نیوزی لینڈ: پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا

ڈاکٹر سلیم خان

ڈاکٹر سلیم خان تہذیبی سطح پر پوری دنیا نے منو سمرتی کا ورن آشرم کوتسلیم کرلیا ہے۔ اس میں سب سے اوپر یوروپی تہذیب ہے جو ہر قسم کے عیب سے پاک صاف سمجھی جاتی ہے۔وہاں پر حملہ آور کو(بشرطیکہ…

ڈاکٹر سلیم خان

تہذیبی سطح پر پوری دنیا نے منو سمرتی کا ورن آشرم کوتسلیم کرلیا ہے۔ اس میں سب سے اوپر یوروپی تہذیب ہے جو ہر قسم کے عیب سے پاک صاف سمجھی جاتی ہے۔وہاں پر حملہ آور کو(بشرطیکہ وہ مسلم نہ ہو) پاگل قرار دے کر ہمدردی کا مستحق سمجھا جاتا ہے ۔ سزا دینے کے بجائے اس کاعلاج کیا جاتا ہے۔ اس کے بعد چینی آتے ہیں جو کبھی کبھار ڈھکے چھپے انداز تنقید کا نشانہ بنتے ۔ برما یا چین میں تشدد کو نہ توبودھ مت یا اشتراکیت سے نہیں جوڑا جاتا ۔ ہندوستانی تہذیب تیسرے نمبر پر ہے ۔ اس کی زبانی مذمت تو ہوتی ہے لیکن اس کے خلاف کسی عملی اقدام کا تصور بھی نہیں کیا جاتا ۔ سب سے نیچے مسلمان اور ان کی اسلامی تہذیب ہے ۔ ساری دنیا میں برپا فتنہ و فساد کو بے دریغ اس سے جوڑ دیا جاتا ہے اور اس پر ہر قسم کا اقدام جائزو مستحب سمجھا جاتا ہے۔ عصر حاضر کا یہ عظیم نفاق ہے کہ امریکی دہشت گردی کو سراہا جاتا ہے ۔ چین کے مسلمانوں کی تعذیب کو نظر انداز کیا جاتاہے۔ ہندوستان پر زبانی جمع خرچ پر اکتفاء کیا جاتا ہے مگر مسلم ممالک مثلاً عراق ولیبیا پر فوج کشی سے بھی گریز نہیں کیا جاتا ۔ نیوزی لینڈ کے اندر وقوع پذیر ہونے والے سانحہ کو اس تناظر میں دیکھنا چاہیے۔ نیوزی لینڈ گو کہ جغرافیائی اعتبار سے یوروپ میں نہیں ہے لیکن وہ پوری طرح مغربی تہذیب کا علمبردار ملک ہے۔ کرائسٹ چرچ کی دو مسجدوں پر ہوئے دہشت گردانہ حملہ میں ۴۰ اہل ایمان شہید ہوگئے اور ۲۰ لوگوں کی حالت انتہائی سنگین ہے۔ رب ذوالجلال اس سانحہ میں شہید ہونے والوں کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے اور پسماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے۔ نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم جیسنڈا آرڈرن اس خبر کی تصدیق کرچکے ہیں لیکن اس کے ساتھ مذمت یا نہ رنج و غم کا اظہار نظر نہیں آیا۔ نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم جیسنڈا نے چار مشتبہ لوگوں کو گرفتار کرنے کی خبر دے کر بڑا احسان کیا ہے۔ ایک ایسے قاتل کو جس نے فیس بک اپنی شناخت اور شواہد دونوں رکھ چھوڑے ہیں کیامشتبہ قرار دینا مضحکہ خیز نہیں ہے ۔ آسٹریلیا کے وزیر اعظم اسکاٹ ماریسن نے بھی تسلیم کیا ہے کہ ’’گولی باری کے بعد نیوزی لینڈ میں جو چار لوگ گرفتار ہوئے ہیں ان میں سے ایک آسٹریلیائی باشندہ ہے۔‘‘ بقیہ لوگوں کی تفصیلات کو ذرائع ابلاغ سے کیوں پوشیدہ رکھا جارہا ہے ؟ اس سوال کا جواب کوئی نہیں جانتا۔ میڈیا کے مطابق یہ حملہ ایسے وقت میں ہوا جب نمازِ جمعہ کی تیاری چل رہی تھی، اس لیے دونوں مساجد کے اندرکافی تعداد میں نمازی موجود تھے۔ النور مسجد کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ جب حملہ آور اخعدکار ہتھیار لے کر داخل ہوا تو وہاں کم و بیش ۲۰۰ لوگ تھے ۔ حملہ آور کے تعلق سے بتاگیا کہ وہ ۲۸سالہ آسٹریلوی شہری ہے۔ حملہ آور برینٹن ٹیرینٹ نے اس اندوہناک واقعہ کا لائیو ویڈیو اپنے فیس بک صفحہ پر چلاکر راجسمند کے شمبھوناتھ ریگر کو بھی مات دے دی۔ سوال یہ ہے کہ ان سفاک قاتلوں کا حوصلہ اس قدر بلند کیسے ہوجاتا ہے؟ اس کا جواب شمبھوناتھ جیسے لوگوں کے ساتھ عوام اور انتظامیہ کے سلوک میں پوشیدہ ہے۔ شمبھوناتھ کے لیے علی الاعلان چندہ جمع کیا گیا۔ عدالت کے سامنے مظاہرہ ہوااور اسے انتخاب لڑانے تک کی بات کی گئی۔ افراز ل کے قاتل نے جودھپور کی سینٹرل جیل سے دو اشتعال انگیز ویڈیو سوشل میڈیا پر وائر ل کرکے ثابت کردیا کہ وہ کس عیش کی زندگی گزار رہا ہے۔ اس نے ویڈیو میں قتل کا خطر جتانے کے بعد کہا کہ اسے اپنی درندگی پر کوئی ندامت نہیں ہے۔ برینٹن ٹیرینٹ نے فیس بک پر لائیو اپنا نام بتاکر تعارف کراتے ہوئے کہتا ہے کہ اس کی پیدائش آسٹریلیا میں ہوئی ہے۔ النور مسجد کے باہر گاڑی پارک کرنے کے بعد اس نے لائیو اسٹریمینگ شروع کی جو ۱۷ منٹ تک جاری رہی ۔ اس ویڈیو میں اس کو ڈھیر سارے ہتھیار اور دھماکہ خیز اشی کے ساتھ گاڑی میں آگے کی سیٹ پر دیکھا جاسکتا ہے ۔ اس کے پاس پٹرول کے کنستربھی نظر آتے ہیں ۔ گاڑی سے اترتے ہی وہ مسجد کے دروازے پر فائرنگ شروع کردیتا ہے اور تابڑ توڑ گولیاں برسانے لگتا ہے لیکن سوال یہ ہے ۱۷ منٹ تک یہ اسٹریمنگ جاری کیسے رہی؟ جن لوگوں منٹوں کے اندر یہ پتہ چل جاتا ہے کہ تورہ بورہ کی پہاڑیوں میں کون مٹھائی بانٹ رہا ہے اور خوشیاں منارہا ہے وہ اسے روک کیوں نہیں پائے؟ اس اسٹریمنگ کو دیکھنے والوں میں سے کسی ایک نے بھی اتنی دیر تک پولس کو اطلاع کیوں نہیں دی؟ یا انتظامیہ خود چاہتا تھا کہ یہ مناظر دنیا بھر میں پھیلا کر مسلمانوں کو دہشت زدہ کیا جائے؟ اب آگے یہ دیکھنا ہوگا کہ برینٹن کو کیفر کردار تک پہنچنے سے بچانے کے لیے یوروپی دانشور کیسی کیسی موشگافیاں کرتے ہیں؟ اس طرح کی دہشت گردی کو حکومت کی در پردہ حمایت حاصل ہوتی ہے۔ ہندوستان کے اندر ہجومی تشدد کے قاتلوں کو مختلف حیلوں بہانوں سے بچایا جاتا ہے۔ مظفرنگر فساد کے ملزمین جب ضمانت پر رہا ہوکر آتے ہیں تو ان کو سرکاری ملازمت سے نوازہ جاتا ہے۔ مظفر نگر کے مقتول نواب اور شہید کے بھائی اورچشم دید گواہ اشباب کو دن دہاڑے کھتولی قتل کردیا جاتا ہےلیکن پولس کو کوئی سراغ نہیں ملتا ۔ سبودھ کمار کے قاتلوں کی ایف آئی آر سے بجرنگ دل کے رہنما کا نام نکال دیا جاتا ہے ۔ بابو بجرنگی جیسے سفاک قاتل کی گرتی ہوئی صحت پر عدالت کو رحم آجاتا ہے۔ مایا کندنانی کے خلاف تمام شواہد اچانک کمزور ہوجاتے ہیں ۔ حکومت ہند مسعود اظہر کو دہشت گرد قرار دینے کے لیے اقوام متحدہ تک پہنچ جاتی ہے مگراسٹینس کے قاتل رام سنگھ اور افرازلاسلام کا قتل کرنے والےشمبھوناتھ کوتختہ دار پر نہیں چڑھاتی۔ جیش محمد پر پابندی لگانے کے لیے تگ و دو کرنے والوں کو سناتن سنستھا نظر نہیں آتی جس نے گوری لنکیش اور پروفیسر کلبرگی جیسے نہ جانے کتنے دانشوروں کو موت کے گھاٹ اتار دیا ۔ اسی سے ان ظالموں کے حوصلے بلند ہوتے ہیں اور قتل و خون کا بازار گرم رہتا ہے۔ افضل گرو کے ناقص شواہد کے باوجود رائے عامہ کے دباو میں پھانسی دیئے جانے پر ساری دنیا خاموش تماشائی بنی رہتی ہے مگر پاکستان میں آسیہ بی بی کو لے کر آسمان سر پر اٹھا لیا جاتا ہے لیکن عدالت کے پائے استقلال میں جنبش نہیں آتی ۔ اس کے باوجود دنیا بھر میں دہشت گردی کا محورمسلم ممالک کو قرار دیا جاتا ہے۔ نیوزی لینڈ کے قتل عام کی ذمہ داری کوئی قبول نہیں کرتا۔ قاتل کے مذہب اور ملک کو انفرادی حرکت سے نہیں جوڑا جاتا لیکن اگر ایسی ہی کوئی حرکت کسی مسلمان سے سرزد ہوجائے تو اسلام کے خلاف محاذ کھول دیا جاتا ہے۔ ٹیرینٹ نے جس اسکول سے تعلیم حاصل کی ہے اس کو بند کرنے کا خیال بھی کسی کو نہیں آتا مگر نام نہاد اسلامی دانشور بھی بیک جنبش سارے مدرسوں پر قفل لگانے کی بات کرنے سے پس و پیش نہیں کرتے ۔ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف عالمی اتحاد کی دو بنیادی وجوہات ہیں ۔ پہلی یہ کہ ظلمت کے ان سارے علمبردوں میں سے کسی اندھیرے کو دوسرے اندھیرے سے کوئی خطرہ نہیں ہے ۔ ان کو خوف صرف نور اسلام سے ہے۔ یہ سب موت سے خوفزدہ ہیں اس لیے ایک دوسرے کو نہیں ڈراتے لیکن مسلمان موت سے بھی نہیں ڈرتا اس لیے اسے خوفزدہ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے لیکن یہ احمق نہیں جانتے کہ ؎ نورخدا ہے کفر کی حرکت پہ خندہ زن پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا

حالیہ شمارے

براہیمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے

شمارہ پڑھیں

امتیازی سلوک کے خلاف منظم جدو جہد کی ضرورت

شمارہ پڑھیں