پائل! تم ڈاکٹر تھیں

ایڈمن

حفظ الرحمن            جب وہ بچی تھی تو کھیل کھیل میں شاید کبھی ڈاکٹر بن جاتی تھی۔ کھیل کے دوران مریض بننے والے بچے اسے ڈاکٹر صاحبہ کہتے تھے۔ اس کی عزت کرتے تھے، اس کی تکریم کرتے تھے۔ اس وقت…

حفظ الرحمن

            جب وہ بچی تھی تو کھیل کھیل میں شاید کبھی ڈاکٹر بن جاتی تھی۔ کھیل کے دوران مریض بننے والے بچے اسے ڈاکٹر صاحبہ کہتے تھے۔ اس کی عزت کرتے تھے، اس کی تکریم کرتے تھے۔ اس وقت وہ بچی تھی تو اسے سماج کے بنائے ہوئے طبقات کے مکروہ چہروں کا علم نہیں تھا۔ اس کی ایک چھوٹی سے دنیا تھی۔ اس دنیا میں اس کا خاندان اور کچھ ہم عمر سہیلیاں تھیں۔ سہیلیاں عام حالات میں اس سے جھگڑتی تھیں، اسے چڑاتی تھیں۔لیکن کھیل کھیل کے دوران جب وہ ڈاکٹر بن جاتی تو وہی جھگڑنے والی اور چڑانے والی سہیلیاں اس کی عزت کرنے لگتی تھیں۔ شاید یہی وہ موقع تھا جب اس نے اپنے مستقبل کے تعلق سے فیصلہ کرلیا کہ وہ ڈاکٹر بنے گی۔ تعلیم اور کار مسیحائی کا اسے کوئی علم نہیں تھا۔ اسی کھیل کھیل میں بچپن گزر گیا اور وہ عمر کے اس حصے میں داخل ہوگئی جہاں مستقبل کے تعلق سے سنجیدہ فیصلے لینا ناگزیر ہوتا ہے۔ یہاں بھی اس نے اپنے بچپن کے خواب کو ہی مقدم رکھا اور ڈاکٹر بننے کا فیصلہ کیا۔ جوں جوں شعور پروان چڑھتا گیا دنیا کے مکروہ چہرے اس کے سامنے بے نقاب ہوتے گئے۔ اسے معلوم ہوا کہ وہ’نچلے طبقے‘ سے تعلق رکھتی ہے اور اس طبقاتی نظام پر اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ وہ ’اعلیٰ طبقے‘کی ہم عمروں لڑکیوں سے کہیں زیادہ ذہین ہے۔ وہ ذہین ہونے کے باوجود نچلے طبقے سے تعلق رکھتی تھی اور کچھ ہم عمر غبی ہونے کے باوجود اعلیٰ طبقے اور ذات سے تعلق رکھتے تھے۔

            طبقاتی نظام کے اس ادراک کے بعد اس کی جنگ دو طرفہ ہوگئی۔ ایک طرف وہ اپنے بچپن کے معین کردہ ہدف کی راہ میں حائل چٹانوں سے سرگرداں رہی اور دوسری طرف نچلی ذات سے تعلق رکھنے کے سبب طنزو تشنیع سے بھی برسرپیکار رہی۔ اس دو طرفہ جدوجہد اور کشا کش سے اکثر وہ تھک کر ہمت ہار جاتی تھی۔ دفعتاً ماضی کے معصوم قہقہوں اور کھنکتی کلکاریوں کے جل ترنگ میں ’ڈاکٹر صاحبہ‘کی بازگشت اسے نئی امید اور حوصلہ دیتی تھی۔ جس سے تحریک پاکر وہ اٹھتی اور پھر سے دو طرفہ جدوجہد میں مصروف ہوجاتی تھی۔ منزل گرچہ دور تھی لیکن اس کے نقوش نظر آنے لگے تھے۔اسی دوران اس کی والدہ کو کینسر ہوگیا۔ اس تشخیص پر وہ ٹوٹ گئی۔ ماں کے کینسر نے اسے اپنی منزل کے حصول کیلئے تقویت فراہم کیا۔ لیکن اس کے ساتھ ہی اس کی دو طرفہ جدوجہد سہ طرفہ ہوگئی۔جس کی تیسری سمت ماں کی بیماری تھی۔ اس سہ رخی جدوجہد میں اس نے گریجویشن کیا اور پوسٹ گریجویشن کی جانب بڑھ گئی۔ بچپن کا خواب شدت اختیار کرتا گیا۔ ذات پر مبنی طعنے شدت اختیار کرتے گئے اور ماں کی بیماری بھی بڑھتی گئی۔ پوسٹ گریجویشن کے دوران وہ جس ہاسپٹل میں تعینات تھی وہاں اس کی سینئرس اعلیٰ طبقے سے تعلق رکھتی تھیں۔ جو گاہے گاہے اسے نچلے طبقے سے تعلق رکھنے کا احساس دلاتی رہتی تھیں اور اس کی بے عزتی کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتی تھیں۔ وہ سامنے موجود نہ ہو تو اسے وہاٹس اَپ یا ایس ایم ایس کے ذریعے یاد دلاتی تھیں کہ وہ نچلے طبقے سے تعلق رکھتی ہے۔ پھر بھی وہ برداشت کرتی رہی کہ منزل بہت قریب تھی۔ خواب دیرینہ شرمندہ تعبیر ہونے والا تھا۔ جس اسپتال میں وہ تعینات تھی اسی اسپتال میں ماں کا علاج بھی چل رہا تھا۔ ایک بار ماں اسپتال آئی تو سینئرس نے اسے ماں سے ملنے نہیں دیا۔ ضبط کا باندھ ٹوٹ رہا تھا اور وہ اپنی شکستہ شخصیت سے اسے باندھے رکھنے کی ہر ممکن کوشش کررہی تھی۔ بالاخر قوت مدافعت جواب دے گئی اور 22 مئی کو اس نے دو آپریشن میں سرجن کو اسسٹ کرنے کے بعد اپنے کمرے میں جاکر خودکشی کرلی۔ میز پر کچھ کتابیں رکھی تھیں اور ان کتابوں پر کچھ خواب سجے تھے۔ بیڈ پر ایک لاش پڑی تھی اور اس لاش کے تھم جانے والے دل میں طعن و تشنیع کے کچھ خنجر پیوست تھے۔ کمرے میں سکوت تھا۔ بچپن کی کلکاریاں سہم گئی تھیں۔ لفظ خاموش تھے اور طبقاتی نظام قہقہے لگا رہا تھا۔

            کہانی معلوم ہوتی یہ دردناک حقیقت ڈاکٹر پائل تڑوی کی ہے جس نے گزشتہ دنوں ممبئی کے نائر ہاسپٹل میں انتہائی قدم اٹھایا ہے۔ اس کو مسلسل ٹارچر کرنے والوں کے نام ڈاکٹر ہیما آہوجہ، ڈاکٹر بھکتی مہر اور ڈاکٹر انکیتا کھنڈیلوال ہیں۔ جن کے خلاف قانونی طور پر پائل کی خودکشی کے 4 دنوں بعد تک کوئی کارروائی نہیں ہوئی ہے۔ چوتھے روز آل انڈیا ریذیڈنٹ ڈاکٹرس ایسوسی ایشن کو تھوڑی غیرت آئی اور اس نے پائل کو خودکشی پر اکسانے والی تینوں ڈاکٹرس کی رکنیت منسوخ کی۔ تاہم ان کی گرفتاری اب بھی عمل میں نہیں ہے۔ پائل کے قاتل تلاش کیے جائیں توتینوں ریزیڈنٹ ڈاکٹرس سامنے نظر آتی ہیں۔ لیکن حقیقت میں قتل کی یہ کہانی بہت دور تک جاتی ہے۔ ریذیڈنٹ ڈاکٹرس کی گرفتاری عمل میں نہیں آئی تو اس نظام کے بارے میں کیا کہا جاسکتا ہے جو ایڈمیشن فارم پر کاسٹ لکھنے پر مجبور کرتا ہے۔ آج پائل اس کا نشانہ بنی ہے کل کوئی اور اس نظام کی بھینٹ چڑھ جائے گا۔ ہم کچھ نہیں کرسکتے مگر پائل کو مخاطب کرکے اتنا تو ضرور کہہ سکتے ہیں کہ ”پائل! تم ڈاکٹر تھیں، اور اِن قلاش کیڑوں مکوڑوں سے بہت بہتر تھیں جن کے پاس فخر کرنے کیلئے اپنی اعلیٰ ذات کے علاوہ کچھ بھی نہیں!“

حالیہ شمارے

براہیمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے

شمارہ پڑھیں

امتیازی سلوک کے خلاف منظم جدو جہد کی ضرورت

شمارہ پڑھیں