ملک میں کمیونسٹ تحریک کا سیاسی سفر

ایڈمن

ڈاکٹر جاوید ظفر، سینٹر فار اسٹڈی اینڈ ریسرچ، حیدرآباد کمیونسٹ تحریک انڈیا میں بہت پرانی ہے، اور لگ بھگ ۱۹۲۰ ؁ء کے آس پاس سے ہی یہ ایک سیاسی قوت کے طور پر ہندوستان میں موجود ہے، آزادی تک تو…

ڈاکٹر جاوید ظفر،
سینٹر فار اسٹڈی اینڈ ریسرچ، حیدرآباد
کمیونسٹ تحریک انڈیا میں بہت پرانی ہے، اور لگ بھگ ۱۹۲۰ ؁ء کے آس پاس سے ہی یہ ایک سیاسی قوت کے طور پر ہندوستان میں موجود ہے، آزادی تک تو انگریزوں نے کمیونسٹوں کی سیاسی تحریک کو پنپنے نہیں دیا، اور زیادہ تر لیڈرس جیلوں میں یا زیرزمیں رہ کر پارٹی کا کام کرتے رہے۔ آزادی سے پہلے والے کمیونسٹ بھی کئی گروپس میں بٹے ہوئے تھے، حالانکہ ان کے میل ملاپ کی بات بھی وقتا فوقتا چلتی رہتی تھی۔ تمام میل ملاپ کی کوششوں اور اختلافات کے ساتھ کمیونسٹ تحریک ایک پہچان کی شکل میں کام کرتی رہی۔ آزادی سے پہلے (۱۹۴۶ ؁ء)ہوئے Provisional legislative assembly election میں کمیونسٹوں کی بڑی سیاسی پارٹی سی پی آئی نے ۱۵۸۵؍سیٹوں میں سے ۱۰۸؍پر حصہ لیا۔ بنگال میں ان الیکشن میں سی پی آئی نے اپنی مضبوط موجودگی درج کرائی اور تین سیٹوں پر الیکشن لڑی اور تینوں پر ہی کامیاب رہی۔
یوں تو کمیونسٹ پارٹی دنیا میں کہیں بھی جمہوری انتخابات کے ذریعہ اقتدار میں نہیں آئی تھی، چاہے وہ چائنا ہو، یا یوایس ایس آر، لیکن انڈین کمیونسٹوں نے نہ صرف انتخابات کو سپورٹ کیا، بلکہ بھرپور طریقے سے اس میں حصہ بھی لیا۔ حالانکہ ہندوستان نہ کوئی انڈسٹریل ملک تھا، اور نہ ہی مزدوروں اور مالکوں کے درمیان یورپی ممالک جیسی جنگ کی صورتحال تھی۔ اور نہ ہی پرائیویٹایزیشن اور گلوبلائزیشن جیسے نعرے تھے۔ لیکن کیونکہ ہندوستان تاریخی طور سے ایک فیوڈلFeudalملک رہا تھا، اس لیے زمینوں کے مالکانہ حق، زمیندار، اور سامنتوادFeudal، ایک بڑا سیاسی اشو بن کر ابھرے۔ Land reformکو لے کر کمیونسٹ پارٹیوں نے جو تحریک چلائی، اس سے نہ صرف چھوٹے کسان ان کی طرف متوجہ ہوئے، بلکہ سماج کے ابھرتے ہوئے دانشور، جن میں مصنفین، شاعر، سائنسداں، اورخواتین ایکٹوسٹ بھی ہیں، کمیونسٹ تحریک سے متأثر ہوئے۔
یہ حیرت انگیز بات ہے کہ شروعاتی دور میں کمیونسٹ موومنٹ کو جس طرح کامیابی ملی، وہ کانگریس کے علاوہ کسی اور کو میسر نہیں ہوئی، جیسے کمیونسٹ تحریک کے اثرات کو اِسی بات سے ناپا جاسکتا ہے کہ آزاد ہندوستان میں کیرلا کی پہلی حکومت جو ۱۹۵۷ ؁ء میں وجود میں آئی، وہ کمیونسٹ پارٹی نے ہی بنائی تھی۔ بلکہ اب تک یہ وہاں ایک مضبوط سیاسی پارٹی کی شکل میں موجود ہے، کیرلا کے علاوہ جن ریاستوں میں کمیونسٹ پارٹی کامیاب رہی اوروہاں اپنی موجودگی درج کرائی، وہ مغربی بنگال اور شمال مشرق کے کچھ علاقے ہیں۔
مغربی بنگال میں یوں تو کمیونسٹوں نے اپنی موجودگی بالکل شروع سے ہی درج کرادی تھی، لیکن ۱۹۶۷ ؁ء میں یونائٹیڈ فرنٹ کی گورنمنٹ بنوانے میں کمیونسٹ ہی اصل طاقت تھے۔ ویسٹ بنگال میں کمیونسٹ موومنٹ علاقائی زمینداروں کے خلاف اپنی تحریک اور Land reform کے اپنے وعدوں کے ذریعہ ۱۹۷۲ ؁ء میں پوری طرح سے اپنی حکومت بنانے میں کامیاب رہی، اور۲۰۱۱ ؁ء تک بنا کسی بڑے چیلنج کے اقتدار میں رہی۔ شروعاتی دور میں کمیونسٹ تحریک نے نہ صرف مقامی زمینداروں اور سرمایہ داروں کے خلاف لوگوں کو اکھٹا کیا، بلکہ جہاں جہاں صنعت کاری ہورہی تھی اور مزدوروں کے حقوق ایک اشو بنے ہوئے تھے، کمیونسٹ تحریکوں نے وہاں زبردست تحریک شروع کی، چاہے وہ یوپی کا کانپور ہو، ممبئی ہو، یا پنجاب۔ جب آزاد ہندوستان میں پہلی بار لوک سبھا کے الیکشن ہوئے، تو توقع کے برخلاف کمیونسٹ تحریک سے جڑی ہوئی پارٹیاں دوسرے نمبر کی سیاسی طاقت بن کر ابھریں، اور ۲۲؍فیصد ووٹ شیئرنگ کے ساتھ تقریبا ۵۰؍لوک سبھا نشستیں جیتنے میں کامیاب رہی۔ ان کے اثر کا اندازہ اسی بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ۳۰۰؍ سے زائد سیٹ جیت کر حکومت میں آنے والی کانگریس پارٹی کا ووٹ شیئر ۴۵؍فیصد تھا۔ ۱۹۵۷ ؁ء کے لوک سبھا الیکشن میں بھی، کمیونسٹ پارٹیوں نے پہلے سے بہترکارکردگی کا مظاہرہ کیا، خاص کر سی پی آئی نے ۹؍ فیصد ووٹ شیئر کے ساتھ ۲۷؍سیٹیں جیتیں، جو پچھلے الیکشن کے مقابلے میں اگیارہ سیٹیں زیادہ تھیں، کل ملاکر کمیونسٹ تحریک سے جڑی ہوئی سیاسی پارٹیوں نے ۵۴؍سیٹیں جیتیں، ان الیکشن میں کمیونسٹ پارٹی کے ہی شری پت امرت ڈانگے حزب مخالف کے نیتا بن کر ابھرے، آزادی کے بعد دس سال کے سیاسی سفر میں کمیونسٹ پارٹیز کانگریس کے سامنے ایک بہتر حزب اختلاف اور ایک بہتر متبادل بن کر ابھر رہی تھی۔ اور ان کی سیاسی کامیابی کو کوئی خارج نہیں کرسکتا تھا۔
۱۹۶۲ ؁ء کے لوک سبھا الیکشن میں بھی کمیونسٹ پارٹی نے اپنی پچھلی کارکردگی کو دہرایا اور تمام ووٹوں کا ۲۴؍فیصد ووٹ حاصل کیا، لیکن ایک بار پھر سیٹوں کی گنتی بڑھانے میں ناکام رہی، اور ۵۱؍سیٹیں جیتنے میں ہی کامیاب ہوسکی، ایک بار پھر دیکھنے والی بات یہ ہے کہ کانگریس کو کمیونسٹ پارٹی کے مقابلے میں یوں تو دو گنا ووٹ ملے تھے، لیکن سیٹیں کمیونسٹ پارٹی کے مقابلے میں سات گنا زیادہ(۳۶۱؍سیٹیں) جیتنے میں کامیاب رہی۔ ۱۹۶۷ ؁ء کے لوک سبھا الیکشن اس معنی میں خاص تھے کہ یہ نہرو جی کے بعد پہلا لوک سبھا الیکشن تھا، جس کا اثر سیدھے سیدھے الیکشن کے نتیجوں پر بھی پڑا، جہاں کانگریس نے اپنی ۷۸؍سیٹیں کھوئیں، وہیں کمیونسٹ پارٹی اپنی بڑھوتری کو رفتار دینے میں کامیاب رہی، اور پہلی بار۸۰؍ سے زائد (۸۲؍)سیٹوں پر کامیابی درج کرائی۔ لیکن ان الیکشن میں ایک تبدیلی دیکھنے کو اور ملی، یوں تو کمیونسٹ پارٹی نے اب تک سب سے زیادہ نشستیں حاصل کرنے میں کامیابی حاصل کی تھی، لیکن وہ دوسرے نمبر کی سیاسی طاقت کا خطاب نہ بچا سکی، اور نہرو کے سماج وادی ماڈل ، اور لائسنس راج کی مخالفت اور فری انٹرپرائزیز، اور آزاد معیشت کی تائید کرنے والی سوتنترتا پارٹی ۴۴؍سیٹوں کے ساتھ دوسرے نمبر کی پارٹی بن کر ابھری۔ سوتنتر پارٹی کے قائد اور بانی مشہور مجاہد جنگ آزادی سی راج گوپال آچاریہ تھے۔ یہ پہلی علامت تھی جب آزاد معیشت کی حمایت کرنے والی پارٹی اپنا اثر دکھا رہی تھی۔ ۱۹۶۷ ؁ء کے الیکشن میں یوں تو اس نے اپنے کل ووٹ اور سیٹوں میں اضافہ کیا تھا، لیکن اب ان میں سیاسی اور فکری اختلافات بھی شدید تر ہوتے جارہے تھے۔ اس کا اندازہ ا سی بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ جہاں کمیونسٹ تحریک کی سب سے بڑی سیاسی پارٹی سی پی آئی پچھلے الیکشن کے مقابلے میں سات سیٹیں کم کرکے، ۲۳؍سیٹوں پر کامیاب رہی تھی، وہیں ایک اور نئی کمیونسٹ پارٹی ’’یونائیٹیڈ سوشلسٹ پارٹی‘‘ جارج فرنانڈیز کی قیادت میں ۲۳؍نشستیں جیت کر کمیونسٹ اور سوشلسٹ کنبے میں اپنی قیادت کا دعوی پیش کرنے لگی تھی۔
کمیونسٹ تحریک میں اس رسہ کشی نے نہ صرف کمیونسٹ فکر میں بکھراؤ کا کام کیا، بلکہ اسی بکھراؤ کے سبب کمیونسٹ فکر سے جڑے لوگ الگ الگ سیاسی گروہ میں بٹ گئے۔ اور کچھ لوگ تو جیسے خود جارج فرنانڈیز نے کمیونسٹ فکر کے بالکل مخالف سمت میں جاکر ہندو فرقہ پرست پارٹی بی جے پی کی حکومت بنوانے اور چلانے میں اہم رول ادا کیا، اِن ہی الیکشن میں جنوبی ہندکی ریاستوں اور خاص کر تمل ناڈو میں وہاں کی قوم پرست سیاسی تحریکوں کا آغاز ہوا، ڈی ایم کے نے ۲۵؍سیٹیں جیت کر وہاں کی سیاسی وراثت پر اپنا دعوی پیش کردیا۔ اگلے عام انتخابات ۱۹۷۱ ؁ء میں ہوئے اور اس درمیان (۱۹۶۷ ؁ء تا ۱۹۷۱ ؁ء) ہندوستان کی سیاست میں کئی بڑی تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ جہاں اندرا گاندھی ۱۹۷۱ ؁ء کی جنگ میں کامیابی کے بعد ’’انڈیا اِزاندرا‘‘ میں تبدیل ہوئی، اور غریبی ہٹاؤ تحریک سے ملی ایک لہر میں تبدیل کرنے میں کامیاب رہی، وہی کمیونسٹ پارٹیاں اپنے سیاسی اور فکری اختلافات کے دلدل میں پھنستی چلی گئیں۔ ۱۹۷۱ ؁ء کے انتخابات میں حیرت انگیز طریقے سے کئی کمیونسٹ پارٹیاں ہندوفرقہ پرست پارٹی جن سنگھ اور آزاد معیشت اور اکنامی کو سپورٹ کرنے والی سوتنتر پارٹی کے ساتھ نیشنل ڈیموکریٹک فرنٹ (این ڈی ایف) میں شامل ہوگئیں۔
۱۹۷۱ ؁ء کے انتخابات میں کانگریس نے زوردار واپسی کی، اور ۹۳؍سیٹوں کی بڑھوتری کے ساتھ ۳۵۲؍سیٹیں جیتنے میں کامیاب رہی۔ وہیں این ڈی ایف کے ساتھ گئیں کمیونسٹ پارٹیز جیسے جارج فرنانڈیز والی یونائٹیڈ سوشلسٹ پارٹی اور پرجا سوشلسٹ پارٹی بری طرح ہار گئیں۔ سی پی آئی جو اب دو دھڑوں سی پی آئی اور سی پی آئی ایم (مارکسسٹ) میں بٹ چکی تھی، ملا کر ۱۰؍فیصد پاپولر ووٹ کے ساتھ ۴۸؍نشستیں (۲۵؍۲۳) جیتنے میں کامیاب رہی۔
کمیونسٹ پارٹیز کے اس مظاہرے نے یہ صاف کردیا کہ آزادی کے بعد سے اب تک وہ نہ صرف اپنی انتخابی کارکردگی کو بہتر بنانے میں ناکام رہی ہے، بلکہ اپنے فکری اختلافات نے اس وقت خطرناک صورتحال پیدا کردی، جب ۱۹۶۷ ؁ء میں Land reformکے اشو کو لے کر سی پی آئی ایم میں شدید آپسی اختلافات کی وجہ سے نکسل واد پیدا ہوا، جس سے بعد میں ہزاروں لوگ مارے گئے، اور اب تک یہ ہندوستان کی کئی ریاستوں کو اپنی چپیٹ میں لے چکا ہے۔ جہاں ۱۹۷۱ ؁ء کے الیکشن میں کانگریس بنگلہ دیش جنگ اور غریبی ہٹاؤ تحریک کی وجہ سے اپنی بلندی پر پہنچ گئی تھی، وہیں ۱۹۷۵ ؁ء میں ایمرجنسی نافذ کرنے کی وجہ سے بدترین حالات کو پہنچنے پر مجبور ہوگئی۔
ایمرجنسی کی وجہ سے جہاں ملک کی رائے عامہ شدید طور سے تقسیم ہوئی، وہیں کمیونسٹ پارٹیاں بھی دو بالکل مختلف خیموں میں تقسیم ہوگئیں۔ ۱۹۷۷ ؁ء کے عام انتخابات (لوک سبھا)بنیادی طور سے دو سیاسی خیمہ بندیوں (Alliance) میں تبدیل ہوگیا۔ جہاں اب تک کے برخلاف کانگریس کے خلاف جنتا ایلائنس کے نام سے ایک خیمہ وجود میں آیا، جس میں جن سنگھ کے ساتھ کئی کمیونسٹ اور سوشلسٹ پارٹیاں بھی شامل تھیں۔ جہاں سی پی آئی ایم جنتا پارٹی کے ساتھ ایلائنس میں تھی، وہیں سی پی آئی کانگریس کے ساتھ کھڑی تھی۔ ۱۹۷۷ ؁ء کے انتخابات میں کانگریس کو تو بری ہار کا سامنا کرنا پڑا ہی، وہیں اس کے ساتھ ایلائنس والی سی پی آئی کو پچھلے انتخابات کے مقابلے ۱۶؍سیٹیں ہار کر صرف ۷؍سیٹوں پر ہی اکتفا کرنا پڑا۔ یوں تو جنتا ایلائنس کو بھاری کامیابی ملی، لیکن سی پی آئی ایم کی قسمت کا ستارہ بلند نہ ہوسکا۔ بلکہ وہ پچھلی تعداد (۲۵؍) کو بھی برقرار نہیں رکھ سکی۔ اور صرف ۲۲؍ سیٹیں ہی جیتنے میں کامیاب رہی۔ پچھلی بار ۲۳؍ سیٹیں جیتنے والی ڈی ایم کے اس بار صرف ایک سیٹ ہی جیت سکی، اور اس سے ٹوٹ کر الگ ہوئے اے ڈی ایم کے نے ۱۹؍سیٹیں جیت کر وہاں کے سیاسی میدان میں ایک نئی موجودگی درج کرائی۔ دونوں ایلائنس (یعنی کانگریس اور جنتا) میں شامل کمیونسٹ پارٹیاں صرف ۴۱؍سیٹیں ہی جیت سکیں۔ ان میں جنتا ایلائنس کے ساتھ جو کمیونسٹ تھے وہ ۳۳؍سیٹ حاصل کرسکے۔ ان انتخابات نے اس بات کو پختہ کردیا کہ اب کمیونسٹ پارٹیاں نہ صرف فکری طور پر تقسیم ہیں بلکہ وہ ایک دوسرے کے مخالف خیموں میں بھی جاکھڑی ہوئیں۔ ان انتخابات سے ایک بات یہ بھی نکل کر آئی کہ جب ملک میں کانگریس کے خلاف زبردست غصہ اور لہر موجود تھی، اس سخت ترین وقت پر کمیونسٹ پارٹیاں ایک بہتر متبادل کے طور پر ابھرنے میں ناکام رہیں۔ اور اپنی پچھلی کارکردگی کو بھی نہ دہرا سکیں۔ جبکہ آزادی کے بعد کے شروعاتی دس سالوں میں وہ ایک زبردست حزب اختلاف کی شکل میں ابھر کر آئی تھیں۔ ان الیکشن میں کمیونسٹ پارٹی کی کارکردگی سے ایسا لگتا تھا کہ کمیونسٹ پارٹیاں اب ایک جگہ آکر رک گئی ہیں۔
حالانکہ جنتا ایلائنس نے کانگریس کو حکومت سے باہر کردیاتھا، لیکن جنتا ایلائنس ایک مینڈکوں کی فوج ثابت ہوئی، اور اکٹھا نہ رہ سکی۔ اس میں نہ صرف شدید شخصی اختلافات تھے، بلکہ کوئی فکری ہم آہنگی بھی نہ تھی۔ جنتا پارٹی کی حکومت کو ابھی کچھ دن ہی گزرے تھے کہ نہ سلجھنے والی الجھنیں شروع ہوگئیں تھیں۔ جن سنگھ کی ڈبل ممبرشپ کا معاملہ ہو، یا ایمرجنسی کے وقت انسانی حقوق کی تحقیقات کا معاملہ جس کو لے کر پہلے جن سنگھ نے اپنا سپورٹ واپس لیا، اس کے بعد چرن سنگھ نے کانگریس کے سپورٹ سے مرار جی دیسائی کو ہٹا کر پردھان منتری بننے کا خواب دیکھا۔ پہلے تو کانگریس نے چرن سنگھ کو اپنی حمایت کا اعلان کردیا، لیکن پارلیمنٹ شروع ہونے سے پہلے ہی اپنا سپورٹ واپس لے لیا۔ اور چرن سنگھ پردھان منتری کی حیثیت سے پارلیمنٹ کا منھ نہ دیکھ سکے۔ آخر کار ۱۹۸۰ ؁ء میں نئے لوک سبھا انتخابات کرانے پڑے، اور جمہوریت کے کرشمے کے تحت ۳۵۱؍سیٹیں جیت کر (پچھلے سے ۲۷۱؍زیادہ) کانگریس حکومت میں واپس آگئی۔ جنتا ایلائنس بڑی مشکل سے ۳۴؍سیٹوں کا انتظام کرپائی، کمیونسٹ پارٹیاں اس بار کسی ایلائنس کا حصہ نہ بنیں ، اس لیے کمیونسٹ پہلے کے مقابلے میں تھوڑا فائدے میں رہے، اور کل ۵۳؍سیٹیں اپنے کھاتے میں درج کراسکے۔ سی پی آئی ایم اس بار ۱۳؍سیٹوں کے فائدے کے ساتھ ۳۵؍نشستوں پر اور اس کے ساتھ لیفٹ فرنٹ میں شامل اس کی مخالف ایک اور کمیونسٹ پارٹی سی پی آئی ۴؍نشستوں کے فائدے کے ساتھ ۱۱؍سیٹیں جیت سکی۔ اب یہ بات آہستہ آہستہ سامنے آرہی تھی کہ اب کمیونسٹ سیاست کی قیادت سی پی آئی سے نکل کر سی پی آئی ایم کے ہاتھوں میں جاچکی ہے۔ ڈی ایم کے نے اس بار پھر واپسی کی، اور ایک سے اٹھ کر ۱۶؍ پر جاپہنچی، کمیونسٹ پارٹیوں نے واپسی کی کوشش تو کی، لیکن اتنے آگے نہیں جاسکی کہ کوئی متبادل بن سکے۔ ہاں وہ اس درمیان (۱۹۷۷ ؁ء) Land reform کے وعدے کے ذریعہ مغربی بنگال میں مکمل اکثریت کے ساتھ اپنی سرکار بنانے میں کامیاب ہوگئی۔ یہ کمیونسٹ پارٹیوں کی زبردست ناکامی ہی تھی کہ پچھلی بار کانگریس کو زبردست طریقے سے ہرانے والی عوام جب جنتا ایلائنس سے بھی ناامید اور مایوس ہوئی، تو وہ واپس لوٹ کر پھر کانگریس کی جھولی میں جاگری۔ کمیونسٹ پارٹیاں کسی بھی طرح کی نئی امید اور متبادل پیش کرنے میں ناکام رہیں۔ ۱۹۸۰ ؁ء کے انتخابات میں کانگریس نے زبردست واپسی تو کرلی تھی، مگر وہ اس لیے نہیں کہ عوام کو کانگریس میں یقین لوٹ آیا تھا، بلکہ اس لیے کہ جنتا پارٹی بکھراؤ کا شکار ہوگئی تھی، اور ملکی سطح پر کوئی متبادل نہیں بچا تھا۔ اس لیے کانگریس کو زبردست اکثریت حاصل ہونے کے باوجود عوام کانگریس سے خوش نہیں تھی۔ اور اس سے اپنا پیچھا چھڑانا چاہتی تھی۔ ۱۹۸۰ ؁ء کے بعد کے سیاسی واقعات نے اسے ثابت بھی کیا۔ اسی درمیان سکھ سیاست اور سکھ قومیت کا مسئلہ شدت کے ساتھ ابھرا، اور آپریشن بلیو اسٹار اور اس میں بھنڈرا والا کے قتل سے ایک نیا سیاسی وسماجی بحران پیدا ہوا، اور سکھ دہشت گردوں کے ذریعہ اندرا گاندھی کا قتل ہوگیا۔ اور اب ظاہر ہے کہ پھر کسی کے لیے کسی موقع کی گنجائش نہیں رہی، بشمول کمیونسٹ پارٹی ۔ ۱۹۸۵ ؁ء میں لوک سبھا کے نئے انتخابات ہوئے، اور جذبات کی سونامی پر سوار ہوکرکانگریس نے تمام ریکارڈ توڑتے ہوئے ۴۱۴؍نشستیں جیت لیں۔
۱۹۸۲ ؁ء میں اینٹی راما راؤ نے ٹی ڈی پی تیلگودیشم پارٹی کی بنیاد ڈالی، وہ ایک مشہور فلمی اسٹار تھے۔ ۱۹۸۵ ؁ء کے انتخابات میں وہ ایک بڑی سیاسی طاقت بن کر ابھرے۔ اور تیس لوک سبھا سیٹوں کے ساتھ حزب اختلاف کے نئے قائد بن کر ابھرے۔ ظاہر ہے کانگریس پارٹی کی زبردست کامیابی کی وجہ سے کمیونسٹ پارٹی بھی اپنی عزت بچانے میں ناکام رہی اور تمام کمیونسٹ پارٹیاں مل کر ۳۳؍سیٹیں ہی جیت سکیں۔ صرف سی پی آئی ایم نے ۲۲؍ سیٹیں جیت کر کمیونسٹ پارٹیوں کو نفسیاتی شکست سے بچانے کا کام کیا۔ماں کی موت اور اس سے اٹھے جذبات کا فائدہ اٹھا کر راجیو گاندھی وزیراعظم تو بن گئے لیکن اس کا فائدہ زیادہ دن تک نہیں اٹھاسکے۔ اور سیاست دانوں کے پسندیدہ کھیل یعنی بدعنوانی کا شکار ہوگئے۔ بوفورس توپوں کی خریداری میں رشوت اور دلالی کے الزامات کے بیچ ۱۹۸۹ ؁ء کے انتخابات کا اعلان ہوا، سامنے پھر کمیونسٹ پارٹیاں یا پچھلا والا حزب اختلاف نہیں تھا، بلکہ ان ہی کے ایک نزدیکی ساتھی اور کانگریس سرکار میں فائنانس اور ڈیفنس منسٹر رہ چکے وی پی سنگھ ایک نئے حزب اختلاف بن کر ابھرے تھے۔ کانگریس پارٹی سے اختلاف کی وجہ سے انہیں نہ صرف منسٹری سے نکالاگیا، بلکہ لوک سبھا کی رکنیت بھی کھونی پڑی۔ بدنام ہوچکی کانگریس یوں تو ۱۹۷؍نشستوں کے ساتھ سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھری لیکن اکثریت سے کافی دور رہ گئی۔ وی پی سنگھ کی جنتا دل کو ۱۴۳؍سیٹیں ملیں، بی جے پی نے وی پی سنگھ کا ساتھ دیا، اور وی پی سنگھ وزیراعظم بننے میں کامیاب رہے۔ رہی بات کمیونسٹ پارٹی کی کارکردگی کی تو وہی ڈھاک کے تین پاتھ، اور ۵۳؍سیٹوں پر ہی کامیابی کا پرچم پھیرا سکی۔ پھر ایک بار کمیونسٹ پارٹی کا بڑا حصہ سی پی آئی ایم (۳۳؍نشستیں) اور سی پی آئی (۱۲؍نشستیں) پر تقسیم ہوا۔ یہ بالکل ٹھہراؤ کی صورتحال تھی، حالانکہ یہ پچھلے الیکشن کے مقابلے میں کچھ بہتر تھی، لیکن اس کارکردگی سے پارٹی ۸۰؍ والے الیکشن کی کارکردگی پر واپس لوٹ گئی تھی۔ یہ ایک قدم آگے اور دو قدم پیچھے والی صورتحال تھی۔ شروع سے ہی وی پی سنگھ کی سرکار بے حد کمزور حالت میں تھی، اور بھاری سپورٹ پر ٹکی ہوئی تھی۔ کئی دہائیوں سے سنگھ کے حمایتی اور فرقہ پرست موقع کی تلاش میں تھے، وی پی سنگھ کے منڈل کے کارڈ (دلتوں اور پسماندہ طبقات کو ریزرویشن) کے جواب میں اس نے کمنڈل(بابری مسجد) کا داؤں چلا، اور وی پی سنگھ رخصت ہوگئے۔ کمیونسٹ پارٹیاں صرف دیکھنے کے سوا کچھ نہ کرسکیں۔ کیوں کہ نہ تو ان کے پاس نمبر تھے، اور نہ ہی سیاسی بصیرت، جو وی پی سنگھ کی سیکولر حکومت کو بچاسکے۔ وی پی سنگھ کی ۱۷؍ماہ کی حکومت کے بعد بی جے پی نے اپنا سپورٹ واپس لے لیا، اور حکومت گرگئی، اور ۱۹۹۱ ؁ء میں نئے انتخابات کا اعلان ہوا۔
راجیو گاندھی کے دور میں ہندوستان نے سری لنکا کے تمل معاملات میں جو اپنی ٹانگ اڑائی تھی، اس کا برا نتیجہ برآمد ہوا، اور راجیو گاندھی تمل ناڈو میں ایک الیکشن ریلی کے دوران ایل ٹی ٹی کے ہاتھوں مارے گئے۔ ظاہر ہے کانگریس ایک بار پھر جذبات کی سونامی کا انتظار کررہی تھی، لیکن عوام اب سمجھ چکی تھی، اور اس پر زیادہ بھروسہ نہیں کرنا چاہتی تھی۔ کانگریس کو جذباتی سیاست کا فائدہ تو ہوا، لیکن اندرا گاندھی کے قتل کے بعد جیسا نہیں۔ اور کل ۲۴۴؍سیٹیں ہی جیت سکی۔ کمیونسٹ پارٹیاں اپنی پرانی پوزیشن پر ہی لنگر ڈالے پڑی رہیں، اور ۵۷؍سیٹوں پر ہی اکتفا کرنا پڑا۔ ایک بار پھر بڑا حصہ سی پی آئی ایم (۳۵؍ نشستیں ) اور سی پی آئی (۱۲؍نشستیں) کے بیچ تقسیم ہوا۔ نرسمہا راؤ وزیراعظم بنے، اور ان کی اوپن مارکیٹ پالیسی اور ملک میں فرقہ واریت کو بڑھاوا دینے کی وجہوں سے کمیونسٹ پارٹیوں کے لیے مصیبتوں اور متحانات دونوں میں اضافہ ہوا۔
نرسمہا راؤ نے بابری مسجد کی شہادت میں بڑا رول ادا کیا، جس سے ملک میں فرقہ واریت اور مذہبی پہچان ایک بڑا اشو بن کر ابھرے۔ یہ بالکل کمیونسٹ پارٹیوں پر سیدھا حملہ کرنے جیسا تھا۔ نرسمہا راؤ نے لبرلائزیشن، پرائیویٹائزیشن، اور گلوبلائزیشن کی پالیسی اپنائی، اور ہندوستان کے بازار کو پوری دنیا کے لیے پوری طرح کھول دیا۔ کمیونسٹ پارٹیوں نے خوب ہائے توبہ مچائی، لیکن ملک کو سمجھانے میں ناکام رہے۔ شائد یا تو ان کی باتوں میں یقین کی کمی تھی، یا شائد ان کے پاس اتنے کم فکری اور پالیسی سطح کے متبادل تھے کہ وہ ملک کو ایک بہتر راستے پر لے جاسکیں۔
ابھی کمیونسٹ پارٹیاں اپنے آپ کو ہندتوافرقہ پرست شناخت، سیاست اور نئی اقتصادی اور معاشی پالیسیوں میں اپنے آپ کو ایڈجسٹ کرہی رہی تھیں کہ ۱۹۹۶ ؁ء کے عام انتخابات آپہنچے۔ ۱۹۹۶ ؁ء کے الیکشن میں کانگریس کی بدعنوانی ایک بڑا اشوتو تھا، لیکن ملک کی اقلیتوں کے لیے بابری مسجد کے بعد کا پہلا الیکشن تھا۔ بابری مسجد تنازعہ نے بی جے پی کو نئی طاقت دی تھی، اور وہ لگاتار اپنی پوزیشن کو مضبوط کررہی تھی۔ کمیونسٹ پارٹیوں کے پاس اب زیادہ کچھ نہیں بچا تھا، کیونکہ اب ایسا لگنے لگا تھا کہ بی جے پی آہستہ آہستہ ایک نئے سیاسی متبادل کے طور پر ابھر رہی ہے۔
بی جے پی کا ابھار خاص کر شمالی ہندوستان کے تناظر میں کمیونسٹ پارٹیوں کی Limitations کو بیان کررہا تھا۔ یوں تو ۱۹۹۶ ؁ء کے الیکشن میں کئی بڑے الٹ پھیر ہوئے، جیسے بی جے پی نے کانگریس کو نمبر ایک کی پارٹی کی حیثیت سے Replace کردیا، اترپردیش میں ملائم سنگھ سماجوادی پارٹی بناکر ایک بڑی سیاسی طاقت بن کر ابھرے، جنتا دل کئی حصوں میں تقسیم ہوگئی، لیکن کمیونسٹ پارٹیاں اپنی زمین سے پوری طرح سے چپکی رہیں۔ انہوں نے اپنا آنکڑہ وہیں ۵۰؍کے آس پاس رکھا ، اور ۵۲؍سیٹیں جیت لیں ، اور پھر اس کا بڑا حصہ سی پی آئی ایم (۳۲؍نشستیں) اور سی پی آئی (۱۲؍ نشستیں) میں تقسیم ہوگیا۔ بی جے پی اور کانگریس سے حکومت تشکیل نہیں دی جاسکی، تو بکھرے ہوئے جنتادل کو یونائیٹڈ فرنٹ کی شکل میں ایک نیا موقع ملا۔ جس میں کمیونسٹ پارٹیاں بھی شامل ہوئیں۔ سی پی آئی ایم کے جیوتی باسو کو تاریخی طور سے وزیراعظم کا عہدہ پیش کیا گیا، اور پارٹی تاریخی غلطی کربیٹھی۔ بعدکے دوسالوں نے دو وزیراعظم (دیوگوڑا، اور آئی کے گجرال) دیکھے۔ جیسا کہ پہلے ہی سے طے تھا کہ جیسے ہی کانگریس اپنے آپ کو بہتر حالت میں محسوس کرے گی، سرکار سے اپنا سپورٹ واپس لے لے گی، ہوا بھی ایسا ہی، ۱۹۹۸ ؁ء میں نئے انتخابات ہوئے۔ کانگریس حالات کا صحیح جائزہ نہ لے سکی، اور اسے صرف ایک سیٹ کا فائدہ ہوا، لیکن اصل فائدہ بی جے پی کو ہوا، اور اپنی سیٹوں میں ۲۵؍ کا اضافہ کرکے اپنی نشستوں کی تعدادکو ۱۸۲؍تک پہنچا دیا۔ بی جے پی نے حکومت کا دعوی کردیا۔ ان انتخابات سے ہندوستان کی سیاست میں ایک بڑا بدلاؤ رونما ہوا، جہاں بی جے پی ۲؍سے ۱۸۲؍سیٹوں والی پارٹی بن کر ابھری، وہیں کمیونسٹ پھر سے ۴۷؍سیٹیں ہی حاصل کرسکے۔ پھر سی پی آئی ایم نے ۳۲؍اور سی پی آئی نے ۹؍نشستیں حاصل کیں، یعنی کہ اب یہ کھونٹے سے بندھی ہوئی پارٹی بن گئی تھی۔
خیالوں کی دنیا سے اتر کر پہلی بارسیاسی حقیقت کا سامنا بی جے پی زیادہ دن تک نہ کرسکی، اور اس بار حکومت لگ بھگ ۱۳؍مہینے کھینچنے میں کامیاب رہی۔ جے للتا کے تریاہٹ کے سامنے بی جے پی کی ایک نہ چلی، اور آئی ڈی ایم کے کی حمایت واپس لینے کی وجہ سے ۱۹۹۹ ؁ء میں سرکار گرگئی۔ ۱۹۹۹ ؁ء میں کرائے گئے عام انتخابات میں بی جے پی ایک بار پھر سب سے بڑی سیاسی پارٹی بن کر ابھری، وہیں کمیونسٹ پارٹی کو بڑا دھچکا لگا۔ سی پی آئی صرف ۴؍سیٹیں ہی جیت پائی، اور اپنی قومی سطح کی پارٹی ہونے کا رتبہ اور حیثیت کھوبیٹھی۔ حالانکہ سی پی آئی ایم ۳۳؍سیٹیں جیت کر کمیونسٹوں کو کچھ تسلی دینے میں کامیاب رہی۔ ان انتخابات میں جہاں کئی علاقائی پارٹیاں جیسے بیجو جنتا دل(اڑیسہ میں)، آندھراپردیش میں ٹی ڈی پی، اور بنگال میں ترنمول کانگریس ایک نئی علاقائی سیاسی طاقت بن کر ابھریں، وہیں بی جے پی ساؤتھ انڈیا میں پہلی بار کانگریس کی کھوئی ہوئی زمین پر اپنا دعوی پیش کررہی تھی۔ پہلی بار بی جے پی کرناٹک اور آندھراپردیش میں۷؍ ۷؍ سیٹیں جیتنے میں کامیاب رہی، ظاہر ہے کہ یہ ایک بڑی کامیابی تھی۔ بی جے پی کے اس نئے قومی ابھار نے اب کسی نئے سیاسی متبادل کی گنجائش کو ختم کردیا تھا۔ جن ریاستوں میں جیسے بہار، آندھراپردیش، مہاراشٹر، جہاں ایک زمانے میں کمیونسٹ پارٹیاں کافی مضبوط ہوا کرتی تھیں، اب وہاں یا تو بی جے پی یا دوسری ریاستی سیاسی جماعتیں کانگریس کی جگہ لے رہی تھیں۔ ظاہر ہے شروعاتی بڑھت کے بعد کمیونسٹ پارٹیاں عوام کو یہ بات سمجھانے میں ناکام رہی تھیں کہ وہ کانگریس کا بہتر متبادل ہوسکتے ہیں۔
بی جے پی نے مذہبی جذبات ابھارکر پچھلے انتخابات جیت تو لیے تھے، لیکن ان کے پاس ملک کو چلانے کے لیے کوئی بصیرت، یا کوئی اوریجنل یا انقلابی ایجنڈا اور پروگرام نہیں تھا۔ اس لیے چاہے خارجہ پالیسی ہو، یا داخلی اور بیرونی تحفظ ہو، بی جے پی نے کانگریس کی ہی پرانی پالیسیز کی پیروی کی، اور کانگریس کی پاکستان پالیسی کو لے کر پانی پی پی کر کوسنے والی بی جے پی اس مورچہ پر بھی شدید لاپرواہی اور ناکامی کا شکار ہوگئی۔ معاشی پالیسی میں تو اس نے پرائیویٹائزیشن کے لیے نہ صرف پردے تک اتار کررکھ دیئے، بلکہ دروازہ ہی اکھاڑ کر ایک طرف رکھ دیا۔ کارگل جنگ اور ہندوستانی پارلیمنٹ پر مشتبہ دہشت گرد حملے نے اسے تقریبا مفلوج بنادیا۔ یو ایس کے قدموں میں جھک کر نیوکلیئر سمجھوتہ ہو، یا پوکھرن سیکنڈ کے بم دھماکے جن سے عزت بچانے کی کوشش تو کی گئی، لیکن گجرات میں مسلمانوں کے قتل عام نے بی جے پی کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک دی، ظاہر ہے بی جے پی پوری طرح سے فیل ہوچکی تھی، اور بڑا بدلاؤ چاہتی تھی۔ ۲۰۰۴ ؁ء کے الیکشن میں عوام کے سامنے پھر کوئی نیا متبادل نہیں تھا۔ کمیونسٹ پارٹیاں اپنی پالیسیز، کام کرنے کے طریقے، اور سیاسی بصیرت کی کمی کی وجہ سے ہندوستانی سیاست میں ایک کونے میں دھکیلی جاچکی تھی۔ عوام نے دو برائیوں میں سے چھوٹی برائی کو چننے کا فیصلہ کیا، اور کانگریس پھر برسراقتدار آگئی۔ کیونکہ بی جے پی نے ملک کو ایک لوٹ بازار میں تبدیل کردیا تھا، گجرات قتل عام، دہشت گردی کے الزام میں مسلم نوجوانوں کی اندھادھند گرفتاری، وغیرہ مسائل نے اس کے خلاف مسلمان ووٹرس کو پوری طرح متحد کردیا تھا۔
مسلمانوں کے اس اتحاد کا تھوڑافائدہ کمیونسٹوں کو ملا تو، لیکن وہ پھر بھی ایک ایسی حالت میں نہ پہنچ سکے کہ حکومت کے بننے اور بگڑنے کے کھیل کو متأثر کرسکیں۔ سی پی آئی ایم نے پہلے کے مقابلے میں بہت اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا، اور ۴۳؍سیٹیں جیتیں، سی پی آئی کے حصے میں دس سیٹیں آئیں۔ لیفٹ فرنٹ نے (کمیونسٹ پارٹیاں) سرکار بنانے کے لیے کانگریس کی حمایت تو کردی، لیکن وہ صرف کچھ مدوں پر کھینچا تان اور دباؤ بنانے تک ہی محدود رہی۔ اب تک امریکہ بھارت کے تعلقات بہت آگے تک بڑھ چکے تھے، اور ان کو روکا نہیں جاسکتا تھا۔ لہذا کانگریس نے ان تعلقات کو مزید وسعت دے دی۔ ظاہر ہے یہ بات کمیونسٹ پارٹیوں کو بہت ناگوار گزری۔ یہ اپنے آپ میں ایک معمہ (mystery) ہے کہ کمیونسٹ پارٹیاں کسی اقتصادی پالیسی یا حکومت کی فرقہ پرست پالیسی یا بڑی سطح پر حقوق انسانی کی خلاف ورزی پر حکومت سے باہر نہیں ہوئیں یا حکومت سے اپنی حمایت واپس نہیں لی۔ بلکہ امریکہ سے نیوکلیئر ڈیل پر انہوں نے سب کچھ اپنا داؤں پر لگا دیا۔ حالانکہ اگر وہ کسی معاشی اور حقوق انسانی سے متعلق مدوں پر اپنی حمایت واپس لیتے تو یہ زیادہ عملی ہوتا۔ کانگریس نے دوسری علاقائی پارٹیوں کی مدد سے میعاد پوری کی، اور ۲۰۰۹ ؁ء تک اپنی نیا کو کھینے میں کامیابی حاصل کی۔
۲۰۰۹ ؁ء کے عام انتخابات کے دوران کانگریس کی مخالف پارٹیاں چاہے وہ بی جے پی ہو یا کمیونسٹ پارٹیاں، اندرونی کھینچا تان اور قیادت کے بحران سے گزر رہی تھیں۔ کمیونسٹ پارٹی کی قیادت اب نوجوان کہلانے والے (Young Turk) پرکاش کرات اور سیتا رام یچوری جیسے لوگوں کے ہاتھ آگئی۔ کمیونسٹ پارٹیاں اپنے سب سے مضبوط گڑھ ویسٹ بنگال میں بھی اندرونی جھگڑوں اور کھینچاتان سے پریشان تھیں۔ ان کو بھی اب ایسا لگنے لگا تھا کہ وہ معاشرے کی امیدوں پر کھری نہیں اتریں۔ اور وہ لمبے وقت تک اب شائد حکومت کرسکیں۔ اس لیے ویسٹ بنگال میں انہوں نے ایک لبرل فاسسٹ انداز اختیار کرلیا۔ بنگال میں مسلمانوں کی تعداد تقریبا پچیس فیصد سے زیادہ ہے۔ اور وہ ایک لمبے وقت سے کمیونسٹ پارٹیوں کو کسی آئیڈیالوجی کی بنیاد پر سپورٹ نہیں کررہے تھے، بلکہ کانگریس کی فرقہ پرست سیاست سے بچنے کے لیے انہوں نے کمیونسٹوں کو اپنی حمایت دی تھی۔
پچھلے تیس سالوں میں پورے ویسٹ بنگال کے عوام عمومی طور سے اور وہاں کے مسلمان خصوصی طور سے پچھڑے پن کا پوری طرح سے شکار ہوگئے۔ جیسے ہی ان کو ایک بہتر متبادل نظر آیا، کمیونسٹ پارٹیاں چاروں خانے چت ہوگئیں۔ اور ۲۰۰۹ ؁ء کے الیکشن میں انہیں تاریخی ہار کا منھ دیکھنا پڑا۔ ان الیکشن میں جہاں کانگریس حکومت میں واپس آگئی اور ۲۰۰؍سے زائد سیٹوں پر کامیاب ہوئی، بی جے پی کو ۲۲؍سیٹوں کا نقصان اٹھانا پڑا۔ کمیونسٹ پارٹیاں بڑی مشکل سے ۲۴؍ سے ۲۵؍ سیٹوں ہی کا انتظام کرسکیں، کمیونسٹوں کی سب سے بڑی تنظیم سی پی آئی ایم نے اپنی ۲۷؍ سیٹیں کھودیں، اور پچھلی بار ۴۲؍سیٹیں جیتنے والی یہ پارٹی صرف ۱۶؍ہی سیٹیں جیت سکی۔ سی پی آئی ۱۹۹۹ ؁ء والی اپنی پچھلی پوزیشن پر واپس چلی گئی اور ۴؍سیٹیں ہی قبضے میں رکھ سکی۔ ستم بالائے ستم ۱۹۷۷ ؁ء سے ویسٹ بنگال ریاست میں لگاتار حکومت کرتی آرہی لیفٹ پارٹیوں کو ۲۰۱۱ ؁ء میں ممتا بنرجی نے بری طرح شکست سے دوچار کیا۔
یہ کل کہانی ہے کمیونسٹ پارٹیوں کی کامیابی یا ناکامی کی۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ کمیونسٹ پارٹیوں نے آزادی کے ۲۰؍سال تک اپنے آپ کو ایک امید اور متبادل کے طور پر تو اکٹھا رکھا، لیکن وہ کوئی بڑی سیاسی متبادل بننے میں ناکام رہی۔ اور پچھلے ۶۵؍سال کی سیاسی تاریخ میں وہ صرف ایک ہی آنکڑوں کے آس پاس جھولتی رہی۔ پچھلے الیکشن میں وہ تاریخی طور پر سب سے نچلی سطح پر پہنچ گئی۔ یہ کہانی یہ بھی بتاتی ہے کہ شروع شروع میں جن علاقوں میں اسے کامیابی ملی تھی، وہ اسی کی قلعہ بندی میں قید ہوکر رہ گئی۔ اور آخر میں ممتا بنرجی نے انہیں اس قلعہ سے بھی باہر نکال کھڑا کیا۔ کمیونسٹ پارٹیوں کے آپسی فکری اختلافات نے نہ صرف ان کے اثر کو محدود کیا، بلکہ آزاد ہندوستان کے سب سے بڑے اور لمبے خون خرابے نکسل واد کو جنم دیا۔جو شائد سیاسی کمیونسٹوں کے خاتمے کے بعد تک جاری رہے۔ یہ تو کمیونسٹ پارٹیوں کا سیاسی حساب کتاب ہے، لیکن لاکھ ٹکے کا سوال یہ ہے کہ ۶۵ ؍سال تک لگاتار متحرک رہنے، تمام حالات بدلنے، اور ہندوستان کے پوری طرح بدل جانے کے باوجود، کمیونسٹ سیاسی تحریکیں ہندوستان میں کیوں کامیاب نہ ہوسکیں۔
فکرکے حدود (limitation of ideology)
کمیونسٹ فکر جس کا دوسرا نام مارکسواد بھی ہے، بنیادی طور سے مارکس کے سیاسی ، سماجی اور معاشی خیالوں پر کھڑی ہے۔ مارکس ۱۹۱۸ ؁ء میں جرمنی کے ایک پروٹسٹنٹ عیسائی کے یہاں پیدا ہوا۔ یہ خاندان نسلا تو یہودی تھا، لیکن یہودیوں کے خلاف پھیلی ہوئی نفرت سے بچنے کے لیے اس نے عیسائیت اختیار کرلی تھی۔ ان کی بنیادی تعلیم طریر اور برلن میں ہوئی۔ انہوں نے فریڈرک ہیگل کے فلسفہ میں دلچسپی لی، اور ڈائیلیکٹک میٹریلزم کی بنیاد ڈالی۔۱۸۴۳ ؁ء کو وہ پیرس چلے گئے، جہاں ان کی ملاقات فریڈرک اینجل سے ہوئی۔ ان کے خیالات سے ناخوش ہوکر ۱۸۴۹ ؁ء میں فرانس حکومت نے انہیں دیس نکالا دے دیا، اور وہ وہاں سے لندن چلے گئے۔ ۱۸۸۳ ؁ء میں ۶۴؍سال کی عمر میں لندن میں ان کا انتقال ہوگیا۔
مارکس نے طبقاتی کشمکش کی تھیوری کو ایجاد کیا، ان کا کہنا تھا کہ مالکانہ طبقات (ownership class)جو کہ پیداوار کو کنٹرول کرتی ہے، اور مزدور طبقات کے بیچ کشمکش کے نتیجے میں سماج ترقی پاتا ہے۔ اس نے سرمایہ داری کو مالدار طبقات کی تاناشاہی قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس طبقاتی کشمکش کے نتیجے میں کسی بھی معاشرے میں اندرونی بے چینی اور کشمکش کی کیفیت پیدا ہوتی ہے۔ اور سرمایہ دارانہ نظام خودساختہ تباہی (self-destruction) سے دوچار ہوتا ہے، اور ایک نیا معاشرہ وجود میں آتا ہے۔ جس میں کوئی مالکانہ طبقات (ownership class) یا مزدور طبقات نہیں ہوتی، یعنی کہ وہ معاشرہ طبقات سے پاک ہوتا ہے، جسے سماج واد یا کمیونزم کہتے ہیں۔ یوں تو سماج واد کی کہانی لمبی ہوسکتی ہے، لیکن کسی سوشلسٹ یا کمیونسٹ سوسائٹی کے وجود کے لیے ۴؍چیزوں کا خاتمہ ضروری سمجھا جاتا ہے۔ کمیونسٹ یہ بات مانتے ہیں کہ اگر کسی معاشرے میں یہ چار چیزیں بنی رہیں تو معاشرے میں طبقات کا وجود بھی رہے گا، اور اس کے نتیجے میں استحصال بھی۔ لہذا کمیونسٹ جن چار چیزوں کو ختم کرنا چاہتے ہیں، وہ یہ ہیں:
(۱) پرائیویٹ پراپرٹی ۔ نجی ملکیت کا خاتمہ: معاشرہ میں جب تک مالک اور مزدور کے تعلقات اور طبقات بنے رہیں گے، معاشرے میں مزدوروں کا استحصال بنا رہے گا۔ اس استحصال کو ختم کرنے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ ذرائع پیداوار(mode of production)پر کسی کا قبضہ ہی نہ ہو۔ اور تمام طرح کے وسائل اور ان سے ہونے والی پیداوار (بشمول ٹیکنالوجی) پر پورے معاشرے کا کنٹرول ہو۔ اس طرح نجی مالکیت کا خاتمہ کردیا جائے، سبھی آدمی اپنے ہنر اور اپنی استطاعت کے مطابق کام کریں، اور سماج (commun) ان کی بنیادی ضرورتیں جیسے روٹی کپڑا اور مکان کی ضرورت پوری کرے۔
(۲) مذہب: مذہب کو مارکس بنیادی طور پر ایک استحصال کرنے والا ادارہ مانتا تھا۔ اور تاریخ میں اس کے کردار کو ایک منفی طریقے سے دیکھتا تھا۔ مارکس کے نزدیک مذہب انسان کے ذہن کی تخلیق ہے، اور سوسائٹی میں طبقات کو پیدا کرنے اور اسے جاری رکھنے میں مدد دیتا ہے۔ مذہب کو مادیت کی بنیادوں پر ثابت نہیں کیا جاسکتا۔ لہذا ایک طبقات سے پاک معاشرے کے وجود کے لیے مذہب کا خاتمہ ضروری ہے۔
(۳) فیملی۔ خاندان: خاندان کا وجود بھی روایتی معنوں میں معاشرے میں طبقات کو بنانے، اور اس کیHierarchyکو بنائے رکھنے، اور سماج کے اندر استحصال میں اپنا رول ادا کرتا ہے، ویسے بھی روایتی معاشروں میں خاندان کی بنیاد مذہب پر ہی ہوتی ہے، اس لیے ایک آئیڈیل کمیونسٹ سوسائٹی میں روایتی خاندان ایک رکاوٹ ہے۔
(۴) ریاست: ریاست بھی بنیادی طور سے طبقات اور اس کے استحصال کو نہ صرف بڑھاوا دیتی ہے، بلکہ اس کے تمام اوزار ریاست سے ہی حاصل ہوتے ہیں۔ اس لیے ایک آئیڈیل کمیونسٹ سوسائٹی کو وجود میں لانے کے لیے اسٹیٹ یونی ریاست کا خاتمہ ضروری ہے۔
اس تناظر میں ہندوستان میں کمیونسٹ پارٹیوں کے مقاصد اور حکمت عملی پر اگر روشنی ڈالی جائے ، تو ان کی ناکامی کی کہانی واضح ہوجاتی ہے۔
ہندوستان بنیادی طور سے ایک مذہبی ملک ہے، اور تقریبا آبادی کسی نہ کسی مذہب سے کسی نہ کسی شکل میں جڑی ہوئی ہے۔ اسی طرح ہندوستان اس وقت بنیادی طور سے ایک فیوڈل ملک تھا، اور ہندوستان میں جائیدادوں پر مالکانہ حق کی صورتحال یوروپی ممالک کی طرح نہیں تھی۔ اسی طرح ہندوستان ایک روایتی سماج تھا، اور فیملی سماج کا ایک بنیادی ڈھانچہ تھی۔ اس طرح جن مقاصد کے تحت یا جس معاشرے کے قیام کے لیے کمیونسٹ پارٹیاں کام کررہی تھیں، وہ ہندوستان کی معاشرتی حقیقتوں کے بالکل برخلاف تھا۔ ظاہر سی بات ہے ان مقاصد پر عوام کو مطمئن نہیں کیا جاسکتا تھا، بلکہ ایک انقلاب کے ذریعہ ہی ان مقاصد کو حاصل کیا جاسکتا تھا، جیسے کمیونسٹوں نے دنیا میں ہرجگہ انقلاب کے ذریعہ ہی اپنے تسلط اور غلبے کو ممکن بنایا تھا۔ یو ایس ایس آر ہو، چائنا ہو، مشرقی یوروپ ہو، یا شمال مشرقی ایشیا کے ممالک ہوں، کہیں بھی کمیونسٹ جمہوری تحریکوں اور طریقوں کے ذریعہ حکومت میں نہیں آئے تھے۔ سب جگہ انہوں نے گوریلا جنگوں، اور فوجوں کے ذریعہ پرانے سسٹم یا نظام کو چاہے وہ معاشرتی ہو، چاہے معاشی ہو، یا سیاسی ہو، وہاں اپنے تسلط اور غلبے کو ممکن بنایاتھا۔ ہندوستانی معاشرہ بھی اس معاملے میں مستثنی نہیں ہوسکتا تھا کہ وہاں کمیونسٹ فکر کے مقاصد کو جمہوری طریقوں سے حاصل کیا جاسکتا تھا۔ ہندوستانی معاشرہ کسی ایک مذہب پر، یا معاشی نظام پر قائم نہیں تھا، اس لیے مارکس نے جو فکر اور حکمت عملی ۱۹؍ویں صدی کے شروع میں یورپی معاشرے کو سامنے رکھ کر تجویز کی تھی، ہندوستان میں اس کی ناکامی طے تھی۔
2n2

حالیہ شمارے

براہیمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے

شمارہ پڑھیں

امتیازی سلوک کے خلاف منظم جدو جہد کی ضرورت

شمارہ پڑھیں