ کشمیر کا مسئلہ ایک سیاسی مسئلہ ہے، اس کا پائیدار حل نہ Militarizationکے ذریعے ممکن ہے اور نہ Militancyکے ذریعے،یہ بات کشمیری عوام کو بھی ہمیشہ اپنے پیش نظر رکھنی ہوگی۔ جس طرح حکومت ہند سے ہماری گزارش ہے کہ وہ مسئلہ کے حل کے لیے دستوری،قانونی اور بات چیت کا راستہ اختیار کرے، ٹھیک اسی طرح اہل کشمیر سے بھی ہماری یہی گزارش ہے کہ وہ سیاسی عمل میں حصہ لیں،دستور، قانون اور بات چیت کے ذریعے مسئلہ حل کرنے پر اپنی توجہ مرکوز کریں۔ (ختم شد)