ڈاکٹر سلیم خان
کال چکر کبھی نہیں رکتا ۔الیکشن کمیشن نے انتخابات کا نظام الاوقات ظاہر کردیا ہے۔ وزیراعظم نے اسے جمہوریت کے جشن سے تعبیر کردیا اور ناممکن کو ممکن بنانے میں جٹ گئے۔ایک زمانہ ایسا تھا جب ’اچھے دن آنے والے تھے‘وہ چونکہ نہیں آ سکے اس لیے ’ناممکن اب ممکن ہے‘ کا نعرہ لگانا پڑا۔ دس سال قبل کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ سیاہ فام افریقی مسلمان کا بیٹا بھی امریکہ کا صدر بن سکتا ہے۔ یہ ایک دیوانے کا خواب تھا اس لیے اوبامہ کو نعرہ لگانا پڑا ’یس وی کین( جی ہاں ہم کرسکتے ہیں)‘۔ براک اوبامہ نے اس خواب کو نہ صرف ایک بار بلکہ دوبار شرمندۂ تعبیر کیا ۔ اڈوانی جی نے زندگی بھر ڈرائیور کی سیٹ پر بیٹھ کر رتھ یاترا کی لیکن اپنی منزل مقصود سے محروم رہے جبکہ مودی جی کے چائے پلاتے پلاتے ’اچھے دن آگئے‘ ۔ قدرت کو یہی منظور تھا۔
عوام کو یہ غلط فہمی ہوگئی تھی کہ ان کے اچھے دن آنے والے ہیں لیکن اس خوش فہمی کو دور ہونے میں تقریبا ًچارسال لگ گئے ۔ پہلے تو مودی جی نے دنیا بھر کی سیر کی اور اس دوران مالیا، چوکسی اور نیرو مودی جیسے لوگوں نے بنکوں کو خوب جی بھر کے لوٹا۔ وزیراعظم لوٹ کر آئے تو یہ سب ایک ایک کرکےرفو چکر ہو گئے۔ پہلے جیسے نریندر مودی یوروپ کی فضاوں میں تیرتے پھرتے تھے اسی طرح آج کل لندن میں وجئے مالیا اور نیرو مودی نظر آجاتے ہیں ۔ فی الحال وزیراعظم پرانتخاب کا دباو اتنا زیادہ ہے کہ وہ غیر ملکی دورے تک بھول چکے ہیں۔
۲۰۱۶ میں مودی جی نے ہندوستانی عوام کو خواب غفلت سے بیدار کرنے کے لیے پہلا جھٹکا دیا اور اس کا نام نوٹ بندی رکھا ۔ ۲۰۱۷ میں دوسرا جھٹکا جی ایس ٹی تھا۔ اس سے درمیانی درجہ کا اعلیٰ اور نچلا طبقہ ہل گیا۔ نیوٹن کے تیسرے اصول کے مطابق ہر عمل کا یکساں اور مخالف ردعمل اترپردیش میں نہ سہی تو گجرات اور پنجاب میں ہوگیا ۔ ۲۰۱۷ نے جاتے مودی جی کو دو جھٹکے دیئے ۔ ایک تو گجرات کی مرتے پڑتے فتح اور دوسرے پنجاب کی صاف سیدھی شکست۔ ضمنی انتخابات میں وزیراعلیٰ اور ان کے نائب اپنی سیٹگورکھپور اور پھولپور نہیں بچاسکے۔ کیرانہ میں ایک مسلمان امیدوار کے سامنے سابق رکن پارلیمان کی بیٹی ہار گئی۔
۲۰۱۸ ایک قہر بن کر نازل ہوا۔ کرناٹک میں لکشمی دیوی بھی حکومت نہیں بنواسکی اور دیکھتے دیکھتے راجستھان سے لے کر چھتیس گڑھ تک تینوں صوبے کانگریس کی جھولی میں چلے گئے۔یہ کوئی چمتکار نہیں تھا ۔ اس کے پیچھے بیروزگاری کی شرح میں ۴۵ سالوں کا ٹوٹنے والا ریکارڈ کارفرما تھا ۔ اس کے لیے پٹرول کا نرخ کی آگ اور مہنگائی کے آسمان کو چھونے والے شعلے ذمہ دار تھے ۔ کسانوں کی خودکشی میں روز افزوں اضافہ ہونے لگا تھا ۔ رافیل کی بدعنوانی نے چوکیدار کو چور بنادیا تھا ۔پرینکا گاندھی آندھی اور طوفان بن کر نمودار ہوئی تھیں ۔ یوپی میں بوا اور ببوا ساتھ ہوگئے تھے ۔ ایسے میں بی جے پی کو نیا نعرہ ایجاد کرنا پڑا ۔ ‘ ناممکن اب ممکن ہے‘۔ اس نعرے میں یہ اعتراف توتھا کہ اب انتخابات میں کامیابی نا ممکن ہے لیکن وہ ممکن میں کیسے ہوگی ؟ اس کی وضاحت نہیں تھی۔
اس دوران پلوامہ کا حملہ ہوگیا۔ ہمدردی کی زبردست لہر اٹھی اور ایک لمحہ کے لیے ایسا لگنے لگا کہ ہاں ’ناممکن اب ممکن ہے‘ لیکن یہ کیفیت دیرپا نہیں رہی۔ جب سوال ہونے لگے کہ حملے کے وقت وزیراعظم کہاں تھے؟ کیا کررہے تھے ؟ اور ردعمل میں اتنی تاخیر کیوں ہوئی ؟ تو جواب ملا شوٹنگ میں مصروف تھے۔یہ جان کر پوری قوم سناٹے میں آگئی۔ ایک اور سوال اٹھا کہ آر ڈی ایکس وہاں پر کیسے پہنچا؟ اس سے پہلے کہ اس کا اطمینان بخش جواب آتا نیا انکشاف ہوگیا۔ جوانوں کو ہوائی جہاز سے منتقل کرنے کی درخواست کوحکومت نے نظر انداز کردیا تھا۔اس طرح’ ممکن ‘ پھر سے ’ناممکن‘ میں بدل گیا ۔ اسے پھر سے ممکن بنانے کے لیے دوسرا ائیر اسٹرائیک کرنا پڑا ۔ ’موگامبوخوش ہوا‘ اور اس کے ساتھ سارا دیش خوش ہوگیا۔ کیونکہ ناممکن پھر ممکن ہوگیا ۔ جئے للیتا نے جب اٹل سرکار کو تیرہ ماہ بعد گرادیا تھا تو پوکھرن میں ایٹمی دھماکہ کیا گیا جس کا کوڈ تھا ’بدھا مسکرایا(smiling budha)‘ لیکن جواب میں پاکستان نے پانچ دھماکے کردیئے۔
اسی طرح سرجیکل اسٹرائیک کاجشن ابھی جاری تھا کہابھینندن گرفتار ہوگیا۔ ممکن پھر سے ناممکنات کی گرفت میں قید ہوگیا لیکن اس سے بھی پاکستان کے خلاف نفرت وغصہ پیدا کرکے بھکتوں کے زخموں پر مرہم رکھنے کی سعی کی گئی۔اس کو ناکام کرنے کے لیے عمران خان نے کشادہ دلی کا مظاہرہ کرکے اوپن ہارٹ سرجری کردی ۔ اٹل جی نے دوسری بار انتخاب جیتنے کی خاطر کارگل کا سہارا لیا ۔ فوجوں کو سرحد پر بھیج کر واپس بلایا اور کامیاب ہوگئے ۔ مودی جی سرجیکل اسٹرائیک اور ابھینندن کی واپسی سے وہی حکمت عملی دوہرا راہے ہیں لیکن انہیں کامیابی ملے گی یا نہیں ؟ کوئی نہیں جانتا۔
مودی جی کے بقول جمہوریت کے جشن کا اسی طرح آغاز ہوچکا ہے جیسے آئی پی ایل کا سیزن شروع ہوتا ہے۔ ان دوماہ میں ایک سے ایک ہیجان انگیز میچ ہوں گے ۔ ناممکن کبھیممکن میں بدل جائے گا اور کبھی ممکن بھی ناممکن لگے گا ۔ آخری گیند کے بعد ہی یہ کہا جاسکے گا کہ ناممکن اب ممکن ہوا یا ممکن بھی ناممکن ہوگیا ۔اس کے بعد یہ ہیجان انگیز کیفیت ختم ہوجائےگی جیسے کہ ہر کرکٹ سیزن کے بعد ختم ہوجاتی ہے۔ سب کچھ بالکل نارمل ہوجائے گا ۔کھلاڑی عیش کریں گے اور ناظرین طیش میں آئیں گے۔ناظرین ! ناظرین کا کیا؟ ان کا توکام ہی ہر وکٹ پر سیٹیاں اور ہر چوکے ، چھکے پر تالیاں بجانا ہے ۔ کال چکر اپنی خاص رفتار سے چلتا رہے گا۔ وقت کا پہیہ گھومتا رہتا ہے اور اپنے ساتھ لوگوں کو گھماتا رہتا ہے۔ وہ راجہ اور رنک کے درمیان تفریق نہیں کرتا ۔ مشیت الٰہی بلاتوقف اپنے راستے کی خس و خاشاک کو قدموں تلے روند کر آگے بڑھتی جاتی ہے ۔ مکافاتِ عمل تقدیم و تاخیر سے مبراّ ہے۔ الیکشن کے نتائج سے خوفزدہ اقوام کے لیے قرآن عظیم کا یہ پیغام ہےکہ ’’یہ لوگ کہتے ہیں کہ اگر آپ سچے ہیں تو یہ وعدہ ٔعذاب کب پورا ہوگا ؟کہہ دیجئے کہ میں اپنے نفس کے نقصان و نفع کا بھی مالک نہیں ہوں ، جب تک خدا نہ چاہے ۔ہر قوم کے لئے ایک مدت معین ہے جس سے ایک ساعت کی بھی نہ تاخیر ہوسکتی ہے اور نہ تقدیم (سورہ یونس )۔