معاشی مجاہدہ

ایڈمن

امام ابوحنیفہؒ بڑے عالم و فقیہ تھے۔ سلطان منصور کی خواہش تھی کہ وہ چیف جسٹس کا عہدہ قبول کرلیں اور سلطان کے ظلم و جبر کو سندِ جواز فراہم کریں۔لیکن ہزار جسمانی، نفسیاتی اور معاشی دباؤ کے ، انہوں…

امام ابوحنیفہؒ بڑے عالم و فقیہ تھے۔ سلطان منصور کی خواہش تھی کہ وہ چیف جسٹس کا عہدہ قبول کرلیں اور سلطان کے ظلم و جبر کو سندِ جواز فراہم کریں۔لیکن ہزار جسمانی، نفسیاتی اور معاشی دباؤ کے ، انہوں نے یہ بات گوارہ نہیں کی۔ حتیٰ یہ کہ اسی کشمکش میں جان بھی ہار دی۔ ان کے شاگرد ابو یوسفؒ نے اپنے استاد کا مسند درس سنبھالااور امام کے بعد ان کی کمی کو پورا کرنے کی کوشش کرتے رہے۔ لیکن ایک وقت ایسا بھی آیا کہ سلطان ہارون الرشید کی پیشکش کو ٹھکرا نہ سکے۔ کہا جاتا ہے کہ ابویوسفؒ ایک نادار گھرانے سے تعلق رکھتے تھے، ایک دفعہ ان کی خوشدامن صاحبہ(ساس محترمہ) نے طعنہ دیا کہ وہ کوئی کام دھام نہیں کرتے ہیں بلکہ سارا وقت بھاشن دینے میں صرف کردیتے ہیں۔ابویوسفؒ کی غیرت نے جوش مارا اور انہوں نے چیف جسٹس بن کر گویا اپنی ساس کو زبان حال سے بتادیا کہ انکی پہنچ کہاں تک ہے۔
استاد کی عزیمت سے شاگرد کی’ترقی‘ تک ؛ فرق صرف ساس کے طعنہ کا ہی نہیں ہے۔ بلکہ اس میں ابوحنیفہؒ کی مضبوط معاشی استعداد اور ابویوسفؒ کی تنگ دستی کا زبردست کردار ہے۔ کمزور معاشی حالت اکثر و بیشتر بڑے بڑے لوگوں کو وہ کام کرنے پر مجبور کرتی ہے جو انکے فکر و مزاج سے مطابقت نہیں رکھتا۔
بخشش و عطا کو قبول کرنا انسان میں جذبۂ احسان مندی کو فروغ دیتا ہے۔ اگر یہ جذبۂ احسان مندی کسی فرد میں پیدا ہوجائے، تو لازماً یہ جذبہ ، اپنے عطا کرنے والے سے محبت اور اس کی پسند و ناپسند کو قبول کرنے کا داعیہ پیدا کرتا ہے۔ اس لئے انسان کو چاہیے کہ صرف اپنے مالکِ حقیقی کی عطا کا طالب ہو جس نے وہ بخششیں دیں ہیں جن کو قبول کرنا تو الگ،ان سے گریز اور اجتناب بھی ممکن نہیں ہے۔ تاکہ اُسی سے انسان محبت کرے اور اُسی کی پسند و ناپسند کو پیش نظر رکھے۔ انسان کو ہر لحظہ کوشش کرنی چاہیے کہ وہ اپنے ہم مشرف انسانوں کادست نگرنہ ہو، تاکہ دوسروں کے طرز زندگی کے اثرات سے وہ آزاد رہ سکے۔
جب ایک انسان عطاء و بخشش کے حوالے سے اتنا اثر قبول کرنے والا ثابت ہوا ہے ، تو کیا معاملہ ہوگا اس قوم کا جو کہ دیگر قوموںکی عطاء اور عنایت قبول کرتی ہو؟ ؟ممکن ہے آپ یہ سوچ رہے ہوں کہ امت مسلمہ پر، دوسری قوموں اور حکومتوں کی عنایات و مِراعات کا تذکرہ کیا جارہا ہے ۔ اور ان عنایتوں کے نتیجہ میں پیدا ہونے والی اخلاقی، معاشرتی اور نظام حیات کی تبدیلیوں کی طرف اشارہ ہے۔ نہیں! یہاں موقع نوحہ گری کا نہیں۔ بلکہ ایک خوش آئند اصول زندگی کو سمجھنے کا ہے۔ اگر امت مسلمہ ساری انسانیت کو بخشش و عنایت کرنے والی امت بن جائے تو کیاساری انسانیت پر ہم اپنی فکر اور طرز زندگی کے اثرات مرتب کرسکتے ہیں؟ تو جناب، ماضی میں ایسا ہوا ہے اور مستقبل کو انہی بنیادوں پر استوار کیا جاسکتا ہے۔ گویا یہ کہ امت مسلمہ کو سب سے پہلے خود کفیل بننا چاہیے ، تاکہ دیگر اقوام کے برے اثرات ہمارے طرز زندگی پر مرتب نہ ہوں۔ اور اس سے آگے بڑھ کر امت مسلمہ کو دیگر قوموں کی کفالت بھی کرنا چاہیے؛ تاکہ اسلام کی ہمہ گیر دعوت میں قوت اور اثر پذیری پیدا ہوسکے۔
امت مسلمہ کے معاشی استحکام سے متعلق اب ارباب نظر غور و فکر کرنے لگے ہیں۔ جہاں علمی بنیادوں پر یہ کام جاری ہے وہیںعملی میدان میں بھی پیش رفت کی جارہی ہے۔ اس ضمن میں جو توجہ طلب امر ہے وہ یہ ہے کہ ابھی تک اس محاذ پر طلباء و نوجوانوں کا کردار بہت محدود ہے۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان اگر اپنی فنی مہارت کا استعمال نئے تجارتی اداروں اور اس سے متعلق خدمات کے فروغ کے لئے کریں تو ایک طرف یہ امّت کو حکومت کے اثر و رسوخ سے آزاد کرے گا، وہیں وہ روزگار کی فراہمی جیسی بڑی خدمت کو انجام دے سکیں گے۔ یہ بات مسلم طلباء و نوجوانوں کے سامنے بہت کھل کر آنی چاہیے کہ ایک آنٹرپرینیور، یا نئے پن کا مظاہرہ کرنے والے تاجر کے ذریعے سے بہت بڑی دین کی خدمت لی جاسکتی ہے۔ ایسا نوجوان اپنا ایک وسیع حلقہ اثر رکھتا ہے، سماجی و سیاسی دباؤ بنا سکتا ہے، اور اسلام کی دیگر ضروریات کی تکمیل کے لئے وسائل فراہم کرسکتا ہے۔ ؎ جو عالم ایجاد میں ہے صاحب ایجاد ہر دور میں کرتا ہے طواف اس کا زمانہ
ایک عرصہ تک امت مسلمہ کی تعلیمی صورتحال کی بہتری کے لئے جدوجہد کی جاتی رہی۔ اس ضمن میں کئی تجربات ہوئے۔ اور اب امت کے پاس جامعہ ملیہ اور مسلم یونیورسٹی جیسے ادارے موجود ہیں۔ اسی انداز کی جدوجہد معاشی صورتحال کو درست کرنے اور ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کے لئے درکار ہے۔ کئی ادارے ایسے قائم ہونے چاہئیں جو وسیع پیمانے پر تجارت، روزگار اور سرمایہ سے متعلق خدمات فراہم کرسکیں۔اب تک کی کوششیں بڑی سست رفتار رہی ہیں جبکہ سریع تبدیلیوں کے زمانے میں یہ صورتحال ایک انقلابی تبدیلی چاہتی ہے۔ اس جانب اہل علم حضرات اور اجتماعی اداروں کو متوجہ ہونا چاہیے۔اللہ ہمارا حامی و ناصر ہو!

مستجاب خاطر

حالیہ شمارے

براہیمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے

شمارہ پڑھیں

امتیازی سلوک کے خلاف منظم جدو جہد کی ضرورت

شمارہ پڑھیں