کفار و مشرکین نے رحمت عالم اور آپ کے جاں نثاروں کے ساتھ جو کچھ کیا،وہ یقینا دشمنی اور بدسلوکی کی انتہاتھی،لیکن یہاں دیکھنے کی چیز یہ ہے کہ جب چند سالوں کے بعدہوا کا رخ بدل گیا،باطل کا جھنڈاسرنگوں ہوگیا،کفارومشرکین کی طاقت پارہ پارہ ہوگئی،اور رحمت عالم اپنی فوج ظفر موج کے ساتھ مکے میں داخل ہوگئے، تو اس وقت رحمت عالم ؐ نے ان وحشی اوربے رحم دشمنوں کے ساتھ کیا سلوک کیا ؟
(۶)
رحمت عالم ؐ کی شفقت و دلسوزی اس وقت بھی دیکھنے کی ہوتی تھی جب آپ مجاہدین کی کوئی فوج یا کوئی ٹیم کسی علاقے پر چڑھائی کے لیے ، یا کسی دشمن کا مقابلہ کرنے کے لیے روانہ کرتے ، روانہ ہونے سے پہلے انہیں نہایت زبردست اخلاقی تعلیمات ذہن نشین کراتے ، وہ اخلاقی تعلیمات مکمل طور سے آپ کی شفقت ودلسوزی کی آئینہ دار ہوتیں۔
وہ تعلیمات عموما اس طرح کی ہوتیں:
دشمن کے علاقے میں داخل ہونا توکسی بچے پر ہاتھ نہ اٹھانا،کسی عورت پر ہاتھ نہ اٹھانا،کسی بوڑھے پر ہاتھ نہ اٹھانا،کسی مریض یا زخمی پر ہاتھ نہ اٹھانا،کوئی پھلدار درخت نہ کاٹنا، کوئی دودھ دینے والا جانور نہ ذبح کرنا، کسی آبادی کو کھنڈر نہ بنانا، بس انہی سے جنگ کرنا جو تم سے جنگ کریں،جو تم سے جنگ کرنے نہ آئیں، ان سے کوئی چھیڑ چھاڑ نہ کرنا۔
یہ ہیں وہ اخلاقی تعلیمات جو آپ مجاہدین اسلام کے ذہن نشین کراتے،اور مجاہدین اسلام سختی سے ان تعلیمات کی پابندی کرتے ۔
پیارے نبیؐ کے جاں نثاروں نے ہمیشہ ان تعلیمات کاخیال رکھا،آپ کی زندگی میں بھی ان تعلیمات کاخیال رکھا،اورآپ کا وصال ہوجانے کے بعد بھی ان کا خیال رکھا۔
آپ ؐکے خلفائے راشدین نے سختی سے ان تعلیمات پر عمل کیا، پھربعد کے نیک اور خداترس مسلم سلاطین نے بھی ان آداب جنگ کا ہمیشہ خیال رکھا۔
انہوں نے جنگ کے زمانے میں بھی کسی بے گناہ کو نہیں مارا،کسی بچے ، کسی بوڑھے ، کسی عورت کو نہیں مارا۔کسی خاتون کی عزت کو داغ دار نہیں کیا،کسی آبادی کو کھنڈر نہیں بنایا،کسی بستی کو ویران نہیں کیا۔
یہ سب کچھ رحمۃ للعالمینؐ کی رحم دلی اور دل سوزی ،اور آپؐ کے حسن تربیت کا ہی کرشمہ تھا، ورنہ جنگ کے زمانے میںدنیا کی مہذب ترین قومیں بھی اپنے حریفوں کے ساتھ کیا کچھ نہیں کرتیں !
متمدن ممالک کے ظلم وبربریت کے وحشیانہ مناظر دیکھنے ہوں، تواس کے لیے کہیں دور جانے کی ضرورت نہیں۔ آج امریکا اور یورپ کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں، ان کے ظلم واستبداد، اور ان کے شر و فساد کا حال اگر دیکھنا ہو،تو عالم اسلام کا چپہ چپہ اس کی منہ بولتی تصویر ہے !
یہ وحشیانہ تصویریںمحبت و دلسوزی کے اس پیکررعنا ؐ کے ہاں کبھی نہیں ملیں گی۔ نہ اس کے ہاں ملیں گی،نہ اس کے جاں نثاروں کے ہاں ملیں گی۔
(۷)
یہ تھی آپؐ کی محبت ودلسوزی اپنے دشمنوں اور بدخواہوں کے ساتھ! پھر کیا جاں نواز، اور دلربا ادائیں رہی ہوں گی آپ کی اپنے دوستوں اور جاں نثاروں کے ساتھ!
حقیقت یہ ہے کہ سینۂ مبارک میںمحبت وشفقت ، اور بے لوثی ودلسوزی کاایسا اتھاہ سمندر موج زن تھا، جو جزر سے نا آشنا تھا،اس سے دنیا کتنے ہی ڈول اور چھاگل بھرتی رہے،اس کا آب زلال کبھی اپنی سطح سے نیچے نہیں اترتاتھا !چنانچہ جو لوگ آپ سے قریب ہوتے، اور آپ کے کاروان محبت میں شامل ہوجاتے ،آپ کی شفقت ومحبت سے خوب خوب سیراب ہوتے۔
آپؐ کی تعلیم وتفہیم اور آپ کی تربیت کا انداز کتنا پیارا اور دل نشیں ہوتا!حضرت معاذ ؓبن جبل کہتے ہیں، ایک روز اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات ہوئی،آپ نے بے اختیار میرا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے لیا، فرمایا:معاذ ! مجھے تم سے محبت ہے!
میں نے عرض کیا: میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں!اللہ کے رسولؐ! مجھے بھی آپ سے محبت ہے!
آپؐ نے فرمایا: معاذ! میں تمہیں وصیت کرتا ہوں، نماز کے آخر میں یہ دعا کرنا کبھی نہ بھولنا:
(اللہم أعنّی علی ذکرک وشکرک وحسن عبادتک)
(خدایا! میری مدد فرما، کہ میں تیرے ذکر وشکر کا حق ادا کرسکوں،اور مجھے اچھی سے اچھی عبادت کرنے کی توفیق دے۔) (مسنداحمد)
(۸)
آپؐ نے ایک موقع پر حضرت عبد اللہ ؓبن عمرؓکے متعلق فر مایا:(نعم الرجل عبداللہ، لوکان یصلی من اللیل) (عبد اللہ کتنا عمدہ انسان ہے! کاش وہ رات کی نمازوں کا اہتمام کرتا !)
حضرت عبد اللہؓ کو حضورپرنورکا یہ پیغام دل نواز ملا،تو انہوں نے زندگی بھرقیام لیل کا التزام کیا،اور رات میں سونا بہت کم کردیا ۔ (متفق علیہ)
حضرت ابوامامۃ ؓسے روایت ہے کہ ایک شخص خدمت رسالت میں حاضر ہوا، اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول ! مجھے زنا کرنے کی اجازت دے دیجیے!
جولوگ وہاں موجود تھے،انہیں اس کی یہ حرکت بہت بری لگی،اورانہوں نے اس کی مرمت کرنی چاہی،آپ نے فرمایا:چھوڑدو اسے!
پھر اس شخص سے فرمایا:آؤ، میرے قریب آجاؤ !
آپ ؐنے اس سے فرمایا:کیا تم یہ پسند کروگے کہ کوئی شخص تمہاری اپنی بہن کے ساتھ ایسا کرے ؟ اس نے جواب دیا: نہیں۔
آپؐ نے فرمایا: اچھا ، اگر تمہاری بیٹی کے ساتھ ایسا کرے تو؟ اس نے کہا: ہرگزنہیں۔
اسی طرح آپ مختلف رشتوں کے حوالے سے اس سے یہی سوال کرتے رہے،اوروہ ہر سوال کے جواب میں کہتا رہا: نہیں، نہیں!
آپؐ نے فرمایا: تو جس چیز کو اللہ نے نا پسند فرمایا ہے، تم بھی اسے ناپسند کرو۔اور اپنے بھائی کے لیے وہی چیز پسند کروجو خود اپنے لیے پسند کرو۔
اس نے عرض کیا: اللہ کے رسولؐ ! آپ میرے لیے دعا کیجیے۔میرے لیے اللہ سے دعا کیجیے کہ عورتوں کی طرف سے میرا دل پھیر دے!
آپؐ نے اس کے لیے دعا کی: خدایا ! عورتوں کی طرف سے اس کا دل پھیردے!
اس کے بعدوہ آدمی چلاگیا،کچھ دنوں بعد پھر واپس آیا،اس نے عرض کیا:اللہ کے رسولؐ ! عورتوں سے میرا دل اس طرح اچاٹ ہوگیاکہ اتنا کسی چیز سے اچاٹ نہیں۔۔ ۔ (السنن الکبری، امام بیہقی)
حضرت معاویہ بن حکم سلمیؓ فرماتے ہیں:میں ایک بار رسول اللہؐ کے ساتھ نماز میں تھا،نماز میں ہی ایک شخص کو چھینک آگئی،میں نے کہا: یرحمک اللہ!
یہ کہنا تھا ،کہ سارے لوگ مجھے گھورنے لگے!
میں نے کہا: ہائے میری شامت!تم سب کو ہوکیا گیا ہے؟تم لوگ مجھے کیوں گھور رہے ہو؟
وہ لوگ اپنے ہاتھ اپنے زانووںپر مارنے لگے۔میںنے جب دیکھا وہ لوگ مجھے چپ کرا رہے ہیں، تو میں چپ ہوگیا۔
رسول اللہؐ نماز سے فارغ ہوگئے، میرے ماںباپ آپ پر قربان جائیں!میں نے اتنا اچھا معلم ومرشدنہ آپ سے پہلے کبھی دیکھا،نہ آپ کے بعد کبھی دیکھا، آپ نے کچھ بھی ڈانٹ ڈپٹ نہیں کی،کچھ بھی ناگواری نہیں ظاہر کی،مجھے کچھ بھی سزا نہیں دی۔
آپؐ نے فرمایا:نماز میں کسی طرح کی بات چیت صحیح نہیں ہوتی،اس میں تو بس قرآن پاک کی تلاوت ہوتی ہے،اور تسبیح وتکبیر ہوتی ہے۔ (صحیح مسلم)
حضرت انس ؓبن مالک بیان کرتے ہیں، کسی دن ایک بدوی آیا، وہ مسجد نبوی میں پیشاب کرنے لگا،صحابۂ کرام اس پر چیخ پڑے: ارے ! ارے ! مارواسے، پکڑواسے!
رحمت عالمؐ نے فرمایا: رکو ، رکو!اسے بیچ میں مت روکو، پورا پیشاب کرلینے دو!
جب وہ پیشاب کرچکا، تو آپؐ نے اسے قریب بلایا، اور نہایت شفقت سے فرمایا: یہ مسجدیں پیشاب کرنے،یا کوئی اور گندگی کرنے کے لیے نہیں بنائی جاتیں،یہ تو قرآن پاک پڑھنے اور اللہ کاذکر وعبادت کرنے کی جگہیں ہوتی ہیں!
پھرآپؐ نے کسی صحابی سے فرمایا، کہ اس پر ایک ڈول پانی ڈال دو۔ یا وہاں کی مٹی کھود کر پھینک دو۔
آپؐ نے صحابہ کرام سے فرمایا: لوگوں کو سکھاؤ سمجھاؤ،لوگوں کے لیے آسانیاں پیدا کرو،انہیں پریشانیوں میں نہ ڈالو۔
(علموا۔۔ویسروا۔۔ولاتعسروا) (السنن الکبری، امام بیہقی ۔مصنف عبدالرزاق،امام صنعانی)
یہ چند نمونے ہیں رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم وتربیت کے۔کیسا پیارا اور مشفقانہ ، اور کیسا فطری انداز ہوتاتھا لوگوں کو سمجھانے اور سکھانے کا ! لوگ کیسی کیسی غلطیاں کرتے ،مگران کی بڑی سے بڑی غلطی پر بھی آپ کو غصہ نہ آتا ،بلکہ جتنی بڑی غلطی ہوتی ،اتنی ہی زیادہ قابل دید ہوتی آپؐ کی شفقت وبردباری! آپ کی محبت اور دلسوزی! اور آپ کا عفو ودرگذر !
اسی شفقت وبردباری، اور اسی محبت ودلسوزی سے آپ نے ان شتربانوں اور بھیڑوں بکریوں کے چرواہوں کو کچھ سے کچھ بنادیا، جو لوگ علم وتمدن کے نام سے نا آشنا تھے،دیکھتے دیکھتے انہیں قوموں کا معلم، اور علم و تمدن کا امام بنادیا !
آپؐ پر ایمان لانے والوں کی تعداد سوا لاکھ سے اوپر تھی، اور ان سب کو آپ نے علم وحکمت سے مالامال کردیا۔اس جاہلیت زدہ ماحول میں جو لوگ آپ پر ایمان لاتے ،کچھ ہی دنوں میں ان کی کیفیت ایسی ہوجاتی ، جیسے گھٹا ٹوپ اندھیرے میںچمکتے ہوئے جگنو!
(۹)
محبت ودلسوزی کے اس پیکر رعنا کی ایک خصوصیت اور بھی تھی، جس کا ذکر کیے بغیر بات نامکمل رہے گی،تیئس سالہ پیغمبرانہ زندگی کی رات و دن کی جدوجہد کے بعدجب آپؐ نے حق پرست ،باکردار ،اور نیکی کے علم بردار انسانوں کا ایک زبردست لشکر تیار کرلیا۔
جب حق غالب آگیا،باطل پسپا ہوگیا،اور جزیرۂ عرب کے کونے کونے میں دین اسلام کا پرچم لہرانے لگا۔
اور جب وہ مبارک وقت آگیا، کہ آپ اپنی طویل اور جان توڑ جدوجہدکے زبردست نتائج دیکھ کرباغ باغ ہوجائیں،اور اطمینان کا سانس لیں، اس وقت بھی آپ نے اطمینان کا سانس نہیں لیا، بلکہ آپ کو بعد میں آنے والی نسلوںکی فکر ستانے لگی،کہ کیا اس دین اسلام کی آب وتاب بعد میں بھی اسی طرح برقراررہے گی ؟
کیا ا ن سر فروشان اسلام کی آیندہ آنے والی نسلیں بھی اسی طرح اپنے دین اسلام کو سینے سے لگائے رہیں گی،اور اس کی بلندی وسرفرازی کے لیے جدو جہد کرتی رہیں گی؟
پچھلی قوموں کی تاریخ آپ کے سامنے تھی، جو قرآن پاک میں نہایت تفصیل سے بیان ہوئی ہے،اس تاریخ کو دیکھتے ہوئے آپ اپنی امت کے سلسلے میںمطمئن کیونکر ہوسکتے تھے؟ ایک روز آپ نے جاں نثاروں کے سامنے اپنے دل کا درد رکھ دیا:
(بدأ الاسلام غریبا، وسیعود کما بدأ غریبا فطوبی للغرباء ) (صحیح مسلم) ( اسلام جب آیا تھا، تو اجنبی تھا،وہ دوبارہ ہوجائے گا ویسا ہی جیسا آیا تھا، مکمل اجنبی!تو خوش نصیب ہیں وہ لوگ جو اجنبیت کے دور میں بھی اس کا ساتھ دیں ۔)
پھر کسی دوسرے موقع پر آپ نے اسلام اور اہل اسلام کے اجنبی ہوجانے کی تھوڑی سی تفصیل بیان کی: (یوشک أن تداعی علیکم الأمم من کل أفق کما تداعی الأکلۃ علی قصعتہا۔ قال قلنا یارسول اللّٰہ أمن قلۃ بنا یومئذ؟ قال أنتم یومئذ کثیر ولکن تکونون غثاء کغثاء السیل، تنتزع المہابۃ من قلوب عدوکم، ویجعل فی قلوبکم الوہن۔ قال قلنا وما الوھن؟ قال حب الحیاۃ وکراھیۃ الموت۔) (مسند احمد، من حدیث ثوبان)
( و ہ وقت دورنہیںجب قومیں ہر طرف سے تم پر اس طرح ٹوٹ پڑیں گی، جس طرح بھوکے اپنی پلیٹوں پیالوں پرٹوٹ پڑتے ہیں!
لوگوں نے عرض کیا:کیا اس وقت ہماری تعداد کی کمی کی وجہ سے ایسا ہوگا ؟
فرمایا: اس وقت تمہاری تعداد بہت ہوگی،مگر اس وقت تم سیلاب کی جھاگ کی طرح ہوگے! تمہارے دشمنوں کے دلوں سے تمہاری ہیبت اور تمہارا دبدبہ نکل جائے گا، اور خود تمہارے دلوں میں وہن آجائے گا!
لوگوںنے عرض کیا: وہن کیا چیز ہے ؟اللہ کے رسول !
آپؐ نے فرمایا:زندگی سے محبت، اور موت سے نفرت!
ہائے !کتنا درد اور کتنا کرب ہے اس گفتگو میں !طائف کے غنڈوں اوباشوں نے آپ پر پتھربرسائے !کفار قریش نے آپ کے دندان مبارک شہید کردیے!اور سر مبارک سے بے تحاشا خون کے فوارے جاری ہوگئے! مگر شاید اس وقت بھی آپ اتنے کرب میں نہیں تھے، جتنے درد وکرب میں اس وقت تھے،جس وقت آپ امت مسلمہ کی آیندہ آنے والی نسلوںکی زبوں حالی کا تذکرہ فرمارہے تھے !
پھر ایک دوسرے موقع پر آپ نے فرمایا:
لتتبعن سنن من کان قبلکم شبراً شبراً وذراعاً بذراعٍ،حتی لو دخلوا جحر ضبّ تبعتموہم! قلنا یا رسول اللّٰہ! الیہود والنصاری؟ قال فمن ؟ (صحیح بخاری: رقم ۷۳۲۰)
(یہ بات طے ہے ،کہ تم لوگ ان لوگوں کے راستے پر چلوگے، جو تم سے پہلے تھے،تم ان سے قدم ملا ملا کے چلوگے،ایک ایک بالشت، اور ایک ایک ہاتھ میں ان کی پیروی کروگے! حتی کہ اگر وہ گوہ کے بل میں داخل ہوں گے، تو ان کے ساتھ تم بھی اس بل میں داخل ہوگے!
ہم نے عرض کیا: اللہ کے رسول! یہود ونصاری کی پیروی؟آپ نے فرمایا: پھر اور کس کی؟)
اللہ کے رسول! ہم قربان جائیں آپ کی نگاہ بصیرت پر ! آج ہماری بالکل وہی کیفیت ہے، جس کا آپ کو اندیشہ تھا،اور جس کی وجہ سے آپ بے چین رہا کرتے تھے !
آج ہم نے اپنے انجام سے بالکل ہی آنکھیں بند کرلی ہیں ! کسی اور کا شکوہ کیا کریں؟ کہ ہم نے خود سے اپنی آنکھوں پر نہایت دبیز پٹیاں باندھ رکھی ہیں!
آج ہم گوہ کے ہی بل میں نہیں،یہودیوں اور عیسائیوں کے کہنے پر سانپوں اوربچھووں کے بلوں میں ہاتھ ڈال رہے ہیں!سانپ اور بچھو بری طرح ڈس رہے ہیں ، مگر ہم ہوش میں نہیں آرہے ہیں!
اللہ کے رسول !آج ہم ذلت ورسوائی کی انتہا کو پہنچ گئے ہیں!آج اس دنیا میں ہماری وہی حیثیت ہوگئی ہے جس کا آپ کو اندیشہ تھا، آج ہماری حیثیت سیلاب کے جھاگ سے زیادہ نہیں رہی۔
آج ہم بدقسمتی سے ان ساری بیماریوں میں مبتلا ہوگئے ہیں، جن کا آپ کو خطرہ تھا !
اللہ کے رسولؐ !آج خود ہمارے گھروں میں دین اسلام اجنبی ہوگیا ہے!کہنے کو تو ہم مسلم ہیں،آپ سے،آپ کے لائے ہوئے دین سے ہمیں عشق ہے، مگراسلامی تعلیمات ، اسلامی کلچر، اور اسلامی تاریخ سے ہم اور ہماری نسلیں بالکل نابلد ہیں!
ہماری عادات واخلاق، ہمارے تعلقات ومعاملات، ہمارے گھر گھرانوں کا ماحول، ہمارے رہن سہن کے انداز، کوئی چیز بھی ایسی نہیں جو اسلامی تہذیب اور اسلامی کلچر کی نمایندگی کرتی ہو!
کہنے کوتو ہم اسلام کے سپاہی،شریعت کے محافظ، اور حرم کے پاسباں ہیں،مگر عملی طور پرصورت حال بڑی دردناک ہے!
گلۂ جفائے وفا نما کہ حرم کو اہل حرم سے ہے
کسی بت کدے میں بیاں کروں تو کہے صنم بھی ہری ہری !
امت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے فرزندو ! غفلت کی انتہا ہوچکی،اب سے ہوش میں آجاؤ، اور اپنی ذمے داریوں کو پہچانو!
مسلمانو ! اگر تمہیں رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے امتی ہونے پر فخرہے،تواس کا اعلان واظہار منہ کی زبان سے کرنے کے بجائے اپنی سیرت وکردار سے کرو۔ سارے عالم کی خیرخواہی و بہی خواہی کی خاموش زبان سے کرو۔ قربانیوں اور سرفروشیوں کی ایک نئی تاریخ رقم کرکے دنیا کے ذہنوں میں اس دور سعادت کی یاد پھر سے تازہ کردو۔
آج ہم مسلمان اس زمین پر کروڑوں کی تعداد میں آبادہیں،پھر کیا وجہ ہے، کہ ہم اقوام عالم کے سامنے نہ اپنے دین کا صحیح تعارف کراسکے، نہ اپنے پیارے نبی کی عمومی شفقت و محبت اور عالم گیردلسوزیوں کاچرچا کرسکے ؟
آپ ؐسارے عالم کے لیے رحمت بناکر بھیجے گئے تھے، اور جو دین لے کر آپ آئے تھے،وہ دین رحمت ہے،وہ اک پیغام محبت ہے، وہ ساری دنیا کے لیے نعمت ہے، وہ تمام نوع انسانی کی عزت و آزادی کاعلم بردار ہے۔
پھریہ زمانے کی کیسی ستم ظریفی ہے،کہ آج دنیا اسی دین رحمت کو اپنے لیے سب سے بڑا خطرہ !اور اسی محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا سب سے بڑا دشمن سمجھ رہی ہے !
اور یہ ہماری کیسی بے حسی ہے، کہ یہ سب کچھ ہم دیکھتے ہیں، اپنے سر کی آنکھوں سے دیکھتے ہیں، مگر ہمارے جذبات میں کوئی گرمی نہیں پیدا ہوتی! ہمارے عیش وآرام میں کوئی خلل نہیں پڑتا!
یہ ایک جاں کاہ المیہ، اور ایک زبردست ٹریجڈی ہے،جس کے اصل ذمہ دار ہم پیروان اسلام ، اور ہم عاشقان رسول ہیں !اس کی ذمے داری دشمنان اسلام پر ڈالنااپنی ذمے داریوں سے فرار، اور اپنی نا اہلی کا اعلان ہے!
ہمارے مہربان رب نے رحمت عالم ؐ کا تعارف کراتے ہوئے فرمایا ہے: (لَقَدْ جَاء کُمْ رَسُولٌ مِّنْ أَنفُسِکُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْْہِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْْکُم بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَؤُوفٌ رَّحِیْمٌ۔۔سورۂ توبہ: ۱۲۸)
(تمہارے پاس ایک رسول آیا ہے تمہیں میں سے،اس پر یہ بات بہت گراں گذرنے والی ہے ،کہ تم کسی مشقت یا مصیبت میں پڑو،وہ تمہارے لیے بھلائیوں کا آرزومند ہے،جو لوگ اس پر ایمان لائیں ان کے لیے رأفت ورحمت کا پیکر ہے۔)
اسی طرح ایک دوسرے مقام پر فرمایا : (وَمَا أَرْسَلْنَاکَ إِلَّا رَحْمَۃً لِّلْعَالَمِیْنَ ۔۔ سورۂ انبیاء : ۱۰۷) ( ہم نے تمہیں نہیں بھیجا ہے مگر سارے انسانوں کے لیے رحمت بناکر!)
رحمت عالم کا یہ کتنادل کش اور وجدآفریں تعارف ہے، اسی تعارف کا زیادہ سے زیادہ چرچا ہونا چاہیے، اپنے قول سے بھی، اور عمل سے بھی اسی کی شہادت دینی چاہیے۔اللہ تعالی ہمارے اندر اپنے مقام و منصب کا شعور پیدا کرے،اور اپنی ذمے داریوں سے عہدہ برآ ہونے کی توفیق دے۔ وما علینا الا البلاغ
از: عنایت اللہ سبحانی