اسامہ اکرم
صارفین کے ڈیٹا سے متعلق واٹس ایپ کے ایک نوٹیفیکیشن نے گزشتہ دنوں ہلچل پیدا کردی۔ جس کے بعد واٹس ایپ، ٹیلی گرام اور سگنل جیسے دوسرے سوشل میڈیا پلیٹ فارموں کا موازنہ شروع ہوگیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے اِس پلیٹ فارم سے اُس پلیٹ فارم پر منتقل ہونے کے مشورے گردش کرنے لگے۔ اس ہلچل کا ایک مثبت اثریہ ہوا کہ لوگ ٹیکنالوجی، ڈیٹا اور پرائیویسی جیسے موضوعات کے متعلق سوچنے پر مجبور ہوئے۔ ذہنوں میں مختلف سوالات پیدا ہوئے۔ ڈیٹاکی کیا اہمیت ہے؟ ہماری نجی معلومات کا استعمال کس طرح ممکن ہے؟ نجی ڈیٹا کے لین دین سے ہماری زندگی پر کیا اثر پڑسکتا ہے؟ کیا ایک ایپلیکیشن سے دوسرے اپلیکیشن کی طرف انتقال ان مسائل کا حل ہے؟ ان سوالات کے جواب تلاش کرنے کے لیے ٹیکنالوجی کی تنقیدی سمجھ ناگزیر ہے۔
ٹیکنالوجی انسانی زندگی کی بنیادی ضرورت ہے۔ ٹیکنالوجی کے بغیر زندگی کا تصور باقی نہیں رہا۔اسی بنا ء پر اکیسویں صدی کو ٹیکنالوجی کی صدی کہا جاتا ہے۔ انفارمیشن و کمیونیکیشن ٹیکنالوجیوں نے غیرمعمولی انقلاب برپا کیا۔جس نے انسان کی انفرادی و اجتماعی زندگی پر متعدد مثبت اثرات مرتب کیے اور ایک ایسے معاشرے کا خواب دکھایا جو جمہوری اور انصاف پسند ہو۔ لیکن امتداد زمانہ کے ساتھ ٹیکنالوجی کی غیر معمولی ترقی نے پرائیویسی، فرد کے انفرادی و اجتماعی معاملات کی بے جانگرانی (Surveillance) جیسے مسائل پیدا کردیے۔ امریکہ کی خفیہ ایجنسی سنٹرل انٹلیجنس ایجنسی'(سی آئی اے) کے سابق کارکن ایڈوارڈ سنوڈن نے 2013ء میں گلوبل سرویلنس پروگرام کا انکشاف کیا۔ جس میں حکومتی ایجنسیوں اور ٹیلی کمیونیکیشن کمپنیوں کی ملی بھگت سے ہونے والے عوامی سرویلنس کا پردہ فاش ہوا۔ یہ وہ خفیہ پروجیکٹ تھا جس کے تحت کسی بھی فرد کے گوگل اکاؤنٹ، ای میل، فیس بک وغیرہ، غرض ہر نجی معلومات تک حکومت کو رسائی حاصل تھی۔ فرد کی تمام سرگرمیوں پر گہری نظر رکھنا حکومت کے لیے ممکن تھا۔ اس معاملے نے عوام کی بے جا نگرانی کے مسئلہ کو گہرائی سے سمجھنے میں مدد فراہم کی۔
ٹیکنالوجی کی بے لگام ترقی اور فرد کی زندگی میں غیر معمولی مداخلت نے اخلاقی و نفسیاتی مسائل پیدا کیے۔ وہ ڈیجیٹل پلیٹ فارم جن کا استعمال فرد کے معمول کا حصہ بن چکا ہے مثلا فیس بک، انسٹاگرام، یوٹیوب اور اسنیپ چیٹ وغیرہ، جہاں لائکس اور ایموجی کے ذریعہ اپنی پسند و ناپسند، خیالات اور طبیعت کا اظہار کیا جاتا ہے، ان پر کی جانے والی آن لائن سرگرمیوں کے ذریعہ ہر فرد کا ڈیٹا جمع اور محفوظ کیا جاتا ہے۔ پھر ہر فرد کی پسند و نا پسند اور دلچسپیوں کے بارے میں اندازہ کیا جاتا ہے۔ غرض یہ کہ ایک فرد اپنی ذات سے جس قدر واقف ہوتا ہے یہ کمپنیاں اس سے زیادہ اس کی دلچسپیوں، پسند و ناپسند سے واقف ہوتی ہیں۔ انہیں دلچسپیوں کے مطابق ٹائم لائن پر اشتہارات نشر کیے جاتے ہیں اور آن لائن مواد تجویز کیے جاتے ہیں۔ یہ سب کیا جاتا ہے تاکہ خرید و فروخت کا سلسلہ چلتا رہے۔ جتنا زیادہ جس پلیٹ فارم کا دورہ کیا جائے گا اور جس پر جتنا زیادہ وقت صرف کیا جائے گا وہ پلیٹ فارم اسی قدر زیادہ اشتہارات حاصل کرنے میں کامیاب ہوگا۔ یوٹیوب کے 1 اعشاریہ 9 بلین صارفین ہیں جو ایک دن میں اوسطا ایک گھنٹہ ویڈیوز دیکھتے ہیں۔ حیرت انگیز انکشاف یہ ہے کہ 70 فی صد ویڈیو یوٹیوب کی جانب سے مجوزہ مواد ہوتا ہے۔ ایک فرداس زعم میں مبتلا ہوتاہے کہ مجھے اختیار کی پوری آزادی حاصل ہے تاہم حقیقت اس کے برخلاف ہے۔ یوٹیوب پر ْآٹو پلےٗ کے بٹن کے پیچھے تصور ہی یہ ہے کہ آپ کے سوچنے سے پہلے آپ کی دلچسپی سے مطابقت رکھنے والے ویڈیوز کا سلسلہ چلتا رہے۔ اس حد تک کہ ان کااستعمال لت (Addiction) کی شکل اختیار کرجائے۔ یہ تمام کوششیں فرد کی زیادہ سے زیادہ توجہ حاصل کرنے کے لیے ہے۔ ان پلیٹ فارموں کی فکر یہ نہیں ہوتی کہ آپ کیا چاہتے ہیں بلکہ یہ ہوتی ہے کہ آپ کتنا زیادہ وقت ان پر گزار تے ہیں۔ ان کا غیر منظم اور لامحدود استعمال انسانی رویوں میں بڑے پیمانے پر منفی اثرات مرتب کرتا ہے۔ ایک طالب علم کے لیے متوجہ رہنے کی صلاحیت کی کمی (اٹینشن اسپین) سے دیر تک کتابوں کا مطالعہ کرنا ممکن نہیں رہا، اس کا ذہن ہر آن نئے مواد کی تلاش میں ہوتا ہے۔ ایک موضوع پر دیر تک غورو فکر کرنا مشکل ترین عمل بن جاتا ہے۔ دوسری طرف ہر لمحہ مختلف و متضاد خبریں اور پوسٹ ہم تک پہنچ رہی ہیں۔ اس آن ہم خوشی کا اظہار کرتے ہیں تواس کے بعد فورا ایک غمگین خبر سے سابقہ پڑجاتا ہے۔ اس کے بعد کسی کی سالگرہ منائی جارہی ہوتی ہے تو اگلی پوسٹ میں کوئی لطیفہ نظر سے گزرتا ہے۔ پھراگلے ہی لمحے میں ہم خود کو کسی فلسفیانہ جملے پر غور کرتا ہوا پاتے ہیں۔ ان تیزی سےبدلتے ہو ئے احساسات و جذبات کا نفسیات پر گہرا اثر ہوتا ہے۔ یہ ایشوز مزید سنگینی اختیار کر جاتے ہیں جب بازار اور ریاست ایک ساتھ مل کر سماج کا استحصال کرنے لگیں۔ 2016 میں امریکی انتخابات کے پیش نظر فیس بک نے کیمبرج انالیٹکا نامی کمپنی کے ہاتھوں صارفین کا ڈیٹا فروخت کیا۔ جس کے ذریعہ ہر فرد کے کم از کم بیس ہزار ڈیٹا پوائنٹس جمع کیے گئے۔ جس میں فرد کی زندگی کے ہر پہلو میں پسند ونا پسند اور دلچسپیوں کی معلومات تھی۔ ان دلچسپیوں کی مدد سے فرد کے سیاسی خیالات کا اندازہ کیا گیا اور ان کے اعتبار سے فیس بک پوسٹ اور ویڈیو نیوز فیڈ پر تجویز کیے گئے تا کہ فرد کے سیاسی خیالات کو متاثر کیا جاسکے۔ حد تو یہ ہے کہ صرف آپ کے کلک پیٹرن کو دیکھ کر آپ کے لیے موزوں ترین سیاسی پیغام کا انتخاب کیا جاسکتا ہے۔ ٹیکنالوجی کے اس دور میں ڈیٹا نے سمندری راستوں اور تیل کی حیثیت اختیار کرلی ہے۔ یہ سمجھا جانے لگا کہ جس کے پاس ڈیٹا ہوگا وہی دنیا چلانے کا اہل ہوگا۔
ٹیکنالوجیکل انقلاب نے انسانوں کوایک ایسے معاشرے کا خواب دکھایا تھا جس میں فرد کی آزادی کا بہتر تحفظ ممکن ہوسکے۔ جہاں انسانوں کی فلاح و بہبود کی نئی راہیں ہموار ہوسکیں۔ لیکن بہتر سماج کا یہ خواب اب تک محض خواب ہی ہے۔ ٹیکنالوجی کی پوری طاقت چندسرمایہ دار کمپنیوں کے ہاتھ میں ہیں۔ جو دنیا کی معیشت چلا رہے ہیں۔ جن کے پیش نظر یہ ہے کہ انسانوں کو مصنوعات سے اینگیج رکھا جائے اور ان کے جذبات و احساسات کا استحصال کیا جاتا رہے۔ مصنوعات کی زیادہ سے زیادہ خرید و فروخت اور اس کے لیے انسانی توجہ کی حرص نے انسانوں کے نفسیاتی و جذباتی استحصال کا پورا نظام کھڑا کردیا ہے۔ جہاں انسان اس یقین میں جی رہا ہے کہ وہ جو کچھ کررہا ہے اپنے انتخاب اور اپنی آزادی سے کررہاہے۔ لیکن حقیقت یہ کہ الگورتھم کی مخصوص نقشہ بندی اسے اپنے منصوبہ کے مطابق ڈھکیل رہی ہے۔ کیمرہ کے پیچھے ماسٹر کمپوٹر فرد کی آنکھوں کی جنبش سے یہ معلوم کرسکتا ہے کہ فرد کس نفسیاتی کیفیت میں ہے اور کون سا پیغام فورا قبول کرنے کے لیے آمادہ ہے۔ صورت حال یہ ہے کہ انسان کسی نہ کسی درجہ میں روبوٹ کی حیثیت اختیار کرتا چلا جارہا ہے جس کی چابی ان افراد کے ہاتھوں میں ہے جو ٹیکنالوجی اور ڈیٹا رکھتے ہیں۔ اس پورے نظام میں آدمیت، فرد کی آزادی اور انسان کی حیثیت جیسے بنیادی سوالات سرے سے گم ہوچکے ہیں۔
ضرورت ہے کہ محض ایک پلیٹ فارم سے دوسرے پلیٹ فارم کی طرف انتقال کی فکر سے آگے بڑھ کر ٹیکنالوجی کے متعلق تنقیدی مطالعہ کی طرف توجہ مبذول کی جائے۔ٹیکنالوجی، پرائیویسی اورسرویلنس کے فلسفہ کو سمجھنے کی کوشش کی جائے۔ انسان کی حیثیت، آدمیت اور آزادی فرد جیسے بنیادی سوالات کو موضوع بحث بنایا جائے۔