نکاح اور تعلیم

ایڈمن

سوال: تعلیم کے ساتھ ہی نکاح کی ضرورت محسوس ہوتی ہے، مگر خود کفیل نہ ہوتے ہوئے ایسا کرنا مشکل ہوتا ہے۔ ایسے میں کیا کرنا چاہئے؟ (محمد عمر، تھانہ) جواب: دوست! یہ معاملہ بڑا مشکل ہے۔ اس پر سماج کو…

سوال: تعلیم کے ساتھ ہی نکاح کی ضرورت محسوس ہوتی ہے، مگر خود کفیل نہ ہوتے ہوئے ایسا کرنا مشکل ہوتا ہے۔ ایسے میں کیا کرنا چاہئے؟

(محمد عمر، تھانہ)

جواب: دوست! یہ معاملہ بڑا مشکل ہے۔ اس پر سماج کو دہائی دی جائے یا اس پوری کائنات کو ، سمجھ میں نہیں آتا! اب یہ بات توہم جانتے ہیں کہ کوئی لڑکا یا لڑکی بالغ ہونے اورجنسی طور پر بیدار ہونے کو تعلیم کے مکمل ہونے تک مؤخر کرکے نہیں رکھ سکتا! اور جب دورانِ تعلیم ہی بلوغت نصیب ہو جائے تو اور اس کا لطف نہ لیا جا سکے تو اور بھی زیادہ بڑی مشکل پیدا ہو جاتی ہے۔ کاش کہ ہم سماجی حیثیت میں اتنے مسلمان ہوتے کہ اس لطف سے نوجوانوں کو محروم نہ رکھتے۔ برا ہو اس نیم مسلمان سماج کا!!!

خیر! ہمارا سماج تہذیبی اعتبار سے ہندو روایات کی طرز پر ترتیب پایا ہوا ہے۔ اس لئے ہندو تہذیب ہی کی طرح مسلمانوں میں بھی نکاح کا تعلق تعلیم سے نہیں بلکہ مادیت سے ہے۔ اچھی نوکری، بزنس، شادی کا خرچ اور سماج میں اپنی ’ناک‘ کے اونچے رہنے کا فرسودہ تصور وغیرہ اس کے کچھ مظاہر ہیں۔ اس پس منظر میں دو صورتیں آپ کے سامنے ہیں۔ ایک ، اگر آپ معاشی طور پر مستحکم خاندان سے تعلق رکھتے ہیں، تو اپنی کیفیت کے بارے میں اپنے گھر والوں کو آگاہ کریں۔ درست فہم رکھنے والے بزرگان سے اپنے والدین کی ملاقات کرائیں اور اس بات کے لئے انہیں تیار کریں کہ وہ دورِ طالب علمی ہی میں آپ کا نکاح کروادیں۔ اس نکاح کی کئی شکلیں ہو سکتی ہیں اور ان میں کی ہر شکل بے نکاحی سے بہتر ہے۔ مثلاً جس طرح لڑکے کی کفالت اس کا باپ کرتا ہے اسی طرح اس کے کردار کو بچائے رکھنے کے لئے نکاح ہونے کے بعدایک لڑکی کی کفالت بھی کر لے۔ اگر معاشی تنگی کی صورتحال درپیش نہ ہو تو ظاہر ہے یہ ایک اضافی فرد، خاندان پر بوجھ نہیں بن پائے گا۔ دوسری صورت یہ ہو سکتی ہے کہ نکاح ہو مگر رخصتی نہ ہو۔ ایسے معاملے میں اگرچہ وصل کے راستے کم ہیں مگر پھر بھی اپنی منکوحہ سے بات کرنے اور ملاقات کرنے کے راستے تو شریعت صاف کر ہی دیگی۔ اور اگر کوئی تعلق کسی صورت ہو بھی جائے تو وہ گناہ میں شمار نہیں ہوگا۔

دوسرا معاملہ یہ کہ اگر آپ معاشی طور پر کمزور ہیں تو پورے تَن مَن دَھن سے سماج کی اس ذہنیت اور کیفیت کو بدلنے کی کوشش میں لگ جائیں تاکہ جس اذیت اور اضطراب سے آپ کو گذرنا پڑ رہا ہے کم از کم آنے والے بالغین کے حصہ میں وہ نہ آنے پائے۔ اس کام میں اپنے آپ کو اتنا مصروف رکھیں کہ یہی مقصد آپ کی راحت بن جائے راحتیں اور بھی ہیں وصل کی راحت کے سوا!!!

ایک صورت یہ بھی ہے، گو کہ انقلابی ہے لیکن شرعی طور پر درست ہے۔ وہ یہ کہ اگر آپ وسائل کا انتظام کر سکتے ہوں، اور اپنی جوانی کو ضائع نہیں ہونے دینا چاہتے تو اس ’ظالم‘ سماج کی پرواہ کئے بغیر آپ چپکے سے مسجد میں جاکر نکاح کرلیں۔مشکلات تویقینا درپیش ہوں گی، مگر آپ کم از کم شریعت کی خلاف ورزی نہیں کریں گے۔ سماج سے لوہا لے کر آپ اللہ کے نزدیک ہوجائیں گے۔ چاہے کچھ بھی ہوجائے، صرف اللہ ناراض نہ ہو اس بات کو یقینی بنائیں۔ رہا وہ مشورہ جو اکثر ہمارے بزرگ دیتے رہتے ہیں ،تو اس کو میں اپنے جواب میں شامل نہیں کر رہا ہوں۔ مجبوری کے عالم میں ان پر عمل کیا جا سکتا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا آپ واقعی اتنے مجبور ہیں؟؟؟؟

 

اس کالم کے تحت قارئین کے سوالات کے جوابات دینے کی کوشش کی جائے گی۔ اپنے سوالات بذریعہ ای میل یا وہاٹس ایپ (اس نمبر 9673022736 پر) بھیج سکتے ہیں۔

حالیہ شمارے

براہیمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے

شمارہ پڑھیں

امتیازی سلوک کے خلاف منظم جدو جہد کی ضرورت

شمارہ پڑھیں