ایک ایسے خطے میں جہاں برطانوی راج تقریباً ایک صدی حکومت کرکے چلا گیا مگر پیچھے جس متاثرہ افسر شاہی کو چھوڑ گیا وہ انگریزی بولنے اور سمجھنے کو ہی ترقی کی معراج سمجھتی ہے اور قومی و علاقائی بولی بولنے والوں کو کمتر جانتی ہے، ان لوگوں کے لیے امریکی پادری کے بیٹے ٹام آلٹر ایک زبردست مثال تھے، انڈین فلموں اور اسٹیج پر اداکاری کے جوہر دکھانے والے ٹام آلٹر کو شستہ اردو بولتے جس نے بھی دیکھا اور سنا وہ اس کا گرویدہ ہو گیا۔
اردو زبان کے شیدائی اور اردو تھیٹر میں اہم مقام رکھنے والے مشہور اداکار ٹام الٹر ایک امریکی نژاد ہندوستانی تھے۔ ان کی پیدائش 22 جون 1950 کو مسوری اتراکھنڈ میں ہوئی۔ ٹام آلٹر نے ابتدائی تعلیم Wood Stock School مسوری میں حاصل کی۔ اعلی تعلیم کے حصول کے لیے امریکہ گئے لیکن جلد ہی واپس لوٹ آئے۔ انہوں نے پونا کے “فلم اینڈ ٹی وی انسٹی ٹیوٹ” میں بھی تعلیم حاصل کی۔
راجیش کھنہ کی فلم “ارادھنا” دیکھنے کے بعد ٹام نے فلموں میں آنے کا فیصلہ کر لیا۔ 1976 میں دھرمیندر کی فلم “چرس” سے اپنے فلمی کیریئر کا آغاز کیا۔ اور 300 فلموں میں اداکاری کی۔ ٹام نے ہندی، اردو فلموں کے علاوہ تیلگو ،تامل،آسامی اور بنگالی فلموں میں بھی کام کیا۔ علاوہ ازیں جن غیر ملکی فلموں میں ٹام نے اداکاری کی ان میں رچرڈ ایٹن بروو کی “گاندھی” اور “ون نائٹ ود دا کنگ” بہت مشہور ہیں۔ ٹام الٹر کی آخری فلم “سرگوشیاں” رواں برس ریلیز ہوئی۔ اس کے علاوہ ٹام نے تھیٹر اور ٹیلی ویژن شو بھی کیے۔ ان کے مشہور تھیٹر ڈراموں میں لال قلعہ کا آخری مشاعرہ” کافی مشہور ڈرامہ ہے جس میں انہوں نے بہادر شاہ ظفر کا رول ادا کیا ہے۔ مولانا ابوالکلام آزاد پر بنایا گیا ان کا ڈرامہ “آزاد کا خواب” بھی کافی پسند کیا گیا۔ صحیح بات یہ ہے کی انہوں نے اپنے ڈراموں میں خصوصا مولانا ابولکلام آزاد اور بہادر شاہ ظفر کا زبردست کردار ادا کیا ہے۔
ٹام اردو زبان کے مداح تھے۔ اور اسے اپنی مادری زبان کہتے تھے۔ انہیں اردو ادب وشاعری سے کافی دلچسپی تھی۔ امریکی النسل ہونے کے باوجود ان کا اردو تلفظ کمال کا تھا۔ ٹام نے چند برس صحافت میں بھی طبع آزمائی کی۔ تین کتابیں بھی لکھیں۔ فلم انڈسٹری میں ان کی اعلی خدمات کے اعتراف میں حکومت ہند نے 2008 میں ان کو پدم شری ایوارڈ سے نوازا۔ آخری ایام میں وہ کینسر کے مریض ہوگئے تھے اور بالآخر 30 ستمبر 2017 کو 67 سال کی عمر میں انتقال کر گئے۔