مصر اور تیونس کے تناظر میں عرب بہاریہ کی داستان
کیا پولیٹکل اسلام اپنی موت مرچکا ہے؟!
کیا اسلام پسندوں کو اب ڈیموکریٹک انداز میں سیاسی تبدیلی کے لیے کوشش ترک کردینی چاہیے؟!
اور کیا انہیں ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھ کر اس وقت کا انتظار کرنا چاہیے، جب ماحول ان کے لیے سازگار ہوجائے گا، اور دنیا خود آکر ان سے یہ مطالبہ کرے گی کہ یہ مناسب وقت ہے،آئیے آپ ملک میں شریعت کاقیام عمل میں لائیے!!
کچھ لوگ یہ بھی کہنے کی کوشش کررہے ہیں کہ ڈیموکریٹک انداز میں سیاسی تبدیلی کی کوئی گنجائش دنیا میں نہیں ہے اور تشدد ہی وہ واحد راستہ ہے، جس کے ذریعے سے اسلام پسند اللہ کے پرامن مذہب کو دنیا میں نافذ کرسکتے ہیں!!
پچھلے تین سال کی داستان ۔ عرب بہاریہ کے بعد سے ۔ کسی قدر رومانوی انداز میں بیان کی جارہی ہے۔ اس کے معروضی مطالعہ کی جگہ لوگ اس بات کا رونا رو رہے ہیں کہ کیسے صرف ایک سال میں اخوان المسلمین کے صدر اور وزیراعظم ایوانِ صدر اور اقتدار کے گلیاروں سے جیل کی چہار دیواری کے اندر محبوس کردئیے گئے۔ کیسے اخوان کے کارکنان اور ذ مہ داران محض چند دنوں کے اندر حکمراں جماعت کے کارکنان اور ذمہ داران سے ایک ممنوعہ (banned) تنظیم کے افراد میں تبدیل ہوگئے۔
یہ تبدیلی صرف مصر تک محدود نہیں رہی، لیبیا میں جہاں معمر قذافی کے خلاف اسلام پسندوں نے محض چند مہینوں میں قیادت کی تبدیلی باہری دنیا کی مدد سے ممکن بنادی تھی، وہاں حالات اب بھی غیر مستحکم ہیں۔ مرکزی حکومت اصلاً ’بہادر شاہ‘ کی حکومت ’از دلی تا پالم‘ کی طرح تریپولی کے آس پاس تک ہی محدود ہوکر رہ گئی ہے۔ لاقانونیت اور علاقائی عصبتیں ملک کو Balkanizationکی راہ پر ڈھکیل رہی ہیں۔
شام میں انقلاب نے کامیابی کی جگہ Civil Warکی لے لی ہے، اور تقریباً ڈیڑھ لاکھ لوگوں کی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے کے باوجود اب بھی بشار الاسد کی خون آشام حکمرانی کم از کم دمشق اور اس کے نواحی علاقوں میں برقرارہے۔ لبنان کی مسلح شیعہ جماعت حزب اللہ کے ہزاروں فسادیوں کی مدد سے بشار الاسد نے بعض علاقوں سے آزادی پسندوں کو نکلنے پر بھی مجبور کردیا ہے۔
اور تیونس میں جہاں سے عرب بہاریہ کی شروعات ہوئی تھی، وہاں تقریباً تین سال حکومت کرنے کے بعد اخوان کی ذیلی تنظیم النہضۃ کے وزیراعظم علی لارائد نے حزبِ اختلاف اور عوام کے احتجاج کے بعد حکومت سے استعفیٰ دے دیا ہے۔ مہینوں سے جاری احتجاج کے بعد حزب اختلاف اور النہضۃ اس بات پر راضی ہوگئے کہ ایک عبوری حکومت کے ذریعے تیونس میں تازہ انتخابات کرائے جائیں۔
ان تمام مثالوں سے لوگوں کے ذہن میں عرب انقلاب کے بارے میں منفی خیالات کا پیدا ہونا فطری ہے، اور بے شمار لوگ آج سے نہیں مہینوں پہلے سے یہ کہنے کی کوشش کررہے ہیں کہ اسلام اور ڈیموکریسی قطبین کی طرح دو متضاد چیزیں ہیں جو ایک ساتھ نہیں چل سکتے۔ مصر میں انقلاب کی آمد اور مرسی کی صدارت سے کافی پہلے سے مغربی مبصرین اور خود مسلم دنیا کے کافی مبصرین یہ کہہ رہے تھے کہ اگر اخوان برسرِ اقتدار آگئے تو پورا مشرقِ وسطیٰ آگ میں ڈوب جائے گا۔ John R. Bradleyاپنی مشہور کتاب After Arab Spring: How Islamist hijacked the Middle East Revoltsمیں پوری دنیا کو باور کرانے میں مصروف ہیں کہ اگر اسلام پسند برسرِ اقتدار آگئے تو یہ عرب دنیا میں ڈیموکریسی، شخصی آزادی اور اظہارِ رائے کی آزادی کو ختم کردیں گے اور شریعت کو بزور نافذ کردیں گے۔ Bradelyاسلام پسندوں کی نفرت میں اتنا آگے چلے گئے کہ زین العابدین بن علی کی حکومت کو جس میں صد فی صد مسلم آبادی ہونے کے باوجود شخصی آزادی موجود نہیں تھی اس کو مشرقِ وسطیٰ کی ماڈل حکومت کا تمغہ پہنانے کی ناکام کوشش میں لگ گئے۔ بن علی کی جابرانہ حکومت میں شخصی آزادی کا یہ عالم تھا کہ آپ کو داڑھی رکھنے کے لیے حکومت سے اجازت (پرمٹ) لینا ضروری تھا۔ جسے اگرآپ کسی طرح حاصل کرچکے ہیں تو اس کا آپ کے پاس موجود ہونا ضروری تھا، ورنہ آپ لاک اپ میں ڈھکیل دئیے جاتے۔
بعض لوگ پچھلے چند ماہ کے حادثات کو خصوصاً مصر کے حالات کے پیش نظر یہ کہتے ہیں کہ اب پولیٹکل اسلام کا خاتمہ ہوگیا، اور یہ کہ موجودہ حالات اور پولیٹکل اسلام میں کوئی مطابقت نہیں ہے۔
جہاں تک پولیٹکل اسلام اور شریعت کے نفاذ کا سوال ہے اس کے بارے میں واقعی کچھ سوالات موجود ہیں، جن کا جواب عام لوگ جاننا چاہتے ہیں۔ سب سے بڑا سوال جو عام لوگ کررہے ہیں، وہ یہ ہے کہ کون یہ فیصلہ کرے گا کہ کس کس میدان میں نفاذِ شریعت عمل میں لایا جائے گا، اور کیا اس کے خدوخال واضح کردئیے گئے ہیں؟؟لیکن بہرحال چند Setbacks کی وجہ سے اسلام اور شریعت کو موجودہ زمانے میں Unfit قرار دینا محض بے وقوفی ہے۔
پچھلے تین سالوں میں اس قدر مثبت باتیں سامنے آئی ہیں، جن کا اندازہ ہم عرب بہاریہ سے پہلے کر ہی نہیں سکتے تھے۔ کیا ہم میں سے کسی کے گمان میں بھی یہ تھا کہ مصر جیسے استبدادی ملک میں جہاں اخوان ایک زیر زمین تنظیم تھی، نہ صرف یہ کہ وہ ایک انقلاب برپا کردے گی، بلکہ وہ حکومت بھی قائم کرسکے گی۔ مصر میں اخوانی صدر کا صدارتی محل میں بطورِ حکمراں کے داخلہ محض ایک افسانوی خواب تو لگتا تھا لیکن اس کا ممکن ہونا صرف تخیلات تک ہی محدود ہوتا تھا۔
کیا کسی نے سوچا تھا کہ بن علی کو تیونس سے نکال باہر کیا جائے گا، اور راشد غنوشی کا ملک میں ایک قائد اعظم کی حیثیت سے استقبال کیا جائے گا۔
کیا ہمارے گمان میں بھی تھا کہ النہضۃ جو تیونس میں اخوان کی ایک شاخ ہے، اسے ایک سیاسی تنظیم کا درجہ دے دیا جائے گا، اور اس کا وزیر اعظم وہاں تین سال تک حکومت کرے گا۔
عرب بہاریہ میں جمہوری اقدار پر یقین رکھنے والے اسلام پسندوں کے لیے ہزاروں مثبت پہلو ہیں۔ راشد غنوشی اور النہضۃ نے مصری طرز کے اسلام مخالف Counterانقلاب کے مظاہروں کا جس طرح سامنا کیا، اس نے دنیا کے سامنے انہیں ایک ماہر سیاسی مدبر کی طرح پیش کیا ہے۔ شائد ہی اکیسویں صدی میں دنیا میں کوئی دوسرا سیاسی لیڈر اس سطح کا ابھر کر سامنے آیا ہو جس طرح غنوشی سامنے آئے ہیں۔ عرب شاہی خاندانوں اور دوسری اسلام مخالف طاقتوں کی مسلم ریشہ دوانیوں کے باوجود غنوشی اور النہضۃ نے حکومت ایک Coupکے بعد نہیں چھوڑی بلکہ ایک برابری کے معاہدے کے بعد چھوڑی، جس میں وہ ایک Majorپارٹنر ہیں۔ لیکن تیونس میں تین سال کی حکومت اور اس عظیم الشان معاہدے کی کامیابی میں جو سب سے اہم پہلو اسلام پسندوں کا سامنے آیا وہ ان کا لچکدار رویہ رہا ہے۔ سلفی دہشت گردی جس نے اس نوزائیدہ حکومت کو کئی مرتبہ derialکرنے کی کوشش کی اس کا جس سختی کے ساتھ النہضۃ نے سامنا کیا، اس نے دنیا کے سامنے ایک مثال پیش کی کہ اسلام کے نام پر اب تشدد کی گنجائش نہیں رہ گئی ہے۔
بڑے بڑے حکومت مخالف مظاہروں کے بعد غنوشی نے یہ بھی تسلیم کیا کہ ملک کے عوام کی ایک بڑی تعداد اب بھی شریعت کے نفاذ کے لیے تیار نہیں ہے۔ غنوشی کا یہ بیان بہت ہی اہم ہے کہ ’’ہم اسلام کے نام پر متحد ہیں لیکن شریعت کے نفاذ پر ہمارے درمیان اختلافات ہیں۔‘‘
راشد غنوشی اپنے ایک تفصیلی مضمون میں یوں رقمطراز ہیں: ’’مین اسٹریم یا مرکزی دھارے کی مسلم تحریکات نے انتہا پسندانہ سوچ، جو ہر معاشرے میں پائی جاتی ہے، کو حاشیہ پر ڈال کر اسلام کو اس جامع حیثیت میں پیش کیا ہے جو تکمیل ہے مختلف تہذیبوں کی کامیابیوں کی۔ یہ کسی بھی حیثیت سے موجودہ دور کی کامیابیوں مثلاً مردو عورت کی تعلیمی، سماجی وسیاسی برابری، عقائد، رنگ اور جنس کے امتیازات کے بغیر مکمل آزادی، مکمل مذہبی اور سیاسی آزادی عقائد سے متصادم نہیں ہے، بلکہ یہ تو وہ آزادیاں ہیں جو ہر انسان کو بنیادی طور پر اسلام عطا کرتا ہے اور قرآن میں ان کا تذکرہ موجود ہے۔‘‘
بطورِ خاص مصر کا تذکرہ کرتے ہوئے غنوشی اپنے مضمون میں مزید لکھتے ہیں: ’’فوجی بغاوت نے اسلامی تحریک کو ایک موقع فراہم کیا ہے، تاکہ وہ اپنی غلطیوں پر نظرثانی کرسکیں جو حکومت میں ناتجربہ کاری کی وجہ سے ان سے ہوئیں۔ انھیں حزب اختلاف کے لیے حکومت کو مزید کھولنے کی ضرورت تھی۔ یہ ضرورت عبوری دور میں مزید اہمیت اختیار کرجاتی ہے جبکہ محض ایک پارٹی یا ایک گروہ ہی چیزوں کو کنٹرول نہیں کرسکتا اور نہ ہی دستور ایک ہی رجحان اور گروہ کو ذہن میں رکھ کر تیار کیا جاسکتا ہے۔‘‘
یہاں یہ تذکرہ کرنا بے جا نہ ہوگا کہ راشد غنوشی اور النہضۃ نے مصر اور دوسرے ممالک کے تجربات سے کافی حد تک سیکھا اور فائدہ اٹھایا۔ الحکمۃ ضالۃ المومن۔ حکمت مومن کی متاعِ گم شدہ ہے۔ انھوں نے نہ صرف یہ کہ اپوزیشن سے نہایت حکمت سے ڈائیلاگ کیے بلکہ مہارت سے اسلام مخالف احتجاج کے دھارے کو قطعی موڑ دیا۔ جس کو پڑوسی ممالک،جن کا نام لینے کی قطعی ضرورت نہیں ہے، کی بھر پور حمایت حاصل تھی۔ بے پناہ لچک کا مظاہرہ کرتے ہوئے انھوں نے اپنی یہ شرط بھی ختم کردی کہ اسلام اور قرآن ہی قانون کا مأخذ ہوں گے۔ آج تیونس میں النہضۃ کا وزیر اعظم چاہے نہ ہو لیکن یہ حکومت سازی کا ایک اہم جزو ہیں، ان کے افراد، ارکان اور ذمہ داران حکومت کے ہر چھوٹے بڑے عہدوں پر موجود ہیں، اور تحریک اسلامی بغیر کسی پابندی کے پوری آزادی کے ساتھ اس مشرقی افریقی ملک میں کام کررہی ہے۔
سیلرحمن، معروف صحافی،نئی دہلید عبیدا
[email protected]