۹؍ جولائی ۲۰۱۵ء میں سی بی ایس ای (سینٹرل بورڈ آف سیکنڈری ایجوکیشن) نے ایک نوٹیفیکیشن جاری کیا جس کے رول نمبر ۶ سی اور ۷ اے کے تحت آل انڈیا پری میڈیکل ٹسٹ جو کہ بتاریخ ۵؍ جولائی ۲۰۱۵ء منعقد ہونے والا تھا ، اس میں شرکت کرنے والے تمام ہی امیدواروں کے لئے اسکارف، فل آستین کے کپڑے، بالوں میں لگائی جانے والی پن، بینڈ وغیرہ پر پابندی عائد کر دی گئی، یہاں یہ امر قابل غور ہے کہ ۲۵؍جولائی کو منعقد ہونے والا امتحان دوبارہ منعقد کیا جارہا تھا، کیونکہ اس سے قبل اسی سال ۳؍مئی ۲۰۱۵ء کو سی بی ایس سی نے پری میڈیکل ٹسٹ کرایا تھا،تاہم اس امتحان میں بڑے پیمانے پر کرپشن کی شکایات وصول ہوئی تھیں جس کے خلاف تنوی سروال نے سپریم کورٹ میں کیس (تنوی سروال بنام سینٹرل بورڈ آف سیکنڈری ایجوکیشن ، رٹ پٹیشن (سول) ۲۹۸ آف ۲۰۱۵) دائر کیا تھا، جس میں سی بی ایس ای کو پارٹی بناکر بڑے پیمانے پر ہونے والی غیرقانونی سرگرمیوں و بدنظمیوں کو بے نقاب کیا گیا تھا۔
اس کیس کا فیصلہ سپریم کورٹ نے ۱۵؍ جون کو سنایا، جس کی رو سے سی بی ایس ای کو چار ہفتوں کے اندر اندر دوبارہ اے آئی پی ایم ٹی ( آل انڈیا پری میڈیکل ٹسٹ) کا انعقاد کر نے کا حکم دیا گیا، چونکہ گزشتہ امتحان میں جو بھی بدنظمی یا سوالات کے پرچے لیک ہوئے تھے اس میں بورڈ اور تعلیم مافیاؤں کے رشتے بھی منظرعام پر آئے تھے جس کی وجہ سے بورڈ کو بہت زیادہ ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ نیز موجودہ سرکار بننے کے بعد سے ہی اقلیتوں کے خلاف سرکار میں جلوہ افروز ہندتوا نواز چہروں نے اور حکمراں جماعت کی مخصوص پالیسیوں نے تعلیمی نظام کو اپنے رنگ میں رنگنے کے ناپاک ارادوں کو برملا انجام دینا بھی شروع کردیا تھا۔ یہاں یہ ذکر بھی مناسب معلوم ہوتا ہے کہ سپریم کورٹ نے امتحان کے دوبارہ انعقاد اور نظم و نسق کی نگرانی کی ذمہ داری اپنے ہاتھوں میں رکھی تھی۔
یہاں یہ وضاحت ضروری محسوس ہوتی ہے کہ آل انڈیا پری میڈیکل ٹسٹ کا انعقاد کیونکہ ملکی سطح پر ہوتا ہے، اور سی بی ایس ای (سینٹرل بورڈ آف سیکنڈری ایجوکیشن) مرکزی حکومت کا قائم کردہ ایک قومی ادارہ ہے، اس لیے جو نوٹیفیکیشن ۹؍ جولائی کو بورڈ نے جاری کیا تھا وہ نوٹیفیکیشن بھی قومی سطح پر نیز پورے ملک کے لئے جاری کیا گیا تھا، اس نوٹیفیکیشن سے جو اثرات پڑرہے تھے وہ بھی قومی سطح کے تھے، نیز اس میں شامل احکامات کی روشنی میں پورے ہندوستان کے شہریوں کو حاصل بنیادی حقوق اور خاص کر دستور ہند کے باب سوم میں درج آرٹیکل ۲۵؍ کی صاف صاف خلاف ورزی کی جارہی تھی، آرٹیکل ۵ ۲؍ کے مطابق ہندوستان کے تمام ہی شہریوں کو مذہب کی آزادی نیز مذہبی رسم ورواج نیز مذہبی احکامات کے مطابق زندگی گزارنے کی پوری پوری آزادی حاصل ہے۔ یہاں یہ ذکر بھی ضروری مناسب معلوم ہوتا ہے کہ سپریم کورٹ نے امتحان کے دوبارہ انعقاد اور نظم و نسق کی نگرانی کی ذمہ داری اپنے ہاتھوں میں رکھی تھی۔ درج بالا تمام ہی بنیادوں کی روشنی میں سی بی ایس ای (سینٹرل بورڈ آف سیکنڈری ایجوکیشن) کا نوٹیفیکیشن قومی سطح پر اہمیت کا حامل تھا جس سے یہ پوری طرح واضح ہوتا ہے اس مسئلہ کی نوعیت چونکہ قومی تھی اور صرف سپریم کورٹ کے پاس ہی یہ اختیارات ہیں کہ قومی اہمیت کے حامل مسائل میں دخل اندازی کرے چنانچہ اس مسئلہ کا حل صرف سپریم کورٹ ہی دے سکتا تھا، کیرلا ہائی کورٹ نے دو طالبات کو کچھ مراعات بخشیں تاہم ملک کے ہر ہائی کورٹ سے فردافردا اجازت حاصل کرنا نا تو ممکن تھا نہ ہی قابل عمل۔
اسکارف ، حجاب یا فل آستین کے کپڑوں کی اہمیت اسلام ، اسلامی شریعت، اسلامی عقیدے ، اسلامی تہذیب اور اسلامی رسم و رواج میں کیا ہے، اس کے متعلق کیا احکامات ہیں نیز ان احکامات کے ساتھ ایک دن یا ایک گھنٹے کے لئے آنکھ مچولی کھیلی جاسکتی ہے یا نہیں ، اس امتحان میں شرکت کرنے والی لڑکیاں ان احکامات کے دائرے میں ہیں یا نہیں ؟ ان سوالات پر نہ تو یہاں بحث کرنے کی ضرورت ہے نہ ہی ان سوالات کو ہم سوالات کا موضوع بنا کر مفصل بحث کریں گے۔اس مضمون یا اس مسئلہ پر ہم یہ بحث کرنے کی کوشش کریں گے کہ کیا ہمارے ملک ہندوستان کا دستور نیز اس میں شامل آرٹیکل ۵ ۲ کے تحت ہندوستان کے شہریوں کو یہ حق حاصل ہوتا ہے کہ وہ مذہبی احکامات اور بنیادی اصول و ضوابط پر عمل کرنے میں آزاد ہیں، یا نہیں؟ اس کے لئے ہمیں آرٹیکل ۲۵ کا بغور مطالعہ کرنا چاہئے۔
اس امتحان سے متعلق سی بی ایس ای بورڈ کے نوٹیفیکیشن پر عمل در آمد کے نتیجے میں امیدواروں کے سامنے دو راستے بچتے ہیں، ایک یہ کہ لڑکیاں اپنے مذہب کی تعلیمات کی روشنی میں ستر ڈھکنے والا لباس نیز حجاب کو ترجیح دیں یا پھر وہ ان تمام ہی مذہبی احکامات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے امتحان میں شریک ہوجائیں۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ ہر مذہب کے مقابلے میں مسلمانوں میں ایسے افراد کی اکثریت ہے جو کہ مذہب یا مذہبی احکامات کو مذہبی بیزاری یا سیکولرزم کے چولے کی حفاظت کے پیش نظر بآسانی بالائے طاق رکھنے میں کوئی حرج محسوس نہیں کرتے۔ تاہم ہمارے دستور یا دستور کی بنیاد پر قائم ایک سیکولر جمہوری نظام حکومت کے لئے اہم یہ ہے کہ اگر ہندوستان کا دستور خاص کر بنیادی حقوق پر مشتمل دستور کا باب سوم کوئی بھی حق اپنے شہریوں کو فراہم کرتا ہے نیز اس حق کی روشنی میں کسی ایک بھی شہری کے ساتھ اس کو حاصل شدہ دستوری حق یا مراعات کی خلاف ورزی ہوتی ہے تو گویا یہ خلاف ورزی صرف اس شہری کے خلاف نہیں ہوئی بلکہ دستور ہند کی بھی خلاف ورزی قرار دی جائے گی۔
بورڈ کی طرف سے عائد پابندیوں کا دائرہ کار بہت وسیع تھا، اگر اس کے پیچھے مقصد صرف کسی الیکٹرانک آلہ کو امتحان ہال میں لانے سے روکنا تھا تو اس کے لئے منظم جانچ پڑتال کا طریقہ اپنایا جاسکتا تھا، تاہم ایک ایسا حکم نامہ یا نوٹیفیکیشن جاری کرنا جس سے مذہبی عقیدے یا شناخت پر چوٹ آئے اپنایا گیا،جو نہ تو ضروری تھا اور نہ دستوری نقطہ نظر سے جائز۔یہاں سوال یا مسئلہ سر ڈھکنے کا تھا، نہ کہ چہرہ، اگر مسلمانوں میں اختلاف ہے بھی تو وہ چہرہ ڈھکنے کا ہے نہ ہی سر اور ستر کا۔
ڈریس کوڈ صرف ایک چھوٹا سا مسئلہ یا صرف ایک امتحان کا مسئلہ نہیں تھا بلکہ ڈریس کوڈ بذات خود ایک ڈریس کوڈ پالیسی کا حصہ ہے، جو کہ موجودہ حکمراں جماعت کی پالیسی کا واضح حصہ رہا ہے۔ میڈیکل امتحان سے اس پالیسی پر عمل کرانے کی شروعات ہوتی ہے، ظاہر ہے کہ یہ مسئلہ مسلم پرسنل لاء بورڈ کا یا دیگر بڑی مذہبی جماعتوں کا تھا، تاہم پرسنل لاء بورڈ و دیگر جماعتوں و اداروں کی عملی دنیا میں خاموشی کی وجہ سے مجبوراََ ایس آئی او آف انڈیا کو غوروفکر کرنے کے بعد میدان میں اترنا پڑا جو کہ قابل ستائش تھا، اوراصولی طور پر ایس آئی او کی حوصلہ افزائی ضروری تھی ۔ یہ حقائق بھی اب کسی سے پوشیدہ نہیں کہ ڈریس کوڈ کی وجہ سے صرف مسلم ہی نہیں بلکہ دیگر مذاہب کے ماننے والے بھی مثلا عیسائی و سکھ طبقوں کی بھی ایک بڑی تعداد امتحان میں شرکت سے محروم رہی یعنی ان کے ڈاکٹر بن کر قوم و سماج کی خدمت کی تمناؤں پر اس حکومت کی سماج مخالف پالیسیاں اثر انداز ہوئیں۔
دیگر ممالک کے مقابلے میں ہندوستان کی انفرادیت بھی اسی بنیاد پر ہے کہ ہمارے ملک میں بہت سے مذاہب اور قوم ہیں جن کے الگ الگ کلچر اور رسم و رواج نیز عقیدے ہیں اور ہر ایک کے عقیدے اور ان عقیدوں پر مبنی تعلیمات آپس میں بہت زیادہ مختلف ہیں تاہم ان سب نزاکتوں کے باوجود ہمارے ملک کا دستور ایسا تشکیل دیا گیا کہ کسی بھی رسم و رواج یا تہذیب پر کوئی آنچ نہ آئے جبکہ یہاں تو سوا ل عقیدے کا تھا، نیز یہ بھی یقینی بنایا گیا کہ ہر ایک شہری مکمل آزادی کے ساتھ دستور ہند کی سرپرستی میں ایک ایسی زندگی گزارسکے جہاں انسانی اقدار کا پورا پورا تحفظ کیا گیا ہو۔
دستور ہند کے آرٹیکل ۵ ۲ کی شق ۲ میں صاف صاف الفاظ میں تحریر کیا گیا ہے کہ کسی بھی شہری کو کسی بھی ایسے تعلیمی ادارے میں داخلہ لینے سے کسی بھی طرح مذہب کی بنیاد پر نہیں روکا جاسکتا ہے جس ادارے کو حکومت یا حکومتی امداد کے ذریعے چلایا جا رہا ہو، یہاں مذہبی احکامات پر پابندی لگاکر مذاہب کی بنیاد پر داخلہ کی کاروائی کی پہلی سیڑھی پر ہی قدم رکھنے سے روک دیا گیا۔
ایک بڑا سوال یہ بھی اٹھتا ہے کہ کیا اس امتحان میں اس قسم کا ڈریس کوڈ نافذ کر کے ایک غلط رسم کی بنیاد نہیں رکھی گئی جس کو ایس آئی او کے علاوہ کسی نے بھی چیلنج نہیں کیا اور اس بات کے قوی امکانات اور اندیشے موجود ہیں نیز مستقبل میں بھی موجود رہیں گے کہ سی بی ایس ای یا دیگر مرکزی و صوبائی ادارے ، بورڈ یا حکومتیں اس ڈریس کوڈ کو باقاعدہ نافذ کرسکتی ہیں، ملی اداروں اور تنظیموں کی جانب سے اس کی پرزور مخالفت ہونی چاہئے تھی، تاہم ہر گوشے میں خاموشی طاری رہی، شاید اس کی وجہ کم علمی یا دوراندیشی کی کمی رہی ہو، جبکہ اس نوٹیفیکیشن میں صاف صاف الفاظ میں تحریر تھا کہ اس کی خلاف ورزی کرنے والے کسی بھی اسٹوڈنٹ کو امتحان دینے سے روک دیا جائے گا، جس کی بنیاد صرف یہ ہوگی کہ اس نے اسکارف لگا رکھا ہوگا۔
کیا کوئی ایسی لڑکی جس کی تعلیم و تربیت اسلامی و مذہبی تعلیمات کی روشنی میں ہوئی ہو، کیا یہ ممکن ہے کہ وہ صرف تین گھنٹوں کے لئے ہی اسکارف یا دوپٹہ اپنے اوپر سے ہٹاکر آدھی آستین کے کرتے پہن کر باہر تو دور کی بات اپنے گھر کے مردوں کے درمیان ہی جاکر بیٹھ جائے، ظاہر ہے اس سوال کا جواب کوئی باضمیر شخص ہاں میں نہیں دے سکتا ہے۔
اس مسئلہ کی اہم کڑی جس نے عدالت عالیہ کے تئیں ملک کے ایک بڑے طبقے کو بے چین کردیا، وہ تھا آل انڈیا پری میڈیکل ٹسٹ(پی ایم ٹی )میں ڈریس کوڈ پر آئے سی بی ایس ای کے سرکلر کے خلاف اسلامک آرگنائزیشن آف انڈیا (ایس آئی او) کی جانب سے داخل پیٹیشن پر سنوائی کے دوران چیف جسٹس آف انڈیا ایچ ایل دتو کے بیانات جس میں نظام عدلیہ کی سب سے محترم کرسی پر براجمان جناب ایچ ایل دتو صاحب نے ڈریس کوڈ جس میں آدھی آستین کے کرتے، اسکارف، سکھ مذہب کی پگڑی اور کڑے، عیسائی مذہب میں گلے کا کراس نیز ننوں کے سر کا اسکارف، مسلم مذہب کا بنیادی سطر ڈھکنے والا لباس ممنوع قرار دیا گیا تھا، اس غیر دستوری اور غیرمذہبی حکم نامہ سے متعلق فرمایا کہ ’’ یہ مسئلہ آپ کے مذہب کا نہیں بلکہ انانیت کا ہے‘‘ ، نیز ’’اگر آپ ایک دن کے لئے اس کو ہٹادیں گے تو آپ کا عقیدہ نہیں ختم ہوجائے گا‘‘، کیا سپریم کورٹ آف انڈیا کے چیف جسٹس کو عقیدے کی اہمیت کا اندازہ نہیں تھا یا انہوں نے دستور ہند کے آرٹیکل ۲۵،۲۹ اور آرٹیکل ۲۱ کا اطلاق ضروری نہیں سمجھا جو کہ ہمارے ملک کا دستور ہر شہری کو فراہم کرتا ہے، انہوں نے اس مسئلہ کو ایک چھوٹا مسئلہ قرار دیا جبکہ اس سرکلر کی بنیاد پر عیسائی نن کو امتحان دینے سے روکا گیا، بہت سے سکھ بھائی بہنوں کو روکا گیا جس کے خلاف دہلی سکھ گرودوارہ مینجمنٹ کمیٹی نے بھی عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانے کا اعلان کیا ہے۔یہاں یہ امر قابل غور ہے کہ اس امتحان کا فارم کل 6,32,625 افراد نے بھرا، تاہم امتحان میں صرف 4,22,859 افراد نے ہی شرکت کی، یعنی تقریبا دو لاکھ لوگوں نے امتحان نہیں دیا۔
ہمارے ملک کا دستور اپنے شہریوں کو جو بنیادی حقوق فراہم کرتا ہے وہ دستور کے باب سوم میں درج ہیں، جن کے تحفظ کی پوری پوری ذمہ داری عدالت عالیہ یعنی سپریم کورٹ آف انڈیا کو دی گئی ہے، یعنی سپریم کورٹ آف انڈیا ہمارے دستور اور اس کے ذریعے حاصل شدہ حقوق و مراعات کا سرپرست متعین کیا گیا ہے۔دستور ہند کے آرٹیکل ۲۵،۲۹ اور آرٹیکل ۲۱ کے مطابق اس ملک میں تمام شہریوں کو مذہبی تعلیمات پر عمل کرنے کی پوری پوری آزادی فراہم کی گئی ہے، یہاں یہ بھی تحریر کرنا ضروری ہے کہ ہمارے دستور کے پریمبل (مقدمہ) کے مطابق ہندوستان ایک سیکولر ، سوشلسٹ اور عوامی جمہوریہ ہے جس کی رو سے حکومتی پالیسی کسی بھی مذہب یا اس کی تعلیمات کے خلاف نہیں ہوں گی۔ سی بی ایس ای ایک حکومتی ادارہ ہے اور موجودہ حکومت کی اقلیتی مخالف پالیسیاں کسی بھی شہری سے چھپی ہوئی نہیں ہیں، کیا یہ سرکلر ہندوستان کی مشترکہ تہذیب کے خلاف موجودہ حکومت کے ایجنڈے کا ہی ایک حصہ ہے؟
ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم ہندوستان میں نافذالعمل دستور کے سیکولر کردار اور سیکولرمزاج نیز اس میں مذہب کی آزادی پر منحصر آرٹیکل ۲۵ کو سمجھیں۔ آرٹیکل ۲۵ کے الفاظ ہیں
“Freedom of conscience and the right to profess, practise and propagate religion”
نیز آگے چل کر دستور کے سیکولر کردار کے سلسلے میں دستوری اسمبلی وضاحت کرتی ہے کہ دستور ہند کے مطابق ملک ایک سیکولر نوعیت کا ہوگا، سیکولر اسٹیٹ کا مطلب یہ ہے کہ اسٹیٹ تمام مذاہب کے ساتھ یکساں رویہ اختیار کرے گا، کسی کی کوئی حمایت یا طرف داری نہیں کرے گا۔ تاہم یہ اسٹیٹ مذہب مخالف نہیں ہوگا ۔ دستور ہند میں مذہب کی کوئی وضاحت یا تعریف بیان نہیں کی گئی ہے۔ سپریم کورٹ نے اے ایس نارائن دیکشیتالو بنام اسٹیٹ آف آندھراپردیش ۱۹۹۶ کے کیس میں وضاحت کی تھی کہ
“A religion is not merely an opinion, doctrine or belief. it has outward expression in acts as well.”
یعنی مذہب کا مطلب صرف عقائد یا فلاسفی نہیں بلکہ اس پر عمل کرنا ہے۔ ایک دوسرے کیس کمشنر ایچ ای آر بنام ایل ٹی سوامیار میں سپریم کورٹ آف انڈیا نے ۱۹۵۴ء میں کہا کہ
“Religion is a matter of faith with individuals or communities. The religion,thus, may lay down a code of ethical rules for its followers to accept and also prescribe rituals, ceremonies and modes of worship which are regarded as integral parts of religion.”
نیز سپریم کورٹ نے ۱۹۵۴ء میں شیرور مٹھ فیصلے میں کہا تھا کہ
“The doctrine of a particular religion or usages and practices would include food and dress”
اسی سال کے ایک اور مشہور فیصلے رتیلال بنام اسٹیٹ آف بامبے میں سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ
” Religious practices of performance of acts in pursuance of religious beliefs are much a part of religion as faith or belief in particular doctrines.”
اس کے علاوہ ۱۹۹۵ء میں سنجیو دتا کیس میں جسٹس ساونت نے کہا تھا کہ
” Freedom of religion is the core of Indian Culture. Even the slightest deviation shakes the social fibre.”
یہ وہ اقدار اور دستوری روح تھی جس کے تحفظ کے لئے ایس آئی او آف انڈیا نے کمر باندھی تھی جو کہ یقیناًلائق ستائش ہے۔
ہمارے ملک میں نافذ قوانین میں بنیادی اہمیت کے حامل کرمنل پروسیجر کوڈ (سی آر پی سی ) کی دفعہ47(2) صاف صاف الفاظ میں پردہ نشین خاتون کے پردہ کی اہمیت پر روشنی ڈالتی ہے، جس کے مطابق اگر پولیس کو کسی جرم کی تفتیش یا جرم میں استعمال شدہ ہتھیار یا مجرم کی گرفتاری کے لئے بھی کسی ایسی جگہ یا گھر کی تلاشی لینی ہوگی تو بھی پولیس پہلے اس پردہ نشین عورت کو مہلت دے گی کہ وہ یا تو باہر آجائے یا ان آفیسرس کو اندر آنے کی اجازت دے۔ مزید جسٹس ورما کمیشن کے بعد خواتین کی عزت و آبرو (موڈسٹی) کے تحفظ کے لئے بھی انڈین پینل کوڈ (آئی پی سی ) کی دفعات کو مزید تقویت بخشی گئی ہے، کیا ہمارے ملک کے چیف جسٹس کو معلوم نہیں کی ہمارے ملک کی تہذیب میں دوپٹہ اور اوڑھنی یا گھونگھٹ جس کی ایک دیگر شکل اسکارف بھی ہے ان تمام چیزوں کو ایک لڑکی کی عزت و آبرو کی نشانی سمجھا جاتا ہے۔ لیکن ان تمام دستوری و قانونی شقات کے باوجود ملک میں عدلیہ کی سب سے قابل احترام شخصیت کی جانب سے دستوری، سماجی، تہذیبی و مذہبی حق و آزادی کے سلسلے میں آنے والا غیر ذمہ دارانہ بیان افسوس ناک محسوس ہوتا ہے۔ اس تناظر میں ۲۰۰۹ء کا وہ واقعہ بھی یاد آتا ہے جب داڑھی کو لے کر سپریم کورٹ آف انڈیا کے ایک جج مرکنڈے کاٹجو نے داڑھی سے متعلق ایک معاملہ کی سنوائی کے دوران طالبانی داڑھی کا بیان دیا تھاجس کے بعد عوامی بے چینی و احتجاجات کے بعد، جس میں ایس آئی او آف انڈیا نے بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا، کاٹجو صاحب کو تحریری معافی مانگنی پڑی تھی۔ کیا ہمارے چیف جسٹس ایچ ایل دتو صاحب کو اپنی اس غلطی کا احساس ہے جس کے بعد ملک کی تمام ہی اقلیات کے اندر بے چینی محسوس کی جارہی ہے۔
کسی بھی نظام حکومت کے معیار کو سمجھنے اور جانچنے کے لئے بنیادی اہمیت اس سماج یا ملک میں قائم نظام عدلیہ کودی جاتی ہے، ہر نظام حکومت میں اس چیز کو یقینی بنانے کی حتی المقدور کوشش کی جاتی ہے کہ وہاں کا نظام عدلیہ ہر قسم کے دباؤ اور ہر طرح کی تفریق و جانبداری سے آزاد ہو، نیز وہاں کی عوام کو عدلیہ پر مکمل بھروسہ ہو، ہمارے ملک کے دستور میں بھی ان تمام امور کا حتی المقدور پاس ولحاظ رکھنے کی کوشش کی گئی ہے، ہندوستان کے تناظر میں یہ اشد ضروری ہوجاتا ہے، کیونکہ اس ملک میں مختلف مذاہب، مختلف تہذیب اور بے شمار قبائل پر مبنی سماج اپنی الگ الگ پہچان اور زبان ومراسم کے ساتھ ایک قدیم زمانے سے ملک کی منفرد شناخت کے باوجود اس کی ترقی میں برابر کے شریک ر ہے ہیں، ہمارے ملک کے قوانین کی بنیاد یہاں کی تہذیب اور روایات پر بھی مبنی ہے، دستور و قوانین کی تدوین کے دوران مذاہب اور ان کی تعلیمات کو بھی بنیادی اہمیت دی گئی ہے تاکہ ایک دوسرے کے مفادات کا تحفظ بھی پیش نظر رہے۔
ہمیں ساحل پر بیٹھے ناکاروں کے ناتجربہ کار مشوروں پر کان دھرنے کے بجائے دستور ہند کی بقا اور اس کے نفاذ کی بہتر کوششوں میں اپنی صلاحیتوں اور اوقات کا استعمال کرنا ہوگا۔
ابوبکر سباق سبحانی،
ایڈووکیٹ دہلی ہائی کورٹ