قرآنی آیات کا مطالعہ
قرآن حکیم نے جہاں یہ تعلیم دی ہے کہ تمام مومنین مردوعورت دعوت واصلاح کا سلسلہ جاری رکھیں اور اپنے گردوپیش کے ماحول کو خداپرستانہ بنانے کی سعی وجہد کرتے رہیں، وہیں چند پاکیزہ نفوس کو بطور نمونہ پیش کرکے یہ بھی دکھا دیا ہے کہ دعوت واصلاح کا کام کیسے انجام دیا جانا چاہئے۔ گھر کے ماحول کو درست رکھنے، نیز بچوں میں دعوتی ذوق پروان چڑھانے کی تاکید قرآن مجید میں باربار کی گئی ہے، مثلاََ قرآن کریم میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے: یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوا قُوا أَنفُسَکُمْ وَأَہْلِیْکُمْ نَاراً،(سورہ تحریم: ۶) ترجمہ: ’’اے لوگو! جو ایمان لائے ہو، اپنے آپ کو اور اپنے اہل وعیال کو جہنم کی آگ سے بچاؤ، ‘‘۔ ایک دوسرے مقام پر حق تعالیٰ شانہ کا حکم یہ ہے کہ وَأْمُرْ أَہْلَکَ بِالصَّلَاۃِ وَاصْطَبِرْ عَلَیْْہَا،(سورۃ طہ: ۱۳۲) ترجمہ: ’’اپنے اہل وعیال کو نماز کی تاکید کرو اور اس کام کو مستقلاََ جاری رکھو‘‘۔ اس آیت کے ضمن میں جناب نعیم صدیقی علیہ الرحمہ رقم طراز ہیں: ’’صلوۃ کی حد تک یہ حکم محدود نہیں ہے بلکہ پورے دین کی تعلیم وتربیت دینے کی تلقین اس میں شامل ہے، یہ ایک بڑی عبادت ایسی لے لی گئی ہے جو روزمرہ کی زندگی میں بڑی اہمیت رکھتی ہے، اور جس پر عمل کرنے والے کا رویہ محسوس طور پر سامنے ہوتا ہے‘‘۔ (بحوالہ تحریکی شعور: صفحہ ۲۰۶؍)
مطالعہ قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ انبیاء کرام اور صلحاء نے اپنے گھروالوں کی تربیت میں کبھی کوتاہی نہیں کی، یہ الگ بات ہے کہ گھر والوں نے ان کی بات مانی ہو یا نہ مانی ہو۔ حضرت اسماعیل علیہ السلام کے تعلق سے قرآن مجید گواہی دیتا ہے کہ ’’وَاذْکُرْ فِیْ الْکِتَابِ إِسْمَاعِیْلَ إِنَّہُ کَانَ صَادِقَ الْوَعْدِ وَکَانَ رَسُولاً نَّبِیّا۔ وَکَانَ یَأْمُرُ أَہْلَہُ بِالصَّلَاۃِ وَالزَّکَاۃِ وَکَانَ عِندَ رَبِّہِ مَرْضِیّاً‘‘۔ (سورۃ مریم: ۵۴؍ ۵۵؍)ترجمہ: ’’اور اس کتاب میں اسماعیل علیہ السلام کا ذکر کرو، وہ وعدہ کا سچا تھا، اور رسول نبی تھا، وہ اپنے گھر والوں کو نماز اور زکوۃ کا حکم دیتاتھا، اور اپنے رب کے نزدیک ایک پسندیدہ انسان تھا‘‘۔ معلوم ہوا کہ رب کا پسندیدہ اور محبوب بندہ بننے کے لیے لگاتار گھروالوں کو بندگئ رب کے لیے آمادہ کرنا ناگزیر ہے، مزید برآں قرآن کریم حضرت لقمان علیہ السلام کے نصائح نقل کرتا ہے جو رہتی دنیا تک تمام مومن والدین کے لیے مشعل راہ ہیں۔ گوکہ حکیم لقمان علیہ السلام نبی نہیں تھے، لیکن ان کے نصائح انبیائی تعلیمات کا عکس ہیں۔ ملاحظہ ہو:
(۱) شرک کی تردید:
حضرت لقمان علیہ السلام نے اپنے جگرگوشے کو شرک سے بچنے کی نصیحت کچھ اس طرح کی : وَإِذْ قَالَ لُقْمَانُ لِابْنِہِ وَہُوَ یَعِظُہُ یَا بُنَیَّ لَا تُشْرِکْ بِاللَّہِ إِنَّ الشِّرْکَ لَظُلْمٌ عَظِیْمٌ۔ (سورۃ لقمان: ۱۳)ترجمہ: ’’بیٹا خدا کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرنا، حق یہ ہے کہ شرک بہت بڑا ظلم ہے‘‘۔ اس کے بعد حکیم لقمان نے مزید کہا کہ یَا بُنَیَّ إِنَّہَا إِن تَکُ مِثْقَالَ حَبَّۃٍ مِّنْ خَرْدَلٍ فَتَکُن فِیْ صَخْرَۃٍ أَوْ فِیْ السَّمَاوَاتِ أَوْ فِیْ الْأَرْضِ یَأْتِ بِہَا اللَّہُ إِنَّ اللَّہَ لَطِیْفٌ خَبِیْرٌ۔ (لقمان:۱۶) ترجمہ: ’’بیٹا کوئی چیز رائی کے دانے کے برابر بھی ہو اور کسی چٹان میں یا آسمانوں یا زمین میں ، کہیں چھپی ہوئی ہو اللہ اسے نکال لائے گا، وہ باریک بیں اور باخبر ہے‘‘۔ یہ ظاہر ہے کہ حضرت لقمان علیہ السلام کا بیٹا ایک موحد باپ کا سپوت تھا، لیکن اس کے باوجود آں جناب کا شرک سے اجتناب کی تلقین کرنا، یہ معنی رکھتا ہے کہ دعوی ایمان کے باوجود شرک میں ملوث ہوجانا ممکن ہے، یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالی بنی اسرائیل کو، جو کہ انبیاء کی نسل سے تھے اور اس بات پر اظہار فخر بھی کرتے تھے، یہ عہد یاد دلاتا ہے کہ وَإِذْ أَخَذْنَا مِیْثَاقَ بَنِیْ إِسْرَاءِیْلَ لاَ تَعْبُدُونَ إِلاَّ اللّہ، (البقرۃ:۸۳) ترجمہ: ’’یاد کرو اسرائیل کی اولاد سے ہم نے عہد لیا تھا کہ اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو،‘‘۔اللہ تعالی کے ساتھ شرک کے معاملے میں عموماََ کس طرح کی غلطیاں سرزد ہوتی ہیں، اس ضمن میں سید ابوالاعلی مودودی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں: ’’اللہ تعالی کے ساتھ شرک کے معاملے میں لوگ بنیادی طور پر چار غلطیوں میں مبتلا ہوتے ہیں، (۱) اللہ کی ذات میں شرک، (۲) اللہ کی صفات میں شرک، (۳) اللہ کے اختیارات میں شرک، اور (۴) اللہ کے حقوق میں شرک، (بحوالہ توحید اور شرک: صفحہ ۱۹؍) حضرت لقمان علیہ السلام نے اللہ کی صفت لطیف (باریک بیں) ، اور صفت خبیر (باخبر) ہونے کا ادراک کراکے اپنے لخت جگر کو شرک فی الصفات سے اجتناب کی تلقین کی، نیز یہ بھی بتایا کہ مخفی چیز کو ظاہر کردینا، اللہ ہی کے اختیار میں ہے اور اللہ علام الغیوب ہے، لہذا اللہ کے سوا کوئی اور ہستی اگر عالم الغیب ہونے کا دعوی کرے تو اس کا یہ دعوی سراسر باطل ہوگا، اس لیے یہ اللہ ہی کا حق ہے کہ صرف اسی کی طرف رجوع کیا جائے، اور اسی سے اپنی حاجات طلب کی جائیں، چنانچہ سورہ مومن میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے: وَقَالَ رَبُّکُمُ ادْعُونِیْ أَسْتَجِبْ لَکُمْ إِنَّ الَّذِیْنَ یَسْتَکْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِیْ سَیَدْخُلُونَ جَہَنَّمَ دَاخِرِیْنَ۔ (سورۃ مومن: ۶۰)ترجمہ: ’’تمہارا رب کہتا ہے، مجھے پکارو، میں تمہاری دعائیں قبول کروں گا، جو لوگ گھمنڈ میں آکر میری عبادت سے منہ موڑتے ہیں، ضرور وہ ذلیل وخوار ہوکر جہنم میں داخل ہوں گے‘‘۔
(۲) صبر اور نماز کی تلقین:
دوسری نصیحت جو حکیم لقمان نے کی وہ یہ تھی کہ یَا بُنَیَّ أَقِمِ الصَّلَاۃَ وَأْمُرْ بِالْمَعْرُوفِ وَانْہَ عَنِ الْمُنکَرِ وَاصْبِرْ عَلَی مَا أَصَابَکَ إِنَّ ذَلِکَ مِنْ عَزْمِ الْأُمُور۔ (لقمان: ۱۷)ترجمہ: ’’بیٹا نماز قائم کر، نیکی کا حکم دے، بدی سے منع کر، اور جو مصیبت بھی پڑے اس پر صبر کر، یہ وہ باتیں ہیں جن کی بڑی تاکید کی گئی ہے‘‘۔ حضرت لقمان علیہ السلام نے بہت ہی حکمت کے ساتھ سمجھایا کہ امربالمعروف اور نہی عن المنکر کے دوران صبر اور نماز کے ہتھیار سے مدد لو، جیسا کہ اہل ایمان کو خطاب کرکے قرآن مجید کا ارشاد ہے کہ یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ اسْتَعِیْنُواْ بِالصَّبْرِ وَالصَّلاَۃِ إِنَّ اللّہَ مَعَ الصَّابِرِیْن۔ (سورۃ البقرۃ: ۱۵۳)ترجمہ: ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، مدد لو صبر سے اور نماز سے، بیشک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے‘‘۔ مولانا صدرالدین اصلاحی علیہ الرحمہ صبر کا مفہوم بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’صبر کا ایک عرفی مفہوم ہے، ایک عربی زبان کا لغوی مفہوم ہے، اور شرعی اصطلاحی مفہوم ہے، عرفی مفہوم یہ ہے کہ انسان مصائب وآلام پر بے قراری کا اظہار نہ کرے، آہ وفغاں نہ کرے، واویلا نہ مچائے، بلکہ جذبات کو قابو میں رکھے، لغوی مفہوم یہ ہے کہ ناگوار خاطر حالات میں اپنے آپ کو اپنی جگہ پر روکے رکھا جائے، گویا مشکل حالات میں ثبات واستقلال کا دوسرا نام صبر ہے، شرعی اصطلاحی حیثیت سے اس کا مفہوم یہ ہے کہ ہر حال میں انسان دین کے تقاضوں پر جما رہے اور بندگی کی شان پر آنچ نہ آنے دے‘‘۔ (بحوالہ اساس دین کی تعمیر: صفحہ ۲۶۴؍)
(۳) گفتگو کے آداب کی تعلیم:
تیسری نصیحت آپ علیہ السلام نے یہ کہ وَلَا تُصَعِّرْ خَدَّکَ لِلنَّاسِ وَلَا تَمْشِ فِیْ الْأَرْضِ مَرَحاً إِنَّ اللَّہَ لَا یُحِبُّ کُلَّ مُخْتَالٍ فَخُورٍ۔ وَاقْصِدْ فِیْ مَشْیِکَ وَاغْضُضْ مِن صَوْتِکَ إِنَّ أَنکَرَ الْأَصْوَاتِ لَصَوْتُ الْحَمِیْرِ۔ (لقمان: ۱۸؍۱۹؍) ترجمہ: ’’اور لوگوں سے منھ پھیر کر بات نہ کر، نہ زمین میں اکڑ کر چل، اللہ کسی خودپسند اور تکبر کرنے والے کو پسند نہیں کرتا، اپنی چال میں اعتدال اختیار کر، اور اپنی آواز ذرا پست رکھ، سب آوازوں میں بری آواز گدھوں کی آواز ہوتی ہے‘‘۔ انسانی سماج میں یہ بات بہت اہمیت کی حامل ہے کہ انسان اپنے ملنے جلنے والوں کے ساتھ کیسا رویہ اختیار کرتا ہے، انسان کے کردار اور اس کے اخلاق کا اندازہ اس کی گفتگو سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے، اسلام ایک ایسا معاشرہ تعمیر کرنا چاہتا ہے جس میں ایک دوسرے سے صلہ رحمی کا برتاؤ کیا جائے، اخوت اور بھائی چارے کا دوردورہ ہو، اکڑ کر چلنا دراصل گھمنڈ، کبر کی نشانی ہے، یہ چال اللہ کے نیک بندوں کے لیے نامناسب ہے۔ اللہ کو جو چال پسند ہے اس کا تذکرہ سورہ الفرقان میں اس طرح کیا گیا ہے: وَعِبَادُ الرَّحْمَنِ الَّذِیْنَ یَمْشُونَ عَلَی الْأَرْضِ ہَوْناً، (آیت: ۶۳) ترجمہ: ’’رحمن کے بندے وہ ہیں جو زمین میں نرم چال چلتے ہیں‘‘۔ شبیراحمد عثمانی ؒ نے اس آیت کی تشریح اس طرح کی ہے: ’’یہ مطلب نہیں ہے کہ ریا اور تصنع سے بیماروں کی طرح چلتے ہیں، چونکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی جو رفتار احادیث میں منقول ہے وہ اس کی تائید نہیں کرتی‘‘۔ (تفسیر عثمانی: صفحہ ۴۸۷؍) داؤد راز دہلوی ؒ لکھتے ہیں: ’’متکبرین کی طرح وہ زمین میں اترا کر نہیں چلتے، بلکہ بڑی تواضع اور وقار سے چلتے ہیں‘‘، (صفحہ : ۴۳۸؍ منتخب حواشی اور ثنائی والا ترجمہ) یہی ہدایت سورہ بنی اسرائیل میں بھی دی گئی ہے: وَلاَ تَمْشِ فِیْ الأَرْضِ مَرَحاً إِنَّکَ لَن تَخْرِقَ الأَرْضَ وَلَن تَبْلُغَ الْجِبَالَ طُولا۔ (آیت: ۳۷)ترجمہ: ’’اور زمین میں اکڑ کر نہ چلو، تم نہ زمین کو پھاڑ سکتے ہو، اور نہ پہاڑوں کی بلندی کو پہنچ سکتے ہو‘‘۔
آداب گفتگو کے سلسلے میں لقمان علیہ السلام نے نصیحت کی ہے کہ ’’اپنی آواز کو پست کرو، آوازوں میں زیادہ بری آواز گدھوں کی آواز ہوتی ہے‘‘۔ اس نصیحت کا منشأ یہ ہے کہ انسان نرمی سے بات کرے، اپنی آواز میں خواہ مخواہ کی بناوٹ پیدا کرنے سے گریز کرے، گدھے کی آواز سے تشبیہ دینے کا مطلب یہ ہے کہ انسان دوسروں پر رعب جمانے کے لیے گلا نہ پھاڑے، بلکہ گفتگو کرتے وقت اپنے آپ کو آپے سے باہر نہ ہونے دے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ نصائح لقمان کی روشنی میں ہم اپنا تربیتی خاکہ مرتب کریں۔
محمد معاذ، جا معہ ملیہ اسلامیہ۔ ای میل: [email protected]