تعارف
انسانوں نے ہمیشہ ایسی مشینیں بنانے کی کوشش کی ہے جو خود سوچ سکیں۔ روبوٹس سے لے کر خودکار(آٹو میٹک) مشینوں تک، انسانی ذہن ہمیشہ ایسے کارآمد آلات تخلیق کرنے کی جستجو میں لگا رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب جی -پی-ٹیز (Generative Pretrained Transformers) کی آمد ہوئی، تو اس نے تیزی سے دنیا کی توجہ حاصل کرلی اور انسان کو اپنے قدیم خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کے مزید قریب لے آیا۔
مصنوعی ذہانت یا اےآئی(Artificial Intelligence) کمپیوٹر سائنس کی ایک شاخ ہے جو ایسے سسٹمز تیار کرنے کی کوشش کرتا ہے جس کے ذریعہ سے انسان کی ذہانت اورمسئلہ حل کرنے کی صلاحیتوں (Problem-solving abilities) کو نقل کیا جا سکے۔ یہ سسٹمز بڑی مقدار میں ڈیٹا (معلومات) کو جمع کرتے ہیں، اس کا تجزیہ کرتے ہیں اور اپنے ماضی کے تجربات سے سیکھ کر خود کو بہتر بناتے ہیں۔ اےآئی نے دنیا میں ایسی انقلابی تبدیلیاں برپا کر دی ہیں جو ہمارے آباواجداد کے تصور سے بھی باہر تھیں۔ زندگی کے مختلف شعبہ ہائے حیات میں اےآئی کے بڑھتے ہوئے کردار کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ اس کے ذریعے بے پناہ معاشی ترقی کے امکانات پیش کیے جا رہے ہیں۔ پرائس واٹر ہاؤس کوپرز (PwC) کی ایک رپورٹ کے مطابق، “اےآئی کی ٹیکنالوجیز 2030ء تک عالمی جی ڈی پی میں 15.7 ٹریلین ڈالر یعنی پورے 14 فیصد کا اضافہ کر سکتی ہیں۔”
آج اےآئی سوشل میڈیا سے لے کر کام کرنے کے طریقوں تک، ہماری روزمرہ کی زندگی کے ہر شعبے میں سرایت کر چکا ہے۔
اےآئی کی تاریخ
اےآئی کی تاریخ ہزاروں سال پہلے سے شروع ہوتی ہے جب فلسفیوں اور سائنس دانوں نے ایسی تخلیقات کے بارے میں سوچنا شروع کیا تھا۔قدیم دور میں مختلف موجدوں نے ایسی مشینیں بنائیں جنہیں “آٹومیٹنز” (Automatons) کہا جاتا تھا، جو میکانیکی نوعیت کی تھیں اور بغیر انسانی مداخلت کے حرکت کر سکتی تھیں۔ “آٹومیٹن” ایک یونانی لفظ ہے، جس کا مطلب ہے “اپنی مرضی سے عمل کرنے والا۔” آٹومیٹنز کی ابتدائی مثالوں میں سے ایک مثال 400 قبل مسیح کی ایک میکینیکل کبوتر کی ملتی ہے، جسے مشہور فلسفی افلاطون کے ایک دوست نے تیار کیا تھا۔اس کے کئی سالوں بعد لیونارڈو ڈا ونچی (Leonardo Da Vinci) نے سن 1495ء میں ایک بہت مشہور آٹومیٹن کی تخلیق کی۔
قرونِ وسطیٰ کی بارہویں اور تیرہویں صدی میں، عظیم عربی سائنسدان الجزری نے اسلام کے سنہری دور کی کچھ انتہائی حیرت انگیز میکینیکل تخلیقات بنائیں، جن میں شراب پیش کرنے والا ایک میکانیکل نوکر، پانی سے چلنے والی گھڑیاں اور ہاتھ دھونے والی ایک ایسی مشین جو خود بخود صابن اور تولیہ پیش کرتی تھی۔اسی طرح سے 1726ء میں جوناتھن سُوِفٹ کے مشہور ناول’ گلیورز ٹریولز'(Gulliver’s Travels) میں ’دی انجن ‘ (The Engine) کا تصور پیش کیا گیا، جو ایک بڑی مشین تھی جس کے ذریعہ سے اسکالرز کو نئے خیالات اور جملے تخلیق کرنے میں مدد ملتی تھی۔ یہ کوششیں اے آئی کے ذریعے چیزوں کو دیکھنے اور انہیں ڈیفاین کرنے کی پہلی کوششوں میں سے تھیں۔
جدید دور میں اےآئی کی باضابطہ بنیاد ایلن ٹورنگ(Alan Turing) کے 1950ء کی دہائی میں کیے گئے کام سے شروع ہوئی ، جس کے بعد 1956ء میں ڈارٹ ماؤتھ کانفرنس میں “Artificial Intelligence” کی اصطلاح پہلی بار استعمال کی گئی اور اسے باقاعدہ ایک شعبہ کی حیثیت سے نشان زد کیا گیا۔ ابتدا میں اےآئی میں علامتی استدلال (Symbolic Reasoning) پر توجہ مرکوز کی گئی لیکن 80-1970ء کی دہائی میں کمپیوٹنگ طاقت کی محدودیت کی وجہ سےترقی کی رفتار سست پڑ گئی جسے “AI Winters” کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ 1990ء کی دہائی میں مشین لرننگ کی پیش رفت کے ساتھ اےآئی میں نئی جان پڑی، اور 1997ء میں IBM کے “ڈیپ بلیو” نے شطرنج کے عالمی چیمپئن گیری کاسپروف(Garry Kasparov) کو شکست دے دی۔2010ء کی دہائی میں ڈیپ لرننگ کی بدولت اےآئی میں زبردست انقلاب آیا اور جی پی ٹی ماڈلز نے قدرتی زبان (نیچرل لینگویج) کی پروسیسنگ میں بے مثال ترقی کی۔ آج اےآئی خودکار گاڑیوں، صحت، مالیات اور تخلیقی شعبوں میں استعمال ہو رہا ہے، جو مستقبل میں جنرل اےآئی اور اخلاقی ترقی کی راہ ہموار کر رہا ہے۔
اےآئی کی دنیا
اے آئی اب کوئی مستقبل کا خواب نہیں بلکہ ایک حقیقت بن چکا ہے اوراسے زندگی کے مختلف شعبوں میں ضم کیا جا رہا ہے۔ یہ مالیات، قومی سلامتی، صحت، انصاف، ٹرانسپورٹیشن وغیرہ جیسے شعبوں میں تیزی سے راسخ ہورہا ہے۔ اےآئی پہلے ہی سے بِگ ڈیٹا، روبوٹیکس، اورانٹرنیٹ آف تھنگس جیسی ابھرتی ہوئی ٹیکنالوجیز میں اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ ساتھ ہی جنریٹیو اے آئی نے اےآئی کے امکانات اور مقبولیت کو مزید بڑھا دیا ہے۔ ایسی بے شمار مثالیں موجود ہیں جو بتاتی ہیں کہ اے۔آئی دنیا پر اثر ڈال رہا اور انسانی صلاحیتوں کو اہم طریقوں سے بڑھا رہا ہے۔
اے۔آئی کے کچھ اہم ٹولس درج ذیل ہیں:
افعال
ٹولس
معاون اے آئی (chatbots)
ChatGPT, Claude, Gemini, DeepSeek
ویڈیو جنریشن اور ایڈیٹنگ
Synthesia, Runway, Filmora, OpusClip
نوٹ ٹیکرس اور میٹنگ assistants
Fathom, Nyota
ریسرچ
Deep Research
تحریر (رائٹنگ)
Rytr, Sudowrite
قواعد (گرامر) اور تحریر میں بہتری
Grammarly, Wordtune
سرچ انجن
Perplexity, ChatGPT search
سوشل میڈیا مینجمنٹ
Vista Social, FeedHive
امیج جنریشن
Midjourney, DALL·E 3
گرافک ڈیزائن
Canva Magic Studio, Looka
ایپ بلڈرس اور کوڈنگ
Bubble, Bolt, Lovable, Cursor, v0
پروجیکٹ مینجمنٹ
Asana, ClickUp
شیڈولنگ
Reclaim, Clockwise
کسٹمر سروس
Tidio AI, Hiver
Recruitment
Textio, CVViZ
نالج مینجمنٹ
Notion AI Q&A, Guru
ای میل
Hubspot Email Writer, SaneBox, Shortwave
پریزینٹیشن
Gamma, Presentations.ai
Resume Builders
Teal, Kickresume
وائس جنریشن
ElevenLabs, Murf
اے۔ آئی سے متعلق خدشات
ملازمتوں کا نقصان
یہ اندازہ لگایا جا رہا ہے کہ(اے آئی کے باعث) 2023ء اور 2028ء کے درمیان 44 فی صد ملازمتیں متاثر ہوں گی۔ اگر کمپنیاں اپنے ملازمین کے لیے ٹریننگ پروگرامز شامل نہیں کرتی ہیں تو اے آئی کے پھیلاؤ کے نتیجے میں بے روزگاری میں اضافہ ہو سکتا ہے اور پسماندہ طبقوں کے لیے ٹیکنالوجی کے شعبے میں داخل ہونے کے مواقع کم ہو سکتے ہیں۔
ملازمین کا یہ ماننا ہے کہ ان کے تقریباً ایک تہائی کام اےآئی کے ذریعے انجام دیے جا سکتے ہیں۔ اےآئی نے جہاں ورک پلیس میں کافی ترقی کی ہے، وہیں اس کا اثر مختلف صنعتوں اور پیشوں پر مختلف اور غیر مساوی رہا ہے۔ مثال کے طور پرسیکریٹری جیسی محنت طلب ملازمتیں آٹومیٹ ہونے کے خطرے میں ہیں، لیکن مشین لرننگ ماہرین اور انفارمیشن سیکیورٹی تجزیہ کاروں کی مانگ میں اضافہ ہوا ہے۔
ڈیپ فیک اور غلط معلومات
ڈیپ فیک نے سب سے زیادہ تشویش پیدا کی ہوئی ہے، کیونکہ یہ حقیقت اور فریب کے درمیان حد کو دھندلا اور ختم کرنے کا خطرہ رکھتی ہے۔ اگر ناظرین حقیقت اور جعلی معلومات میں فرق نہ کر سکیں، تو دنیا کو ایک سنگین خطرے کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ ڈیپ فیک کا استعمال سیاسی پروپیگنڈے کو فروغ دینے، مالی دھوکہ دہی کرنے، کسی شخص کی عزت پر حملہ کرنے وغیرہ کے لیے کیا جا رہا ہے۔
ڈیٹا پرائیویسی (Data Privacy)
عوامی ڈیٹا پر اےآئی ماڈلز کی ٹریننگ کے نتیجے میں ڈیٹا سیکیورٹی کی خلاف ورزیوں میں اضافہ ہو سکتا ہے، جو صارفین کی ذاتی معلومات کو بے نقاب کر سکتی ہیں اور اسے عام کر سکتی ہیں۔ کمپنیاں بھی اپنا ڈیٹا شامل کرکے ان خطرات میں اضافہ کرتی ہیں۔ 2024ء میں Cisco کے ایک سروے کے مطابق 48 فیصد کاروباری اداروں نے غیر عوامی کمپنی کی معلومات جنریٹیو اےآئی ٹولز میں داخل کی ہیں اور 69 فیصد کو اس بات پر تشویش ہے کہ یہ ٹولز ان کے انٹلیکچول اور قانونی حقوق کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ ایک ہی سیکیورٹی خلاف ورزی لاکھوں صارفین کی معلومات کو خطرے میں ڈال سکتی ہے اور اداروں کو کمزور بنا سکتی ہے۔ بائیڈن-ہیرس انتظامیہ نے ایک “AI Bill of Rights” بھی تیار کیا ہے، جس میں ڈیٹا پرائیویسی کو اس کے بنیادی اصولوں میں شامل کیا گیا ہے۔
ماحولیاتی تبدیلی کے خدشات
وسیع پیمانے پر اگر دیکھا جائے تو اےآئی ماحولیاتی پائیداری، ماحولیاتی تبدیلی اور ماحولیاتی مسائل پر بڑا اثر ڈال سکتاہے۔ دوسری طرف، اےآئی کو ماحولیاتی تبدیلی کے ایک بڑے مجرم کے طور پر بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ اےآئی ماڈلز کی تیاری اور دیکھ بھال کے لیے درکار توانائی اور وسائل کاربن کے اخراج میں 80 فیصد تک اضافہ کر سکتے ہیں، جو ٹیکنالوجی کے شعبے میں کسی بھی ماحولیاتی تحفظ کی کوششوں کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔ یہاں تک کہ اگر اےآئی کو ماحولیاتی تبدیلیوں کے خلاف استعمال کیا جائے، تب بھی ان ماڈلز کی تعمیر اور ٹریننگ کے اخراجات معاشرے کو پہلے سے زیادہ ماحولیاتی بحران میں ڈال سکتے ہیں۔
سُپر انٹیلیجنس
عوام کے درمیان آج کل کئی ڈراؤنی کہانیاں “ٹیکنالوجیکل سنگولیریٹی” کے بارے میں مقبول ہو رہی ہیں، جہاں سپر انٹیلیجنٹ مشینیں انسانی وجود پر قبضہ کر لیتی ہیں اور یا تو انسانوں کو غلام بنا دیتی ہیں یا ان کا خاتمہ کر دیتی ہیں۔ اگرچہ اےآئی سسٹمز اس سطح تک کبھی نہ پہنچیں، وہ اتنے پیچیدہ ضرور ہو سکتے ہیں کہ بعض اوقات ان کے فیصلے کرنے کے طریقہ کار کو سمجھنا مشکل ہو جائے۔ اس کے نتیجے میں الگورتھمز میں غلطیوں یا غیر ارادی رویوں کو درست کرنے میں شفافیت کی کمی پیدا ہو سکتی ہے۔ بہت سے لوگ پہلے ہی فکر مند ہیں اور ایک ایسی دنیا کا تصور کر رہے ہیں جو اےآئی کے زیر تسلط ہو۔
ڈیپ سیک (DeepSeek)
ڈیپ سیک نے اےآئی انڈسٹری میں ہلچل مچا دی ہے اور امریکہ میں ایپل ایپ اسٹور پر ChatGPT کے بعد سب سے زیادہ ڈاؤن لوڈ کی جانے والی مفت ایپ بن چکی ہے۔
چینی اےآئی اسٹارٹ اپ ڈیپ سیک کی بنیاد 2023ء میں بزنس مین لیانگ فینگ (Liang Feng) نے ہانگژاؤ سٹی میں رکھی تھی۔ جنوری میں ڈیپ سیک نے اپنے پروگرام کا تازہ ترین ماڈل، DeepSeek R1، جاری کیا، جو ایک مفت اےآئی چیٹ بوٹ ہے اور اس کی شکل و صورت OpenAI کے چیٹ جی پی ٹی سے ملتی جلتی ہے۔
ڈیپ سیک کی خصوصیات
اوپن سورس
اوپن اے۔آئی (OpenAI) کے ChatGPT اور Anthropic کے Claude کے برعکس، جہاں ماڈلز، ڈیٹا سیٹس اور الگورتھمز خفیہ رکھے جاتے ہیں، ڈیپ سیک اوپن سورس ہے۔ یعنی یہ کسی کے لیے بھی ڈاؤن لوڈ، کاپی اور مزید ترقی کے لیے دستیاب ہے۔ اس کا کوڈ اور تکنیکی وضاحتیں آزادانہ طور پر شیئر کی گئی ہیں، تاکہ عالمی ڈویلپرز اور ادارے اسے اپنی مرضی سے استعمال اور ترمیم کر سکیں۔
لائسنس کی پابندیوں اور ڈیٹا سیٹس کی پرائویسی کی وجہ سے میٹا اور گوگل کے ماڈل بھی مکمل طور پر اوپن سورس نہیں کیے گئے ہیں۔
کم لاگت
ڈیپ سیک کا ایک اہم فرق اس کی لاگت ہے۔ کچھ رپورٹس کے مطابق یہ 5.6 ملین ڈالر میں تیار کیا گیا تھا – جو Meta کے Llama ماڈل کی لاگت کا صرف 10 فیصد ہے۔ اس سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آیا اےآئی انڈسٹری میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری واقعی ضروری ہے، جس طرح امریکہ کی بڑی کمپنیاں اس پر اربوں ڈالرخرچ کرتی ہیں ؟
پرائیویسی
چیٹ جی پی ٹی مغربی ڈیٹا پروٹیکشن کے معیارات کی پیروی کرتا ہے، جو اسے ان پروجکٹس کے لیے ایک محفوظ انتخاب بناتا ہے جن کو ڈیٹا پرائیویسی کے کمپلایئنس کی سخت ضرورت پڑتی ہے۔دوسری جانب ڈیپ سیک کے ڈیٹا اسٹوریج کے طریقے اور مواد کی نگرانی کی پالیسیاں بعض حساس معلومات کے لیے خدشات پیدا کر سکتی ہیں، خاص طور پر ان پراجکٹس کے لیے جس میں حساس معلومات کے ساتھ تعامل ہوتا ہے یا جن میں غیر محدود تجزیاتی مباحثے کی ضرورت پڑتی ہے۔
سیکیورٹی خدشات
ڈیپ سیک پر پابندی عائد کرنے والے زیادہ تر ممالک کا کہنا ہے کہ وہ اس چینی ایپلی کیشن سے لاحق سیکیورٹی خطرات کے بارے میں فکر مند ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ان کے پاس اس بارے میں کافی معلومات نہیں ہیں کہ صارفین کا ذاتی ڈیٹا اپلیکیشن کے ذریعے کیسے محفوظ یا استعمال کیا جائے گا۔ ڈیپ سیک صارفین سے مختلف ڈیٹا اکٹھا کرتا ہے جس میں ذاتی معلومات، ایپلی کیشن میں چیٹ ہسٹری، صارف کے ڈیوائس اور نیٹ ورک کے بارے میں تکنیکی معلومات وغیرہ شامل ہیں۔ ABC نیوز نے Ivan Tsarynny کی ایک رپورٹ کا حوالہ دیا ہے، جس میں دعویٰ کیا گیا کہ ڈیپ سیک نے “اپنے پروگرامنگ میں کوڈ چھپا رکھا ہے جس میں صارف کا ڈیٹا براہ راست چینی حکومت کو بھیجنے کی صلاحیت موجود ہے۔” مختلف ممالک جنہوں نے ڈیپ سیک پر پابندیاں عائد کی ہیں ان میں تائیوان، اٹلی، آسٹریلیا وغیرہ شامل ہیں۔
سینسرشپ
ڈیپ سیک کو چین کی حکومت کی حساس سمجھی جانے والی معلومات کے حوالے سے جوابات روکنے پر تنقید کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ صارفین نے دیکھا کہ یہ ماڈل ایسے موضوعات پر جوابات دینے سے انکار کرتا ہے جو چینی حکومت کے لیے حساس ہو سکتے ہیں۔ یہ پابندیاں ایپلی کیشن کی سطح پر عائد ہوتی ہیں، اس لیے یہ صرف اسی وقت نظر آتی ہیں جب صارف ڈیپ سیک کے کنٹرول کردہ چینل کے ذریعے R1 سے بات چیت کرے۔
اےآئی میں بھارت کا کردار
بھارت اےآئی میں دنیا میں چوتھے نمبر پر ہے۔ بھارت نے اپنی خود کی بنیاد رکھنے والی اےآئی لینگویج ماڈل تیار کرنے کا اعلان کیا ہے۔ یہ پراجیکٹ جوآئی ٹی وزیر اشونی ویشنو نے لانچ کیا، بھارت کے منفرد ثقافتی، لسانی اور معاشرتی ضروریات کو سمجھنے کے لیے ایک مقامی اےآئی سسٹم بنانے کا ارادہ رکھتا ہے۔ OpenAI کے CEO، سیم آلٹمین کے مطابق، بھارت اےآئی کے لیے دوسرا سب سے بڑا مارکیٹ بن چکا ہے اور پچھلے سال میں صارفین کی تعداد تین گنا بڑھ چکی ہے۔ بھارت کی نوجوان آبادی، انجینئرنگ کے مخصوص شعبے اور خصوصی کورسز کی موجودگی کے پیش نظر، بھارت مستقبل میں اےآئی کے میدان میں ایک اہم کردار اد
ا کر سکتا ہے۔
(مضمون نگار نے A.I&D.S میں انجینئرنگ کیا ہے )