ڈیٹا کی آمریت

ایڈمن

جیف بیزوس اور مارک زکربرگ اس وقت دنیا کے پہلے اور پانچویں نمبر کے سب سے امیر ترین اشخاص ہیں۔ ایمیزون اور فیسبک کے بانی اور سی ای او۔ دونوں ایک دوسرے کے مددگار ہیں۔ لوگوں کو’ آسانی ‘فراہم کرتے کرتے…

جیف بیزوس اور مارک زکربرگ اس وقت دنیا کے پہلے اور پانچویں نمبر کے سب سے امیر ترین اشخاص ہیں۔ ایمیزون اور فیسبک کے بانی اور سی ای او۔ دونوں ایک دوسرے کے مددگار ہیں۔ لوگوں کو’ آسانی ‘فراہم کرتے کرتے وہ اس وقت سب سے بڑی دو کمپنیوں کے مالک ہو گئے ہیں۔ فیسبک پر چار گھنٹہ وقت لگاتے ہوئےگاہے بگاہے مختلف اقسام کے اشتہارات سامنے آتے رہتے ہیں، جس سے کوئی مفر نہیں۔ چاہے آپ کچھ بھی کر لیں ان اشتہارات سے پیچھا نہیں چھڑا سکتے۔ ایمیزون سے لے کر دنیا بھر کی دیگر تجارتی کمپنیاں فیسبک کو پیسے دے کر لوگوں کے سامنے اپنے اپنے تجارتی مال ایسے پیش کرتی ہیں جیسا کہ فیسبک صارفین کی عین ضرورت و خواہش ہوتی ہے۔ ایسا اس وجہ سے ہوتا ہے فیسبک ہر فرد کی نفسیات اور رجحانات سے بہ خوبی واقف ہوتا ہے اور بڑی آسانی سے متعلقہ افراد تک ہی تجارتی اثرات پھیلانے کے لئے مختلف کمپنیاںاس کا استعمال کرتی ہیں۔ چونکہ آج کل فیسبک کا استعمال ہوا اور پانی سے زیادہ اہم ہوگیا ہے اس کے بغیر کوئی ’انسانی تعلق‘ کوئی بحث و مباحثہ، کوئی ’اسلامی انقلاب‘ ،اجتہاد، سیاسی تبدیلی، تجارتی تعلق کا تصور بھی ممکن نہیں ہے۔ اکثر لوگ اس مغالطہ کے شکار رہتے ہیں کہ وہ فیسبک کو استعمال کر رہے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ فیسبک ان کا استعمال کرتا ہے۔


نہ صرف اوپر مذکورہ تجارتی مقاصد کے لئے بلکہ اس سے آگے بڑھ کر سیاسی و سماجی سطح پر اپنی مرضی کی تبدیلی لانے میں ان ٹکنالوجی کی ماہر کمپنیوں کا بھی اپنا ایک کردار ہے۔ فیسبک اپنے صارفین کی معلومات ، چاہے وہ نجی ہوں یا عمومی ہوں، انہیں بڑی آسانی سے چوری ہوجانے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ ان معلومات کے چوری ہوجانے کے بعد مگرمچھ کےآنسو روتے ہوئے اس کی ’اخلاقی‘ ذمہ داری قبول کرتا رہتا ہے۔ گذشتہ دنوں ’کیمبرج انیلیٹکا‘نے بڑی آسانی سے جملہ ۸ء۷ کروڑ امریکیوں کا ڈیٹا چوری کیا۔ اور اس کا استعمال انہوں نے ٹرمپ کو امریکی صدر بنانے کے لئے کیا۔ بالکل اسی طرح جس طرح فیسبک کا استعمال کرنے والے افراد بڑی آسانی سے مودی کے بچھائے ہوئے ڈیجیٹل جال میں خود اپنی مرضی سے پھنس گئے۔ ہر شخص یہ سمجھنے لگا کہ مودی ہی مسیحا ہے۔ اور اکیلا میںہی وہ فرد ہوں جو کہ مودی سے اختلاف رکھتا ہوں۔ اس اجنبیت کے احساس کے پیدا ہوجانے کے بعد اختلاف رائے کو کمزور کرنا بہت آسان ہوجاتا ہے، ہر شخص ڈرا سہما رہتا ہے اور آمروں کے لئے اپنی مرضی کے کام کرنا آسان ہو جاتا ہے۔


جمہوریت ایک احمقانہ نظام ہے۔ اس میں ہر کس و ناکس کو اختیار دیا جاتا ہے۔ اس لئے جمہوریت کے ذریعے آمریت ایک بہت آسان امر ہوجاتا ہے۔ بس کرنا یہ ہے کہ ہر ’بااختیار‘ شخص کو آزادی اور مرضی کا ایک جھوٹا احساس فراہم کرو۔ پھر اس مرضی کو اپنی مرضی کے مطابق موڑ دو۔ ہر شخص اپنی مرضی سے وہ دیکھے جو آپ دکھانا چاہتے ہوں۔ ہر شخص اپنی مرضی سے وہ سنے جو آپ سنانا چاہتے ہوں، اور وہ کہے جو آپ کہلوانا چاہتے ہوں۔ حتیٰ یہ کہ اپنی مرضی سے اسی شخص کو ووٹ دے، اقتدار دے، مخالفت کرے، محبت یا نفرت کرے جس کے تعلق سے آپ یہ چاہتے ہوں کہ وہ ایسا کرے۔ گویا اس وقت ہم ایسی دنیا میں جی رہے ہیں جہاں ہم اپنی مرضی سے ہمارے آقاؤں کی غلامی میںجاتے ہیں۔


جدید میڈیا ٹیکنالوجی کی ابتداءکے موقع پر نام چامسکی نے ’مینوفیکچرنگ کنسنٹ‘ (رضامندی کی تعمیر) لکھی تھی۔ جس میں کہا تھا کہ جدید میڈیا اصل میں حکومت اور معاشرت کے حوالے سےفیصل کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس زمانے میں اس سے آگے بڑھ کر یہ میڈیا جذبات اور احساسات کی بھی تشکیل دیتا ہے۔ جس کے ہاتھوں میں انسان کا سارا نامۂ اعمال ہو، وہ بڑی آسانی سے انسان کی کمزوریوں کا استعمال کرتے ہوئے اس کے لئے کسی ایک مخصوص طرز عمل ہی کا انتخاب کرنے پر مجبور کر سکتا ہے۔ ہم اور آپ وہ تمام لوگ ہیں جنہوں نے اپنی مرضی سے اپنے آقاؤں کو چن لیا ہے۔


ہندوستان اس سمت میں ایک قدم اور آگے ہے۔ سوشل میڈیا کے ذریعے ہم اپنی کمزوریوں کو پیش کرتے ہیں اور رجحانات کو قبول کرتے ہیں۔ گوکہ اختیار کی آزادی ہمیں نہیں ہوتی لیکن کم از کم یہ خود ہمارا ہی فیصلہ ہوتا ہے کہ ہم کارپوریٹس اور مغربی دنیا اور افکار کے غلام بننا چاہتے ہیں۔ لیکن وہ لوگ جو اس چنگل سے نکل آئیںاور مزاحمت کی راہ اختیار کریں۔ ہر قسم کی غلامی سے پاک ، با اختیار زندگی گذارنا چاہیں، ان کے گلے میں غلامی کا طوق پہنانے، محاصرہ کرنے اور بالجبر حکومت اور کارپوریٹس سے مزاحمت سے روکنے اور قدغنیں عائد کرنے کے لئے آدھار کا سہارا لیا جارہا ہے۔ انسان کی زندگی مکمل طور پر حکومتی کمپیوٹر آپریٹر کی نگرانی میں ہے۔


آنے والے کچھ سالوں میں باطل سے مزاحمت اور دین کی حقیقی دعوت دینے والوں کو نئے چیلنجس کا سامنا کرنا پڑے گا۔ دیکھنا یہ ہے کہ اہل علم و فکر حضرات اس ضمن میں کیا تیاری کرتے ہیں!

حالیہ شمارے

براہیمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے

شمارہ پڑھیں

امتیازی سلوک کے خلاف منظم جدو جہد کی ضرورت

شمارہ پڑھیں