ناموس عورت اور فسطاءی طرز عمل

ایڈمن

از: جویریہ اِرم اسلام نے سوال اٹھانے ،اس کا اطمینان بخش جواب حاصل کرنے ، تعمیری تنقید کرنے کو اسلامی علمِ سیاسیات کا حصہ بنایا ۔نبی کریمﷺ اور خلفائے راشدین نے اس کو رواج دیا۔ مجموعی طور پر حق جانکاری…

از: جویریہ اِرم
اسلام نے سوال اٹھانے ،اس کا اطمینان بخش جواب حاصل کرنے ، تعمیری تنقید کرنے کو اسلامی علمِ سیاسیات کا حصہ بنایا ۔نبی کریمﷺ اور خلفائے راشدین نے اس کو رواج دیا۔ مجموعی طور پر حق جانکاری کو مسلمانوں نے ہی حوصلہ افزائی دی جو نیک نیتی اور شفافیت کو برقرار رکھنے میں معاون ہوتی ہے۔ایک ترقی پسند سماج اور مملکت کے لئے ضروری ہے کہ عوام کو تحقیق کرنے ، تجزیہ کرنے ، اپنے مشاہدات کا افشاءکرنے ، سماج کا تنقیدی جائزہ لینے اور سوال کرنے کی آزادی ہو۔
آج ملک میں ایک عجیب فضاءبنی ہوئی ہے،سربراہان مملکت اور ان کی حواری جماعتیں سوال کرنے پرچراغ پا ہوجاتی ہے۔آپ سوال کریں،جواب کے بجائے ایک الٹا سوال آپ سے ہی کردیا جاتا ہے۔آپ نوٹ بندی کی بات کریں اور آپ سے سیاچن کے سپاہیوں کے بارے میں سوال ہوتا ہے۔سیاچن میں سخت ترین حالات میں ڈیوٹی دینے والے سپاہی خود سوال کرنے کی آزادی مانگ رہے ہیں۔ نہ عام شہری کو ، نا سپاہی کو ، سنتری سے لے کر اپوزیشن کے منتری تک کو سوال اٹھا نے اور نہ ہی اظہار خیال کا کھلا موقع ہے۔ سب سوال کرنے والے لوگوں سے بلا لحاظ مذہب و ملت ، رنگ و نسل ، طبقہ وپیشہ ، انتظامیہ اور ان کے فسطائی خداﺅں نے خفا ہوجانا ہے۔
فسطائیت اپنے عروج پر ہے ، ہر حربہ استعمال کرکے مخالفین کچل دیا جاتا ہے تو اپنے حواریوں کی پشت پناہی زبر دست انداز میں ہوتی ہے۔ فسطائیت مخالف سماجی کارکنوں ، اساتذہ ، طلباءطالبات کو قانونی داﺅ پیچ میں پھا نسا جاتا ہے دوسری طرف اپنے حلیفوں کو فوجداری مقدمات سے بڑی صفائی سے بچا لیا جاتا ہے۔ غنڈہ گردی ، مارپیٹ ، قتل وغارت گری اور قانونی داﺅ پیچ کھیل کھیل کر ہر اساں کیاجارہا ہے۔ ان کی تازہ مثالیں انھاد کی بیرونی فنڈینگ پر پابندی ، تیستا ستلواڈ کا مختلف کیسس میں عدالتوں کے چکر کاٹنا ، گﺅ رشا کے نام پر انسانی خوں کا بہانا سے لے کر رام جاس کالج میں شہلا راشد اور کامریڈس کی پٹائی ، اسیمانند کا بری ہوجانا یا پھر سماجی رابطہ کی سائٹس پر Trolling سب سے آسان حربہ ہے ہی، سماجی رابطہ کی سائٹس پر حکومت مخالف یا دائیں بازو مخالف Tweets اور Postپر چند گھنٹوں میں جنگ کا گرم ماحول بن جاتا ہے، کئی موقعوں پر معمولی باتیں ٹرینڈنگ میں آجاتی ہیں حیرت ہوتی ہے کہ اتنی فراغت میسر آتی کیسے ہے لوگوں کو ، یا پھر مخصوص IT Teams تشکیل دیں گئیں ہیں جن کی دال روٹی Troll کرتے رہنے پر ہی چلتی ہے۔ فراغت کے اسباب جاننے کے علاوہ اور بھی غم ہیں زمانے میں، جیسے نظریاتی مخالف مرد کے Troll ہونے اور نظریاتی مخالف عورت کے Troll ہونے کے Pattern مختلف ہیں۔ایک غدار یا Anti nationalist کہلاتا ہے تو دوسرا غداری کے ساتھ ساتھ فحش بھی کہلاتا ہے۔ JNUکی معروف ٹیچر نیویدیتا منن ، DU کی طالبہ گرمہر کور ، سماجی کارکن تیستاستلواڈ ،گجرات فائلس کی مصنفہ رعنا ایوب ، برکھا دت مشہور جرنلسٹ غرض تمام خواتین جن کا مختلف شعبہ ہائے جات سے تعلق اور بڑی خدمات ہیں۔ان خواتین میں مشترک وصف ان کے سونچنے سوال کرنے کی ”بُری عادت“ جو مخصوص طبقہ کے حلق سے نیچے اتر نہیں پاتی، ردعمل کے طور پر ان کے اخلاق کردار ، شکل صورت ، رہن سہن المختصرشخصی حملہ کئے جاتے ہیں۔شہلا راشد حکومت ، نریندرمودی اور RSS کی طلباءتنظیم ABVP پر اپنے تبصروں کی وجہ سے جانی جاتی ہیں۔AISA کے رکن شہلا راشید نہ صرف طلباءکے مسائل بلکہ ملکی سیاست کی سمجھ بھی رکھتی ہیں، JNUSU صدر رہ چکے کنہیا کمار کی گرفتاری کے بعد حکومت کے ان کو گرفتار کرنے اور غداری کے الزامات لگانے پر انھوں نے حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا اور انکی رہائی کے لئے بڑی دلیری سے مہم چلائی۔ دائیں بازو اور بائیں بازو جماعتوں کا ٹکراﺅ کوئی نئی بات نہیں ہے اقتدار میں آنے کے بعد دائیں بازو کا اپنے سیاسی و نظریاتی حریفوں کو کچل دینے کی کوشش کرنا تشویشناک ہے۔ملکی سیاست میں جو کچھ چل رہا ہے اس کو سمجھنے کی ضرورت ہے اسلام اور کمیونزم بھی دو مختلف نظریات ہیں ، شہیلا راشد کو صرف ان کے کشمیری مسلمان گھرانے سے تعلق کی وجہ سے مسلمانوں کی تائید حاصل نہیں ہے بلکہ مسلمانوں کاتکثیری مزاج ہے ، تکثیریت بھی کسی سماج میں ایسے متعدد گروہوں کی موجودگی اور ان کے درمیان رواداری جو مختلف رنگ و نسل یا سیاسی تصورات کے ہوں۔ حالیہ ان کے ایک Post پر کافی کہرام مچا جس میں انھوں نے Hate speech اور اہانت کے درمیان فرق کو بتانے کی کوشش کی، کئی مسلمانوں نے اس پر اعتراض کیا ،AMU کی طالبہ نے بھی FIR درج کروائی ،دائیں بازو نے یہ کہنا شروع کیا کہ مسلمانوں میں برداشت نہیں ہے جبکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ شہلا کی تائید کے باوجود ان کی کسی بھی بات سے اختلاف ہو سکتا ہے،جو چیز بُری لگے گی مسلمان کہے گا کہ بُری لگی، اہانت کو اہانت کہے گا،مودی بھکتوں کی طرح صحیح اور غلط کی تمیز نہیں کھو دیں گے لیکن فرق یہ ہے کہ دائیں بازو فسطائی طاقتوں کی طرح شہلا پر نازیبا فحش تبصرے نہیں کہے نگے یہی سونچ ہے جو ہمارے اور ان کے درمیان مشترک ہے جس میں ہم ساتھ ہیں یہ مسلمانوں کا رد عمل تھا اس کے علاوہ JNUکی معروف ٹیچر نویدیتا منن سے بھی اختلاف ہو سکتا ہے لیکن اس بات میں دو رائے نہیں کہ وہ ایک قابل استاذہ ہیں ان کی لکھیں کتابیں نصاب میں شامل کی جاتی ہیں خواتین کے حقوق کے لئے ان کی گراں قدر خدمات ہیں، غنڈہ گردی کر کے یا غداری کے مقدمات چلا کر یا تقاریر کے Videos کو متن سے الگ کر کے سماج میں ان کی ساکھ کو متاثر کرنے کی کوشش نہیں کریں گے، کئی مسلمان قائدین نے کہا کہ محترمہ یہ سوال اتھا رہی ہیں کہ منوواد اور برہمن واد انسانی حقوق کے خلاف ہیں تو برہمن واد کے حامی افرادکو چاہئے کہ اس کا تسلی بخش جواب دیں انھیں ہر اساں کرنا مناسب رویہ نہیں ہے ، یہی اپوزیشن اور باقی تنظیموں کا خیال ہے۔2002 اور 2007 کے درمیان نریندر مودی اور امیت شاہ کے گجرات میں فسادات اور فرضی انکاﺅنٹرس کا رعنا ایوب نے Under cover جاکر ثبوت حاصل کیا، پولیس ، بیوروکریٹس کے اقبالیہ بیانات ریکارڈ کئے اور گجرات فائلس کتاب تصنیف کی ، حقائق کو منظر عام پر لانے ، سچائی کے لئے جدوجہد کرنے اور اپنی جان جوکھم میں ڈالنا سربراہ مملکت کا طاقت کا طاقت کا کیا گیا غلط استعمال کا افشاءکرنا کوئی معمولی کارنامہ نہیں ہے بلکہ ایک عورت کا ایک دلیرانہ اقدام تھا۔ اس سب کے بعد اپنے مزاج کے مطابق فسطائی طاقتوں نے اپنے غصہ اور جھنجلاہٹ کو دور کرنے کے لئے رعنا ایوب کو troll کرنا شروع کیا۔اسکے علاوہ شبنم ہاشمی کی تنظیم ANHAD (Act Now for Harmony and Democracy) جو انھوں نے گجرات فسادات کے بعد 2003 میں کھولی تھی اس کی بیرونی فنڈنگس حکومت نے بند کردیں، انھوں نے فسادات متاثرین گجرات کی باز آباد کاری اور حصولِ انصاف کے لئے کافی جدوجہد کی اور ان کے troll کئے جانے کے لئے یہ سبب کافی ہے۔
پچھلے وقتوں میں گلی محلوں کے معمولی جھگڑوں میں جاہلوں کا ایک دوسرے کی ماں بہن کو گالیاں دینا زد عام تھا۔ آزاد ہند نے گزرے 70 سالوں میں مادی ترقی تو کرلی کیا ا س کی سونچ نے بھی ترقی کی ہے؟ یہ اہم سوال ہے۔ آج سماجی زندگی میں خواتین کا دائرہ وسیع ہوگیا ہے ان کی شمولیت بھلے ہی بڑھ گئی ہے لیکن دنیا کی یہ بڑی جمہوریت نے عورت کو عزت دینا سیکھا ہے یا نہیں؟ جو طرز عمل کبھی صرف جاہلوں کاہوا کرتا تھا اس ترقی پسند دور میں کئی پڑھے لکھے جاہل سماجی رابطہ کی سائٹس پر وہی گالیاں فحش جملے، انگریزی میں تحریر کرتے ہیں ،پہلے دی جانے والی گندی گالیوں کا ریکارڈ صرف نامہ اعمال میں ہوتا تھا اب سماجی رابطہ کی سائٹس پر بھی باضابطہ محفوظ ہورہا ہے۔ دیکھنے والے ہندوستانی سماج کا کیا تصور لیں؟ نئی نسلیں کیا عکس لیں؟ بحیثیت قوم ہم ہندوستانی کس سمت میں جا رہے ہیں؟ ہماری مجموعی حیثیت کیا ہے کیوں کہ ہماری زبان ہمارے ذہن و دل کی عکاس ہوتی ہے۔ کوئی Tweet کرتا ہے کہ رعنا ایوب کو سننے سے اچھا ہے کہ کوئی فحش فلم دیکھ لی جائے، جواباً رعنا ایوب لکھتی ہیں ترجیحات کی آزادی۔ ۔جو خاتون حکومت وقت سے سوال کرنے کی سونچے وہ خود کو ذہنی طور پر تیار کرلے کہ ”troll شاکھہ“ حیا باختہ جملوں کے ساتھ جوابی حملہ کرے گی۔ برکھا دت کو prestitute کہہ کہہ کر troll کیا گیا۔ حکومت وقت کے نمائندے نے اپنی ہتک عزت پر عدالت میں دس کروڑ کا مقدمہ کردیا۔ کیا برکھا کو دس کروڑ نہیں ملنے چاہئے، رعنا ایوب اور شہلا راشید کو نہیں ملے ینگے؟ یا پھر ان خواتین کی کوئی وقعت نہیں ہے؟ دلچسپ بات یہ ہے کہ سمرتی ایرانی اپنے غلط فیصلوں کی وجہ سے کافی سرخیوں میں رہی ، سوشل میڈیا اور مین اسٹریم میڈیا میں تضحیک کا بھی سامنا کرچکی ہیں مگر ان پر مخالفین نے اس شدید حدت کے فحش تبصرے نہیں کئے جیسے سیاسی حریفوں پر آج کل ہورہے ہیں۔ پرینکا گاندھی کے بارے میں تبصرہ کرتے ہوئے حکمران جماعت کے ایک فرد نے کہا تھا کہ ”ہمارے پاس پرینکا گاندھی سے زیادہ خوبصورت خواتین ہیں جو اتر پردیش میں انتخابی مہم چلائیں گیں مجھے لگتا ہے سمرتی ایرانی بھی خوبصورت ہے“۔ جواباً لوگوں نے کہا کہ اس سے ان کی سونچ کا اندازہ ہوتا ہے کہ اس مقصد کے لئے خوبصورت خواتین کو پارٹی میں رکھا ہواہے؟ اس میں دو رائے نہیں کہ اس خطرناک رویہ کی مخالفت نہیں کی جارہی ہے،بہت کچھ کہا اور لکھا جارہاہے مگر یہ ناکافی ہے سوئے ہوئے ضمیروں کو جگانے کے لئے troll کرنے والوں کو لعنت ملامت کرنا کافی نہیں عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔ طلباءاور طالبات تنظیموں کو اس ماحول میں کیا کرنا ہوگا یہ اصل سوال ہے۔
SIO اور GIO کیا کرسکتی ہے اس پر غور و خوص کرنے کی ضرورت ہے۔ اسلام ہمیں ایسے ماحول میں کیا کرنے کو کہتا ہے اس کا جائزہ لینا ہوگا،اہانت کے بارے میں آیا ہے کہ کبیرہ گناہوں میں کسی شخص کا اپنے ماں باپ کو گالی دینا ہے صحابہؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ کیا کوئی شخص اپنے ماں باپ کو گالی دے سکتا ہے؟ آپﷺ نے فرمایا : ہاں وہ دوسرے کے باپ کو گالی دیتا ہے تو رد عمل میں وہ اس کے باپ کو گالی دیتا ہے، وہ اس کی ماں کو گالی دیتا ہے تو وہ اس کی ماں کو گالی دیتا ہے۔(مسلم)
حدیث میں یہ تعلیم دی گئی ہے کہ اگر کسی کو اپنے ماں کی ناموس کی حفاظت کرنی ہے تو اسے دوسروں کے ماں کی اہانت ، لعن طعن کے شعار کو ترک کرنا ہوگا، خواہ اس کی نظر میں وہ کتنے ہی بے توقیر کیوں نہ ہو۔ نہ صرف یہ بلکہ اسلام نے عورت کو بدنام کرنے والوں کے لئے سزا بھی رکھی ہے اس کو تازیراتی قانون بھی بنادیا۔ جو لوگ پرہیز گار عورتوں کو بدکاری کا عیب لگائیں اور اس پر چار گواہ نہ لائیں تو ان کو اسی(۰۸) درے مارو اور کبھی ان کی شہادت قبول نہ کرو اور یہی بد کردار ہے۔
عورت کی عزت اور ناموس کی حفاظت اور اس کی شناخت، اس کے رنگ روپ اور خوبصورتی سے نہ ہو بلکہ اس کی ذہانت اور قابلیت پر ہو یہ اسلام سکھاتا ہے۔ ہمیں چاہئے کہ ایسے پروگرامس و سمینار وغیرہ منعقد کریں جہاں مختلف نقطئہ ہائے فکر کے بااثر افراد گفتگو کر سکیں دوسرے مذاہب و ازمس سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو ایک پلیٹ فارم دینا ہوگا جہاں وہ اپنا نظریہ پیش کرسکیں اور ہم اسلامی معاشرتی آداب، اقدار و روایات کو پیش کرسکیں تاکہ انہیں واضح ہو سکے کہ حالات حاضرہ میں اسلام ہی واحد نظام حیات ہے جو فلاح کا ضامن ہے۔ ہمیں ایک ایسے سماج کا اور ایسی ریاست کا خواب دنیا کو دکھانا ہوگا جو نبیﷺ نے ہمیں دکھایا ہے جہاں سو فیصد عورت محفوظ ہوں، ریاست کے ایک جغرافیائی کنارے سے دوسرے کنارے تک ایک تنہا عورت محفوظ سونا اچھالتی ہوئی جائے اور کوئی چور اور نہ کوئی منچلا ہو جو اسے نقصان پہنچا سکے۔مسلمان جب مکہ میں رہے اور جب وہ حبشہ ہجرت کر گئے ،دونوں جگہ انھوں نے تکثریت کا ثبوت دیا اپنے عقیدے اور مذہب پر چلتے ہوئے دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کے ساتھ مل کر رہے ۔ حبشہ کے قانون کی خلاف ورزی نہیں کی ان کے وفادار رہے اسی طرح جب مدینہ پہنچے تو یہودی ، عیسائی اور مشرکین پر مکمل سماج میں امن معاہدات کئے اور ایک دوسرے کی مدد اور تعاون و حفاظت کا عہد کیا اور پابند عہد رہے۔ مذہبی رواداری ، انسانی مساوات ہی اسلام کا درس ہے جس کی کمی آج ملکی سیاست میں نظر آرہی ہے۔ ان موضوعات اور اپنی روایات کا سماج کے سامنے لا نا اور اسے ایک مثالی سماج بناناہمارا فریضہ ہے۔

حالیہ شمارے

براہیمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے

شمارہ پڑھیں

امتیازی سلوک کے خلاف منظم جدو جہد کی ضرورت

شمارہ پڑھیں