محمد فراز احمد
علم کے حصول کو اسلام نے ہر مسلمان پر فرض قرار دیا ہے، لیکن علم کے حصول کے لیے مسلمانوں میں عام رواج یہی ہے کہ مقامی کالج میں تعلیم حاصلکی جائے اور جلداز جلد تعلیم مکمل کرتے ہوئے کمانے کی دوڑ میں شامل ہوا جائے، لیکن دوسری طرف ہم نظر دوڑاتے ہیں تو علم کے میدان میں بہت سارے ایسے مدارج ہیں جن کو طئے کرنا مسلم نوجوانون کے لئے ابھی باقی ہے۔ امتِ مسلمہ میں اعلیٰ تعلیم کے حصول اور تحقیق کے میدان میں آگے بڑھنے کا رواج کچھ خاص نہیں تھا لیکن گزشتہ کچھ سالوں سے مسلمانوں میں بھی اعلیٰ تعلیم کے لئے شعور بیدار ہوتا نظر آرہا ہے اور اس کے حصول کے لئے طلباء کوشاں ہیں جو کہ ایک خوش آئند بات ہے۔ اس مضمون ملک چین میں اعلیٰ تعلیم کے لئے موجود مواقع ، ذرائع وغیرہ پر گفتگو کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ طلباء خاص کر مسلم طلباء کو چاہئے کہ اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لئے بیرون ممالک جہاں کا معیارِ تعلیم بلند ہو اور تحقیق کے ذرائع بہترین انداز میں موجود ہوں وہاں کا رُخ کرتے ہوئے بہتر مستقبل کی تعمیر کریں۔
یوں تو دنیا کے مختلف ممالک میں اعلیٰ تعلیم کے بہترین مواقع موجود ہیں لیکن اس بات سے بہت کم ہی لوگ آشنا ہوتے ہیں کہ چین کے معیار تعلیم میں تیز رفتاری سے اضافہ ہورہا ہے اور ہر سال کئی کالجس و یونیورسٹیز کا قیام عمل میں لایا جارہا ہے۔ جس کے لئے حکومت کی جانب سے بہت زیادہ رقم خرچ کی جارہی ہے تاکہ معیارِ تعلیم کو جدید ٹکنالوجی اور طریقہ کار کے ساتھ بلند کیا جائے، اسی کے پیشِ نظر ایک پروجکٹ “Project 985” کے نام سے 1998 میں شروع کیا گیاجس کے تحت چین کی یونیورسٹیز کو بہت زیادہ فنڈنگ کی جارہی ہے جس کا مقصد چین میں اعلیٰ ترین تحقیقی اداروں کا قیام ، بہترین انفراسٹرکچرکی فراہمی، بین ا لاقوامی کانفرنسس کا انعقاد ، عالمی سطح کے معروف ریسرچ اسکالرس اور فیکلٹی سے استفادہ کرنا اور مقامی اساتذہ کی دیگر ممالک کے بین الاقوامی کانفرنسس میں شرکت کروانا جیسے کام ہیں۔
اس پراجکٹ نے چین کے معیارِتعلیم کو بڑھانے میں کافی اہم کردار ادا کیا ہے، اسی کے ساتھ یونیورسٹیز کے معیارِ تعلیم کوعالمی سطح پر بڑھانے کے لئے “C9 League” کے نام سے یونیورسٹیز کی درجہ بندی کی گئی ، جس میں عالمی سطح پر چین کی 9یونیورسٹیز موجود ہیں جو مندرجہ ذیل ہیں۔
۱۔ Peking University: اس یونیورسٹی کا شمار دنیا کی اعلیٰ یونیورسٹیز میں ہوتا ہے اور درجہ بندی میں اسے 46واں مقام حاصل ہے۔
۲۔ Tsinghua University : دنیا کی اعلیٰ ترین یونیورسٹیز میں اس کو 48واں مقام حاصل ہے۔
۳۔ Fudan University: اس یونیورسٹی کو 88واں مقام حاصل ہے۔
۴۔ Shanghai Jiao Tong University
۵۔ Zhejiang University
۶۔University of Science and Technology of China
۷۔ Nanjing University
۸۔ Xi’an Jiaotong University
۹۔ Harbin Institute of Technology
اس وقت چین میں تقریباً 2000 یونیورسٹیز موجود ہیں۔ چین کے بہترین کالجز میں Humanities ، میڈیسن ، انجینئرنگ ، مینجمنٹ اور Business Studies کے پروگرامز کی بہت زیادہ مانگ ہے ۔ Times of India کی تازہ رپورٹ کے مطابق چین میں ہندوستان کے طلباء کی تعداد UK سے بھی زیادہ ہے ، 2016میں چین میں ہندوستانی طلباء کی تعداد18,171 اور UKکے طلباء کی تعداد 18,015 تھی اور ہر سال اس تعداد میں تیزی کے ساتھ اضافہ ہورہاہے۔ہندوستان کے طلباء کی کل تعداد کا 80% حصہ MBBS کی تعلیم حاصل کررہاہے ۔قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ چین بیرون ممالک کے طلباء کا کھلے ہاتھوں استقبال کرتا ہے ، حکومتِ چین تقریباً 50,000 طلباء کو اسکالرشپ دینے کا منصوبہ رکھتی ہے ۔ حکومتِ چین جس طرح تعلیمی نظام کو بہتر بنانے کے لئے پیسہ خرچ کررہی ہے اس سے یہ اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ چین طلباء کو بہترین انفراسٹرکر کے ساتھ تعلیم دلوانے کے لئے پُر عزم ہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ چین کی تقریباً 27 یونیورسٹیز Time Higher Education(THE) کی Top100 کی درجہ بندی میں موجود ہیں۔ ٹائمز ہائر ایجوکیشن ورلڈ یونیورسٹی رینکنگ، جو 2004 میں قائم ہوئی، دنیا کے بہترین یونیورسٹیوں کی حتمی فہرست فراہم کرتے ہیں، اس میںزیادہ سے زیادہتعلیم، تحقیق، بین الاقوامی نقطہ نظراورشہرت کا اندازہ کیاجاتا ہے۔ یہ اعداد و شمار حکومتوں اور یونیورسٹیوں کے ذریعہ قابل اعتماد ہیں اور طلباء کے لئے ایک اہم ذریعہ ہیں، جہاں انہیں مطالعہ کرنے کا انتخاب کرناچاہتے ہیں۔
چین کے ایک طالب علم نے اپنے ایک مضمون میں وہاں کی یونیورسٹیز کے متعلق سروے کو پیش کرتے ہوئے لکھا کہ’’2016 میں کیو ایس رینکنگ کے مطابق چین کی 4 یونیورسٹیاں دنیا کی 100 بہترین یونیورسٹیز میں شامل تھیں۔ 2017 میں یہ تعداد بڑھ کر 5 ہوچکی ہے۔ ہانگ کانگ جو کہ چین کے زیر انتطام علاقہ ہے، اسے بھی شامل کرلیں تو یہ تعداد 8 ہوجاتی ہے۔ نہ صرف تعداد میں اضافہ ہوا ہے بلکہ یونیورسٹیوں کی رینکنگ میں بھی بہتری ہوئی ہے۔ مثلاّ شنگخواہ اور پیکنگ یونیورسٹی کی 2016 میں رینکنگ بالترتیب 25 اور 41 تھی جبکہ 2017 میں یہ 24 اور 39 ہو گئی ہے۔ رینکنگ کا یہ معیار کتنا مشکل ہے؟ اس بات کا اندازہ یوں بھی لگایا جاسکتا ہے کہ برصغیر پاک و ہند کے ساتھ پوری مسلم دنیا سے کوئی ایک بھی یونیورسٹی ٹاپ 100 میں شامل نہیں‘‘۔(ایکسپریس ڈاٹ پی کے)
یوں تو چین کی مختلف یونیورسٹیز اور کالجس پورے ملک میں مختلف کورسس جیسے انجینئرنگ ، MBA ، کمیونی کیشن ، Chinese Language وغیرہ فراہم کرتے ہیں اور یہ کورسس طلباء میں بہت زیادہ مقبول بھی ہیں ساتھ ہی بیرون ممالک کے طلباء بھی اِن پروگرامز میں داخلہ لیتے ہیں لیکن چین میں سب سے زیادہ ، میڈیکل فیلڈ میں طلباء داخلہ لیتے ہیں۔ بیرون ممالک سے میڈیکل فیلڈ میں داخلہ کے لئے آنے والوں کی تعداد میں ہرسال تیزی سے اضافہ ہورہا ہے، یہاں تقریباً 50 یونیورسٹیز اور کالجس میڈیکل کورسس فراہم کرتے ہیں۔
داخلہ کی ضروریات
آرٹس کے انڈر گریجویٹ طلباء کو ان کے ڈپلومہ، تعلیمی ریکارڈ کی اسناد کے مطابق داخل کیا جاتا ہے۔ سائنس، انجینئرنگ، زراعت اور ادویات کے انڈر گریجویٹ طالب علموں کو ان کے ڈپلومہ، تعلیمی ریکارڈ کی اسناد، اور ابتدائی مرحلے میں HS کے ٹیسٹ کے لئے C-Levelکے اسناد کے مطابق، داخلہ امتحان یا مہارت کی تشخیص کے بعد داخل کیا جاتا ہے۔ماسٹر ڈگری یا پی ایچ ڈی کے طلباء کو یونیورسٹیز ان کے بیچلر یا ماسٹر ڈگری، تعلیمی ریکارڈ کی اسناد، اور دو پروفیسرز کی سفارش کے خطوط کے مطابق داخلہ دیتی ہے۔ چین کی یونیورسٹیز میں دو سمسٹر پائے جاتے ہیں پہلے سمسٹرکا دورانیہ یکم مارچ تا 15 جولائی اور دوسرے سمسٹر کا دورانیہ یکم ستمبر تا 31 جنوری ہوتا ہے۔
چینی زبان
چین کی تقریباً یونیورسٹیز میں چینی یا انگریزی زبان میں تعلیم دی جاتی ہے،لیکن بہت ساری ایسی یونیورسٹیز ہیں جہاں صرف چینی زبان میں ہی تعلیم دی جاتی ہے، کتابیں ، ریفرنس بکس ، میگزینس ، لائبریری وغیرہ تمام ہی چینی زبان میں دستیاب ہوتے ہیں ، بین الاقوامی طالب علم کو مناسب طور پر تعلیم حاصل کرنے کے لئے چینی زبان پر عبور حاصل ہونا لازمی ہوتا ہے۔ انڈر گریجویٹ ، ماسٹر اور پی ایچ ڈی کے طلبہ جو چین میں تعلیم حاصل کرنے لئے اپنا نام درج کرواتے ہیں لیکن انھیں چینی زبان کی کم از کم بنیادی معلومات نہ ہوں جس سے وہ مضمون کو سمجھ سکیں اور گفتگو کے لئے آسانی ہو تو ایسے طلباء کے لئے کم از کم ایک یا دو سال چینی زبان سیکھنے کے لئے صرف کرنے پڑتے ہیں۔ چینی زبان کو آن لائن بھی سیکھا جاسکتا ہے جہاں مختلف ادارے مفت میں چینی زبان پر عبوریت کے لئے کورسس فراہم کرتے ہیں۔اس کے علاوہ ہندوستانی طلباء دہلی میں بھی چینی زبان کو سیکھ سکتے ہیں، دہلی یونیورسٹی کے شعبہ East Asian Studies اور جواہر لعل نہرو یونیورسٹی بھی مختلف قسم کے ریگولر اور اوپن کورسس چینی زبان کو سیکھنے کے لئے فراہم کرتے ہیں جو طلبہ چین میں تعلیم حاصل کرنا چاہتے ہیں ان کے لئے چاہئے کہ وہ انڈیامیں ہی چینی زبان سیکھ لیں۔ چین میں تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ کے لئے انتہائی ضروری ہے کہ وہ داخلہ کے وقت اپنا میڈیکل تصدیق نامہ فراہم کریں ، کیوں کہ چین صحت کے معاملے میں کافی محتاط ہے ، اس کے علاوہ چین میں ہیلتھ کئیر کافی مہنگا ہے ، وہاں پر علاج معالجہ کروانا انتہائی مشکل ترین امر ہے۔
اسکالر شپ
چین میں بین الاقوامی طلبہ کے لئے اسکالر شپ کا حصول دیگر ممالک کی بہ نسبت بہت آسان امر ہے ، حکومتِ چین بین الاقوامی طلبہ کے لئے بہت ساری سہولیات مہیا کرتی ہے جن میں سے اسکالر شپ سب سے اہم ہے۔ چین میں اسکالر شپ کو کورسس کے حساب سے تقسیم کیا گیا جیسے انڈر گریجویٹ اسکا لرشپ ، پوسٹ گریجویٹ ، ڈاکٹریٹ اکالرشپ ، چینی زبان سیکھنے واے طلباء کے لئے اسکالرشپ ، Visiting Students اورs Senior Visiting Student کے لئے علیحدہ اسکالر شپ ہوتی ہے۔اسکالرشپ دو قسم کی ہوتی ہے ۔ مکمل اسکالرشپ اور جزوی اسکالرشپ۔ چینی حکومت کی مکمل اسکالرشپ بین الاقوامی طلباء کو، ٹیوشن (یا ریسرچ) فیس، بنیادی مواد کی فیس، رہائش، رہائشی بونس، سبسڈی اور سفری سہولت کے علاوہ طبی انشورنس کا احاطہ کرتا ہے۔ جزوی اسکالرشپ میں ایک یا مکمل اسکالرشپ کی کچھ چیزیں شامل ہیں (رہائشی سبسڈی اور ایک سے زیادہ اندرون سفری باؤنس شامل ہیں)۔ بین الاقوامی طلباء کے لئے مختلف سرکاری اسکالر شپ فراہم کی جاتی ہیں۔ مثلاً
The Great Wall Scholarship
Distinguished Foreign Students Scholarship
HSK Winner Scholarship Program
Chinese Culture Research Fellowship
Short-term Studies Scholarship Program for Foreign Teachers Teaching Chinese
اس کے علاوہ انڈرگریجویٹ میں بہترین کارکردگی کرنے والے طلبہ کے لئے The Hongkong Scholarship کے تحت اسکالر شپ فراہم کی جاتی ہے۔
اعلیٰ تعلیم کے لئے داخلے کا طریقہ کارو ضروریات
جو طلبہ چین میں تعلیم حاصل کرنے کے خواہاں ہیں وہ International Exchange Division کے دفتر پر مندرجہ ذیل مواد فراہم کریں۔
۔ جس یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرنا چاہتے ہیں اس یونیورسٹی کا پُر کیا ہوا داخلہ فارم جس کو یونیورسٹی کی ویب سائٹ سے ڈائون لوڈ کیا جاسکتا ہے۔
۔ اسکول و کالج کی دستاویزات کی کاپی
۔ پاسپورٹ کاپی
۔ سرکاری ہسپتال سے تصدیق شدہ ہیلتھ سرٹیفیکٹ
۔ پوسٹ گریجویٹ طلباء کے لئے دو سفارشی خطوط
۔ درخواست فیس جو US$15 یا اس سے کچھ زیادہ ہوگی۔
ڈگری پروگرامز میں داخلہ لینے والے طلباء کے لئے ہر سال اپریل تا جولائی میں داخلہ کا وقت ہوتاہے ، اس کے علاوہ ’’Language Course‘‘ میں داخلہ کے لئے وقت کی کوئی قید نہیں ہوتی ہے۔
تعلیم کے ساتھ ملازمت
چین میں تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ کے لئے ایک بہت بڑی سہولت یہ ہے کہ وہ تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ ملازمت بھی کرسکتے ہیں ، 2013 سے قبل یہ سہولت دستیاب نہیں تھی لیکن اب یہ سہولت دستیاب ہے جس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے طلبہ اپنی معاشی ضروریات کو بآسانی پورا کرسکتے ہیں۔ لیکن اس کے لئے اسٹوڈنٹ ویزا (X-Visa)درکار ہے، چین نے اسٹوڈنٹ ویزا کو دو زمروں میں تقسیم کیا ہے ایک X1 دوسرا X2 ، X1 ویزا ان طلبہ کے لئے چین میں چھ ماہ سے زیادہ تعلیم حاصل کر رہے ہوں اور X2 ان طلبہ کے لئے جو چہ ماہ سے کم تعلیم حاصل کر رہے ہوں۔
اخراجات
چین میں طلبہ بہ نسبت دیگر ممالک کے کم پیسوں میں بآسانی زندگی گزارسکتے ہیں۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ یہاں کم اخراجات میں معیاری تعلیم حاصل کی جاسکتی ہے اور یہی ایک اہم سہولیت ہے جس کی وجہ سے چین میں بیرون ممالک کے طلباء کی تعداد میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ٹیوشن فیس، کورس کے موضوع اور معیار پر منحصر ہوتی ہے ، مختلف یونیورسٹیز میں معیارِ تعلیم کے مطابق فیس رکھی جاتی ہے۔عموماً بین الاقوامی طلباء کو سالانہ 2000 تا 4000 یو ایس ڈالر کے قریب ادا کرنے ہوتے ہیں جو کہ ہندوستان کے 1,35,140 تا 2,70,280 ہوتے ہیں(خیال رہے کہ یہ فیس یونیورسٹی کے معیار کے مطابق رکھی جاتی ہے جو کسی میں زیادہ اور کسی میں کم ہوسکتی ہے)۔چین میں اقتصادی ترقی و دیگر عوامل کے سبب قیمتیں زیادہ ہوتی ہے لیکن یہ قیمتیں دیگر صنعتی ممالک کے مقابلے کم ہے جس کی بدولت بین الاقوامی طلبہ کم آمدنی میں بھی آرام دہ اور پُرسکون زندگی گزارسکتے ہیں۔
الغرض چین مجموعی طور پر بیرون ممالک کے طلباء کے لئے اعلیٰ تعلیم کے حصول کا ایک بہترین ذریعہ ہے ، بیرون ممالک میں تعلیم حاصل کے خواہش مند طلبہ اور خاص کر میڈیکل فیلڈ کے طلبہ کو چاہئے کہ وہ چین میں اپنی اعلیٰ تعلیم کو مکمل کریں۔