ڈاکٹروقار انور
ما او تیکم من شیئِ وماامنعکموہ ان انا الا خازن اضع ماامرت (راوی ابوہریرہؓ/السلسۃ الصحیحہ 2194)
’’ابوہریرۃؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ؐنے فرمایا : نہ میں تمہیں کوئی چیز دیتا ہوں، نہ کوئی چیز روکتا ہوں۔ میں تو (اللہ کی طرف سے مامور) خازن ہوں، جیسا حکم دیا جاتا ہے ویسا ہی کرتا ہوں۔‘‘
اس حدیث میں اں حضرت ؐنے اپنے کام اور مقام کے بارے میں جو خبر دی ہے اس کا ذکر قرآن کریم میں حکم کےانداز میں موجود ہے۔
ما اتکم الرسول فخذوہ و مانھکم عنہ فانتھوا (الحشر۷) ’’ جو کچھ رسول دیں لے لو، اور جس سے روکیں رک جائو‘‘
اس حدیث میں آں حضرت ؐنے اپنا مقام اور کام ’’ خازن‘‘ بتایا ہے جب کہ ایک دوسری حدیث میں ’’قاسم‘‘ کا لفظ استعمال کیا ہے۔
انماانا قاسم واللہ یعطی (متفق علیہ)۔ ’’میں بانٹنے والا ہوں۔ اللہ دینے والا (عطا کرنے والا) ہے۔‘‘
’’خازن ‘‘ اور ’’قاسم‘‘ دونوں خوبصورت تعبیرات ہیں۔ خازن یا قاسم کا کام حکم کے مطابق دینا اور بانٹنا ہوتا ہے۔ اگر ان کی طرف سے ملے تو اس کا مطلب ہے کہ خزانہ کے اصلی مالک کی طرف سے ہی فیصلہ ہوا ہے۔ خازن ، خزانہ کے حقیقی مالک کے اذن اور اس کی منظوری کے بغیر کچھ عطا نہیں کرتا ہے۔ اور اگروہ کچھ دینے سے منع کر دیتا ہے تو یہ بھی اسی وجہ سے ہوتا ہے کہ مالک حقیقی کی مرضی یہی ہے۔ اس طرف عوام الناس اور مالک حقیقی کے درمیان رابطہ کی کڑی خازن اور قاسم کی بن جاتی ہے۔ مالک حقیقی کی مرضیات کا علم خازن اور قاسم کے ذریعہ حاصل ہو جاتا ہے۔
حقیقت حال کی یہ خبر جو حدیث مذکورہ سے ہم تک پہنچی اس کا مطلب یہ بھی ہوتا ہے کہ اس واسطہ سے جو عطاہوتا ہے اس پر اگر دل میں تنگی ہو یا اس ذریعہ سے جو منع کر دیا جاتا ہے اس کا ملال ہو تو اس کا مطلب صرف یہ نہیں ہے کہ خازن کی ناقدری ہوئی بلکہ اس کا مطلب یہ بھی ہوتا ہے کہ خزانہ کے اصل مالک کاکفر کیا گیا اور اس کے حکم و مرضیات سے روگردانی کی گئی۔ دنیا اور آخرت کی تمام نعمتوں کا حقیقی مالک و آقا اللہ تبارک و تعالیٰ ہے اور انسانوں کے حق میںجو شئے بھی غیر مفید اور ضرر رساں ہے اس سے واقفیت مکمل طور پر رب کائنات کو حاصل ہے کیوں کہ جس شئے میں بھی شر ہے اس کا خالق وہی ہے اور اس کی اجازت کے بغیر کوئی پتہ بھی نہیں ہل سکتا ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنی نعمتوں سے واقف کرانے اور اپنی پیدا کی ہوئی اشیاء کے شر سے مطلع کرنے کی غرض سے زمین پر انبیاء کرام کا ایک سلسلہ جاری کیا جو حضرت محمد مصطفی ؐپر ختم ہوا۔
اس زمین پر جب تک انسانی آبادی آباد ہے اس کے افراد کے لیے اللہ کی مرضیات جاننے کے صرف دو ذرائع ہیں۔ ایک قرآن کریم اور دوسرا سنت رسول اللہ ؐ۔ اور انسانوں تک ان دونوں ذرائع آپ ؐسے ہی پہنچے۔ قرآن کریم آپ ؐکی زبان مبارک پر جاری ہوا اور سنت آپ ؐ کے ہی قول و عمل و سکوت کا نام ہے۔ اس طرح ہمیںجو کچھ ملا ہے وہ یا تو چند عقائد و اعمال میں جن کو اختیار کرنے کی تعلیم دی گئی یا دیگر عقائد و اعمال ہی جن کو اختیار نہ کرنے کی تعلیم دی گئی ہے۔ دوسرے لفظوں میںکچھ دیا گیا اور کچھ دینے سے روک دیا گیا۔ در اصل یہی پورے دین اسلام کا خلاصہ ہے۔
درج بالا حدیث میں آں حضرت ؐنے اپنے آپ کو خازن کہا ہے ۔ اس کا مفہوم یہ ہے کہ آپ ؐ سے کچھ عطا ہونے اور کچھ چیزوں سے روک دیے جانے کہ حیثیت خزانہ کی ہے۔ ملنا بھی نعمت اور روک دیا جانا بھی خیر ہے۔
اس حدیث میں ایک اور پہلو پر روشنی پڑتی ہے۔قرآن کریم کی متعدد آیات میں یہ بات کہی گئی ہے اور مختلف احادیث میں اس کا ذکر موجود ہے کہ انبیاء کرام انسانوں سے اپنے کام کا کوئی اجر نہیں چاہتے ہیں۔ حضرات انبیاء کرام کا اجر اللہ تعالیٰ کے پاس محفوظ ہے اور ان کی کوئی ذاتی غرض دیگر انسانوں سے وابستہ نہیں ہوتی ہے۔ خازن کو خزانہ کے مالک نے بحال کیا ہوتا ہے۔ مالک کی ہی طرف سے اس بحالی کے شرائط اور حدود اور ذمہ داری ادا کرنے کی صورت میں اجر کا تعین ہوتا ہے۔ جو لوگ خزانہ سے خازن کے ذریعہ فائدہ اٹھاتے ہیں ان سے خازن بے نیاز ہوتا ہے۔ ہمارے آقا و سردار سید نا محمد الرسول اللہ ؐنے اپنی تمام توانائی انسانوں تک انسانوں کے خیر کے پیش نظر جومشقتیں جس صبر و استقلال کے ساتھ اٹھائیں اس کی وجہ صر ف یہ تھی کہ وہ اس پر
مامور کیے گئے تھے اور اس کام کو جس احسن طریقہ سے انجام دیا اس کے اجر کے طور پر مقام محمود پر فائز کر دیے گئے۔ تسلیماً کثیراً کثیرا