اہرام کے دامن سے نکلتی شعائیں بڑی شادماں تھیں، ہواؤں میں تازگی تھی، پرندوں کی آواز میں نغمگی تھی، دریائے نیل کی موجیں رقصاں تھیں،لوگوں کی آنکھوں میں چمک تھی،ہونٹوں پر مسکراہٹ تھی،دل خوشی سے اچھل رہے تھے،سب ایک دوسرے سے بڑی محبت والفت کے ساتھ بغل گیر ہو رہے تھے ۔ہر ایک اپنے اپنے انداز میں خوشی کا اظہار کر رہا تھا۔ جامعہ ازہر کا پروفیسر کیا ! اور قاہرہ کی گلیوں کا سبزی فروش کیا!آج سب ہی یکساں خوش تھے۔
آج 18؍جون 2012ء کو بالآخر ان کاصدیوں کا انتظار ختم ہوا تھا ۔ اپنی خودمختاری کا خواب آنکھوں میں سجائے انہوں نے ایک لمبا عرصہ یوں ہی گزار دیا تھا۔ان کے ملک کی اونچی اونچی عمارتیں ،لمبی لمبی سڑکیں ،نیا طرز زندگی ،گفتار میں جدت ،تعلقات میں وسعت، دیکھ کر تو ایسا لگتا تھا کہ وہ ایک خوش حال زندگی جی رہے ہیں، ان کے اٹھتے قدم ترقی کی راہ پر گامزن ہیں، لیکن ان اونچی عمارتوں کی خاموشی،ان لمبی لمبی سڑکوں کی ویرانی ،مصنوعی طرز زندگی کے کڑوے گھونٹ، کردار سے خالی گفتار، حکمرانوں کی من مانی ،صدر کی بے رخی ،بے لگام وزیروں کے تیور، اس فرسودہ طریقِ حکمرانی سے وہ بہت پریشان ہو چکے تھے۔ان کے مضبوط اعصاب جواب دینے لگے تھے۔ اب وہ بدلاؤ چاہتے تھے ایسا بدلاؤجو ان کی زندگیوں میں صحیح معنوں میں خوشیاں لا سکے، کامیابی اور ترقی کی راہ ہموارہوسکے ،تعلیم و تدریس کے مواقع فراہم ہو سکیں،بے روزگاری کی لعنت ختم ہو ۔ ایک ایسا صدر ہو جو فوجی کرنل ،جنرل نہ ہوبلکہ ان ہی میں کا ایک ہو،جو انہیں سمجھتا ہو، اور ان کا درد محسوس کرتا ہو۔
مصری عوام کے اس جذبے اور خواہش نے بالآخر2011ء میں مصر میں عوامی انقلاب کی بنیاد ڈال دی، اوروہاں کے صدر حسنی مبارک کو اقتدا ر سے بے دخل کر دیا ۔ان سے ایک جمہوری نظام کا وعدہ کیا گیا۔انتخابات کو دھاندلیوں سے بچانے اور آئین کے مطابق صاف شفاف انتخابات کرانے کے لئے الیکشن کمشنر نے بہت سے امیدواروں کی درخواستوں کو رد کردیا اور بڑی جانچ پڑتال کے بعد ہی امیدواروں کی درخواستیں منظور کی گئیں۔
اس لئے جب مصر کے باشندوں کو اپنی آزادئ رائے کے صحیح استعمال کا موقع ملا تو ان کی نگاہیں ’’فریڈم اینڈ جسٹس پارٹی‘‘ پر جاٹکیں ،جس کے نمائندے حب وطنی سے سر شار، لوگوں کے غم گسار ، اصلاح معاشرہ کے لیے فکر مند ، عزم کے پختہ، خدا ترس اور علم جدید سے مسلّح، اپنے ملک و ملت کے مسائل سے آشنا اور ان کے سدّ باب کے لئے کوشاں تھے،جن کی نمائندگی عوام کے چہیتے اور ہر دلعزیز شخص ڈاکٹر محمد مرسی کر رہے تھے۔
آپ نے1982ء میں کیلیفورنیا سے انجینئرنگ کی ڈگری حاصل کی اور اس کے بعد یونیورسٹی آف کیلیفورنیا،یونیورسٹی آف لوس انجیلز امریکہ، جامعۃ الفاتح اللیبیہ اور یونیورسٹی آف قاہرہ میں علمی خدمات انجام دیتے رہے۔
آپ ایک بند کمرے کے معلم اور استاد نہ تھے بلکہ عوم الناس سے ہمیشہ آپ کی وابستگی رہی۔ اصلاح معاشرہ اور نوجوانوں کی رہنمائی کا فریضہ آپ پوری تندہی اورجگرسوزی سے کرتے رہے، آپ کی عوام دوستی اور خدمت خلق کے بے لوث جذبا ت نے1992ء میں اخوان المسلمون کی سیاسی ونگ کا آپ کو باقاعدہ ممبر بنا دیا ۔ 2000 ء میں ڈاکٹر محمد مرسی نے پارلیمانی انتخابات میں حصّہ لیا اور نمایاں کامیابی حاصل کرکے ’’الکتلۃ البرلمانیہ للاخوان‘‘ کے ترجمان کی خدمات انجام دینے لگے۔
عوام کے مسائل کو لے کر آپ نے 2006ء میں صدائے احتجاج بلند کی، ان کے مسائل کو حل کرنے کی اس جدو جہد نے آپ کو 6 ء ماہ کے لیے جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا، اور جب 2011ء میں ’’فریڈم اینڈ جسٹس پارٹی‘‘ کی بنیاد پڑی تو آپ کو اس کا صدر منتخب کر لیا گیا ۔
مصر کے عوام کے سامنے یہ بالکل پہلا موقع تھا کہ انتخابات بالکل صاف شفاف ہونے جارہے تھے، اور وہ اپنے ووٹ کے استعمال میں پوری طرح آزاد تھے، ان کی آزادی رائے کے صحیح استعما ل ہی میں ان کے اور ان کے بچوّں کا روشن مستقبل پنہاں تھا ۔ورنہ ہمیشہ سے تو ان پر کوئی بادشاہ ،گورنر ،سلطان یا صدر مسلط کر دیا جاتا تھا، جس میں ان کی مرضی اور پسند کا کوئی دخل نہیں ہوتا تھا۔ وہ اپنے حکمراں کو پسند کرتے ہوں، یا نہ کرتے ہو ں، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا، وہ اپنی پسند اور جذبات کوسینے میں دبائے ،محدود و سائل میں ہی اپنے خوابوں کی تعبیر تلاش کرتے تھے۔ صدیوں سے نہ انھیں غریب کادوست، رعایا کا ہمدرد حضرت یوسف جیسا فرماں روا ملا ،نہ عمر وبن العاص جیسا حکیم و دانا گورنر ملا، نہ عمر بن عبدالعزیز جیسا عادل خلیفہ ہی ملا جس نے خلافت ملتے ہی رعایا میں اعلان کرادیا :
’’اے لوگو! میں تمہاری مرضی معلوم کیے بغیر تمہارا خلیفہ بنا دیا گیا ہوں میں تمہیں اپنی بیعت سے آزاد کرتا ہوں تم جس کو چاہو اپنا خلیفہ منتخب کر لو‘‘۔
آزادی رائے کی اس سے مضبوط آواز سر زمین عرب ہی کیا، اس پورے کرۂ ارض نے اس کے بعد کبھی نہیں سنی۔ ہاں! لیکن وہ خوشی اور وہ امید جو اس اعلان کے بعد رعایا کی آنکھوں میں چمک رہی تھی وہ آج مصر کے باشندوں میں بھی نظرآ رہی تھی۔
انہوں نے اپنی آزادی رائے کا استعمال کرکے ’’فریڈم اینڈ جسٹس پارٹی‘‘ کو (1,89,95,083) 51.73% ووٹ سے نمایاں کامیابی دلاکر ،اپنی امیدیں اور برسہا برس سے دبائے جذبات کو نو منتخب صدر ڈاکٹر محمد مرسی کے حوالے کر دیا ۔اپنے انتخاب پر وہ بہت مطمئن اور خوش تھے ۔ان کا یہ صدر پہلا ایسا صدر تھا جو ان ہی میں کا ایک عام شہری تھا، ورنہ اس سے پہلے کے صدر، فوج کے افسران ہوتے تھے ۔جو یا تو با لجبر حکمراں بنے تھے یا خوف کی ایک لہرکے ساتھ وہ حکومت کی کرسی تک پہنچے تھے۔
اقتدار میں آتے ہی ’’فریڈم اینڈ جسٹس پارٹی‘‘لوگوں کے خوابوں کی تعبیر تلاش کرنے میں لگ گئی ۔ مسائل کے دلدل میں پھنسے مصر کو ترقی کی راہ پر لا کھڑا کرنے کی کوششیں تیز کر دی گئیں۔
مصر کا سب سے بڑا مسئلہ سیاسی بحران تھا، اس کو ختم کرنے کے لئے صدر مرسی نے اپنی اور اپنے عہدے کی اصلاح سے کام شروع کیا ، ایوان صدار ت پر خرچ ہونے والی بے حساب دولت کو محدود کیا۔اپنے وزراء کو سادگی اپنانے کا حکم دیا۔ سیاسی مفاہمت کو قائم کرنے کے لئے اپوزیشن میں بیٹھے سیاستدانوں کو بھی وزارتیں دیں۔
بڑی پوسٹ پر بیٹھے ذمہ داروں کو ان کے عہدے پر بحال رکھا۔میڈیا کو مکمل آزادی دی ۔اپنے ملک کی فوجی قوت کو بڑھانے اور انتشار سے بچانے کے لئے عبدالفتاح سیسی کو وزیر دفاع اور آرمی چیف جنرل بنایا۔
صدر محمد مرسی کے سامنے مصر کی گرتی معیشت بھی ایک بڑا چیلنج تھی، ا س چیلنج کا سامنا کرنے کے لئے آپ نے اور آپ کے وزراء نے،زراعت، آبپاشی، قومی و بین الاقوامی تجارت پر توجہ مرکوزکی۔نوجوانوں اور بے روز گاروں کو روزگار فراہم کرنے کے لئے مختلف اسکیمیں چلائی گئیں، اوربہت سے منصوبے بنائے گئے۔ بیرونی ممالک سے اپنے رشتے کو بہتر بنانے ،یکجہتی ،آپسی تعاون ،بیرونی مسائل میں شرکت اور امن و امان کا ماحول باقی رکھنے کے لئے مختلف ممالک کے دورے کئے جانے لگے۔ اپنے پڑوس میں انسانی تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے اسرائیل کا دورہ کیا۔ غزہ اور اسرائیل کے درمیان چل رہی جنگ کو بند کرانے میں اہم رول ادا کیا ۔غزہ کے لوگوں کی خستہ حالت کو بہتر بنانے کے لیے آپ نے غزہ کے تمام راستے کھول دئیے۔
صدرمحمد مرسی کے ترقیاتی کاموں کی راہ میں حسنی مبارک کے زمانے سے بڑی بڑی پوسٹوں پر براجمان بے لگام عہدیدار ان ر کاوٹیں کھڑی کرنے لگے۔ چنانچہ آپ نے ان کے خلاف کارروائی کی،اور جن کو سبک دوش کرنا ممکن تھا،ان کو سبک دوش کر دیا،اورنا اہل عہدیداروں کی جگہ با صلاحیت افراد لائے۔
اسی طرح 1981ء سے صدارت کی کرسی پر براجمان حسنی مبارک نے قانون اور آئین کو اپنے مفادات ا ورخواہشات کے تابع بنا رکھا تھا، جس میں اصلاحات بہت ضروری تھیں،’’فریڈم اینڈ جسٹس پارٹی‘‘نے قانون میں جمہوری قدروں کا لحاظ رکھتے ہوئے ترمیمات کیں۔اس پر اپوزیشن نے صدر مرسی اور ان کی پیش کردہ قانونی ترمیمات کو روکنے کے لیے زبر دست ہنگامہ بر پا کیا، جگہ جگہ حکومت مخالف مظاہرے کرائے۔ لوگوں کو یہ باور کرانے کی کوشش کی گئی کہ نیا قانون کہتا ہے اس کا مرجع قرآن ہوگا جو آزادی نسواں کے لیے خطرہ ہے ،جمہوریت کا د شمن ہے!
نئے قانون کے خلاف ماحول بنانے کے لیے اپوزیشن نے سارے حدود پارکر دئیے، وہ صدر مرسی کی حکومت گرانے کا اسے سنہری موقع تصور کرتے تھے۔محمد البرداعی نے اسلا م کا مذاق اڑاتے ہوئے کہا: ’’حدیث رسول سے آزادی رائے بہتر ہے! ‘‘
احمد شفیق نے کہا :’’مصر میں اسلام کا کوئی عمل دخل نہیں ہوگا ۔‘‘
لیکن باشعورمصری عوام نے ا س طرح کی گمراہ کن باتوں پر کوئی توجہ نہیں دی،کیونکہ ان کے سامنے اپنے صدر کا عملی نمونہ تھا، ایک بوڑھیا اپنا علاج نہ ہو پانے پر صدر مرسی کو اللہ کے سامنے جواب دہی کی دھمکی دیتی ہے اور ہاسپیٹل کا اسٹاف یہ دیکھ کر ششد رہ جاتا ہے کہ مصر کا صدر اس بوڑھیا کو تلاش کرتا ہوااس تک پہونچ گیا ۔
انصاف پسند اتنے کہ اپنے ہی بیٹے کو جاب کی سفارش سے منع کر دیتے ہیں،اور کیو ں نہ ہو !جو قرآن ان کا دستور، اور ان کا قانون تھا، اس کے شارح رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ عالم تھا کہ رات کو مدینہ کی گلیوں میں گشت کرتے تاکہ وہاں کے عوام سکون کی نیند سو سکیں۔
خلیفۂ اوّل اپنے پہلے ہی خطبے میں یہ اعلان کرتے ہیں کہ: ’’تم میں کا کمزور آدمی میر ے نزدیک اس وقت تک قوی ہے جب تک میں اسے ظالم سے اس کے حقوق نہ دلا دوں۔‘‘
جب قرآنی تعلیما ت ا ور نبوی ہدایات کے مطابق قانون سازی ہوئی، تو لوگوں کی آزادی اور بیباکی کا عالم یہ تھا کہ حضرت عمرؓ سے مسجد نبوی میں ایک شخص پوچھتا ہے کہ ’’لوگوں میں ایک چادر تقسیم کی گئی آپ نے دو چادریں کہاں سے اوڑھ لیں ؟‘‘
اموی خلیفہ عمر بن عبدالعزیز نے جب قرآن وحدیث کو اپنی سلطنت کا دستور قرار دیا تو صرف دو سال کی قلیل مدت ہی میں آپ کی رعایا کے درمیان کوئی ایک شخص بھی غریب ،بھوکا اور بے سہارا نہ بچا۔حمص ،مصر ،عراق ہر جگہ اعلان پر اعلان کرایا جاتا کہ جو کوئی صدقے کا ضرورت مندہو بیت المال سے سے اپنا حق لے لے۔ محاسب دن بھر انتظار کرتا ، پر کوئی نہ آتا ۔
دنیوی زندگی کو سب کچھ سمجھنے والے ذہن لا محدود او رغیر قانونی عیش کے خواہش مندہوتے ہیں ۔ اسی لئے شراب نوشی ،جسم فروشی اور نائٹ کلبوں پر لگائی جانے والی پابندیاں ان کو ایک آنکھ نہیں بھاتیں، اسکرٹ پہننے پر پابندی لگائی جائے تو یہ آزادی کے خلاف تصور کیا جا تاہے ، عین اسی وقت جب اسکارف پر پابندی لگتی ہے تو وہ قانون کے مطابق کہلاتا ہے !
انسان جدت پسندی میں جب غرق ہوتا ہے تو اس کی حیثیت ان پتنگوں کی طرح ہوتی ہے جو رات بھر شمع کے چاروں طرف منڈلاتے اس محدود روشنی میں گم ،بدمست ہوتے ہیں لیکن روشنی کا منبع سورج صبح سویرے آسمان سے جیسے ہی جھانکتا ہے ان کے کمزور اعصاب جواب دے جاتے ہیں ۔
اسی طرح انسان اپنے مفاد کی خاطر دوسروں کے نقصان کی پرواہ کرنا ضروری نہیں سمجھتا ، اپنے سامان عیش کے لئے کسی کا حق مارنے سے نہیں چوکتا ،طریق زندگی اختیا ر کرنے میں اسے کسی کی بالادستی پسند نہیں آتی ۔اسی لیے جب اسلام تمام انسانیت کے حقوق کی حفاظت کے لیے، اور پاکیزہ معاشرے کو سجانے کے لیے کہیں سختی اختیار کرتا ہے تو غیر تربیت یافتہ ذہن اس کے خلاف اٹھ کھڑے ہو تے ہیں ۔وہ اس روشنی کی تاب نہیں لاپاتے ۔
اسی لئے جب ’’فریڈم اینڈ جسٹس پارٹی‘‘نے قانون کا مرجع قرآن کو قراردیا تو اپوزیشن اپنے حامیوں کے ساتھ سڑکوں پر نکل آئے اور روز مرہ کی زندگی کو درہم برہم کرنے لگے۔ ’’فریڈم اینڈ جسٹس پارٹی‘‘نے قانون کی بالادستی قائم رکھنے ، عوام کو انتشار سے بچانے اور مصر میں امن کا ماحول برقرار رکھنے کیلئے ’’ریفر ینڈم ‘‘ کرایا،اس میں عوام نے اسے 60 فیصد سے زیادہ ووٹ دے کر نئے قانون پر اپنا اطمینان ظاہر کیا۔
’’فریڈم اینڈ جسٹس پارٹی‘‘ نے ایسے دور میں قرآن وسنت کو قانون کا منبع تسلیم کیا جبکہ دنیا میں سیکولر، جمہوریت پسند یا بڑی بڑی جماعتیں اور خاندان حکومتیں چلارہی ہیں۔ایسے میں اسلام کا ابھرنا اور لوگوں کا اس کی طرف راغب ہونا ،کیسے پسند کیا جاتا؟
مصر کے امن اور ترقی کی طرف بڑھتے قدم دیکھ کر دوسرے عرب ممالک میں بھی عوامی انقلاب کی چنگاریاں چمکنے لگیں۔یورپ و افریقہ کے اہل قلم اور دانشور صدر محمدمرسی کی تعریف کرتے نظر آنے لگے۔ عوام کے درمیان اسلامی طرز حکمرانی اور اس کے بنیادی سورسزپر مجالس و مباحث ہونے لگے جس سے دیگر ممالک کے حکمرانوں کو آنے والے ایام میں مختلف مقامات پر سر اٹھاتے عوامی انقلاب نظر آنے لگے ۔
اسی کے دوران ’’فریڈم اینڈجسٹس پارٹی‘‘کی جانب سے غزہ مصر کی سرحدوں کو کھولنے اور غزہ کے انسانوں کو آزادی فراہم کرنے سے اسرائیل اور اس کے ہم نواؤں کی نیندیں اڑ گئیں۔عرب ممالک میں عوامی انقلاب کے خطرے نے عرب حکمرانوں کو مصرکی جمہوری حکومت کے خلاف سازشوں میں مشغول کر دیا ۔احمد شفیق ،عمر و موسیٰ،محمد البرداعی اور حسنی مبارک کے اسلام دشمن نمک خواروں کو پہلے تو الیکشن میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا اور پھر دوبارہ ریفرنڈم کے موقع پرعوام نے انہیں زمین پر دے ماراتھا ۔اپنی ان ناکامیوں سے یہ لوگ بھی بوکھلائے ہوئے تھے ۔
ان سب کو صدر محمدمرسی کے خلاف سر گرم دیکھ کر ناکام سیاستدانوں اور فوج کے کرنل عبدالفتاح سیسی میں صدر بننے کی خواہش انگڑائی لینے لگی۔ بالآخر ان اسباب و محرکات نے مل کر صدر مرسی کے خلاف ا یسا محاذ کھولا کہ عوام کے پاسباں ’’فریڈم اینڈ جسٹس پارٹی‘‘ کے افراد اپنی حکومت کو بچا نہ سکے۔کیونکہ فوج نے اپنے ہتھیا ر ،اپنی توپوں اور اپنی بندوقوں کا نشانہ اس عوام کی طرف کر رکھا تھا جو صدر مرسی کے حق میں اپنے روزمرہ کی مشغولیات کو پس پشت ڈال کر سڑکوں پر آگئے تھے ۔جس عوام کی فلاح و بہبود کا خواب سجائے صدر مرسی اور ان کے وزراء دن رات ایک کئے ہوئے تھے۔
وہ اپنے معصوم عوام کا بہتا خون کیسے دیکھ سکتے تھے۔ شہید ہوئے جوانوں،بیوہ ہوئی عورتوں، بلبلاتے بچوں کے آنسوؤ ں نے صدر مرسی اور ان کے وزراء کو بیک فٹ پر لا کھڑا کیا، وہ ان خونی کارروائیوں کو آپسی مفاہمت سے ختم کرنا چاہتے تھے،لیکن مخالفین کے ارادے تو ان کی ہستی ختم کرنے کے تھے ۔ وہ تو ’’فریڈم اینڈ جسٹس پارٹی‘‘کا پوری طرح صفایا کرنا چاہتے تھے تاکہ کوئی دوبارہ ان کی من مانیوں کے خلاف انصاف کا علم بلند کرنے نہ کھڑا ہوجائے اور عوام ان کی شکایتوں کو لے کر کسی دوسرے کے سامنے نہ جاسکیں۔با لآخر اس خونی اور انسان دشمن کارروائیوں نے جولائی 2013 میں فوجی انقلاب برپا کرکے سیسی کو صدارت کی کرسی پر لابٹھایا۔
ہر بار کی طرح اس بار بھی فوجی صدر نے عوام میں خوف وہراس کی ایسی لہر دوڑا دی، کہ مصری میڈیا اور مصر کے اصحاب قلم و زبان میں شاذ و نادر ہی کوئی ایسا تھا، جوحکومت کے بارے میں آزادانہ و منصفانہ اظہار خیال کر سکے ۔
ساتھ ہی ساتھ اپنے گناہوں کو چھپانے ،ظلم و بربریت کے خوں چکاں واقعات پر نسیان کا پر دہ ڈالنے،ملک کے مختلف مقامات سے اٹھنے والی مظلوموں کی آوازوں،اور معصوموں کی چیخ وپکار کو دبانے کے لئے اور خود کو انصاف پسند ،ترقی پر گامزن ، اور انسانیت دوست ثابت کرنے کے لیے ضروری تھا کہ مصر کی سر زمین پر بہنے والے لہو کا مور دِ الزام کسی کو ٹھہرایا جائے، عدالتیں قائم کی جائیں، اور دنیا کے سامنے اپنے من مانے فیصلوں کو عدلیہ کے نام سے پیش کیا جائے ۔
چنانچہ جمہوری صدر محمد مرسی اور ان کے رفقاء کو غلط اوربے بنیاد الزامات کی بیڑیاں پہنا کر جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا گیا،اور ایسی عدالتیں قائم کی گئیں جو آئے دن جمہوری صدر ڈاکٹر محمد مرسی اور ان کے رفقاء کو سزائے عمر قید ، یاسزائے موت سنا کر دل ہی دل میں مچلتی ہیں کہ ہم نے اپنے آقاؤں کوخوش کر دیا ۔
غاصب اور خوں خوار صدر سیسی کو لگتاہے کہ میری راہ ہموار ہو گئی،لیکن کیا اس کے کانوں نے صدر مرسی کے فرزند اسامہ مرسی کے یہ بے باک جملے نہیں سنے؟
’’ظالموں کویہ معلوم ہونا چاہئے کہ ا ن فیصلوں سے ہمارے عزائم پر کوئی اثر پڑنے والا نہیں ،ان سے نہ تو ہمارے قدم ڈگمگانے والے ہیں،نہ مصر کی تحریک آزادی ان سے کمزور پڑنے والی ہے اس تحریک کا محورکبھی اشخاص نہیں رہے ہیں‘‘۔
سرزمین مصر کے ان سپوتوں پر ہمیں ناز ہے، جو جہاں بھی رہے اپنے رب کی عظمت و کبریائی کے نعرے لگاتے رہے،اس کی حاکمیت کے گن گاتے رہے،اس کے بتائے ہوئے طریقے پر زندگی گزارتے رہے،اور اسی میں دل کا سکون اور زندگی کے مسائل کا حل تلاش کرتے رہے!
اسلام زندہ باد !! جاں نثاران اسلام پایندہ باد !!
برہان بن غفران صدیقی، نئی دہلی