ڈاکٹر تابش مہدیؒ: ادب اسلامی کا روشن ستارہ

محمد انس فلاحی مدنی

آہ! ڈاکٹر تابش مہدی اب ہمارے درمیان نہیں رہے۔ وہ اپنی بیماری کے باعث دہلی کے معروف ہاسپٹل میکس میں ایڈمٹ تھے،جہاں مؤرخہ ۲۳؍جنوری ۲۰۲۵ء کی صبح دس بجے داغ مفارقت دے گئے۔إِنَّا ِلِلَّٰهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ یہ خبران سے…

آہ! ڈاکٹر تابش مہدی اب ہمارے درمیان نہیں رہے۔ وہ اپنی بیماری کے باعث دہلی کے معروف ہاسپٹل میکس میں ایڈمٹ تھے،جہاں مؤرخہ ۲۳؍جنوری ۲۰۲۵ء کی صبح دس بجے داغ مفارقت دے گئے۔إِنَّا ِلِلَّٰهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ یہ خبران سے وابستہ تمام عقیدت مندوں، شاگروں اور جہانِ علم وادب کےان سیکڑوں خوشہ چینوں کو بہت عرصے تک غمگین رکھے گی۔وہ ان کی دل آویز مسکراہٹ،نستعلیق طبیعت،علم و ادب کی کہکشاں میں ان کی موجودگی اور ان کی زبان سےسنی جانے والی یادداشتوں کو بہت یاد کریں گے۔

ڈاکٹر تابش مہدی اردو دنیا کی مشہور ومقبول شخصیت تھی ۔ انھوں نے علم وادب کی غیر معمولی خدمت کی۔ وہ اردو شاعری اور اردو لسانیات کے میدان میں درجہ استناد کو پہنچے ہوئے تھے۔ ملکی اور عالمی مشاعروں میں ان کی شرکت کام یابی کی علامت سمجھی جاتی تھی۔ان کا شعری و نثری سرمایہ پچاس سے زائد کتب پر پھیلا ہوا ہے۔ان کی شخصیت کے خصوصی اوصاف جیسے سب سےمسکراکر ملنا، لوگوں کو ان کے چہروں اورناموں سے یاد رکھنا اورتعلق کو بنائے رکھنا ، ان سب نے انہیں ہر حلقے میں محبوب اور محترم بنادیا تھا ۔

راقم کا ان سے تعلق بہت پرانا نہیں تھا، جلد ہی قائم ہوا ۔ جب ماہنامہ حیات نو کی ادارت عارضی طور پر میرے ذمہ آئی تو ان کے دو مضمون شامل اشاعت کرنے کا موقع ملا ۔ یہ مضامین میرے ان سے تعلق کا ذریعہ بنے ۔ ایک مضمون خصوصی شمارے ڈاکٹر خلیل احمد ؒ حیات و خدمات کے لیے تھا۔ مضمون لکھوانے کے لیے انھیں خط ارسال کیا اور فون پر گفتگو کی۔ڈاکٹر مرحوم نے مقررہ تاریخ پرمضمون ارسال کرنے کے بعد فون کیا اور مضمون سے متعلق کچھ ضروری باتوں کی جانب توجہ دلائی۔ شمارہ شائع ہوا یا نہیں ۔اس سلسلے میں کئی بار گفتگو ہوئی ۔

مؤرخہ۴؍ ستمبر۲۰۲۳ء کو دہلی کا سفر ہوا تو اپنے عزیز دوست ڈاکٹر سیف اللہ اصلاحی کے ہم راہ ان کے دولت کدہ پر ملاقات ہوئی ۔ ڈھیروں باتیں ہوئیں۔ڈاکٹر مرحوم کا امروہہ اور سنبھل سے خاص تعلق رہا ہے، انھوں نے وہاں کے احوال اور میرے ننیھال سے متعلق باتیں پوچھی، یہ میری پہلی تفصیلی ملاقات تھی ۔ اس کے بعد فون پر گاہے بہ گاہے گفتگو رہی ۔وہ جس سے ایک بار ملتے اسے اپنا گرویدہ بنا لیتے اوراس سے تعلق برقرار رکھتے تھے۔ ان کی شخصیت کے اس خاص پہلونے مجھے بہت متاثر کیا ۔ 

تابش مہدی کو اللہ تعالیٰ نے غیر معمولی حافظہ دیا تھا ۔ جس سے ایک بار مل لیتے ،اسے نام سے یاد رکھتے ۔ راقم کا ان سے چند سال قبل محبت و عقیدت کا تعلق قائم ہوا ۔ملتے یا فون پر بات ہوتی تو تعارف نہیں کرانا پڑتا ۔ وہ اپنے احبا ب اور شاگردوں کو خود فون کرکے ان کی خبر گیری کیا کرتے تھے ۔ سنبھل میں ایک مشاعرہ منعقد ہونا تھا ، مجھے فون کیا کہ سنبھل جاؤں گا ۔ اتفاق ایسا ہوا کہ میں بھی پہنچ گیا ۔ ان سے ملاقات ہوئی دیر تک باتیں ہوئیں ۔وہ مرنجا مرنج طبیعت کے مالک تھے، ان کی مجلس بہت پُر لطف ہوتی تھی، اس میں ماضی کے سنہرے واقعات ، دل چسپ یادیں اور علم وفکر کی گہری باتیں ہوتیں ۔ان سے ملنے والا ہر شخص ، دوبارہ ملنے کی کوشش کرتا۔ 

پیدائش اور تعلیمی زندگی

ڈاکٹر تابش مہدی کی پیدائش رام دیوپٹی بڈھوڑہ ضلع پرتاپ گڑھ میں ہوئی ۔والد رفیع الدین مرحوم متوسط درجہ کے کسان تھے۔ ان کا بچپن اپنے ننیھال حضرت صوفی محمد ثابت علی ناجیہ پوری ؒ کے یہاں گزرا ۔ ۱۹۶۳ء میں درجہ ہشتم کا امتحان پاس کیا ۔ ۱۹۶۵ء میں الٰہ آباد کے مدرسہ سبحانیہ میں داخل ہو کر تجویدو قراءت کی تکمیل کی اور عربی زبان کی ابتدائی کتب کا درس لیا ۔ ۱۹۶۶ء میں قاری شوکت علی کےپاس ایک سال قیام کرکے قراءت سبعہ کی مشق کی ۔ ۱۹۶۷ء میں حضرت علامہ بلالی علی آبادی سے فارسی کتب پڑھیں اور ان سے ہی شاعری کے رموز بھی سیکھے۔۷۰۔۱۹۶۹ء میں جون پور کے مرکز علوم القرآنیہ جامع الشرق میں رہ کر عربی کی تعلیم حاصل کی اور مولوی اور عالم کے امتحانات پاس کیے ۔انھوں نے ۱۹۷۲ءمیں عالم،۱۹۷۸ءمیں منشی ،۱۹۸۰ءمیں کامل کا امتحان پاس کیا ۔ ۱۹۹۰ءمیں آگرہ یونی ورسٹی سے ایم اے اردو کیا ۔ ۱۹۹۶ءمیں تعلیمی سلسلے کی آخری کڑی ڈاکٹر یٹ جامعہ ملیہ اسلامیہ،نئی دہلی سے ”اردو تنقید کا سفر۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے تناظر میں“ کے عنوان پر اپنا تھیسس لکھ کر مکمل کی۔ اس طرح وہ ڈاکٹر تابش مہدی کہلانے لگے ۔ ان کے اساتذہ علامہ شہباز امروہی ، علامہ بلال علی آبادی ، حضرت سروش مچھلی شہری ،مولانا ابو الوفاء عارف شاہ جہاں پوری اورمولانا عامر عثمانی بہ طور خاص ذکر کیے جاتے ہیں۔

فکر معاش اور علمی سرگرمیاں

ڈاکٹرتابش مہدی کی پوری زندگی علم ومعاش کی تلاش وجستجو میں ہی گزری ۔ وہ دیوبند پہنچے اور ادارہ تجلّی سے وابستہ ہوئے۔ امروہہ میں قیام کیا، وہاں کی سرزمین انھیں ایسی بھائی کہ لگتا تھا کہ اب یہیں کے ہو کر رہ جائیں گے ،لیکن پھر یہاں سے کوچ کیا اور مشرقی یوپی کے اہم دینی ادارے جامعۃ الفلاح کو اپنا مسکن بنالیا ۔ تجوید کے استاذ مقرر ہوئے ،لیکن کچھ عرصے بعد وہاں سے مستعفی ہوکر دہلی آگئے۔ یہاں مرکزی مکتبہ اسلامی ،نئی دہلی سے منسلک ہوگئے اورتقریباً بیس برس یہاں بہ حیثیت ایڈیٹر فرائض انجام دیے ۔

ڈاکٹر تابش مہدی نے اپنی علمی زندگی کا آغاز بیس سال کی عمر میں پرتاپ گڑھ سے پندرہ روزہ اخبار ’ پیغامِ حق‘ جاری کرکے کیا۔اس کے علاوہ انھوں نے متعدد رسائل میں بہ حیثیت معاون مدیر کے فرائض انجام دیے ،ان میں؛گل کدہ ، ذکریٰ ، تجلّی ،اجتماع ، دعوت،الایمان ،ایوان ِ اردو اور مشہور ماہنامہ زندگی نو،نئی دہلی کے بھی عرصہ تک معاون مدیر کی حیثیت سے خدمت انجام دی۔ان کی زندگی کا آخری مشغلہ اپریل 2018ء تا وفات اسلامی اکیڈمی جماعت اسلامی ہند، دہلی میں فن تجوید و قراءت کی تدریس رہا ۔ جہاں وہ طلبہ کو تجوید و قراء ت کی تعلیم دیتے رہے ۔

جماعت اسلامی سے تعلق 

ڈاکٹرتابش مہدی غور و فکر کے آدمی تھے ، تنقیدی مزاج رکھتے تھے ، چیزوں کو بہت باریکی سے دیکھنا ان کی سرشت تھی۔یہی وجہ رہی کہ انھوں نے تبلیغی نصاب کو مطالعے وجائزے کا موضوع بنایا ۔ ستّر کی دہائی میں تحریک اسلامی سے فکری رشتہ جوڑا تھا ، کارکن بنے اور پھر رکن بنے ۔ڈاکٹرتابش مہدی اپنے ایک انٹرویو میں جماعت سے فکری اور ضابطے کا تعلق ذکر کرتے ہوئے دل چسپ روداد بیان کرتے ہیں:

جماعت اسلامی سے میرا باقاعدہ تعلق ۱۹۷۷ میں ہوا۔ اس کے بعد کچھ دنوں تک میرا یہ حال تھا کہ جہاں کہیں بھی میں جماعت اسلامی کے خلاف کوئی کتاب یا مضمون دیکھتا، اسے ضرور پڑھتا اور ان حوالوں کی تہ تک بھی پہنچنے کی کوشش کرتا تھا،جو اس کتاب یا مضمون میں ہوتے تھے۔ پھر رفتہ رفتہ میری یہ سرگرمی اس حد تک بڑھ گئی کہ جماعت اسلامی اور اس کا پیغام ہی میرا اوڑھنا بچھونا بن گیا۔ لیکن چوں کہ جیسا کہ پیچھے کہیں میں آپ کو بتا چکا ہوں کہ میری تعلیم و تربیت ایک روحانی اور متصوفانہ گھرانے میں ہوئی، عمر کے بہت ابتدائی حصے میں اپنے عہد کے نام ور شیخ طریقت اور اویس دوراں حضرت شاہ فضل رحماں گنج مراد آبادیؒ کے سلسلے کے مشہور بزرگ حضرت مولانا شاہ محمد احمد پھول پوری رحمۃ اللہ علیہ کا دامن گرفتہ ہوگیا تھا، کم و بیش دو برس تک مصلح الأمت حضرت مولانا شاہ وصی اللہ فتح پوری رحمۃ اللہ علیہ کی صباحی مجالس سے فیض یاب ہوتا رہا ہوں اور میرے دوسرے اساتذہ بھی روحانی سلاسل سے تعلق رکھتے تھے، ان سب کے اثرات نے مجھے ہمیشہ روحانی گرفت میں رکھا اور جہاں یاجوباتیں مجھے اُن قدروں سے متصادم نظر آئیں، ان سے مجھے ہمیشہ نفرت سی رہی۔ اس سلسلے میں میں کبھی کسی گروہ یا تحزب کا شکار نہیں ہوا۔ یہی وجہ ہے کہ حلقۂ جماعت اسلامی میں بھی جہاں تعقل پسندی، آزاد خیالی، انکار حدیث، عدم تکریم صحابہ یا پرویزیت کے اثرات نظر آئے، میں نے کسی رو رعایت کے بغیر اپنی حیثیت و بساط کے مطابق ان کی مخالفت کی ۔ زبانی بھی اور تحریری بھی۔ مجھے اپنے اس رویے کی وجہ سے گرچہ ظاہری طور پر نفرت و تعصب کی نگاہ سے تو نہیں دیکھا گیا، لیکن میرا احساس ہے کہ ایک وہ طبقہ مجھ سے بُعد اختیار کرنے لگا، جو کبھی میرے بعض علمی و تحقیقی کاموں کی وجہ سے مجھے عزیز و محبوب رکھتا تھا۔

 ڈاکٹر تابش تحریک اسلامی کی اساسی فکر کے حامل تھے ،تحریک میں اس کے محافظ رہے ، تحریک میں راسخ فی الدین علماء کی شمولیت وقیادت کو پسندیدگی کی نظر سے دیکھتے تھے ۔ تحریکی حلقے میں تفردات اور فکری کج روی محسوس کرتے تو اس کابرملا اظہار کرتے تھے ۔ تحریک میں انھیں سب سے زیادہ انسیت سابق امیر جماعت اسلامی ہند مولانا سید جلال الدین عمریؒ سے تھی۔ وہ ان کے علم،تقویٰ وطہارت اور دینی خدمات سے بہت متاثر تھے ۔ یہ محبت یکطرفہ نہیں تھی ،مولانا عمریؒ بھی ڈاکٹر تابش مہدی کو بے حدعزیز رکھتے تھے۔

وہ تحریکی شعراء کے نمایاں فرد کی حیثیت سے بھی مقبول ہوئے ۔یہی وجہ رہی کہ ان کا ادارہ ادب اسلامی، نئی دہلی کا غیرمعمولی رشتہ رہا ، اس کے نائب صدر بھی ہوئے ۔

بہ حیثیت شاعر و نقاد

ڈاکٹر تابش مہدی کی شہرت بہ حیثیت شاعر ہوئی ۔ ان کی شاعری میں نعتیہ کلام بے حد مقبول ہوا ۔ نعتیہ کلام ،ان کا ترنّم اور درد وسوز سامعین کو مسحور کردیتا تھا ۔ وہ جس محفل میں جاتے ان سے نعت سننے کی فرمائش کی جاتی تھی ۔ لوگ ان سے نعت سننے کے مشتاق رہتے تھے ۔قیام پرتاپ گڑھ کے دوران کا واقعہ ہے کہ آپ الہٰ آباد بورڈ کے عالم کا امتحان دینے کے لیے بہرائچ روانہ ہوئے ۔ جمعہ کا دن تھا اس لیے اسٹیشن کے قریب والی مسجد میں نماز ادا کرنے مسجد پہنچے ۔ اتفاق سے وہاں کے امام اس دن غیر حاضر تھے ،نماز کا وقت ہو رہا تھا اور کوئی ایسا نہ تھا جو نماز پڑھا سکے ،آپ کو مولوی صورت دیکھ کر لوگوں نے آپ سے نماز پڑھانے کی درخواست کی ، جسے آپ نے قبول کر لیا ۔ نماز کے بعد مسجد کے منتظم عبد الغفار خاں صاحب نے یہ پیش کش کی کہ اگر آپ ہر جمعہ کی نماز پڑھادیا کریں اور نماز کے بعد سامعین کو ایک یا دو نعتیں سنادیا کریں تو آپ کو ایک سو پچاس روپے ماہانہ پیش کیا جائے گا۔

ڈاکٹر تابش مہد ی کی تصانیف اور شعری مجموعے کی تعدادپچاس سے زائدہے ۔ ان کے تصنیفی سرمایے میں تحقیق وتنقید ،تدوین و ترتیب کے ساتھ شخصی خاکے بھی خصوصیت سے شامل ہیں ۔ ان کی مقبول تصانیف درج ذیل ہیں :

شفیق جون پوری ۔ ایک مطالعہ 

طاہر تلہری۔شخص اور شاعر 

نقد غزل ، اردو تنقید کا سفر

رہ نمائے تجوید

حالی ،شبلی اور اقبال 

جنھیں میں نے دیکھا 

ابوالمجاہد زاہد ۔فکر وفن 

تنقید و ترسیل

 ان کے شعری سرمایہ میں نعتیہ کلام کو فوقیت حاصل ہے ۔ان کے مشہور نعتیہ مجموعے درج ذیل ہیں؛

نقش ِاوّل (ابتدائی غزلوں اور نعتوں کا انتخاب)

لمعات حرم 

سرودِحجاز 

سلسبیل 

ان کے نعتیہ کلام کو علمی ودینی حلقے میں غیر معمولی پزیرائی حاصل ہوئی ۔

نثر وشاعری کے امتیازی پہلو

ان کی نعتیہ شاعری غلو اور بے ادبی سے پاک ہے ، دیگر نعت گو شعراء سے وہ اس لحاظ سے ممتاز ہیں کہ وہ سیرت رسول ﷺ کے پیغام،مقصد،منہج اور رسالت کے حقیقی مفہوم سے بہ خوبی واقف ہیں ۔ اس لیے وہ حدادب ملحوظ رکھتے ہوئے ،رسول اللہﷺ کی شان میں شعر کہتے ہیں ۔ رسول اللہ ﷺ کی شان میں کہے گئے اشعار ملاحظہ فرمائیں؛

گفتگو معتبر ،تذکرہ معتبر میرے سرکارؐ کی ہرادا معتبر

ان کے در کی جسے چاکری مل گئی ابتدا معبتر ،انتہا معتبر

ڈاکٹر تابش مہدی کی نثر تکلفات سے پاک ، سادہ ،سلیس اور دل نشیں ہوتی ہے ۔ وہ قاری کو ثقیل تعبیرات اور غیر مانوس الفاظ سے بوجھل نہیں کرتے ،بلکہ اپنے انوکھے اور منفرد اسلوب سے اس کی دل چسپی کو دو بالا کردیتے ہیں ۔ قاری ان کے خاکے، تحقیق وتنقید اور علمی و ادبی اسلوب سے بہرہ ور ہونے کے ساتھ ہی ان کی نثر کا بھی اسیرہو جاتا ہے ۔

تابش مہدی زبان و بیان کے سلسلے میں بہت حساس واقع ہوئے تھے، انھوں نے اردو زبان وادب کی اس تعلق سے غیر معمولی خدمت کی ہے۔ وہ اردو املا کے نئے طریقے کےخالق و موجدبھی شمار کیے جائیں گے ۔ وہ املاوکتابت کے جدید طرز پر خصوصیت سے زور دیتے ہیں ۔اس میں ان کی انفرادیت مسلّم تھی ۔اس سلسلے میں انھوں نے پروفیسر آسی ضیائی کی کتاب ”اچھی اردو“ کی تدوین جدید کی تھی ، جو مرکزی مکتبہ اسلامی ،نئی دہلی سے ۲۰۱۶ء میں شائع ہوئی۔

ڈاکٹر تابش مہدی کی تحریرحشو وزوائد سے پاک ہوتی ہے۔وہ طویل جملےاور طویل اقتباس نقل کرکے تحریر کا حجم نہیں بڑھاتے ہیں ۔ نپے تلے الفاظ اور متعین مفہوم اور بے لاگ تنقید ان کی تحریر کا جوہرہے۔وہ اردو دنیا کے فرد تھے ،اس لیے ان کی تحریر کا بیش تر حصہ ادبا و شعراء کے کلام کے تعارف وتنقید پر مشتمل ہے ۔ ان کے تنقیدی مضامین میں سنجیدہ اسلوب ، علمی نقد اور متانت اپنے کمال کے ساتھ پائی جاتی ہے۔

ان کی شاعری میں ادب وروایت کی پاس داری ، زہد و ورع کا غلبہ ، بے نفسی اور خودداری کا گوہر اور عزم وحوصلہ کی چنگاری پورے طور موجود ہوتی ہے۔ ولولہ انگیز اور فکر ساز شاعری کے اسی وصف نے انھیں شعراء میں ممتاز مقام عطا کیا ۔ وہ شاعری میں خوشامدی لب ولہجے سے کوسوں دورتھے ، اس تعلق سے غیر معمولی حساس واقع ہوئے تھے۔ انھوں نے اپنی شاعری کو اس سے بہت پاک رکھا ، وہ عام شعراء کی طرح زلف ورخسار ، بادل وبارش اورسوہانا موسم ،ندی،سمندراورپھول پتّیوں کو اپنی شاعری کا حصہ نہیں بناتے ہیں ، ان کی شاعری بامقصد اور بامعنیٰ ہوتی ہے ۔وہ کہتے ہیں؂

نیا زمانہ ، نئی شاعری ،نیا لہجہ میں زلف ورخ کے قصیدے جناب کیسے لکھوں ؟

ایک شعر میں کہتے ہیں؂

سربلندی کی خواہش ہے دل میں اگر سراٹھا کر نہ اتنا چلا کیجیے

ان کی شاعری اسلامی آداب ومزاج کی حامل اور اسلامی روایات کی ترجمان ہوتی ہے۔ وہ اپنی شاعری میں اعلیٰ اخلاقی قدروں کی ترجمانی اور ترسیل کا فريضہ انجام دیتے ہیں ۔ان کے شعری مجموعے ’کنکر بولتے ہیں‘پر تبصرہ کرتے ہوئے مخمور سعیدی لکھتے ہیں:

”کنکر بولتے ہیں‘ کے مطالعے سے یہ تاثر قائم ہوتا ہے کہ اسلام کی اخلاقی تعلیمات ان کے مزاج میں رچی بسی ہیں اور کسی شاعر کا کلام اس کی مزاجی کیفیات ہی کا حامل ہوتا ہے۔ اس لیے تابش مہدی کی غزلوں میں تغزل کا ایک مختلف رنگ آپ کو نظر آئے گا۔یہ وہ رنگ نہیں، جسے عکسِ لب ورخسار سے جلا ملتی ہے، بلکہ یہ وہ رنگ ہے، جو اپنی نمود کے لیے شاعر کے خون دل کا مرہون منّت ہے۔“(تابش مہدی ایک سفر مسلسل ،ڈاکٹر شجاع الدین فاروقی ،ص:۱۴)  

وہ اپنی شاعری میں فکر وعمل کی تلقین ، روایات کی پاس داری اور بزرگوں کی صحبت سے فیض یابی کی راہ دکھاتے ہیں؂

نہ علم و فن ،نہ متاعِ ہنروی کچھ ہے عمل کی فریاد میں جو کچھ ہے بس وہی کچھ ہے

چراغ زد پہ جو آندھی کے رکھ رہے ہو میاں تمھارے پاس بزگوں کی روشنی کچھ ہے

وہ اپنی شاعری میں دل کی پاکیزگی اورحدود کی پاس داری کا بھی درس دیتے ہیں؂

پہلے آپ اپنا دل آینہ کیجیے پھر کسی سے امید وفا کیجیے

مسئلے خود بہ بخود ختم ہوجائیں گے اپنی اپنی حدوں میں رہا کیجیے

تابش مہدی کی شہرت قارئ قرآن ،نعت خواں ، مدرس ،ناقد ، ادیب اورشاعر کی حیثیت سے ہوئی ۔ وہ اپنے فن میں کمال اور اختصاص رکھتے تھے ۔ ان کے شاگردوں کی بڑی تعداد دنیا بھر میں پھیلی ہوئی ہے ۔جیسے ہی ان کے انتقال کی خبر عام ہوئی ، دنیا بھر میں ان کے شاگردوں اور عقیدت مندوں کی تعزیتی تحریریں گردش کرنے لگیں ۔

اعزازات

ان کی علمی وادبی خدمات کے طفیل متعدد علمی اکیڈمی اور اداروں کی جانب سے انھیں اعزازات سے نوازاگیا:

حضرت حسان ایوارڈ (2005ء) ۔کل ہند حمد و نعت اکادمی، دہلی

شان ادب ایوارڈ (2011ء) ۔بزم ادب دیوبند

نشان اردو (2013ء) ۔اردو اکادمی نیپال

راسخ عظیم آبادی ایوارڈ (2013ء) ۔ بہار اردو اکادمی، پٹنہ

ضیاء فتح آبادی ایوارڈ (2014ء) ۔ مہر فاؤنڈیشن، دھولیہ، مہاراشٹر

فریو واہی ایوارڈ (2014ء) ۔فریو واہی اکادمی، الہ آباد

ایوارڈ برائے اردو شاعری (2015ء) ۔اردو اکادمی دہلی

قومی یک جہتی ایوارڈ بہ خطاب افتخار ادب (2021ء) ۔ بزمِ اردو، سیتاپور

علامہ اقبال ایوارڈ برائے شعر و ادب (2021ء) ۔ اردو ڈویلپمنٹ آرگنائزیشن، انڈیا 

ڈاکٹر تابش مہدی نے اپنے فن میں کمال کی وجہ سے غیر معمولی مقبولیت پائی ۔ ان کی شخصیت اور شاعری پر مضامین لکھے گئے ، ریسرچ ہوئیں ۔ ان میں ایک اہم کاوش ڈاکٹر شجاع الدین فاروقی کی تصنیف ”تابش مہدی ایک سفر مسلسل“ہے ۔ یہ کتاب ۲۰۱۲ء میں منظر عام پر آئی ۔نو ابواب پر مشتمل اس کتاب میں ڈاکٹر تابش مہدی کا سوانحی سفر ، قلمی سفر ، بہ حیثیت غزل گو ، حمد گو ،مدّاح رسول اور منقبت نگار ،بہ حیثیت ناقد و محقق، اعزازات ،ارباب دانش کی نظر اور نمونۂ کلام شامل کیا گیا ہے ۔ مصنف نےنہایت مرتب انداز میں بہت جامعیت سے ان کی شخصیت وفکر کو سمیٹا ہے ۔ 

ڈاکٹر تابش مہدی پر ایک ایم فل کا مقالہ بہ عنوان ”تابش مہدی کی شاعری کا تنقیدی مطالعہ“ڈاکٹر عبدالرب منظر کی زیر نگرانی جناب معاذ احمد فلاحی نے یونی ورسٹی آف حیدرآباد میں لکھا ۔ اس میں انھوں نے ڈاکٹرتابش مہدی کی زندگی ،تعلیمی کوائف اور ان کی شاعری کا اجمالی جائزہ لیتے ہوئے ان کی غزلیہ شاعری پر خصوصی بحث کی ہے ،اس کے علاوہ ان کے حمد و مناقب اور ان کی نعتیہ شاعری پر بھی گفتگو کی ہے۔

ڈاکٹر تابش مہدی کی آخری تصنیف ان کی خود نوشت ”تیز دھوپ کا مسافر“ ہے ۔ جو ان کی پیدائش سے سن ۱۹۹۱ء کے حالات و واقعات پر مشتمل ہے ۔ اس میں ان کی زندگی کے نشیب و فراز ، صعوبتیں ، فکر معاش کے لیے تگ و دو اورعلمی زندگی کی مکمل روداد بہت سحر انگیز اسلوب میں قلم بند کی گئی ہے ۔ قاری پڑھے تو پڑھتا ہی چلا جائے ۔ ان کی خود نوشت کا یہ پہلا حصہ ہے ،دوسرا حصہ ابھی منتظر اشاعت ہے ۔

ڈاکٹر تابش مہدی کی زندگی کا سبق

ڈاکٹر تابش مہدی کی زندگی کا سب سے بڑا سبق یہی ہے کہ حالات ومصائب زندگی کا حصہ ہیں ، ہار نہ مانیں ، سمجھوتے کی زندگی نہ گزاریں بلکہ محنت ، یکسوئی اور لگن کے ساتھ اپنے فن میں اختصاص پیدا کیجیے۔ مخالفین اور نقطہ چیں حضرات حوصلہ شکنی کریں تو صبر کیجیے اور اپنے حصے کی شمع جلاتے رہیے ،قدردانوں سے دنیا ابھی خالی نہیں ہوئی ہے ۔ لوگ ملیں گے اور بہت ٹوٹ کر محبت کریں گے۔اپنے اسلاف کی زندگیوں کا مطالعہ کیجیے ،انہی کے نقش قدم کو چومتے ہوئے آگے بڑھیے، اپنی تہذیب ،تشخص اور روایت کاسودا مت کیجیے بلکہ جی جان سے اس سے چمٹے رہیے ۔

(مضمون نگار ، ادارۂ تحقیق وتصنیفِ اسلامی ،علی گڑھ سے وابستہ ہیں )

[email protected]

حالیہ شمارے

علمی معیار کی بلندی

شمارہ پڑھیں

نظام تعلیم کا جدید بحران: حکومت کی جانب سے ہونے والی بے ضابطگیوں کا جائزہ

شمارہ پڑھیں