موجودہ نظام تعلیم : مقاصدکی روشنی میں ایک تجزیہ

ایڈمن

پچھلی ایک صدی کے دوران اس دنیا کے انسانوں نے علم کے میدان میں ناقابل یقین ترقی کی ہے ۔ خاص طور پر سائنس اور ٹکنا لوجی کے میدان میں تو گویا معجزے سامنے آرہے ہیں ۔ علم کی اس…

پچھلی ایک صدی کے دوران اس دنیا کے انسانوں نے علم کے میدان میں ناقابل یقین ترقی کی ہے ۔ خاص طور پر سائنس اور ٹکنا لوجی کے میدان میں تو گویا معجزے سامنے آرہے ہیں ۔ علم کی اس غیرمعمولی ترقی کی وجہ سے زندگی کے ہر میدان میں زبردست تبدیلیاں رونماہورہی ہیں۔ ہمارا انداز فکر ، قدریں اور طرز زندگی تبدیل ہورہا ہے ۔ اس کی وجہ سے زندگی کا مقصد بھی بدلتا جا رہا ہے۔ مناسب ہوگا کہ ہم ایک حقیقت پسندانہ جائزہ لیں کہ اس علمی انقلاب نے دنیا کو کیا دیا ۔ ہم نے کیا پایا ، کیا کھویا ۔ زیرنظر مضمون اس سمت میں ایک چھوٹی سی کوشش ہے۔
تعلیم کے معنی:
تعلیم کے معنی ہیں کسی کو کچھ بتانا، پڑھانا، سکھانا، تلقین کرنا یا رہنمائی کرنایعنی طلبہ کو لکھنا پڑھنا یا حساب وغیرہ سکھانا یا کوئی مضمون اور کتاب پڑھا دینا۔ عام طور پر تعلیم کو انگریزی کے لفظ ایجوکیشن کے ہم معنی سمجھا جاتا ہے ۔ مگر صحیح معنی میں ایجو کیشن کی مکمل ترجمانی صرف تعلیم سے نہیں ہو پاتی۔ لفظ ایجوکیشن در اصل لاطینی لفظ ایڈو کو (educo)سے اخذ کیا گیا ہے جس کا مطلب ہے کسی انسان یا جانور کے بچے کو خصوصی توجہ اور نگہداشت کے ساتھ پال پوس کر بڑا کرنا ۔ اس مناسبت سے ایجوکیشن کا مطلب ہوگا کسی بچے کی پرورش ، اور اس کی دماغی ، جسمانی اور اخلاقی تربیت کرنا۔ اس طرح ہم کہہ سکتے ہیں کہ ایجوکیشن کا مفہوم صرف تعلیم سے نہیں بلکہ تعلیم و تربیت سے پورا ہوتا ہے۔
آج کے دور کی تعلیم علم کے زیادہ سے زیادہ حصول اور بچے کی ذہنی اور جسمانی صلاحیت بڑھانے پر مبنی ہے ۔ اس لئے ایسی تعلیم سے ہم بچے کو اعلیٰ تعلیم یافتہ اور با صلاحیت تو بنا سکتے ہیں مگر یہ ضروری نہیں ہے کہ وہ ایک اچھا انسان بھی بن جائے ۔ ہم اس کو مختلف علوم سے آشنا کراتے ہیں اور مختلف فنون کی تربیت دیتے ہیں مگر اس کو یہ نہیں بتاتے ہیں کہ جو علم و فن تم نے سیکھا ہے اس کا استعمال کن مقاصد کے حصول کے لئے ہوگا۔ کون سا مقصد جائز اور مفید ہے اور کون سا مقصد نا جائز اور نقصاندہ ہے ۔ ہم اس کو علم و فن کے ہتھیار سے مسلح تو کر دیتے ہیں مگر اس کو یہ نہیں بتاتے کہ اس کا استعمال مظلوموں کی دادرسی اور کمزوروں کے دفاع کے لئے ہے ، ان کے استحصال کے لئے نہیں ۔ تعمیر کے لئے ہے ، تخریب کے لئے نہیں ۔ نسل انسانی کی بقا کے لئے ہے ، فنا کے لئے نہیں۔ اسی وجہ سے آج ہماری یہ دنیا پہلے کے مقابلہ میں زیادہ خطرے میں ہے ۔ جب انسان کے پاس علم کم تھا اور اس کی صلاحیت بھی معمولی تھی تو اُس کو صرف آسمانی آفات کا خطرہ تھا، مگر آج کے انسان کو اپنے غیر معمولی علم سے زیادہ خطرہ ہے جس کا اظہار امریکہ کی جان ہاپکنس یونیورسٹی (John Hopkins University) کے صدر اسٹیون مولر (Steven Muller) نے ان لفظوں میں کیا ہے:’’آج کے دور کی یونیورسٹیاں اعلیٰ صلاحیتوں کے حامل ’وحشی‘ پیدا کر رہی ہیں کیونکہ ہم نئی نسل کو اخلاقی قدروں سے آشنا نہیں کراتے جن کی انہیں شدید ضرورت ہے ‘‘۔ اس لئے اگر ہم تعلیم کے میدان میں خدمت انجام دینا چاہتے ہیں تو ایجوکیشن کے صحیح مفہوم کو سمجھنا ہمارے لئے ضروری ہے ۔
تعلیم کا مقصد :
جس طرح کرنسی اپنے آپ میں کوئی مقصد نہیں، بلکہ زندگی کی ضرورتوں کے حصول کا ایک ذریعہ ہے، اسی طرح علم اور صلاحیت خود کوئی مقصد نہیں ہیں بلکہ زندگی کا مقاصد کے حصول کا ایک مؤثر ذریعہ ہے۔ مگر دشواری یہ ہے کہ نظر یہ حیات ، ماحول اور حالات وضروریات کے اختلاف کی وجہ سے زندگی کا مقصد بدل جاتا ہے مثلاً مختلف انسانوں کے نظریہ حیات پر جب ہم غور کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ کچھ لوگ دنیاوی زندگی اور اس کی لذتوں کو ہی سب کچھ سمجھتے ہیں۔ اس لئے ان کے نزدیک دولت و اقتدار کا حصول ہی سب کچھ ہے ۔ کچھ لوگ اس زندگی کو عارضی سمجھتے ہیں اور موت کے بعد ایک دائمی زندگی کے قائل ہیں اس لئے وہ یوم حساب کی کامیابی کو ہی زندگی کا مقصد قرار دیتے ہیں ۔بعض لوگ اس دنیا کو مایا جال سمجھتے ہیں اور اس سے نجات حاصل کرنے کے لئے راہبانہ زندگی پر یقین رکھتے ہیں اور بعض لوگ اس دنیا کے ہنگاموں سے گزرتے ہوئے خدا کی خوشنودی حاصل کرنا چاہتے ہیں ۔ نظر یہ حیات کے اس اختلاف سے تعلیم کا مقصد بھی بدل جاتا ہے۔
اسی طرح جب ہم مختلف انسانوں کے ماحول کا جائزہ لیتے ہیں جس میں وہ زندگی بسر کرتے ہیں تو یہ حقیقت عیاں ہوتی ہے کہ ماحول کے اختلاف سے بھی زندگی کا مقصد متأثر ہوتا ہے جیسے کسی شہر کی جھگی جھوپڑی اور پاش کالونی (posh colony)کا ماحول یکسا ں نہیں ہوتا ۔ اسی طرح کسی انڈسٹیریل ایریے میں مزدوروں کی کالونی کا ماحول کسی یونیورسٹی کی ٹیچنگ اسٹاف کالونی سے بالکل مختلف ہوتا ہے ۔ ماحول کے اس اختلاف سے ان علاقوں میں بسنے والے انسانوں کی زندگی کے مقاصد میں تبدیلی آتی ہے ۔ زندگی کے مقصد کے اس فرق کی وجہ سے تعلیم کا مقصد بھی بدل جاتا ہے ۔ اس طرح ہر کنبہ اور اس کنبہ کے ہر فر د کے مخصوص حالات ہوتے ہیں اور ضروریات بھی جدا جد ا ہوتی ہیں۔اس لئے حالات و ضروریات کے اختلاف کی وجہ سے بھی زندگی کا مقصد تبدیل ہوجاتا ہے اور یہی اختلاف تعلیم و تربیت کے تصور پر بھی اثرانداز ہوتا ہے ۔ اسی دشواری کی بنا پر ماہرین تعلیم آج تک کسی ایک مقصد پر متفق نہیں ہو سکے ۔ مگر ایسا بھی نہیں ہے کہ ان ماہرین نے تعلیم کا کوئی مقصد ہی نہیں متعین کیا ہے ۔ماہرین تعلیم نے اپنے گرد وپیش کے حالات اور ضرورتوں کے تحت جو مقاصد متعین کئے ہیں اس میں سے خاص خاص مندرجہ ذیل ہیں:
(1) پیشہ جویانہ مقصد
(2) اچھا شہری بنانا
(3) نئی نسل کو مستقبل کے لئے تیار کرنا
(4) انفرادیت کی نشوو نما وغیرہ
آئیے، ہم ذراجائزہ لیں کہ مذکورہ بالا کسی ایک مقصد کے حصول کے لئے تعلیم دینے سے سماج پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں:
پیشہ جویانہ مقصد (Vocational Aim) :
یہ مقصد بظاہر کافی اہم معلوم ہوتا ہے ۔ والدین اپنے بچوں کو اسی لئے تعلیم دلاتے ہیں کہ وہ پڑھ لکھ کر کمانے کھانے کے قابل ہو جائیں ۔ بلا شبہہ کمانا کھانا انسان کی بنیادی ضرورت ہے ۔ والدین کو اس بات کی فکر ہونی چاہئے کہ بچہ پڑھ لکھ کر اپنے پیروں پر کھڑا ہوسکے۔ مگر کیا صرف پیٹ بھرنا اور زندگی کی دوسری ضرورتوں کو پوری کرنا ہی تعلیم کا بنیادی مقصد قرار دینا مناسب ہے ؟کیا انہیں کھلی چھوٹ ہونی چاہئے کہ وہ جن ذرائع سے چاہیں اپنی ضرورتیں پوری کر لیں؟ ایسا کرنے سے بچہ معاشی حیوان تو بن سکتا ہے ، اچھا انسان ہر گز نہیں بن سکتا ۔ اچھا انسان بنانے کے لئے حق اور نا حق ، جائز اور ناجائز میں تمیز سکھانا بھی ہماری ذمہ داری ہے ۔ اخلاق و آداب اور تہذیب و تمدن کی اعلیٰ قدروں سے روشناس کرانا بھی ضروری ہے ۔ اس پہلو کو نظر انداز کرنے کا ہی نتیجہ ہے کہ ہمیں اکثر ایسے افراد سے سابقہ پڑتا ہے جو اعلیٰ تعلیم یافتہ یا ماہر فن ہونے کے باوجود اخلاق وکردار کے اعتبار سے بہت پست ہوتے ہیں ۔ اس لئے وہ سماج کے لئے مفید ہونے کے بجائے مضر ثابت ہوتے ہیں ۔
اچھا شہری بنانا:
تعلیم گاہوں میں معلمین بچوں کو مختلف مضامین کی تعلیم دیتے وقت ملک کا اچھا شہری بننے کی تلقین بھی کرتے ہیں۔ مگر جب حکومت کے مفاد اور اخلاقی اصولوں میں باہم ٹکراؤ ہوتا ہے تو حکومت ایک اچھے شہری کو مجبور کرتی ہے کہ وہ اخلاقی اصولوں کو قربان کرکے ملک کا وفا دار بنے ورنہ اسے غدار وطن قرار دیا جا سکتا ہے ۔ اس نقطہ نظر سے ایک اچھا شہری ضروری نہیں ہے کہ اچھا آدمی بھی ہو۔ اسی مقصد کے حصول کے لئے معلم بچوں کے اندر قومیت اور حب الو طنی کے جذبے کو بھی ابھارتے ہیں ۔ بلا شبہہ یہ جذبہ بہت اہم ہے ۔ مگر خطرہ اس بات کا ہے کہ حب الو طنی جیسے مقدس جذبے کی آڑ میں کہیں ہم بچے کو تنگ نظر تو نہیں بنا رہے ہیں؟ بچہ یہ نہ سمجھنے لگے کہ ہمارا ہی ملک یا قوم سب سے اچھی ہے باقی سب برے ہیں۔ حب الوطنی کا جذبہ اپنی انتہائی شکل میں قومی جارحیت (Chauvinism) کی طرف لے جائے گا ۔ تاریخ گواہ ہے کہ قومی جارحیت کا جذبہ جب نازی ازم کی شکل میں ابھرا تو دنیا کو جنگ عظیم کی تباہ کاریاں جھیلنی پڑیں اور جب صہیونیت کی شکل میں سامنے آیا تو پورے عالم عرب کا امن خطرے میں پڑ گیا جس کے اثرات پوری دنیا پر مرتب ہو رہے ہیں ۔ اس لئے نئی نسل کو اس خطرے سے بچانے کے لئے پوری انسانیت کے لئے احترام کا جذبہ پیدا کرنا اور آفاقیت کا تصور دینا ہوگا۔
نئی نسل کو مستقبل کے لئے تیار کرنا:
مشہور برطانوی مفکر اور ماہر تعلیم ہر برٹ اسپنسر (Herbert Spencer-1820-1903) نے ایک نظریہ دیا کہ تعلیم کا بنیادی مقصد یہ ہونا چاہئے کہ بچوں کو آنے والی زندگی کے لئے تیار کیا جائے ، مگر اس میں بھی کچھ خامیا ں ہیں۔ اس طریقہ تعلیم میں مقصد کے حصول کے لئے صرف آئندہ کی ضرورتوں کا خیال رکھا جاتا ہے۔ بچے کے فطری میلانات کو یکسر نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ مقصد بچوں کی فطرت سے متصادم ہے اس لئے اس مقصد کو بھی سماج کے لئے مفید نہیں قرار دیا جا سکتا ۔ فرانسیسی مفکر روسو(Rousseau) نے ایک صدی پہلے اس سوچ کی نفی کی ہے ۔ روسو کا کہنا ہے کہ تعلیم بچے کی خصوصیات اور فطری میلانات کی بنا پر ہونی چاہئے، ضروریات کے مطابق نہیں۔
انفرادیت کی نشوو نما:
کچھ مغربی ماہرین تعلیم کا کہنا ہے کہ تعلیم کا بنیادی مقصد بچے کی ’انفرادیت کی نشوو نما ‘ہونا چاہئے ۔ مگر آج کل کی تعلیم میں بچے کی آئندہ زندگی کو ترجیح دی جاتی ہے ،موجودہ زندگی کو نہیں ۔ بچوں کے فطری میلانات کو نظر انداز کرکے والدین خود کوئی ہدف طے کرتے ہیں۔ ایسی حالت میں بچہ کچھ بن تو ضرور جاتا ہے مگر اس کی انفرادیت ختم ہوجاتی ہے جو ایک بہت بڑا خسارہ ہے ۔
اس مختصر جائزے سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ دنیا کے مشہور و معروف مفکرین نے آج تک تعلیم کا جو بنیادی مقصد متعین کیا ہے وہ یا تو ادھورا اور نا مکمل ہے یا انسانی معاشرے کے لئے مضرت رساں ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا تعلیم کا ایسا کوئی بنیاد ی مقصد ہے ہی نہیں جو ہر قوم ، ہر ملک ،ہر معاشرے اور ہر زمانے کے لئے یکساں طور پر مفید ہو ؟ جو تاریخی اور جغرافیائی تبدیلیوں سے متأثر نہ ہوتا ہو ؟ کیا کوئی بھی صحیح الفکر انسان اس دعوے کو قبول کر سکتا ہے کہ جس علم کی ترسیل کے لئے اللہ رب العزت نے حضرت آدم ؑ سے نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ وسلم تک ایک سلسلہ قائم کیا ، اس علم کا کوئی بنیادی مقصد نہیں ہے ؟ شاید کوئی نہیں، تو پھر وہ بنیادی مقصد کیا ہے ؟
تعلیم کا پاکیزہ مقصد:
صدیوں سے مفکرین اور ماہرین تعلیم اپنے اپنے زمانے کے تقاضوں اور ضرورتوں کے مطابق تعلیم کا مقصد متعین کرتے رہے۔ زمانے کے تقاضے بدلتے رہے اور اسی کے ساتھ تعلیم کا مقصد بھی بدلتا رہا ۔ اس طرح انسان نے پتھر کے دور سے اپنا تعلیمی سفر شروع کیا اور آج ہم خلائی اور ایٹمی دور سے گزر رہے ہیں ، اور یہ سفر ہنوز جاری ہے ۔ 1789میں فرانس کے صنعتی انقلاب نے آج کے دور کے انسان کو ضرورتوں کی ایک لا محدود فہرست تھما دی ہے۔ ان ضرورتوں کے حصول کے لئے انسان نے اپنی ذہانت اور فراست سے علم کے نئے نئے دروازے کھولے ، نئی نئی راہیں ڈھونڈیں۔ ضرورتوں کی بھوک اتنی شدید تھی کہ انسان کو غور کرنے کی فرصت نہیں تھی کہ کون سی راہ کس منزل کی طرف لے جاتی ہے ۔ اپنی شدید طلب کی تکمیل کے لئے وہ ایک کے بعد ایک دروازے کھولتا گیا اور اس میں بے جھجھک داخل ہوتا گیا اور ا س اندھی سرنگ میں اندھا دھند دوڑتا گیا ۔ مبارکباد کے قابل ہیں وہ اچھے لوگ جنہوں نے ایسی روشن شاہراہوں کے باب بھی کھولے جن پر چل کر وہ انسان کی بنیادی ضرورتیں پوری کرنا چاہتے ہیں، اپنی مخلصانہ کوششوں سے وہ مہلک بیماریوں کا علاج اور آفات آسمانی سے نسل انسانی کو محفوظ کرنا چاہتے ہیں ۔ مگر اسی نظام تعلیم کے کچھ ذہین ترین افراد (Genius)نے اپنی غیر معمولی ذہانت سے اس سے کہیں زیادہ مہلک اور ناقابل علاج بیماریاں ہمیں عطا کر دیں۔ آسمانی آفات سے کہیں زیادہ خوفناک اور تباہ کن وسائل بھی ہمیں بخش دئیے ۔ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ قوم انہیں اپنا ہیرو قرار دیتی ہے ۔ چاندکی تسخیر کو ہم نے ترقی کی معراج قرار دیا ۔ مریخ کو چھو لینا اپنی آرزو کی انتہاسمجھ بیٹھے۔
آج کے دور کے انسان کی مادی ترقی کا یہ عالم ہے کہ اس نے چاند اور مریخ تک جانے کا خواب پورا کر لیا ۔ مگر اس کی اخلاقی پستی کا یہ عالم ہے کہ جنسی آزادی اور ہم جنس پرستی کو انسان کا ذاتی معاملہ قرار دے کر اس گھناؤنے فعل کو قانون کا تحفظ فراہم کر دیا۔ ہمارا ذہن تو آسمان کی بلندیوں پر پرواز کر رہا ہے مگر روح پاتال کی گہرائیوں میں کراہ رہی ہے ۔عالمی بھائی چارہ تو دور کی بات ہے ، خون اور خاندان کے رشتے منتشر ہو رہے ہیں ۔ بھائی ،بھائی کے خون کا پیاسا ہے ۔ اس کراہتی ، سسکتی اور بیمار دنیا کو بہتر علاج کی ضرورت ہے۔ آسان علاج ہمارے سامنے ہے مگر ہمیں دِکھ نہیں رہا ہے کیونکہ ہماری آنکھوں پر علمی غرور اور خود پسندی کا پردہ پڑا ہے ۔ وہ علاج کوئی نیا بھی نہیں ہے ، صدیوں کا بار بار آزمایا ہوا ہے جس کو بہت سارے پیغمبر اور مہاپروشوں نے اپنے اپنے دور میں آزمایا اور کامیاب رہے۔ ان عظیم انسانوں کی تعلیم کا جو مقصد تھا وہی مقصد اگر ہم اپنا لیں تو سارے دکھوں کا علاج ممکن ہے، سارے مسائل حل ہو سکتے ہیں ۔وہ پاکیزہ مقصد ہے خدا شناسی ، اپنے رب کی پہچان اور اپنی بندگی کا اعتراف ۔جب انسان اپنے رب کو پہچان لے گا اور اس کی منشأ کو بھی جان لے گا تو اپنے رب کی منشأ کے مطابق اس کی تخلیقات کو بھی جاننے کی کوشش کرے گا ۔ اس طرح خالق کی پوری کائنات اس کے تصرف میں آجائے گی ۔ اب اس کی منزل چاند ستاروں تک محدود نہیں رہے گی بلکہ پوری کائنات کی تسخیر اس کا ہدف ہوگا، مگر مقصد بدل چکا ہوگا ۔ اب اس کی تلاش و جستجو حاکمیت اور ملوکیت کے لئے نہیں بلکہ انسانی فلاح اور خالق کی خوشنودی کے لئے ہوگی ۔
ہمارے موجودہ تعلیمی نظام نے دنیا کو تباہی کے دہانے پر لاکر کھڑا کر دیا ہے ۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اگر کوئی اس دنیا کو خطرے سے بچا سکتا ہے تو وہ یہی بچے ہیں جو ہماری تعلیم گاہوں میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں ۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہماری آنے والی نسلیں دنیا کو تباہی سے بچائیں تو ہم سبھی ٹیچرس،والدین اور اسکول انتظامیہ کا فرض ہے کہ ہم اپنے بچوں کی تعلیم کی عمارت کی بنیاد خدا شناسی پر رکھیں۔ بہت چھوٹی عمر میں جب ہم انہیں حروف شناسی کراتے ہیں تبھی ہم انہیں خدا شناسی بھی کرائیں ۔ بڑھتی ہوئی عمر کے ساتھ تدریجی انداز میں خالق اور مخلوق کی حیثیت اور ان کے درمیان کے رشتوں کے بارے میں بچوں کے جذبۂ تجسس کو ہوا دیں تاکہ وہ بچے پختہ عمر تک پہنچتے ہی ہماری رہنمائی میں اپنے خالق کو خود دریافت کرلیں ۔

اگر ہم نے ایسا کیا تو ان بچوں کا اللہ کی ربوبیت اور اپنی بندگی کے احساس کا عقیدہ محض رسمی اور موروثی نہیں ہوگا بلکہ عقلی اور تحقیقی ہوگا ۔ مگر یہ کام آسان نہیں ہے ۔ جبر اور خوف کے سائے میں یہ تعلیم نہیں ہونی چاہئے ۔ بچے کا عقیدہ خاندان کے خوف اور سماج کی مجبوری کی بنا پر نہ ہو بلکہ عقل و فہم اور اطمینانِ قلب کے ساتھ ہو ۔ آج کے سائنسی دور کا لحاظ رکھتے ہوئے ہمیں یہ تعلیم اتنی مدلّل ، سائنٹفک اور فطری انداز میں دینی چاہئے کہ بچہ یہ محسوس کرے کہ میں نے اپنے رب کو اپنی ذہانت اور تلاش و جستجو سے دریافت کیا ہے ۔ ہم سبھی جانتے ہیں کہ جو چیز تحقیق ، ذہانت اور کاوش سے دریافت کی جاتی ہے اس پر ہمارا عقیدہ محض رسمی اور موروثی نہیں ہوتا بلکہ حقیقی اور یقینی ہوتا ہے ۔ جوں ہی اسے یقین کی یہ دولت ملے گی، اس کے اندر احساس ذمہ داری اوراپنے رب کے سامنے جوابدہی کا احساس پیدا ہونا لازمی ہے ۔ یہی احساس تمام مسائل کا حل ہے ۔ جب ایک پڑھا لکھا انسان تدریس کو ایک پیشے کے طور پر اختیار کرے تو اس کے سامنے تعلیم کا یہ عظیم اور پاکیزہ مقصد ہونا چاہئے ۔صرف روزی روٹی کے لئے اس پیشے کو اختیار کرنا اس پیشے کے تقدس کی توہین ہے ۔ یہ پیشہ روزی روٹی کا ذریعہ بھی بنے ، اس سے انکار نہیں، مگرخدا شناسی ،اعتراف بندگی اور احساس جواب دہی کے ساتھ بنے۔

اویس انصاری،مؤ۔ یوپی۔ ای میل: [email protected]

حالیہ شمارے

براہیمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے

شمارہ پڑھیں

امتیازی سلوک کے خلاف منظم جدو جہد کی ضرورت

شمارہ پڑھیں