بشری ثبات روشن
”لوگوں اپنے رب سے ڈرو جس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا اور اسی جان سے اس کا جوڑا بنایا اور ان دونوں سے بہت مرد و عورت دنیا میں پھیلا دئے اس خدا سے ڈرو جس کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے اپنا حق مانگتے ہو اورشتہ و قرابت کے تعلقات کے بگاڑ نے سے پرہیز کرو یقین جانو کہ اللہ تم پر نگرانی کر رہا ہے۔(النساء: ١)
گزشتہ کئی سالوں سے عورت کو بااختیار بنانے کے جس عالمی ایجنڈے کے تحت پالیسیز بنائی گئیں، ان میں سب سے زیادہ زور عورت کی معاشی خود انحصاری اور ہر شعبہ زندگی میں اس کی بڑی تعداد میں نمائندگی پر دیا گیا۔ آج بیس پچیس سال بعد ہم دیکھتے ہیں کہ بلدیاتی سطح ہو یا قومی و صوبائی اسمبلی کے ادارے، عدالت ہو یا میڈیا، سرکاری و نیم سرکاری ادارے ہوں یا پرائیویٹ کمپنیاں، تجارتی ایوان ہوں یا تعلیمی ادارے، ہر جگہ عورت پہلے سے کہیں زیادہ تعداد میں اپنے فرائض سرانجام دیتی نظر آرہی ہے۔
حکومتی سطح پر تھوڑی سی حوصلہ افزائی نے ہی اسے ایسی اڑان دی ہے کہ آج وہ تعلیم کے میدان میں لڑکوں کو پیچھے چھوڑتی نظر آتی ہے۔ نتیجتاً معاشی لحاظ سے بھی وہ آج بڑی حد تک خود انحصار اور مضبوط ہوچکی ہے۔ یہ مناسب وقت ہے کہ ہم اس بات کا تجزیہ کریں کہ عورتوں کی بہتر تعلیم اور معاشی خودانحصاری نے کیا اس کو حقیقی مسرت عطا کی ہے ؟اور معاشرے کی مجموعی صورتحال میں اس سے کتنی بہتری آئی ہے؟ ماں کا رتبہ باپ سے تین گنا زیادہ بتایا جانا، اس کے قدموں تلے جنت کا تصور، تین بیٹیوں کی پرورش کرنے والے کے لئے جنت کی بشارت جیسی تعلیمات کے ذریعے اسلام نے عورتوں کو سرفراز کیا ہے۔ ساتھ ہی اسلام عورت کو نان و نفقہ کی ادائیگی،مہر اور وراثت کے ذریعے مالی طور پر مضبوطی عطا کرتا ہے۔لیکن معاشرے نے عورت کو یہ سبق پڑھایا کہ جب تک تم پڑھ لکھ کر خود کمانے کے قابل نہیں بنو گی، مضبوط نہیں کہلا سکتیں۔
واقعہ یہ ہے کہ آج کی پڑھی لکھی مالی اعتبار سے خودمختار عورت بھی مسائل کے جنگل میں گرفتار ہے۔ جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ معاشرے کی مجموعی فضا اور سانچے کو بہتر بنائے بغیر محض ایک اکائی کی بہتری ے بارے میں سوچا گیا، جب کہ معاشرے کی ہر کڑی دوسری کڑی سے مربوط ہوتی ہے۔ دوسری بہت بڑی وجہ یہ ہے کہ فکری تربیت کا عنصر معاشرے سے گویا ختم ہی ہو چلا ہے۔ پہلے ماں کی گود سے جس روحانی تربیت کا آغاز ہوتا تھا اور پھیلتے پھیلتے گھر والوں، ہمسایوں، استاد، خاندان کے بزرگوں اور کتابوں کے اسباق تک وسعت پا جاتا تھا، وہ اب بالکل سکڑ کر رہ گیا ہے۔ بقول سید مودودی رحمتہ اللہ،” اگر ماں کی گود مسلمان نہ رہی تو بچے اسلامی اخلاق کہاں سے سیکھیں گے۔۔؟”(استفسارات ،اول،صفحہ 341)۔
ماں کی گود بچے کا اولین مکتب ہے
مال اور کیریئر کی دھن نے اخلاقی اقدار کو دھندلا کردیا ہے۔ آج بچے کے امتحان میں نمبر کم آجائیں تو والدین انتہائی پریشان ہوجاتے ہیں لیکن اخلاق خراب ہوجائیں تو انہیں اس کی اتنی فکر نہیں ہوتی۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اكمل المومنين إيماناً احسنهم خلقا و خياركم خياركم لنسائهم خلقا( رواه الترمذي)
تعلیمی اداروں اور حکومت کی نااہلی
تعلیمی ادارے بھی محض رسمی تعلیم فراہم کرنے کے مرکز بن گئے ہیں۔ استاد جس کردار کو جِلا بخشنے کا مرکز ہوتا تھا، وہ منصب آج اس سے چھن چکا ہے۔ وہ محض رسمی اسباق پڑھا دینے کو اپنی ذمے داری سمجھنے لگا ہے۔ اگرچہ فکری تربیت کی کمی لڑکے اور لڑکیوں دونوں کے لحاظ سے نقصان دہ ہے، لیکن ایک عورت چونکہ گھر اور نسل دونوں چلانے کی ذمے دار ہے۔ اس لیے اس کی فکری تربیت مزید اہم ہوجاتی ہے۔ گھر عورت کے صبر اور برداشت کے بل بوتے پر بنائے اور چلائے جاتے ہیں۔ ماں کی محبت اور قربانی کے باعث ہی اس کے اجر کو تین گنا رکھا گیا، جب کہ باپ معاش کمانے اور کفالت کا ذمے دار ہوتا ہے۔ اگر عورت کی تعلیم اسے یہ شعور نہیں دے پائے کہ اس کے حقیقی فرائض کیا ہیں، خاندان میں اس کا کردار کیا ہونا چاہیے، رشتوں کو نبھانے کےلیے کون سی صفات درکار ہیں، تو یہ تعلیم اسے مادی خوشحالی تو دے سکتی ہے لیکن اس کی روح حقیقی خوشی حاصل نہیں کرسکتی ۔
شوہر، بچے اور گھر عورت کی فطری خواہش ہے اور اسی میں اس کا سکون اور خوشی پوشیدہ ہے۔ لیکن یہ امر تشویشناک ہے کہ آج معاشرہ میں گھر ٹوٹنے کی شرح بڑھتے جارہی ہے۔ اگرچہ اس میں محض عورت کی سوچ کی کمی کو ذمے دار نہیں ٹھہرایا جاسکتا، کیونکہ رشتوں کو نبھانا دو طرفہ عمل ہے۔ لیکن مردوں کو بھی یہ سوچ گھر سے ہی مل سکتی ہے۔ جو ماں رشتوں کو نبھانے والی ہوگی، وہی اپنے بچوں کو یہ درس دے سکے گی۔
مغربی تعلیم کے زیر اثر شادیوں میں تاخیر
لڑکیوں کے تعلیمی میدان میں آگے بڑھ جانے کے باعث شوہر کے انتخاب میں ان کا معیار بھی بلند ہوچکا ہے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ مرد و عورت کی برابری کا سبق پڑھنے والی عورت آج بھی شادی کے وقت اپنے سے زیادہ تعلیم یافتہ اور زیادہ کمانے والے مرد کو شادی کےلیے منتخب کرنا چاہتی ہے۔ تعلیم اور معاشی حالت میں کمزور رہ جانے والے لڑکوں کی تعداد میں اضافے کے باعث بہتر تعلیم یافتہ لڑکیوں کی شادیاں مسئلہ بنتی جارہی ہیں۔ ایک طرف ایسے لڑکے اور ان کے گھر والے اچھا کمانے والی لڑکی گھر لاکر مالی حالات بہتر بنانے کے خواہشمند ہوتے ہیں تو دوسری طرف لڑکی اپنی تعلیم اور کمائی کے زعم میں صبر و برداشت، تحمل اور گھر اور رشتے بنانے کےلیے درکار وقت، موڈ، مزاج، عادات کی قربانی دینے کےلیے تیار نہیں ہوتی۔ نتیجتاً گھر بسانا مشکل ہوتا جارہا ہے۔اور اگر سمجھوتے کے تحت ساتھ رہیں بھی تو گھر میں وہ پرسکون ماحول نہیں بن پاتا جس میں اگلی نسل کی بہترین تربیت ہوسکے۔لازم ہے کہ ہم اپنے تعلیمی نصاب میں جہاں مردوں کےلیے عورتوں کے بارے میں ان کے فرائض کو بیان کریں، عورتوں کی عزت کا سبق دیں، رشتوں سے حسن سلوک کی ترغیب دیں، اُسوۂ رسولؐ کا سبق پڑھائیں، وہاں بچیوں کو ان کے فرائض کی تعلیم دیں۔ باپ، بھائی، شوہر کے پرتحفظ حصار کی اہمیت واضح کریں۔ اُسوۂ صحابیات کو سامنے رکھیں۔ گھرداری اور بچوں کی تربیت، اہل خانہ کی دیکھ بھال، خاندان کی اہمیت سامنے رکھیں۔ اس ضمن میں والدین، معاشرہ اور میڈیا پر بھی بہت ذمے داری عائد ہوتی ہے۔ ہمیں اپنے معاشرے کو بہتر بنانا ہے تو اپنے اپنے فرائض کی بہترین بجاآوری پر توجہ دینی ہوگی۔ جب ہر ایک اپنے فرائض احسن طریقے سے ادا کرے گا تو سب کو اس کا حق بھی مل جائے گا۔ محض عورت یا مرد کی برتری اور ترقی کی بات کرنے کے بجائے ہمیں خاندان و معاشرے کی بہتری و فلاح کی بات کرنی چاہیے۔ مرد و عورت کو رشتوں سے بغاوت کے بجائے رشتوں سے محبت کا سبق دینے کی ضرورت ہے۔
“تنہا انسان نہ روتا بھلا، نہ ہنستا بھلا”۔ دنیا کی ہر خوشی اور اطمینان پیار کرنے والے رشتوں کی موجودگی ہی سے ہے۔
پیارے نبی کریم صلى الله عليه وسلم فرماتے ہیں، ”رشتہ داری رحمن کی ایک شاخ ہے”۔ایک اور حدیث میں فرمایا:”نسب کی اتنی تعلیم حاصل کر لو جس سے اپنے رشتہ داروں سے مل سکو چونکہ صلہ رحمی سے اپنے لوگوں میں محبت پیدا ہوتی ہے موت پیچھے ہٹتی ہے یعنی عمر لمبی ہوتی ہے۔‘‘
رشتے عطا کرنے والی ذات رب کی ہے، لیکن ان رشتوں کی محبت انسان خود ہی برقرار رکھنے کا ذمے دار ہے۔ عورت کے کندھوں کو مضبوط بنانے کے ساتھ مردوں کو بھی اونچی اڑان کا حوصلہ دیں کہ وہ عورتوں کے ضمن میں اپنی ذمے داریوں کو سمجھیں اور نان نفقہ، مہر اور وراثت کی ادائیگی سے ان کے حقوق کا تحفظ کریں۔ اللہ نے انہیں قوام بنا کر احترام، تحفظ اور نگرانی کا فرض سپرد کیا ہے۔ الله تعالیٰ کا فرمان ہے، الرجال قوامون على النساء۔
ان کی جانب سے عورتوں کی ذرا سی حوصلہ افزائی و شفقت کا معاملہ خاندان بھر کو رشتوں کی شیرینی عطا کرے گا۔ جس کا پھل وہ اور ان کی اگلی نسل چکھے گی۔ طاقت سے محض سر جھکائے جاسکتے ہیں جب کہ محبت سے دل فتح ہوجاتے ہیں۔ رشتوں کی خوبصورتی ایک دوسرے کی بات کو برداشت کرنے میں ہے۔ بے عیب انسان کی تلاش انسان کو تنہا کردیتی ہے۔ لڑکیوں کو چاہیے کی کیریئر اور خاندان میں سے ترجیح خاندان کو دیں اور خاندان والوں کو چاہیے کہ کیریئر بنانے میں لڑکیوں سے تعاون کریں۔ باہمی ادب و احترام اور اعتماد و حوصلہ افزائی سے معاشرہ کو انتشار سے بچایا جاسکتا ہے۔ اپنے کردار سے ان اخلاقی اقدار و روایات کو آگے بڑھانے کی ضرورت ہے جو ہمارے معاشرے کا اثاثہ ہے۔ میڈیا کی ذمے داری ہے کہ وہ مرد و عورت کو متحارب فریق بنا کر پیش کرنے سے گریز کرے اور ان کے مابین رشتے کی مضبوطی کو اجاگر کرے۔ نیز حکمرانوں کی ذمے داری بنتی ہے کہ وہ عالمی ایجنڈے کو اپنے ملک میں نافذ کرتے وقت اپنے دین اور اپنی تہذیب کی تعلیمات کو نظر انداز نہ کریں۔ خاندان دوست قوانین اور پالیسیز کو نافذ کریں تاکہ معاشرہ بہتر روایات کے ساتھ پھل پھول سکے کیونکہ مضبوط خاندان مضبوط معاشرے کی بنیاد ہے۔