مصر میں بحالئ جمہوریت کی کشمکش

ایڈمن

14؍ اگست 2013ء مصر کے اسلام پسند عوام کے لئے ’’یومِ بربریت‘‘ تھا۔ ایک ویب سائٹ کے انداز ے کے مطابق 30؍ملین (یعنی 3؍کروڑ) عوام مستقل 6؍ہفتوں سے پرامن احتجاج کررہے تھے اور جمہوریت کی بحالی کا مطالبہ کررہے تھے۔…

14؍ اگست 2013ء مصر کے اسلام پسند عوام کے لئے ’’یومِ بربریت‘‘ تھا۔ ایک ویب سائٹ کے انداز ے کے مطابق 30؍ملین (یعنی 3؍کروڑ) عوام مستقل 6؍ہفتوں سے پرامن احتجاج کررہے تھے اور جمہوریت کی بحالی کا مطالبہ کررہے تھے۔ دیکھتے دیکھتے ملٹری ٹینکوں نے عوام کا محاصرہ کرلیا، اوپر سے ہیلی کاپٹر بھی پرواز کرنے لگے، بلڈوزرس بھی فوج کی خدمت کے لئے حاضر ہوگئے، پھر کیا تھا گولہ بارود داغے جانے لگے، اوپر سے بھی آگ برسنے لگی، ٹینکوں کے پہئے معصوم اور نہتے احتجاجیوں کو روندتے جارہے تھے۔ بھاگنے والوں کے تعاقب کے لئے پہلے سے کرائے کے غنڈے مہیا کرلئے گئے تھے جو پتھر، چاقو، خنجر، تلوار اور لاٹھیوں سے حملے کررہے تھے۔ لاشتیں گررہی تھیں، خون کے فوارے ابل رہے تھے مگر اسلام کے حمایتی تھے کہ کوہِ استقامت بنے کھڑے رہے۔ سپاہی اندھادھند فائرنگ کئے جارہے تھے۔ بھیڑیا بھی بکریوں کے ریوڑ میں گھس کر وہ تباہی نہیں مچاتا جو انسان نما وحشی درندے انسانی جانوں کے ساتھ کر رہے تھے۔ آخرکار شام ہوتے ہوتے 2000؍ سے زائد نفوس کو شہادت نصیب ہوئی، 10,000؍سے زیادہ لوگ شدید زخمی ہوئے اور اس سے بڑی تعداد میں قائدین اور نمایاں افرادکو حراست میں لے لیا گیا۔
سوال یہ ہے کہ مصر کے یہ کون لوگ تھے جو احتجاج کررہے تھے؟ اُن کا جرم کیا تھا جس کی پاداش میں انہیں اس بے نظیر ظلم و تشدد کا نشانہ بنایا جارہا تھا؟ اُن کا مطالبہ کیا تھا؟ یاد رہے کہ گزشتہ ساٹھ برسوں سے آمریت، لا قانونیت، ایمرجنسی اور جبر و تشدد کی حکومت مصری عوام پر مسلط رہی۔جنوری 2010 ؁ء میں عوامی احتجاج کے نتیجے میں جمہوریت کی جو صبح نمودار ہوئی اس پر وہاں کی فوج نے ڈاکہ ڈال کر پھر سے خونیں اندھیرے غار میں ملک و ملت کو ڈھکیل دیا۔ یہ جیالے فوجی بغاوت کے خلاف اور جمہوریت کی بحالی کا مطالبہ کررہے تھے اور وحشت ناک ظلم و بر بریت کے آگے سپرڈال دینے کے بجائے آج بھی اپنے موقف پر سختی سے جمے ہوئے مظاہرے کررہے ہیں، اور مطالبہ کررہے ہیں کہ عوام کی مرضی سے منتخب شدہ حکومت کے ساتھ جو کچھ کیا گیا وہ فوجی بغاوت ہے اور فوج سے مطالبہ ہے کہ وہ اپنے (Barracks)بیرکس میں لوٹے اور حکومت عوام کے منتخب نمائندوں کو پھر سے واپس کرے۔ ان مظاہروں میں اخوان المسلمون کی قیادت اور کار کنان کے ساتھ اسلام پسند عوام کی اکثریت بھی شامل ہے۔
تحریک اخوان کا تعارف:
اخوان المسلمون دنیا کی عظیم ترین ایک ایسی اسلامی تحریک ہے جو اسلامی تہذیب کی بالا تری پر یقین رکھتی ہے اسلام کے تئیں یہ یقین رکھتی ہے کہ موجودہ دور میں انسانی زندگی کے تمام مسائل کا واحد حل اسلام ہے، وہ اسلامی شریعت کا نفاذ چاہتی ہے اور انبیائی مشن کی علمبرداری کے شایانِ شان اس راہ میں اس کے کارکنان و قائدین سخت ترین صعوبتوں کی بھٹیوں سے گزرتے رہے، ان کے بعض قائدین کو گولی کا نشانہ بنایا گیا تو بعض کو تختہ دار پرلٹکادیا گیا، پھر بھی اپنی عوامی خدمات کے لئے بچھائے گئے اداروں کے جال اُن کے لئے اُس معاشرے میں مضبوط جڑیں ثابت ہوئے اور دن بدن ان کی عوامی مقبولیت میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔
اس تحریک کے بانی امام حسن البناشہیدؒ نے اسے 1928 ؁ء میں قائم کیا اور انھوں نے اپنی اس تحریک کا تعارف یوں کرایا ہے:
149 تحریک اخوان اسلاف کے نمونہ پر ایک دعوت ہے کیونکہ وہ اسلام کو اس کے خالص سرچشمے کتاب و سنت کی طرف لوٹانے کی دعوت ہے۔
149 وہ تصوف کا ایک حلقہ بھی ہے کیونکہ وہ دل کی طہارت ، نفس کی پاکیزگی عمل پر استقامت، مخلوق سے درگذر اور اللہ کے لئے محبت کو ضروری سمجھتا ہے۔
149 وہ ایک سیاسی تنظیم بھی ہے کیونکہ اس کا مطالبہ ہے کہ حکومت کی اصلاح کی جائے اور رعایا پروری اور قومیت کی حفاظت کی جائے۔
149 وہ ایک ورزشی ٹیم بھی ہے کیونکہ وہ صحت و تندرستی کا خیال رکھتی ہے اس کا عقیدہ ہے کہ طاقت ور مومن کم زور مومن سے بہترہے۔
149 وہ ایک علمی و ثقافتی ادارہ بھی ہے۔
149 وہ ایک معاشی کمپنی بھی ہے کیونکہ اسلام صحیح رُخ سے مال کمانے کی ترغیب دیتا ہے اس طرح تصورِ اسلام کی جامعیت نے ہمارے فکر کو تمام اصلاحی پہلوؤں کا جامع بنا دیا ہے۔
امام حسن البناشہیدؒ نے ہماری دعوت و تحریک کے تین وسائل بیان کئے ہیں:
(۱)گہرا ایمان
(۲)دقیق تنظیم
(۳)پیہم جدوجہد
اس تحریک نے بلامبالغہ کہا جاسکتا ہے کہ کروڑوں انسانوں کو زندگی کا مقصد دیا اسلامی شاہراہ پر چلنے کا عزم و حوصلہ دیا اور طلبہ سے لے کر اساتذہ تک، کسانوں سے لے کر تاجروں تک، ادیبوں سے لے کر دانشووں تک کو متاثر کیا اور اپنے جلو میں سینکڑوں شاعروں اور مصنفوں کو پروان چڑھایا۔
مصر کے انگریزوں کی جانشینی کرنے والے حکمراں ہمیشہ اسلام بحیثیت ایک مکمل نظام حیات کو خطرہ سمجھتے رہے اور تحریکِ اخوان کی بڑھتی مقبولیت سے خائف رہے۔ اس لئے ان کے قائدین پر جھوٹے الزامات عائد کرکے انھیں جیلوں میں بند کیا جاتا رہا۔ پرتشدد اذیت ناک سزائیں دی جاتی رہیں اور انھیں تختہ دار پر بھی لٹکایا جاتا رہا۔
تختۂ دار سے اقتدار تک:
جنوری 2011 ؁ء میں عوام نے جبرو استبدادکی حکومت اور آمریت سے تنگ آکر تحریر اسکوائرپر صدائے احتجاج بلند کرتے ہوئے خود ساختہ اور عوام پر مسلط 30؍سال سے عہدۂ صدارت پر غاصبانہ طور سے براجمان صدر حسنی مبارک کی معزولی کا مطالبہ کیا۔ عوامی دباؤ کی تاب نہ لا کر قصرِ آمریت میں دراڑیں پڑیں اور حسنی مبارک کو معزول ہونا پڑا۔ اس طرح سے ایک نامبارک دور کا خاتمہ ہوا۔
جمہوریت کی بنیادیں اٹھانے کا وقت آیا تو اخوانی کارکنوں کی قربانی بنیاد کا پتھربنیں، ہر سطح پر ابتدائی مرحلے میں اخوانی دانشور آگے آگے رہے پھر پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کے انتخابات ہوئے اس کے بعد صدر جمہوریہ کے انتخابات کے ۲؍ دور ہوئے۔ اس دستور ساز اسمبلی نے ایک نیا جمہوری دستور مدون کیا اور اس کے لئے بھی عوام سے استصوابِ رائے کرایا گیا۔ اس طرح سے ایک سال کی مدّت میں چھ مرتبہ عوام کے پاس جا کر اخوان نے بھاری اکثریت سے اپنے لئے اعتماد حاصل کیا، اور انجینئر محمدمرسی (حافظِ قرآن) اخوان کے سیاسی بازو کے قائد، صدر منتخب ہوئے اور ایک سالہ مدت میں شاندار کار کردگی کا مظاہرہ کیا۔ یہاں یہ بات عرض کرنا دلچسپی سے خالی نہ ہوگا کہ اخوان کی مرکزی شوریٰ نے محمد مرسی پر بحیثیت انتخابی نمائندہ جب اتفاق کیا اور اعلان ہوا تو اجلاس کے اختتام پر محمدمرسی پر رقّت طاری ہوگئی اور روتے ہوئے اپنے گھر تشریف لے گئے، جاتے جاتے یہ کہہ رہے تھے کہ مجھے معلوم ہے کہ یہ کوئی پھولوں کی سیج نہیں بلکہ کانٹوں کا تاج ہے جو سر پر رکھا جارہا ہے اور ایک بڑی بھاری ذمہ داری ہے جو میرے کمزور کاندھوں پر ڈالی گئی ہے۔
صدر منتخب ہونے کے بعد سماجی ومعاشی سطح پر انھوں نے شاندار اقدامات کئے جن کی تفصیلات آگے آرہی ہیں۔ مگر دشمنانِ اسلام کو یہ ساری پیش قدمیاں کانٹے بن کر آنکھوں میں چبھ رہی تھیں بالخصوص حسنی مبارک کے دورِ منحوس کے حکومتی عہدیداران، افسران، محکمۂ پولیس، دیگر محکمات، مغربی افکار کا نمائندہ میڈیا اور کالے کوٹوں کے اندر چھپے کالے دِل والے محکمہ عدلیہ کے قاتلانِ انصاف نے ایک گہری سازش کے تحت مرسی حکومت کے ساتھ عدمِ تعاون کیا۔
149 محکمہ پولیس کے کارندے اپنے فرائض کی ادائیگی سے پہلو تہی کررہے تھے، ٹریفک کی صورتحال ابتر ہوتی جارہی تھی۔
149 گیس کے لئے لمبی لمبی قطاریں لگی ہوتی تھیں اس لئے کہ Gasکا مصنوعی قحط اس شعبہ کے کارندوں نے پیدا کردیا تھا۔
149 پٹرول کے ٹینکرس کا مصر کی بندرگاہوں پر پہنچنے سے پہلے ہی کسی اور طرف رُخ موڑ دیا جاتا تھا تاکہ پٹرول کی قلت پیدا کرکے صدر مرسی پر عوام کے اعتماد کو متزلزل کیا جائے۔
149 حکومت کی جانب سے فراہم کردہ روٹی کے لئے قحط پیدا کرکے چھینا جھپٹی کی صورتحال پیدا کردی گئی۔
149 مرسی کے وزیر برائے بجلی کا کہنا ہے کہ ان کے احکامات جاری کرنے کے باوجود محکمہ کے لوگوں نے عدمِ تعاون کے سازشی رویہ کو بدستور جاری رکھا۔
149 Law and order کی صورتحال بھی دن بدن بگڑرہی تھی۔ ایک پولیس افسر کا کہنا ہے کہ اس محکمہ میں بھرتی کے روزِ اوّل سے ہماری تربیت اخوان دشمنی اور اسلام پسندوں کی مخالفت پر ہوئی ہے اب اس نئی صورتحال سے ہم دوچار ہیں جنہیں ہم اذیت ناک سزائیں دیتے تھے آج وہ حکمراں ہوں اور ان کے احکام کی بجا آوری ہم کریں، نفسیاتی طور پر یہ ہمارے لئے ناقابل قبول ہے۔
اس صورتحال کو ہم یوں تعبیر کرسکتے ہیں کہ مرسی حکومت کے اندر عین مخالف سمت میں حسنی مبارک دور کی ایک گہری پیوست ریاست اقدام کررہی تھی۔ اس آگ پر تیل چھڑکنے کا کام حسبِ دستور کینہ پرور اسلام دشمن مغربی اقتدارکر رہا تھا۔
(ملاحظہ ہو New york times, july 10 2013. by Ben Hebboard and David D.kirikpatrick)
و قَد مَکَرُوا مَکرَھم، وَعِنْدَاللّٰہِ مَکْرُھُمْ، وَاِن کَانَ مَکرُھُمْ لِتَزُولَ مِنْہُ الْجِبَالِ۔
مغرب کی ریشہ دوانیاں:
مغربی طاقتیں اور مغرب کی پشت پناہی پرشیر کا روپ دھارنے والی مسلم خلیجی ریاستوں نے اخوان کی کامیابی اور اسلامی جمہوریت کے خدو خال کے ابھرنے، اسلام کے پاک معاشی نظام کے ثمرات و برکات کو سود پر مبنی ملعون معیشت کے لئے موت کا پیغام سمجھ کر مرسی حکومت کے خاتمہ کے لئے اپنا سارا وزن مخالف پلڑے میں ڈال کر مرسی اور اخوان کو اقتدار سے بے دخل کرنے میں ایک اہم اور نمایاں کردار ادا کیا۔
یہ باتیں اب طشت ازبام ہوچکی ہیں کہ امریکہ اپنے حلیفوں کے تعاون سے ڈالر کا دریا بہا کر مختلف NGO’s کو کھڑا کرتا رہا۔ امریکہ کے یہ سازشی ادارے حسب ذیل ہیں:
1. POMED – project on middle east democracy
یہ ادارہ سالانہ تقریباً 65ملین ڈالر کا تعاون ان اداروں کو کرتا رہا جو اسلام دشمن اور مرسی مخالف تھے۔
2. USAID – (u.s.Aid)
یہ ادارہ سالانہ 1.4بلین ڈالر مصر کی مختلف اخوان مخالف اداروں پر نثار کرتا رہا۔
3. MEPI – middle east partnership initiative
یہ ادارہ راست امریکی حکومت کے ماتحتی میں کام کرتا ہے اور بالخصوص NGO’s کو اخوان کے خلاف کھڑا کرتا ہے۔
4. NED – Natianal endowment for democracy
یہ ایک خطرناک اور سازشی ادارہ ہے جو بڑی معصومیت کے ساتھ بحالی جمہوریت کی دہائی دے کر مختلف حکومتوں کا تختہ پلٹنے کی سازشیں کرتا ہے۔ پہلے روس کی سلطنتوں کا پارہ پارہ کرنے کا تجربہ ہوا، پھر یو گوسلاویہ کے حصے بخرے کرکے مسلم ریاست بوسنیا ہرزے گو نیا کو آگ کا الاؤ بنایا، اور مسلم شہداء کے خون سے ’’سارا ایو‘‘ ندی لال ہوکر بہنے لگی۔ پھر بہارِ عرب کا انقلاب آیا اور دیکھتے دیکھتے شمالی افریقہ کے کچھ ممالک اور مشرقِ وسطیٰ کے بعض ممالک میں اپنے جابر اور ظالم حکمرانوں کی طویل مدت سے اقتدار پر براجمان اور اس کی غلط پالیسیوں کے نتیجے میں بڑھتی مہنگائی، بے روزگاری، عدمِ تحفظ و گھٹن کے ماحول کے خلاف عظیم مظاہرے ہونے لگے جس کے نتیجے میں تیونس، مصر اور یمن کے فرعون صفت حکمرانوں کو اقتدار چھوڑنا پڑا۔ مگر NED نے ہوا کے اس رُخ کو بھانپ لیا اور اسی طرح کے ہونے والے بحرین، لیبیا اور شام کے مظاہروں کو خانہ جنگی کا رُخ دینے میں اہم کردار ادا کیا۔ نتیجتاً مسلم ریاستوں کو ایک دوسرے کا جانی دشمن بنا کر زبردست جنگ و جدال کی کیفیت میں ان ریاستوں کا لاکھڑا کیا۔
امریکہ نے محکمہ خارجہ کے ماتحت ’’بیوروآف ڈیموکریسی‘‘ کی وساطت سے امریکی ہم نوا جابر حکمرانوں کے استحکام کے لئے ’’تعاون برائے جمہوریت‘‘ کی مد سے جو رقوم صدر مرسی کے اقتدار سے بے دخلی کے لئے شخصیات اور اداروں دی تھیں ان کی ایک ہلکی سی جھلک درجِ ذیل ہے:
(i) ’’حقوق النّاس‘‘ NGO : بدنام زمانہ کرنل عمر عفیفی سلیمان اس کابانی ہے، حقوق انسانی کی پامالی میں وہ بے باک ہے۔ اس کےfacebook اکاؤنٹ میں 83,000 متبعین کو اس نے آوازدی کہ اخوانیوں کی ہڈیاں توڑو انھیں ناکارہ بناؤ اور ان کی حکومت میں پانی، بجلی اور گیس کے محکموں کے اخوانی ذمہ داروں کے سرقلم کرو، اگروہ احتجاج کے جلوس نکالیں تو راستے بند کرو سڑکوں پر تیل اور گیس چھڑکو اور اخوانیوں سے بھری بسوں کو آگ لگادو۔ NED نے اس ادارہ کو سالانہ 118ملین کی فنڈنگ کی ہے۔
(ii) The Salvation frant: صدر مرسی کی حکومت کے خلاف سڑکوں پر احتجاجی مظاہروں کے لئے فنڈنگ کی گئی۔
(iii) Reform and development party : اس کے صدر محمد عصمت السادات کو MEPI نے $84,445اور USAIDنے $2,65,176 کا فنڈفراہم کیا گیا، اور یہ رقم بالخصوص اس رابطہ کمیٹی کو فراہم کی گئی جو مرسی کا تختہ اُلٹنے کے لئے بنائی گئی تھی۔
(iv) ابن خلدون سنٹر: ابرہیم نامی شخص کے قائم کردہ اس سنٹر نے سب سے بڑی رقم حاصل کی ہے۔
(v) اسراء عبدالفتاح وہ خاتون ہے جس نے مرسی دور کے دستور کے ریفرنڈم کے موقع پر اس کی مخالفت میں ایڑی چوٹی کا زور لگایا تھا، اس نے مُلحدوں کو اکسایا تھا کہ مسجدوں میں گھس کر اخوانیوں کو گھسیٹ باہر کرو۔ اس مہم کے لئے اس کو $75,000کی فراہمی ہوئی تھی۔ ایک ہفتہ قبل اس نے پیشین گوئی کی تھی کہ 30؍جون 2013ء مرسی کی صدارت کا آخری دن ہوگا اس سے بخوبی اندازہ کیا جاسکتا ہے یہ ساری خوں ریز فوجی بغاوت طے شدہ نقشے کے مطابق تھی جس میں رنگ بھرنے کے لئے ان مظاہرین کو رشوت کے ذریعے کھڑا کیا گیا تھا۔
(vi) الحیاۃ پارٹی: اس کا بانی اور سربراہ مائیکل منیرایک قبطی عیسائی ہے، جو ایک بڑا صنعت کار ہے، اسے امریکی حکومت سے $8,73,355کی امداد اور مختلف ایجنسیوں کی وساطت سے 1.3بلین ڈالر کی خطیر رقم صرف اس مقصد کے لئے فراہم کی گئی کہ عیسائیوں کو مرسی کے خلاف مشتعل کرے اور مظاہروں پر ابھارے۔
(ملاحظہ ہو aljizaeerah.com-Emad Khalid Mekki 10july. 2013- “US bankroled anti-morsy activists”)
تمرّد اور فوجی بغاوت:
مصر کی پہلی جمہوری حکومت کو موت کے گھاٹ اتارنے کے لیے حکومت کے مختلف محکمات اور شعبہ جات کے مارِ آستین اندر سے ڈس رہے تھے۔ دوسری طرف زہریلے موذی NGO’sمورچے سنبھالے اس نوپود اخوانی ریاست کے خلاف زہر اُگل رہے تھے۔ تیسری طرف تمرّد نام کی ’’تحریک بغاوت‘‘ میں مصر کے ملحد سرمایہ کار روح پھونک رہے تھے۔ مثلاً ساؤرس مصر کا امیرترین سرمایہ دار ہے اس نے ملک کے طول و عرض میں پھیلے اپنے آفس فراہم کئے۔ اپنے اخبارات میں اخوانی حکومت کے خلاف مستقل رائے سازی کرتا رہا، اور نئے آزمودہ مصری، جمہوریت کے خلاف بھاری موسیقی کے ساتھ گانوں کو تیار کیا اور اس کی خصوصی پیش کش اپنے چینلس میں کی۔
ان مذموم کوششوں کا نتیجہ یہ ہوا کہ ملحدین، اشتراکیت پسند، آزادطبیعت، عیسائی اور مغرب زدہ کافرانہ ذہنیت والے عوام صدر مرسی کے خلاف علمِ بغاوت بلند کئے۔ پُرامن احتجاج تو جمہوریت کا جزوِ لاینفک ہوتا ہے مگر تمرّد کے مظاہرے پرتشدد تھے۔ اخوان کے دفتروں پر حملے کئے گئے۔ اخوانی کارکنوں کو شہید کیا گیا اور حیرت کی انتہا کہ حکمراں پارٹی کے صدر دفتر کو آگ لگادی، اور افسوس کی بات یہ ہے کہ حکمراں پارٹی ہوتے ہوئے بھی پولیس نے ان کے دفاتر کو سکیورٹی فراہم کرنے سے انکار کردیا، مگر صدر مرسی اور اخوانیوں کی داد دیں کہ انھوں نے ان کی حکومت کے خلاف ہونے والی میڈیا مہم پر پابندی لگائی، نہ بلوائیوں کے خلاف طاقت کا استعمال کیا۔
اس بحرانی کیفیت کے پیدا کرنے میں حکومت کے محکمہ، NGO’s، سرمایہ دار اور ان سب کے قدر دان یعنی میڈیا کی ملی بھگت نے فوجی افسران کو بغاوت پر ابھارا۔ اُدھر اوپر سے امریکہ، اسرائیل اور ان کی پشت پناہی پر چلنے والی مسلم مملکتوں کے اشارۂ ابرو کو پاتے ہی مصری افواج کے کمانڈر اِن چیف عبدالفتاح الّسیسی نے جمہوریت کے راستہ منتخب شدہ صدرِ مملکت محمدمرسی کو دو دن کا الٹی میٹم دے دیا کہ وہ مستعفی ہوجائیں اور حکومت تمرّد کے نمائندوں کے حوالے کردیں۔ صدر مرسی نے اس الٹی میٹم کو مسترد کردیا آخر کار فوجی بغاوت ہوئی اور اخوانی صدر اور ان کی حکومت ہی کو نہ صرف برطرف کردیا گیا بلکہ صاف صاف جمہوریت کی قبا بھی چاک کردی گئی اور دھڑلّے سے ایک کٹھ پتلی حکومت کو سامنے رکھ کر آمریت پھرلوٹ آئی اور خدا بہتر جانے مصریوں کے لیے کب تک یہ مقدر رہے گا کہ فرعون ان پر مسلّط رہیں، برطرفی کے بعد سے آج تک صدر مرسی کو ایک نامعلوم مقام میں زیرِ حراست رکھ کر ان پر الزام تراشی کرتے ہوئے غلط اور جھوٹے مقدمات دائر کرکے ان کو مزید ہراساں کیا جارہا ہے۔
الزامات اور ان کی حقیقت:
اس دورِ جدید میں تہذیب کے علمبردار اور جمہوریت کے دعویدار حکمرانوں اور دانشوروں کی زبانوں پر تالے لگ گئے، اس فوجی بغاوت، آمریت اور سفّاکانہ ظلم و جبرسے حکومت کی باگ ڈور چھین لینے کے سلسلے میں امریکہ نے یہ فیصلہ لیا کہ وہ فیصلہ نہیں کرے گا کہ آیا یہ فوجی بغاوت تھی یا نہیں۔ مغرب کے قلم کار فوراً الزام تراشیوں پر اتر آئے بلکہ حقائق کے بر خلاف باتیں بنانے لگے، مغرب زدہ مفکرین کی متعصب ذہنیت کی نمائندگی کرتے ہوئے فریدزکریا نے ’’ٹائمز‘‘ میگزین میں لکھا ’’ہوسکتا ہے کہ سیاسی اسلام دلوں کو گرمائے، رومانی کیفیت پیدا کرے اور تخیل کو پرواز عطا کرے مگر حکمرانی کے عمل کے لئے بری طرح غیرموزوں ہے۔ مُلّا تبلیغ تو کرسکتے ہیں مگر ایک ملک کی معیشت کا بارِ انتظام سنبھال نہیں سکتے۔ اس لئے فوج نے جو کچھ کیا وہ کسی حدتک صحیح ہے۔‘‘ (ملاحظہ ہو Times magazine, july 22,2013) نام نہاد دانشوروں نے صدر مرسی اور اخوان پر الزام تراشی کرتے ہوئے غلط بیانی سے کام لیتے ہوئے جوباتیں عرض کی ہیں ان کا ایک معروضی تجزیہ ذیل میں پیش کیا جارہا ہے:
(الف) اخوان کو چاہئے تھا کہ صدارتی انتخاب کے لئے وہ اپنا نمائندہ نہ کھڑا کرتی، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ اخوان نے وہاں کے صالح عناصر میں سے دو تین احباب سے صدارتی انتخاب لڑنے کی درخواست کی اور اپنی حمایت کا یقین دلایا مگر وہ ہمت نہ کرسکے دوسری طرف حسنی مبارک کے معتمدِخاص اور سابق ہوائی فوج کے جنرل احمدشفیق نمائندے کی حیثیت سے کھڑے ہوئے۔ میدانِ تحریر کی قربانیوں کا تقاضا تھا کہ سابق ملعون حکمرانوں کے بجائے رعایا پر ور اور انسان دوست نمائندوں کو اس کے بالمقابل کھڑا کیا جائے آخری چارۂ کار کے طور پر اخوان نے اپنا نمائندہ کھڑا کرنے کا فیصلہ لیا۔ مرسی کی جیت میں بائیں بازو اور لبرل کے ووٹ بھی شامل تھے۔
(ب) اسلامی دستور عوام کی مرضی کے خلاف پاس کرایاگیا، اس الزام کی حقیقت یہ ہے کہ دستور ساز اسمبلی کی تشکیل اس طرح سے ہوئی تھی کہ 100ارکان پر مشتمل اس ہاؤز میں 32اخوانی، 32غیراسلامی، 18سلفی اور 18ریاستوں کے نمائندے تھے۔ 22 پارٹیوں نے اس پراتفاق کیا تھا۔ مگر اخوانیوں کے علاوہ دیگر نمائندے دستور سازی کے عمل کے سلسلہ میں نہ کوئی سوچ رکھتے تھے اور نہ کوئی سنجیدہ اشتراک و تعاون پیش کیا۔
(ج) اخوان المسلمون عوامی موڈ کی نمائندگی نہیں کرتی، یہ بھی ایک بے بنیاد الزام ہے واقعہ یہ ہے کہ اخوان لگ بھگ ایک سال کی مدت میں چھ مرتبہ عوام کے درمیان واضح اکثریت حاصل کرکے حکومت کررہی تھی۔ عوام کے 50% تا60% ووٹ کا حاصل کرنا ووٹرس کا اعتماد اور عوامی نمائندگی نہیں تو اور کیا ہے۔
(د) انقلاب تو سب مصریوں کا رہینِ منّت ہے مگر حکومت پر اخوان مرتکز ہوگئی، اس الزام کے بھی کوئی پَرنہیں ہیں، دنیا کا معمول ہے کہ جوپارٹی برسرِاقتدار آتی ہے وہی اپنے نمائندوں کو ریاستی گورنر کی حیثیت سے تقرر کرتی ہے۔ امریکہ ہو کہ انڈیا ہر جگہ یہی روایت نظر آتی ہے اور اس طرح سے کرنا حق بہ جانب بھی ہے، مگر اخوان المسلمون نے جس شاندار اسلامی جمہوریت کی روایت کو فروغ دیا وہ دورِ جدید کی جمہوریت میں عنقا ہے۔ 27گورنروں میں صرف 10اخوان کے مقرر کئے گئے بقیہ دیگر پارٹیوں کے نمائندوں کو اس منصب کے لئے مقرر کیا گیا، اسی طرح مرکزی حکومت کے 35وزراء میں سے صرف 11اخوانی تھے۔ وزیر اعظم کا عہدہ حسب مخالف کو پیش کش کیا گیا مگر انھوں نے قبول کرنے سے انکار کیا تو ایک غیراخوانی کو یہ ذمہ داری سونپی گئی۔ اپریل 6؍موومنٹ کے بانی احمد مہر کو صدرِ مملکت کے مشیر کے عہدے کی پیش کش کی گئی مگر اس نے بھی اسے قبول نہیں کیا۔ اس سے بڑھ کر اعلیٰ ظرفی، کشادہ دلی inclusive governence کی شاندار روایت اور کیا ہوسکتی ہے کہ صدر مرسی نے صدارتی انتخاب میں ان کے ہاتھوں شکست کھانے والے نمائندے اور معروف اخوان مخالف لیڈر حمدین صبّاحی کو نائب صدر جمہوریہ کے عہدہ کی پیش کش کی مگر اس نے بھی اسے مسترد کردیا۔ (تفصیلات کیلئے دیکھیں “Tehelka” magazine “The Generals are back” by Shaheen KM)
صدر مرسی کا جرم کیا تھا؟
عہدۂ صدارت سنبھالنے کے فوراً بعد حسب وعدہ صدرمرسی نے معاشی سدھار اور ملک کی اقتصادیات کے استحکام کے لئے بلاتاخیر اقدامات شروع کردیئے، ان ساری سرگرمیوں میں امریکہ اور IMF کے آگے گدا گری کا کشکول نہیں پھیلانے کے جرم کے مرتکب صدر اور ان کی پارٹی کو اقتدار سے بے دخل کردینے کے لئے ’’معقول‘‘ جواب موجود تھا۔
149 النّہضۃ پروجیکٹ کا تفصیلی خاکہ پیش کیا جو بیس سالہ Planتھا اور جس کے ذریعہ توقع تھی کہ سماجی اور معاشی استحکام کی طرف مصر آگے بڑھے گا۔
149 چین کے تعاون سے سوئیزعلاقے میں سات لاکھ آسامی (employment) پیدا کرنے کے لئے بڑے بڑے ترقیاتی پروجیکٹس شروع کردیئے گئے۔
149 روس کے تعاون سے دو بلین ڈالر کے قرضے پر بجلی کی تیاری کے لئے نیوکلیائی کارخانہ کا پروجیکٹ منظور کرایا گیا۔
149 برازیل کا دورہ ہوا اور وہاں سے سرمایہ کاروں کی آمد کو خوش آمدید کہا گیا۔
149 ایران مصر تعاون کونسل قائم کی گئی، اور اس کے تعاون سے مصری ریلوے کا کام شروع ہوا۔
149 ہندوستان کے ساتھ 7کلیدی امور پر معاہدے کئے گئے۔
149 اسلامی سکوک (bond)جاری کیاگیا تاکہ عوام سے بڑے پیمانے پر ترقیاتی کاموں کے لئے فنڈس کی فراہمی ہوسکے۔
149 دورِ خلافت کی یاد تازہ ہوگئی، اخوان وزراء عوام کے ساتھ ان کے مسائل کے حل کے لیے سڑکوں پر نظرآرہے تھے۔
یہ اور اس طرح کے بہت سے فلاح و بہبود کے کام کرنا دور رَس نتائج کا حامل تھا، جس میں عوام کی بہبودی، امیر و غریب کے درمیان خلیج میں کمی، حقیقی عوامی نمائندگی اور ان سب سے بڑھ کر اسلامی اصول و تعلیمات کا چلتا پھرتا اور جیتا جاگتا نمونہ وقت کے فرعون ہامان اور قارون کیسے برداشت کرسکتے ہیں۔ اس لئے بیرون سے حملہ آور ہونے کے بجائے انھوں نے اندرون سے امت کے جسدِواحد کو پھاڑدیا۔
’’وَلَنْ تَرْضیٰ عَنْکَ الْیَھُوْدَ وَلاَ النَّصٰرٰی حَتّٰی تَتَّبِعَ مَلَّتَھُمْ‘‘ (2:120)
عالمِ اسلام کی صورتحال:
امریکہ کی princeton یونیورسٹی کے زیراہتمام The Comprehensive pew research centre نے 39مسلم ممالک کا سروے کیا، تقریباً 40,000 لوگوں کی رائے معلوم کی گئی۔ عوام کی ایک بڑی تعداد نے اظہار کیا کہ وہ اپنے ملک میں اسلامی نظام کا نفاذ چاہتے ہیں۔
ترکی 12%
تیونس 56%
نائیجیریا 71%
انڈونیشیا 72%
مصر 74%
افغان 99%
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ نئی نسل کے اندر اسلامی بیداری کی لہر نے انھیں حقیقی اسلام سے نہ صرف قریب کیا بلکہ وہ چاہتے ہیں کہ خلفائے راشدین کا دورِسعید پھر لوٹ آئے۔ چونکہ حق و باطل کی کشمکش ازل سے تا امروز ہے، اس لئے پرستارانِ باطل اسلام کے احیاء میں اپنی موت دیکھتے ہیں، لہٰذا اپنی بقا کے لئے وہ اپنے زیرِ دست تمام علمی، سائنسی، سیاسی، معاشی، تہذیبی ہتھیاروں کے ذریعہ سے اسلام پر یلغار کررہے ہیں۔ ماضی قریب میں انھوں نے عسکری قوت کے ذریعہ سے مسلم ممالک کو تخت وتاراج کیا، پھر سارے عالم میں دہشت گردی کا ہوّا کھڑا کرکے اسلام کے حیات بخش پیغام کی طرف دنیا کے بڑھتے قدم کو روکنے کی سعئ ناکام کی۔ اب ایک نیا حربہ کام میں لاتے ہوئے مسلمانوں کو مسلمانوں کے خلاف ایک دوسرے کے خون کا پیاسا بنا کر کھڑا کیا جارہا ہے۔ پہلے شیعہ -سنّی اسلام، حنفی-سلفی اسلام، رومی- جہادی اسلام کے ذریعہ ناپاک و نامبارک افتراق کی سازشیں کی گئیں۔ اب ایک نئی تقسیم کی لائن انھوں نے ایجاد کی ہے اور وہ ہے اسلام پسند بمقابلہ سیکولرمسلم۔
اس گندے کھیل کا ایک میدان بنگلہ دیش ہے، جہاں اسلام پسندوں کو تختہ دار پر لٹکانے کے فیصلے دھڑلّے کے ساتھ بڑی بے باکی اور بے شرمی کے ساتھ سنائے جارہے ہیں، اور اس کی حمایت میں شاہ باغ میدان میں کچھ ہندو اور اکثربے دین و ملحدانہ ذہنیت والے نوجوان اسلام پسندوں کے خون کی مانگ کرتے ہوئے بڑے بڑے مظاہرے کرتے نظر آرہے ہیں۔ ترکی اس مذموم کھیل کا دوسرا میدان ہے جہاں طیب اردگان جیسے اسلام پسند رہنما اور ان کی پارٹی نے مستقل شاندار ترقیاتی منصوبوں پر عمل آوری کرتے ہوئے ترکی کو جسے کبھی ’’یورپ کامردِبیمار‘‘ کہا جاتا تھا آج اسلام اور ترقی کی شاہراہ پر ڈال کر اپنی معیشت کو مستحکم اس طرح سے کیا ہے کہ آج یوروپ کی گرتی معیشت اور زوال پذیر سماجی صورت حال میں ترکی ایک مینارۂ نور اور درخشاں ستارہ ثابت ہورہا ہے۔ اس سے خار کھا کر مغرب نے وہاں بھی اپنے ایجنٹوں کے ذریعہ ملت کی صفوں کو منتشر کرنے کے لئے جولائی 2013ء میں مختلف بہانے بنا کر احتجاجی مظاہرے کئے اور فائرنگ میں 4مظاہرین کی موت پر سارا مغربی میڈیا واویلا مچاتا رہا۔ اس وقت ملک شام پر جنگ کے مہیب سائے منڈلارہے ہیں گذشتہ 2سالوں سے امریکہ اور روس یہ ڈھونگ رچاتے ہوئے کہ وہ دو متحارب مسلم گروپ کے حمایتی ہیں دونوں کو بم، بارود اور اسلحہ فراہم کرتے جارہے ہیں اور خانہ جنگی کو مسلسل ہوا دیئے جارہے ہیں جس کے نتیجہ میں 2لاکھ سے زیادہ مسلمانوں کے خون سے سرزمین شام کی مٹی اپنی رنگت بدل چکی ہے۔
مسلمانانِ ہند کے لئے سبق:
Think globally act locally کے اصول کے تحت ان عالمی حالات کے پس منظر میں ہم ہندوستانی مسلمانوں کے کرنے کے کام کا تعین ضروری ہے، باہتمام عجلت مندرجہ ذیل 4اُمور پر خصوصی توجہ ہونی چاہئے:
(i) جمہوری فضاکا تحفظ: ہندوستان دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہے جہاں بالخصوص اظہارِ آزادئ رائے، مذہب کی تبلیغ کی آزادی، حکومتوں کے بنانے میں عوام کا مؤثر کردار، عوامی فلاح و بہبود کی خاطر قانون سازی اور موجودہ قانون کا تحفظ و غیرہ جیسے حقوق ہمیں حاصل ہیں۔ آئے دن ہم دیکھتے ہیں کہ جب ہمارے حکمراں روحِ جمہوریت کے منافی اقدامات کرتے ہیں تو اِن ہی جمہوری حقوق کے واسطے سے ملک میں مہمات چلائی جاتی ہیں، اب اس اسپرٹ میں بھی اضمحلال آرہا ہے مزید برآں فسطائی قوتیں جمہوریت کو اُچک لینے کی تدابیر کررہی ہیں۔ ان نازک حالات کا تقاضا ہے کہ یہاں کے انصاف پسند، انسانیت نواز وطنی بھائیوں کے ساتھ مل کر جس شکل میں بھی جمہوریت کے عناصر میسرہیں انھیں بچائے رکھنے کی ہمیں جدوجہد کرنی ہوگی۔ برما اور بنگلہ دیش کی عبرت ناک مثالیں بھی ہمارے سامنے موجود ہیں، لہٰذا عزت و وقار کے ساتھ جینے اور مرنے کے لئے جو کھلی فضا درکار ہے وہ کسی حدتک جمہوریت میں محفوظ ہے، لہٰذا اس کا تحفظ ہماری ملی کوششوں کا ایک اہم حصہ ہونا چاہئے۔
(ii) صف شکن قوتوں کو شکست:
قریب میں you tube پر ایک video بعنوانdivide muslims unite hindus گردش میں ہے۔ عنوان خود مسلمانوں کے سلسلے میں بے باک عزائم کا اظہار ہے، اور ساری دنیا میں یہ حربہ باطل قوتوں نے آزمایا ہے اور اس کے ہمت افزا نتائج ان کے سامنے ہیں۔ جب سے مسلمان جزوی اختلافات کو بنیاد بنا کر ایک دوسرے سے الجھ رہے ہیں دشمن نے اس کا فائدہ اٹھایا ہے اور ان اختلافات کو ایک دوسرے کی مخالفت میں بدل دیا ہے، جس کا لازمی نتیجہ ہے کہ آج مسلمانوں کے ہاتھوں مسلمانوں کا خون بہہ رہا ہے، جس کی شرمناک مثالیں پاکستان، عراق، شام، اور بحرین میں ہونے والے آئے دن کے بم دھماکے ، اور قتل و غارت گری کے واقعات ہیں۔ ذلت و درندگی کی حدیہ ہے کہ فرقہ وارانہ رنگ دے کر ایک دوسرے کی مسجدوں اور جنازے کے جلوسوں تک پر حملے کئے جارہے ہیں۔ کوششیں کی جاری ہیں کہ ہندوستان میں بھی مسلک، ذات پات اور مکاتب فکر کی بنیاد پر مسلمانوں کی صفوں کو پھاڑا جائے۔ امت کے طبقۂ علماء کی بالخصوص اور ملت کی بالعموم یہ ذمہ داری ہے کہ وہ ان مذموم کوششوں سے واقف رہیں اور باطل طاقتوں کے عزائم کو ملی اتحاد کے اظہار سے شکست دیں۔
(iii) خواتین کی سماجی فعالیت:
مصر میں جاری کشمکش کا ایک ہمت افزا پہلو یہ ہے کہ وہاں مردوں کے شانہ بہ شانہ خواتین بھی جدو جہد میں بھر پور کردار ادا کررہی ہیں، اور شہیدوں کی فہرست میں ان کے بھی معتدبہ نام ملتے ہیں۔ اسماء بلتاجی اس کی ایک حسین مثال ہے۔ اخوانی رہنما محمد بلتاجی کی سترہ سالہ دختر جس نے ابھی ماہِ رمضان میں قرآن پاک حفظ مکمل کیاتھا، احتجاج میں خواتین مورچے کے ساتھ شامل اور زخمیوں کی مرہم پٹی میں مصروف رہی۔ ظالم فوجی سپاہیوں نے اس معصوم نوخیز اسلامی کار کن کو بھی گولی کا نشانہ بنا کر ابدی نیند سلادیا۔
اسی طرح ایک اور خاتون اسماء سعید کا خود بیان کردہ دل خراش واقعہ بھی ثابت کرتا ہے کہ اسلام پسندوں کی صفوں میں خواتین بھی سماجی سطح پر فعال ہیں۔ اسماء کہتی ہیں کہ ان کے شوہر سعید اس کشمکش میں شہادت کا درجہ پاگئے، اور ان کی لاش تلاش کرتے ہوئے وہ ہسپتال کے مردہ گھرپہنچیں۔ تلاش کے بعد ان کے شوہر نامدار کی لاش ملی۔ کفن کو کھولا تو خاوند کا چہرہ نور سے جگمگارہا تھا، لبوں پر مسکراہٹ کھیل رہی تھی، سر اور داڑھی میں انگلیاں ڈالیں تو محسوس ہوا کہ بالوں میں ابھی نمی باقی ہے۔ پیشانی پر بوسہ دیا، انھیں آخری سلام کیا، اور الوداع کہتے ہوئے کہا ’’جان من! میں تم پر فخر کرتی ہوں کہ تم حق کی خاطر میدان میں ڈٹ کر جمے رہے، ملک و ملت کی خاطر اپنی جان کا نذرانہ پیش کرتے ہوئے اپنے خدا سے جا ملے۔ مجھے امید ہے کہ خدا کے ہاں تم عالم برزخ میں زندہ ہو اور خدا سے رزق پارہے ہو۔ جانِ من! دنیا کی یہ رفاقت بہت مختصر رہی تمہاری اس جدو جہد کو میں جاری رکھوں گی اور وقت آنے پر تم سے آکر ملاقات کروں گی۔ ان شاء اللہ جنت میں حیاتِ جاوداں پاکر ہمیشہ ہمیشہ ہم ساتھ رہیں گے۔‘‘
(iv) نئی نسل کو اسلامی کاز کے لئے تیار کرنا:
مصر میں جاری کشمکش کا ایک خوش آئند پہلو یہ بھی ہے کہ اخوانیوں نے اپنے پورے پورے خاندان کو اسلامی مشن کا علمبردار بنایا ہے اس کی درخشاں مثالیں قائدین تحریک محمدبدیع، خیرت الشاطر، احمدبلتاجی وغیرہ کے بیٹے، بیٹیاں اور داماد ہیں جن کے نام شہداء کی فہرست میں نمایاں ہیں۔ ان واقعات نے ابراہیمؑ کی پدرانہ تربیت اور اسماعیل کے آدابِ فرزندی کے اسباق کو تازہ کردیا۔ یہ اسی وقت ممکن ہے جب ہم اپنے اہل و عیال کو بھی اُس مشن پر مطمئن کرائیں کہ دنیا و آخرت کی کامیابی اسی میں مضمر ہے۔آج مادّہ پرستی کی دوڑ نے اچھے اچھوں کو یہ باور کرالیا ہے کہ معیارِ زندگی کی بلندی کے بعد بقیہ سب ’’مقدس‘‘ کام کئے جائیں گے، اس طرزِ فکر نے انھیں بچوں کی تربیت سے بیگانہ کردیا ہے جس کے نتیجے میں وہ اپنے بچوں کی ’’دنیا‘‘ سنوارنے کے سراب کا تعقب کرتے کرتے لبِ گور جاپہنچتے ہیں۔
اَلْھٰکُمُ التَّکَاثُر۔ حَتّٰی زُرْتُمُ الْمَقَابِر۔(تم لوگوں کو زیادہ سے زیادہ اور ایک دوسرے سے بڑھ کر دُنیا حاصل کرنے کی دُھن نے غفلت میں ڈال رکھا ہے۔ یہاں تک کہ تم لبِ گور پہنچ جاتے ہو۔) 2n2
ضرورت ہے کہ ہم اپنے بچوں کو موجودہ رسمی تعلیم کے ساتھ ساتھ گھریلو ماحول میں انھیں انبیائی مشن کے حامل بننے کے لائق بنائیں اور اس کے لیے سنجیدہ کوشش کریں۔

ایس.امین الحسن،
رکن مرکزی مجلس شوری جماعت اسلامی ہند

حالیہ شمارے

براہیمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے

شمارہ پڑھیں

امتیازی سلوک کے خلاف منظم جدو جہد کی ضرورت

شمارہ پڑھیں