خان یاسر
جب میں کسی دس سالہ بچے کو یونیفارم پہنے ہوئے،پیٹھ پر انتہائی وزنی بستہ لٹکائے اسکول کی طرف جاتا ہوا دیکھتا ہوں تو اس کے متعلق میں ایک بات یقینی طور پر کہہ سکتا ہوں کہ وہ ضرور تاریخ پڑھتا ہوگا۔کیوں؟ اس لیے کہ ہر طالب علم اسکول میں تاریخ پڑھتا ہے، یہ عہد نامعلوم سے بے احد اہم مضمون رہا ہے۔البتہ میرا دعوی ہے ، اور یہ کوئی خیالی بات نہیں ہے، کہ اس طرح کی اکثر پڑھائی محض اسماء و تواریخ کو نگل کر امتحان میں ان کی قئے کردینے پر ہی مشتمل ہوتی ہے۔ دس سال کے عرصہ پر محیط اس موضوع کو پڑھنے کے باوجودطلبہ ’تاریخ کسے کہتے ہیں؟‘ جیسے بسیط سوال کا جواب دینے کے بھی لائق نہیں ہوتے۔ اگر آپ ان سے پوچھیں کہ تاریخ کیسے لکھی جاتی ہے یا ایک مخصوص واقعہ کی کیا مختلف تاریخی تعبیرات ہیں، تو آپ یا تو ان کا چہرہ فق پائیں گے یا وہ تحقیر آمیز انداز میں اپنامنہ بناتے ہوئے نظر آئیں گے۔یہ جاننے کی زحمت تو یقینا کوئی نہیں کرتا کہ فلسفۂ تاریخ عین تاریخ نویسی کے عمل پر کیا اثرات مرتب کرتا ہے؟ حتی کہ ریسرچ کی سطح پر بھی ایک بے چارہ اوسط ذہن رکھنے والا طالب علم فلسفہ تاریخ سے متعلق شاید ایک دو بات تو جانتا ہو،تاہم اسے کبھی ضرورت پیش نہیں آتی کہ وہ ان باتوں کی تنقیدی سمجھ پیدا کرے۔
بالکل ابتداء سے ہی تاریخ سے میری دلچسپی اس کے تنقیدی مطالعہ سے رہی ہے۔ چنانچہ نصابی کتب کا مطالعہ کرنے کے دوران اور محاظرات سننے کے وقت اِس قسم کے سوالات کہ ’’کیا یہ واقعہ واقعی رونماہوا تھا؟‘‘،’’کیا یہ سب ہوا تھا؟‘‘، ’’کیا کوئی حقیقت غائب ہوگئی ہے؟‘‘، ’’کیااس میں کچھ غلط ہے؟‘‘ وغیرہ میرے مستقل ساتھی رہے ہیں۔جہاں تک مجھے یاد ہے،تاریخ کی پہلی ’رسمی ‘کتاب جس سے میں متعارف ہواوہ تیسری جماعت میں میری نصابی کتاب تھی۔کتاب کے پہلے سبق نے مجھے بتایا کہ کیسے انسانوں کا ارتقاء عظیم اتفاقی حادثات کے ذریعے ہوا ہے۔کم سنی کے باوجود اسلامی کہانیوں اور سوانح کا حریص قاری ہونے کی وجہ سے مجھے تعجب ہوا،’’یہ سچ نہیں ہوسکتا!‘‘ ۔یہ آغاز تھا، مستقبل میں ایک طویل سفرکا ۔جیسے جیسے میں اگلی جماعتوں میں بڑھتا گیا، تاریخ کی نصابی کتب پر میرا شک و شبہ بڑھتا گیا۔اس وجہ سے میرے ہم جماعت ساتھیوں ،اور بطور خاص اساتذہ سے بھی ،کئی ’تاریخی‘ جنگیں بھی لڑنی پڑیں۔
ہائی اسکول تک پہنچتے پہنچتے میں اس بات کا بالکل قائل ہوچکا تھا (اور ان سالوں میں کئی دوستوں اور اساتذہ کو بھی قائل کرچکا تھا) کہ تاریخ کی ہماری نصابی کتب متعصب ہیں۔ان میں چند چیزوں کی وہ پردہ پوشی کرتے یا نظر انداز کرتے ہیں، جب کہ چند دوسری چیزوں کے سلسلے میں مبالغہ آرائی سے کام لیتے ہیں ۔اور یہ کا م وہ ایک ’مقصد‘ کے تحت کرتے ہیں۔ نصابی کتابوں میں ’سچ‘ کو بے نقاب کرنے کی جستجو جس کی ابتداء نصابی کتب کی صداقت پر شک و شبہ سے ہوئی تھی بالآخراس موضوع پر تنقیدی -تخلیقی اضافات کی ایک مستقل خواہش پر منتج ہوئی۔جلد ہی یہ احساس ہوگیا تھا کہ ’تاریخ‘ اور ’ماضی‘ کے مابین ایک مہین فرق ہے اور تاریخ ’حال‘ اور ’مستقبل‘ سے بھی اسی قدرمتعلق ہے جس قدر کہ ’ماضی‘ سے۔رومیلا تھاپر کے الفاظ میں یہ ایک ’’دو طرفہ عمل ‘‘ ہے، ’’ جس میںحال کی ضروریات کا مطالعہ ماضی میں کیا جاتا ہے، اور جہاں ماضی کی تصویر کی حال پر اطلاق کی کوشش کی جاتی ہے۔‘‘مختصر یہ کہ ’’ ماضی کی تصویر مستقبل کے لئے مورخ کا تحفہ ہے۔‘‘
ماضی میں جو کچھ واقع ہوا ہے اسے محض پیش کردینا اس قدر اتفاق اور شماریات پر مبنی طریقہ ہے کہ اس سے کوئی بات نہیں بنتی۔لہذا تاریخ کا شعبہ ماضی کو اپنے قابو میں کرنے کے لیے ،(سالوں، شاہی خاندانوں اور ترقیاتی کام وغیرہ پرمبنی) اس کی مختلف ادوار میں درجہ بندی کرتا ہے۔مورخ کا تعلق ’حال ‘سے ہوتا ہے،لہذا وہ معاصر عقل و فہم کی روشنی میں تاریخ کو بیان کرتا ہے، کیوں کہ وہ تاریخ کو دراصل ’حال‘ ہی کہ پیرائے میں سمجھتا ہے۔مثال کے طور پرقدیم ہندوستان کے دیہاتوں میں جو نظام جاری تھا (حتی کہ یونان کی شہری -ریاستوں میںبھی) اسے ’جمہوریت‘ قرار دینا، حال کی آنکھوں سے ماضی کو دیکھنے کا عمل ہے۔یہ بہت ہی معمولی مثال ہے ورنہ بات اوربھی پیچیدہ ہوجاتی ہے جب تاریخ کسی فاتح کی جانب سے لکھی جاتی ہے۔میرا خیال ہے کہ اگر ہٹلر اور مسولینی دوسری عالمی جنگ جیت گئے ہوتے تو آج ہم جس تاریخ عالم کا مطالعہ کرتے ہیں اس میں ان دونوں کی اتنی منفی تصویر سامنے نہ آتی۔مزید یہ کہ ، مجھے احساس ہواکہ تاریخ عہد رفتہ کے لوگوں کی کامیابیوں اور ناکامیوں کا تفصیلی بیان ہے۔یہی وجہ ہے کہ تاریخ کو کسی مخصوص عمل کی تقلید کرنے یا اس سے اجتناب کرنے کے ایک سبق کے طور سمجھا جاتا ہے۔نیز،تاریخ اکثر کسی نہ کسی عہد کو ’عہد زریں‘ کے نام سے موسوم کرتی ہے۔ اس مقصد کہ پیش نظر کہ مستقبل کی تشکیل بھی عظمت رفتہ کے حصول کے ذریعے ہی ہو۔اس طرح تاریخی مباحث ،ان کی جڑیں ماضی میں گہری پیوستہ ہونے کے باجود ہمیشہ رو بہ مستقبل ہوتے ہیں۔
ایک اور ادراک جو ہوا وہ یہ تھا کہ مؤرخین کے ترکش میں ایسے کئی تیر اور ہتھیار ہوتے ہیں جن کے ذریعے وہ تاریخ کو توڑ مروڑ کر پیش کرتے ہیں۔جیسا کہ سیموئل بٹلر بالکل جارحانہ انداز میں دعوی کرتے ہیں کہ’’خدا بھی تاریخ سے چھیڑ چھاڑ نہیں کرسکتا،لیکن مؤرخین کرسکتے ہیں۔‘‘تاریخ سے یہ ’چھیڑ چھاڑ‘ مختلف مقاصد کے پیش نظر کی گئی ہے جن کا تعلق نظریاتی وابستگی سے لے کر سماجی پس منظر تک سے ہے۔میں اسے ہندوستان اور اس کی تحریک آزادی کی مثال سے واضح کروں گا تاکہ باتیں زیادہ پیچیدہ نہ ہوںاور آسانی سے سمجھ میں آنے والی ہوں۔
1۔
تاریخ کو ادوار پر مبنی درجہ بندی کے ذریعے سمجھنا پہلی نظر میں بہت معقول معلوم ہوتا ہے،تاہم تاریخ کا یہ عہدکرن(periodisation) مورخین کے ہاتھ میں ایک کارگر ہتھیار ہے۔جیمس مِل نے اپنی کتاب ‘The History of British India’ میں تاریخ ہند کو تین ادوار میں تقسیم کیا ہے؛ہندو عہد،مسلم عہد اوربرطانوی عہد۔اگر ہم علمی کھوج کرید کو درکنار کردیں،تو سادہ لفظوں میں ، انہوں نے مسلم حکمرانوں کی آمد سے پہلے پورے دور کو ’ہندو عہد‘ کے نام سے موسوم کردیا۔یہ عہد مقامی باشندوں کے لیے نسبتا ایک بہتر اور رحمت کاعہد تھا، اس کے باوجود کہ یہاں بین ریاستی جنگیں اور ذات پات کی بنیاد پر امتیاز اور تعصب موجود تھا۔اس کے بعد مسلمان آگئے اور انہوں نے بقول جیمس مِل،ملک کو فتح کرکے ،اس پر قبضہ کرکے ،اسے تباہ کردیا۔یہ دور تاریخ ہند کا تاریک ترین دور تھا جو مذہبی عدم رواداری، جِزیہ،بالجبر تبدیلی مذہب اور مقامی باشندوں کی عصمت ریزی اور قتل عام سے بھر پور تھا۔انگریز، جنہیں ہندوستانیوں کے مسیحا کے طور پر پیش کیا گیا، کی آمد سے تاریخ ہند کے ایک نئے دور کا آغاز ہوتا ہے۔انہوں نے مسلم حکمرانوں کو شکست دے کر مقامی لوگوں کو ان کے تسلط سے آزادی دلائی۔وہ ہندوستان میں ثقافت، سائنس اور تعلیم لے کر آئے۔اسی طرح انہوں نے آزادی، مساوات،حقوق انسانی، انصاف اور جمہوریت وغیرہ تصورات کو فروغ دیا۔جیمس مِل نے اس حد تک دعوی کیا ہے کہ برطانیہ نے ہندوستان پر حکومت صرف اس وجہ سے کی کہ یہاں کے مقامی باشندے خود اپنے اوپر حکومت کرنے کے قابل نہ تھے۔انہوں نے حکومت کی تاکہ مقامی لوگوں کو اس حد تک باشعور اور مہذب بنا دیں کہ اپنے اجتماعی معاملات وہ خود ہی چلا سکیں۔اب یہ کہنے کی ضرورت نہیں ہے کہ جیمس مِل کے ذریعے تاریخ ہندکو تین ادوار،ہندو دور، مسلم دور اور برطانوی دور(نوٹ کریں ’برطانوی دور،‘ عیسائی دور نہیں) میں تقسیم کرنے کا مقصد ہندوستان میں برطانوی حکمرانی کی ضرورت بلکہ ناگزیریت کو علمی سطح پر جواز فراہم کرنا تھا۔اس تھیوری نے ’لڑاؤ اور حکومت کرو‘ کی پالیسی کو بھی جواز فراہم کیا اوراسے علمی توثیق عطا کی۔یہ ایک افسوس ناک امر ہے کہ جیمس مِل کی بدنام زمانہ درجہ بندی کو ہماری تاریخ کی نئی درجہ بندیوں میں بھی شامل کیا جاتا ہے جسے ہم نصاب میں پڑھتے ہیں۔
عہد قدیم کا ہندوستان، عہد وسطی کا ہندوستان اور جدید ہندوستان کی درجہ بندی بھی بادی النظر میں محض ایک علمی ضرورت معلوم ہوتی ہے، لیکن ایسا ہے نہیں۔یہ درحقیقت برطانوی دور حکومت سے ہی ایک سیاسی ضرورت ہے۔ایک اور رجحان تاریخ کو ماقبل جدید اور جدید مرحلوں میں منقسم کرنے کا ہے،کچھ لوگ اسے ماقبل نو آبادیاتی، نو آبادیاتی اور مابعد نوآبادیاتی نقطہ نظر سے دیکھتے ہیں۔اس طرح کی درجہ بندیوں میں مسئلہ یہ ہے کہ یہ نوآباد کاری یا سامراجیت جیسی انتہائی منفی چیزکو بھی غیر ضروری اہمیت دیتی ہیں اور انہیں ایک سنگ میل خیال کرتی ہیں،حالانکہ وہ سنگ میل بالکل نہیں ہے۔عین اسی قسم کی درجہ بندی کا عکس ہندوتوا فرقہ پرست طاقتوں کی بیان کردہ تاریخ میں بھی نظر آتا ہے؛1) ہندوعہد زریں ، 2) مسلمانوں کے ظلم و ستم کا دور،3) انگریزوں کے ظلم و ستم کا دور،4) نام نہاد سیکولرازم کا دور۔
2۔
مورخ کے ہاتھ میں دوسرا ہتھیار زمرہ بندی یا گروہ بندی (categorisation) کا ہے۔ہیرو اور ویلن، دوست اور دشمن،ہم کو اور ان کو، یہ چند گروہ بندیاں ہیں جن میں مؤرخین تاریخی شخصیات کو فِٹ کرتے ہیں پھر ان کے بارے میں رائے زنی کرتے ہیں۔یہ کیسے کیا جاتا ہے؟مثال کے طور پر کسی شخص کو فسطائی یا دہشت گرد قرار دیا گیا(ویلن) ،جب کہ دوسرے کو لبرل ازم ،سیکولرازم اور جمہوریت کا دفاع کرنے والا(ہیرو)۔تحریک آزادی ہند میں بھی ،مختلف شخصیات کو مختلف زمروں میں تقسیم کیا گیا ہے اور اسی تقسیم کی بنیاد پر ذہن عام اور کتب نصاب میں ان کا کردار طے کیا جاتا ہے۔سب سے زیادہ قابل تحسین زمرہ ’سیکولر قوم پرستوں‘ کا ہے جس کی نمائندگی موہن داس کرم چند گاندھی،جواہر لعل نہرواور ولبھ بھائی پٹیل وغیرہ کرتے ہیں۔اس زمرہ سے کم تر لیکن ہنوز مثبت ،’ترقی پسند سوشلسٹوں‘ کازمرہ ہے جس کی نمائندگی سبھاش چندر بوس، جئے پرکاش نرائن اور رام منوہر لوہیا وغیرہ کرتے ہیں۔منفی زمرہ ان لوگوں کا ہے جو فرقہ پرست ہیں، جن نمائندگی خاص طور پر محمد علی جناح اور ان کو ماننے والے کرتے ہیں۔اس آخری زمرے میں اگر چہ کہ ہندو انتہا پسند لیڈروں کو بھی شامل کیا گیا ہے جیسے ہندو مہاسبھا کے قائدین، لیکن مسلم فرقہ پرست کو ان سے زیادہ لائق ملامت تسلیم کیا جاتا ہے کیوں کہ ،جیسا کہ دعوی کیا جاتا ہے،وہی تقسیم وطن کا اصل ذمہ دار ہے۔اس قسم کی زمرہ بندی کے اثرات کا اندازہ مجھے اس وقت ہوا جب میں ایک دوست کو اقبال اور ان کی نظمیں صرف سننے کے لیے کہہ رہا تھا،’’ کیا تم اُس کمیونل شاعر-سیاست داں کی بات کررہے ہو جس نے نظریہ پاکستان پیش کیا؟‘‘۔ یہاں دراصل ہوا یہ ہے کہ ایک محب وطن شاعر کی خدمات کو تاریخ کے کوڑے دان کی نذر کردیا گیا کیوں کہ مؤرخین کے ایک گروہ نے اس کا ذکر ’فرقہ پرست‘ کے زمرے میں کیا تھا۔ ٹھیک وہی مؤرخین جواہر لعل نہرو کا ذکر سیکولرقوم پرست کے زمرے میں کرتے ہیں اور اس طرح ان کی سنگین غلطیوں سے ان کو بری الذمہ کر دیتے ہیں۔مثلا ان کا وہ خطرناک پریس بیان جس نے کانگریس اور مسلم لیگ کے کیبنٹ مشن پلان کے فہم کو سبوتاژکردیا اوریہی تقسیم ہند کا اصل سبب بنا۔
3 ۔
ایک مورخ کے ترکش میں سب سے اہم ہتھیاریقینا ’تعبیر‘ کا ہوتا ہے۔چنانچہ 1857کی شورش- 1) فوجی بغاوت تھی، 2)پہلی جنگ آزادی،یا 3)ایک مسلم بغاوت تھی۔یہ الگ الگ مؤرخین کی مختلف ـ’تعبیروں‘ پر منحصر ہوتا ہے۔گاندھی جی نے تحریک خلافت کو جو تعاون فراہم کیا اس کو ان عوامل کے چور پر دیکھا جاسکتا ہے کہ 1) اس نے ہندو-مسلم اتحاد کو مضبوط کیا، 2) مسلم فرقہ پرستی کو تقویت پہنچائی،یا 3)یہ تعاون خود انڈین نیشنل کانگریس کو ملک گیر کرنے کے لیے ضروری تھا۔یہی بات اس معاملے میں بھی صحیح ہے کہ تقسیم ہند کا سب سے بڑا ذمہ دار کون ہے: کیا یہ جناح ،نہرو ،پٹیل یا ماؤنٹ بیٹن تھے؟یا کوئی اوران سب کا انحصار متعلقہ تعبیروں پر ہے۔
4۔
ایک معروف ہتھیار جس کا استعمال مؤرخین کرتے ہیں، وہ حذف کرنے کا منہج (Method of Omission)ہے۔مؤرخین تاریخ کے بہت سے ’ناپسندیدہ‘ پہلوؤں کو اپنے بیان سے حذف کردیتے ہیں۔محزوف کرنے کے اس عمل کے ذریعے تاریخ کی تصویر بدل دی جاتی ہے(اکثر اپنے موافق بنا لی جاتی ہے)اور انہیں ان افکار و نظریات سے ہم آہنگ بنا دیا جاتا ہے جن کوزمانہ حال میں فروغ دینا مورخ کے پیش نظر ہوتا ہے۔دوبارہ تحریک آزادی ہند کی طرف نظر دوڑاتے ہوئے ہم دیکھتے ہیں کہ کئی مؤرخین اور تاریخ کی نصابی کتابیں 1857سے پہلے برطانوی استعمار کے خلاف لڑی گئی جنگوں کوبڑی آسانی سے حذف کردیتی ہیں۔برطانوی استعمار کے خلاف 1887سے پہلے لڑی گئیںمختلف جنگوں اور دفاعی کوششوں کی زیادہ سے زیادہ ایک یا دو پیراگراف میں تلخیص پیش کرکے یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ برطانیہ کے خلاف تحریک کا صحیح معنوں میں ’آغاز‘ 1857کی ’پہلی‘ جنگ آزادی سے ہوا۔یہ طرح کے بے شمارمحذوفات 1857کے بعد کی تاریخ میں بھی پھیلے ہوئے ہیں۔مثال کے طور پر مولانا محمود حسن اور ان کے شاگردوں کی قیادت میں چلائی گئی ’ریشمی رومال تحریک‘ کا آپ کوکہیں کوئی تذکرہ نہیں ملے گا۔ہم تحریک آزادی کے جس بیانیے کو پڑھتے ہیں اس میں علماء ، مدارس، اردو اخبارات اور اردو زبان و ادب وغیرہ کا کردار ،سب غائب ہیں۔یہ صحیح ہے کہ ہمیں تحریک خلافت کا تذکرہ ملتا ہے،لیکن اس کی اصل اہمیت کو ہمیشہ نظر انداز کیا جاتا ہے۔تحریک آزادی ایک متنوع جدوجہد تھی جس میں مختلف افراد اور گروہ اپنے اپنے طور سے بیک وقت شا مل تھے۔لیکن تاریخ کی ہماری نصابی کتب کے مطالعہ سے ایسا لگتا ہے گویا تحریک آزادی ہندوستان کی نہیں بلکہ انڈین نیشنل کانگریس کی تحریک تھی۔علاوہ از ایں،بھگت سنگھ اور سبھاش چندر بوس کو وہ اہمیت نہیں دی گئی جو ان کے شایان شان تھی۔گاندھی اور نہروکی شخصیتوںکی پیشکش کچھ اس انداز میں کی گئی ہے گویا بیسویں صدی کی دوسری دہائی سے یہی دو شخصیتیں سب زیادہ اہمیت رکھتی تھیں،جو کہ بالکل غلط بات ہے۔اپنے اپنے زمانے کے ہیروز جیسے فیروز شاہ مہتا،گوپال کرشن گوکھلے، محمد علی جوہر، محمد علی جناح اور ابوالکلام آزاد وغیرہ نے عملا جتنے بڑے کارنامے انجام دیے ،کتابوں میں ان کے حسب شان اعتراف نہیں کیا گیا(صرف تِلک اور نوروجی اس سلسلے میںمستثنی ہیں)۔ تقسیم وطن کی جو کہانی ہم پڑھتے ہیں اس کے متعدد پہلو غائب ہیں۔کس طرح ہندو قوم پرستوں نے 1886ء ہی میں دو قومی نظریہ گھڑا،کیسے جناح کو تقسیم قبول کرنے پر مجبور کیا گیا، کیسے نہرو اور پٹیل ایک متحدہ قوم کے لیے ایک مضبوط مرکز کو ترجیح دی، ہماری کتابوں سے مکمل طور سے غائب ہے۔
5۔
آخری،تاریخ کاسب سے معروف عنصراس میں ’جھوٹ کی آمیزش‘ ہے۔بلا شبہ ،یہ بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا تاریخی بیانیہ حال کے مقاصد کو ذہنوں میں راسخ کرنے کے لیے ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر،یہ بات کہ مسلم حکمرانی کے پورے دور میںہندو اور مسلم 800سال تک اقتدارکے حصول کے لیے پُرتشددرسہ کشی کرتے رہے ، یہ ایک افسانہ ہے جسے ہندتوا طاقتیں غلط طریقے سے ایک تاریخی حقیقت کے طور پر فروغ دیتی رہی ہیں۔مہاراشٹرمیں شیوا، جسے عرف عام میں شیوا’جی‘ کہا جاتا ہے(یہ بھی ایک تاریخی چال ہے) کی تقریباعبادت کی جاتی ہے کیوں کہ وہ ’مرہٹوں کا مسیحا ‘تھا اور اس نے اورنگ زیب کو ’شکست ‘دی تھی۔اس کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملائے جاتے ہیں۔اسی واقعہ کو دیکھ لیجئے کہ کیسے شیوا نے بغل گیر ہوتے وقت افضل خان کا دھوکہ سے قتل کردیا جب کہ خوب شیوا نے ہی افضل خان کو صلح کے لیے ملاقات کی دعوت دی تھی۔کیا بہادری ہے ،سچ میں!اب یہ حقیقت بھی کہ افضل خان آہنی زرہ پہن کر نہیں آیا تھا،مؤرخین کو اس افسانہ پردازی سے باز نہیں رکھتی کہ در اصل خود افضل خان ہی شیوا کے قتل کے ارادے سے آیا تھااور کچھ نے تو اس حد تک بھی دعوی کیا ہے کہ پہلا وار افضل خان ہی نے کیا تھا۔اسی طرز پر ہم پڑھتے ہیں کہ اورنگ زیب مذہبی انتہا پسند تھا جو مندروں کو توڑتا پھرتا تھا، ہندوؤں کو بالجبر مسلمان بناتا تھا؛دوقومی نظریہ مسلم لیگ نے متعارف کرایا،مسلمانوں کی شکایتیں جھوٹی تھیں،تشکیل پاکستان کا آوازہ محمد اقبال نے بلند کیا،وغیرہ۔
یہ تمام باتیں در اصل مؤرخین کی افسانہ نگاری کی صلاحیت کی مثالیں ہیں۔
ّ(انگریزی سے ترجمہ، تفصیلی مطالعہ کے لیے کتاب ملاحظہ فرمائیں:History: A Philosophical Discourse on the Concept of Past and Future)
KHAN YASIR
Faculty,
Indian Institute of Islamic Studies,
New Delhi
Email:[email protected]