مسلکی اختلافات -راہ اعتدال اور ہماری ذمہ داریاں

ایڈمن

از: امین عثمانی (۱) اسلام ایک مکمل دین، مکمل نظام، مکمل ہدایت اور مکمل شریعت کا نام ہے، جس کی اساس قرآن و سنت ہے، قرآن سے رہنمائی حاصل کرنا لازمی ہے کیونکہ وہ اسی لئے نازل ہوا تاکہ اس…

از: امین عثمانی

(۱)
اسلام ایک مکمل دین، مکمل نظام، مکمل ہدایت اور مکمل شریعت کا نام ہے، جس کی اساس قرآن و سنت ہے، قرآن سے رہنمائی حاصل کرنا لازمی ہے کیونکہ وہ اسی لئے نازل ہوا تاکہ اس سے رہنمائی حاصل کی جائے اور اسی کو حقیقی رہنما مانا جائے، فکر وعمل، زندگی کے ہر گوشے میں اسی کو محور ومرکز مان کر روشنی حاصل کی جائے، وہ ذریعہ علم بھی ہے اور وسیلہ تزکیہ وہدایت بھی، قرآن کے بعد سنت نبوی کو دوسرا بڑا اہم مقام حاصل ہے، دونوں ہی وحی ہےں، ایک متلو ہے اور دوسرا غیرمتلو، دونوں کا اپنا اپنا مقام ومرتبہ ہے، شارع حقیقی اللہ تعالی ہے ، رسول کو شارع اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ واسطہ ہیں اور ان کے ذریعہ مکمل دین پہنچا ہے، رسول کی زندگی میں امت کی رہنمائی ہر اعتبار سے رسول کے ذریعہ ہوتی رہی، رسول، تعلیم، تربیت، تزکیہ اور تلاوت آیات کے ذریعہ صحابہ کو علم و تقوی اور اخلاق کی بلندی کی طرف لے جاتے رہے اور ان کی نورانی صفات وکمالات میں اضافہ فرماتے رہے، صحابہ کرامؓ نے رسول علیہ الصلوة والتسلیم سے جس طرح سیکھا ، سمجھا، سنا اور دیکھا بالکل اسی طرح جہاں جہاں وہ گئے دنیا کے مختلف حصوں میں دین پہنچاتے رہے اور اسی راستہ اور شرعة و منہاج پر گامزن رہے جو نبی نے انہیں بتادیا تھا، نبی کے بعد خلافت راشدہ کے زمانہ میں ہر آنے والے نئے مسئلہ کو حل کرنے کے لئے وہ نبی کی سنت کو تلاش کرتے اور نبی کی ہدایت کو دریافت کرتے، اگر ہدایت مل جاتی تو اسی پر یا اسی کی روشنی میں عمل ہوتااور کوئی بات نہ ملتی تو پھر صحابہ کی جماعت اس پر غوروخوض کرکے فیصلہ کیا کرتی، یعنی اجتماعی مشورہ کا طریقہ جاری رہا، مسائل کے حل کرنے کے سلسلہ میں اکابر صحابہ ایک دوسرے سے مشورے کیا کرتے، اس کے بعد تابعین ، تبع تابعین کا دور آیا جس میں تعامل صحابہ کو بھی ملحوظ رکھا گیا، سچی بات یہ ہے کہ رسول اکرم نے اپنے زیر تربیت صحابہ سے یہ فرمایا تھا (اور جو اصلاً پوری امت کے لئے خطاب ہے) کہ ”ترکتکم علی المحجة البیضاءلیلہا کنہارہا“، یہ روشن راستہ ہے، یہی بات اہدنا الصراط المستقیم میں بھی ہے۔ پھر اس کے بعد دین کی نشر واشاعت کا دائرہ وسیع تر ہوتا چلا گیا اور فتوحات کا بھی ، جوں جوں دنیا کے مختلف علاقے اسلام کے زیر اثر آتے گئے وہاں وہاں شریعت کی تفہیم و تشریح، تنفیذ وتطبیق اور شرعی رہنمائی کا فریضہ انجام دیا جاتا رہا ، دین کے احکام کی تشریح اور مسائل کے حل کے سلسلہ میں رسول کے بعد صحابہ ، تابعین اور تبع تابعین اور پھر ان کے تلامذہ یہ فریضہ انجام دیتے رہے، جن لوگوں کو اس کام میں بصیرت اور گہرائی حاصل ہوئی وہ فقہاءکہلائے، فقہ ادراک، تصور اور فہم کے اجزاءو عناصر سے مرکب ہے، اس لئے فقہ کی صفت کی نسبت اللہ کی طرف نہیں کی جاتی ، یہ نہیں کہا جاتا کہ اللہ فقیہ ہے، کیونکہ فقہ کی صفت میں نقص ہے کمال نہیں، اللہ تعالی خود شارع اور شریعتوں کا نازل کرنے والا اور بنانے والا ہے اس لئے شرع کی نسبت اللہ کی طرف کی جاتی ہے، رسول سے کہا گیا کہ ”ثم جعلناک علی شریعة من الامر فاتبعہا“ اس سے معلوم ہوا کہ اصل شریعت قرآن ہے۔ کیونکہ قرآن خود تبیان، ہدی، نور اور تفصیل پیش کرنے کا داعی ومدعی ہے۔

یہاں دوباتیں بہت اہم ہیں، پہلی بات تو یہ کہ رسول نے اللہ کی نازل کردہ شریعت پر عمل کیا اور کرایا، دوسرے یہ کہ صحابہ نے رسول اکرم سے براہ راست شریعت کو سیکھا اور رسول کی لائی شریعت کو سب پر مقدم رکھا، نیز انہوں نے مسائل کے سمجھنے میں تقوی، اتباع رسول اور مقصد شریعت کو برابر ملحوظ رکھا، پھر ایک عرصہ کے بعد فقہاءکی جماعتیں احکام کی تشریح اور اسلامی قوانین کی تفہیم و تبیین کے لئے آگے بڑھیں۔ مگر یہ سب فقہاءاس بات کے لئے مسلسل کوشاں رہے کہ وہ جو بھی رائے یا موقف قائم کریں اس کے لئے آیت وحدیث ضرور ان کے سامنے بطور دلیل موجود رہے اور اگر کوئی دلیل نہ ہو تو پھر مقصد دین اور مصلحت کو سامنے رکھتے ہوئے قیاس کیا جائے ، بہرحال مناہج استنباط کی تفصیلات بیان کرنے کی یہاں نہ ضرورت ہے اور نہ گنجائش، مگر یہ حقیقت ہے کہ انفرادی واجتماعی اجتہاد کا سلسلہ قائم ہوا، تاریخ بتاتی ہے کہ دوسری تیسری صدی ہجری میں امام ابوحنیفہ النعمان بن ثابت، امام شافعی، امام مالک بن انس ، امام احمد بن حنبل، امام جعفر صادق، امام زید بن علی زین العابدین، عبد اللہ بن اباض اور دوسرے ائمہ، فقہ کے میدان میں نمایاں ہوئے جنہوں نے اسلامی قوانین کی تشریح وتدوین کا کام انجام دیا، پھر ان کے شاگردوں نے (جو یقینا بہت ہی لائق وفائق شاگرد تھے)نے ان کے اجتہادی آراءکو مرتب ومدون شکل میں پیش کیا، پھر تاریخ میں یہ ہوا کہ ان ائمہ کی اور ان کے شاگردوں کے اجتہادات کی پیروی کی جانے لگی اور یہ اجتہادی آراءمسالک کی صورت میں ظاہر ہوئے جو دنیا کے مختلف حصوں میں امت کے درمیان پھیلتے چلے گئے، اس کے پھیلاو کے مختلف اسبا ب رہے یا تو کسی فقیہ کے ماننے والے شاگرد کسی علاقہ کے قاضی ہوگئے یا کوئی اور مقام حاصل ہوا تو اس سے بھی اس مسلک کو فروغ ملا۔ اس طرح مختلف ائمہ کے ماننے والوں کی تعداد بڑھتی اور پھیلتی رہی، بعض جگہ جغرافیائی حالات اور سیاسی صورتحال یا نظام قضاءکی وجہ سے مسالک میں سے کسی مسلک کو فروغ ملا۔ بہرحال امت کے درمیان کئی فقہی مسالک وجود میں آئے، جن میں نمایاں طور پر حنفی، شافعی، حنبلی، مالکی، ظاہری، جعفری، اباضی، زیدی اور معتزلی زیادہ مشہور ہوئے، وہ مسالک زیادہ پروان چڑھے ، پھیلے جن کے مجتہدین فقہائ، مختلف اعتبار سے خدمات انجام دیتے رہے، لیکن تاریخ یہ بھی بتاتی ہے کہ ان مسالک کے درمیان بسا اوقات نظریاتی کشمکش بھی پیدا ہوتی رہی جو کبھی کبھی باہمی جدال وقتال کا سبب بنتی رہی، ایسا نہیں ہے کہ تاریخ میں صرف سنی وشیعی نقطہ نظر کے حاملین کے درمیان فقہی اختلافات کی بنیاد پر قتال و جدال کی نوبت آئی ہو بلکہ یہ سلسلہ دیگر مسالک کے درمیان بھی برپا ہوا۔
اسلام جو بہت آسان اور فطرت سے ہم آہنگ آسمانی دین ہے، اس کے ماننے والوں میں فقہی اختلافات کی بنیاد پر باہمی جدال و قتال رونما ہوا، ان فقہی اختلافات کی نوعیت کئی طرح کی رہی، کچھ سیاسی اجتہادات و اختلافات اور کچھ غیر سیاسی اجتہادات نے امت کے درمیان فرقوں اور گروہوں کو جنم دیا، جس سے کئی دوسرے نظریات کے حامل فرقے وجود میں آئے۔

اللہ نے جو دین بھیجا وہ دین پوری انسانیت کے لیے ہے، کیونکہ وہ دین رحمت اور دین وحدت ہے۔ اس دین نے امت میں اجتماعی وحدت پیدا کرنے کے لیے بہت سے شعائر امت میں رواج دیئے جن سے امت میں اجتماعیت کی روح پیدا ہوتی ہے۔ آپ صلعم کے بعد فقہاءامت نے قرآن و سنت کو اور اپنی عقل کو مسائل کے حل کرنے کے سلسلہ میں بطور ذریعہ استعمال کیا۔

(۲)
شریعت، شرعة اور منہاج کا لفظ قرآن میں آیا ہے، مترجمین نے اس کا ترجمہ قانون، راستہ یا منہج حیات کیا ہے۔ لیکن شریعت اور فقہ میں ایک فرق یہ ہے کہ شریعت آسمانی وحی کی نمائندہ ہے اور فقہ ادراکی پہلو کی نمائندہ ہے، کیونکہ فقہ میں فقیہ اپنے فہم، تصور وادراک کا استعمال کرتا ہے ، جبکہ شریعت منزل من اللہ ہے کیونکہ شارع خود خدا ہے اسی لئے شارع کی نسبت انسانوں کی طرف نہیں کی جاسکتی سوائے رسول کے، کیونکہ وہ اللہ کی طرف سے پیغام کے پہنچانے والے ہیں۔
نظریاتی لحاظ سے شریعت اور فقہ کے درمیان ایک باریک حد فاصل ہے، مگر عملی اعتبار سے فقہ ہی کو شریعت سمجھ لیا گیا اور انسان کے فقہی اجتہادات کو مقدس ہونے کا درجہ دے دیا گیا اور اس کی نسبت اللہ کی طرف کردی گئی، چہ جائیکہ کہ اس کی نسبت انسانوں کے اجتہادات کی جانب کی جاتی۔ اس کیفیت نے جس میں کہ فقہ اور شریعت دونوں کو ہم معنی اور ہم پلہ تصور کیا گیا ایک نئی صورت حال پیدا کی جس کے سبب فقہی مسالک نے ایک دوسرے پر دین میں نئی بات پیدا کرنے کا الزام عائد کیا، اس رجحان کے نتیجہ میں جمود کی کیفیت پیدا ہوئی اور کسی بھی طرح کی تجدیدی کوشش کی مخالفت کی گئی۔ دھیرے دھیرے یہ صورتحال جس میں کہ ایک مسلک کی جانب سے دوسرے مسلک پر حقائق یا اصول شریعت کے انکار یا اجماع کے انکار جیسے اتہامات والزامات عائد کرنے سے سخت کشمکش برپا ہوئی، چنانچہ دوسری صدی ہجری میں عباسی دور میں معتزلہ اور دیگر گروہوں کے درمیان برپا کشمکش اس صورتحال کا ایک مظہر تھی۔

مسلکی اختلافات کی وجہ سے ۰۹۳ھ میں خراسان میں اور ۳۵۵ھ میں نیشاپور میں، ۱۸۵ھ میں اصفہان میں اور ۴۷۸ھ میں قدس میں احناف اور شوافع کے درمیان زبردست معرکہ آرائی رہی۔ ۰۹۳ھ میں خراسان میں احناف و شوافع کے درمیان جو خونی جنگ ہوئی اس کا سبب یہ ہوا کہ خلیفہ وقت نے امام غزالی سے (جو اصلاً شافعی مسلک کے تھے) متاثر ہوکر عدالتوں کو حنفی مسلک سے شافعی مسلک میں تبدیل کردیا، جس کی وجہ سے دونوں مسلک کے درمیان کشمکش برپا ہوئی۔
اسی طرح امام ابن صلاح نے اپنے شاگردوں کو چھٹی صدی ہجری میں فلسفہ کے اساتذہ سے مقابلہ کے لیے تلوار اٹھانے کی دعوت دی اور اسی ضمن میں یہ بات بھی شاید قابل ذکر ہو کہ بغداد، بصرہ، کرخ اور رئے وغیرہ میں سنیوں اور شیعوں کے درمیان مسلسل معرکہ آرائی رہی اور ان سب مباحثوں میں دین سے نکل جانے اور خارج ہوجانے کا کثرت سے الزام لگایا گیا۔ اگر گہرائی سے دیکھا جائے تو ان تمام جدال و قتال کے اندر فقہی اختلافات ہی اصل سبب رہے جس کے نتیجہ میں بہت سے ایسے متشددانہ رجحانات پیدا ہوئے جنہوں نے مخالفین کی آزادی رائے اور رواداری کی ثقافت کا خاتمہ کرنے کی کوشش کی ۔
دوسری جانب جمود کی کیفیت اور تجدید کی مخالفت کے رجحان نے اجتہادات کو مقدس اور ثوابت کے دائرہ میں رکھ دیا جس کا سلسلہ صدیوں پر محیط رہا اور آخر میں یہ ہوگیا کہ اجتہاد کا دروازہ بند کردیا گیا جس کے نتیجہ میں بہت سے نقصانات رونما ہوئے۔

جب صحابہ کرام دنیا کے مختلف حصوں میں گئے اور اسلامی حکومت کا دائرہ وسیع ہوا تو صحابہ کو نئی تہذیبوں اور ثقافتوں سے سامنا ہوا اور ان کے سامنے نئے سوالات آئے، اس صورتحال میں صحابہ کرام نے اپنے خاص فہم کا استعمال کیا اور شرعی مصلحت کے اعتبار سے حکم لگایا ۔ صحابہ کے اجتہادات میں جو احوال کی وجہ سے اختلافات رونما ہوئے وہ طریقہ اجتہاد کی وجہ سے ہوا جس کے نتیجہ میں دو گروہ ابھرے، ایک اہل رائے اور دوسرا اہل اثر کا۔ ان دونوں گروہوں کے طریقہ¿ فکر میں جو بات محسوس ہوتی ہے اس میں بعض اسباب کا رول سمجھ میں آتا ہے، اس میں سے ایک سبب سیاسی اختلافات ہیں، دوسرا سبب ائمہ مجتہدین کی خود اپنی شخصیت ہے۔ تیسرا سبب دنیا کے مختلف حصوں میں صحابہ کا پھیل جانا ہے۔

سیاسی اختلافات میں حضرت عثمانؓ کی شہادت بھی ایک اہم سبب ہے جس کے نتیجہ میں صحابہ کرام کے درمیان کئی گروہ ہوگئے۔ ان سیاسی اختلافات نے یہ موقع بھی فراہم کیا کہ بعض لوگ اپنی سیاسی رائے کی تائید میں حدیثیں گڑھیں۔

ددوسرا سبب خود اس عہد کے ائمہ کی اپنی شخصیت ہے کہ ان پر ان لوگوں کے واضح اثرات محسوس ہوتے ہیں جن سے انھوں نے علم حاصل کیا، گویا استاذ کا اثر شاگرد پر واضح طور پر نظر آتا ہے۔ اسی طرح مجتہد کی شخصیت اور ذاتی میلانات کے اثرات اس کے اجتہادات پر مرتب ہوئے، ایسے دو بزرگ صحابی حضرت عبد اللہ بن عمر اور حضرت عبد اللہ بن عباس کے اجتہادی اختلافات میں دیکھا جاسکتا ہے۔ چنانچہ جب ابو جعفر منصور نے حضرت مالک بن انس سے درخواست کی کہ وہ موطا مرتب فرمادیں تو ان سے کہا کہ آپ ایسی کتاب مرتب فرمادیں جس سے لوگوں کو نفع پہنچے، اس میں آپ ابن عباس کی رخصتوں اور بن عمر کی سختیوں سے بچیں ۔ مشہور ہے کہ حضرت عبد اللہ بن عمر کا میلان شدت کی طرف رہا کرتا تھا اور ان کے اس شخصی رجحان کا اثر ان کے اور ان کے تلامذہ کے آراءمیں بھی واضح طور پر ملتا ہے، جبکہ حضرت عبد اللہ بن عباس سہولت اور آسانی کا رجحان رکھتے تھے جس کا اظہار ان کے فتاوی اور ان کے شاگردوں کی آراءمیں ہوتا ہے۔

تیسرا سبب پہلی صدی ہجری میں وسیع پیمانہ پر ہجرتوں اور ادھر سے اُدھر منتقلی کا ہے، جس میں خاص طور پر صحابہ عراق، شام اور مصر کی طرف ہجرت کرتے نظر آتے ہیں اور دور دراز خطوں کی طرف سفر کرتے ہیں، مثلاً عراق بہت سے صحابہ کا وطن بن گیا جیسے علی بن ابی طالب اور ان کے بیٹوں، حضرت عبد اللہ بن عباس، اسامہ بن زید، محمد بن مسلمہ ، ابو مسعود انصاری وغیرہ۔ اسی طرح مصر بہت سے صحابہ کا وطن بن گیا جن میں عمرو بن عاص، قیس بن سعد، محمد بن ابی بکر، عمار بن یاسر وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ یمن بھی بہت سے صحابہ کا وطن بن گیا جن میں معاذ بن جبل، عبید اللہ بن عباس وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ اسی طرح شام بھی بہت سے صحابہ کا وطن بن گیا جن میں عبد اللہ بن عمر، خالد بن ولید، ضحاک بن قیس وغیرہ شامل ہیں۔ اسی طرح عمان بھی صحابہ کا وطن بن گیا جن میں حذیفہ بن یمان قابل ذکر ہیں۔ حضرت ابو ایوب انصاری تو بہت دور قسطنطنیہ (استنبول) کے قریب پہنچ گئے اور وہیں ان کی وفات ہوئی۔ مگر ان ساری ہجرتوں کے ساتھ ساتھ صحابہ کی بڑی تعداد مکہ اور مدینہ ہی میں موجود رہی ۔
دوسری اور تیسری صدی ہجری کو ائمہ کا عہد کہا جاتا ہے۔ اس دورانیہ میں محمد بن ادریس شافعی (وفات: ۰۴۲ھ)، مالک بن انس (وفات: ۹۷۱ھ)، ابو حنیفة النعمان (وفات: ۰۵۱ھ)، احمد بن حنبل (وفات: ۱۴۲ھ)، جعفر صادق (وفات: ۹۳۱ھ)، زید بن علی (وفات: (۰۳۱ھ)، عبد اللہ بن اباض (وفات: ۶۸۱ھ) کی شخصیات نمایاں ہوئیں، ان سب ائمہ کے فقہی اجتہادات کی روشنی میں مختلف فقہی مسالک وجود میں آئے، ان کے علاوہ اور بھی ائمہ اسی دوران ابھرے لیکن ان کے مسلک کو فروغ حاصل نہ ہوسکا، جن میں سفیان ثوری (وفات: ۱۶۱ھ)، امام اوزاعی (وفات: ۷۵۱ھ)، لیث بن سعد (۵۷۱ھ) قابل ذکر ہیں۔ اسی طرح داو¿د بن علی (وفات: ۸۶۲ھ) کی شخصیت نمایاں ہوئی جن کے ذریعہ مسلکی ظاہری وجود میں آیا۔ ان تمام ائمہ نے روایات، فتاوی اور تلامذہ کی بڑی تعداد گرانقدر سرمایہ کی شکل میں تاریخ میں چھوڑی جن کی تفصیلات کا یہاں موقع نہیں۔

(۳)
سچی بات یہ ہے کہ اگر ادب واحترام کا پہلو ملحوظ نہ رکھا جائے اور اختلاف کے باوجود علمی ودینی امور میں ایک دوسرے سے تعاون نہ کیا جائے تو انتشار کا امکان زیادہ بڑھ جاتا ہے، عہد حاضر میں بے شمار جماعتیں، تنظیمیں، ادارے ، مدارس ومساجد مسالک کی بنیاد پر وجود میں آئے جو اپنے اپنے مسلک کی روشنی میں دین کو پیش کرتے رہے یا دین کے حوالہ سے اپنی مخصوص آراءکو مسلک کی شکل میں پیش کرتے رہے تو جب جب اس عمل میں عدم توازن پیدا ہوا فکری انتہا پسندی اور تشدد وغلو کو فروغ ملا، اور پھر یہ بھی کہ نفرت کے ساتھ ساتھ دوریاں پیدا ہوتی رہیں اور فاصلے بڑھتے رہے، خونریزی وفساد کو بھی باعث اجر وثواب سمجھا جانے لگا، ایک کلمہ گو دوسرے کلمہ گو سے ہر طرح کا رشتہ ختم کرکے اس کو نقصان پہنچانے کے درپے ہوگیا، ایک طرح کا فکری اور اخلاقی انحراف وفساد پیدا ہوا، یہ اصلاً دین سے انحراف ہے ، امت کے درمیان خاص طور پر پورے برصغیر میں یہ کیفیت موجود ہے او رنہ جانے کتنے ایسے واقعات ہیں کہ جن سے امت کی عجیب وغریب تصویر ابھر کر سامنے آتی ہے اور عام مسلمان کو حیرت میں ڈالتی ہے کہ یہ کلمہ گو کس طرح آراءکے اختلافات کی وجہ سے ایک دوسرے سے اس قدر نفرت کرنے لگتے ہیں اور اتنی دوری اختیار کرلیتے ہیں جیسے کہ سفیدی وتاریکی کے درمیان دوری ۔

فقہی مسالک کی شدت نے بہت سی ایسی شکلیں پیش کیں جن پر حیرت ہوتی ہے ان میں سے ایک مسالک کے اعتبار سے مساجد میں جماعت کے لئے جگہوں کا مخصوص کیا جانا ہے، یہ صورت حال عالم اسلام میں مختلف مقامات پر پیدا ہوئی، آج بھی ہندوستان کے متعدد مساجد میں الگ الگ مسالک کی جماعتیں الگ الگ وقتوں میں ہوتی ہیں، مسلکی اختلافات کی بنیاد پر تحریروں اور کتابوں کے انبار لگائے جاتے ہیں، اپنے مسلک کے اثبات اور دوسرے مسلک کے ابطال کے لئے کافی تحریریں ماضی میں لکھی جاچکی ہیں، ہندوستان کے مدارس میں دوسرے مسالک کے طلبہ کو نکالنے اور اخراج کرنے کا عمل ہوتا رہا ہے، اسی طرح اساتذہ سے فقہی اختلاف کی بنیاد پر ان کو برطرف کرنے اور ان کو نکالنے کا عمل انجام دیا جاتا رہا ہے، آیات احکام ودورہ¿ حدیث میں بھی مسلک کے اثبات کا رجحان حاوی رہتا ہے، عصر حاضر میں علماءکے درمیان نہ تو اختلاف کا ادب پایا جاتا ہے اور نہ ہی تحمل کی طاقت ، اسی وجہ سے معاصر فقہاءکو بآسانی گمراہ قرار دے دیا جاتا ہے، اور یہ سلسلہ قائم ہے ، مسلکی اختلاف کی بنیاد پر مضامین، مقالات، اور کتابوں کی اشاعت روک دی جاتی ہے اور ان کو لائبریریز میں جگہ نہیں دی جاتی، ان پر پابندی عائد کی جاتی ہے، اقبال نے کہا تھا
(۱) اٹھا میں مدرسہ وخانقاہ سے نمناک نہ معرفت ملی نہ محبت نہ نگاہ
(۲) گلا تو گھونٹ دیا اہل مدرسہ نے تیرا کہاں سے آئے صدائے لا الہ الا اللہ
روایت پسندی کے جنون میں جس طرح تحقیق وبحث کے ذوق کا خاتمہ کیا گیا وہ اپنے آپ میں ایک مثال ہے ۔

یہ ایک سچائی ہے کہمسلکی شدت کی بنیاد پر ہونے والی تفریقات نے بہت سی مشکلات پیدا کیں، اسلام کی تصویر اور شبیہ متاثر ہوئی اسلامی شریعت کے بارے میں لوگوں کے ذہنوں میں سوالات ابھرنے لگے، کیونکہ اس شدت کے نتیجہ میں علمائ، دین کے بجائے مسلک کی تبلیغ کرنے لگے اور اپنے اپنے مسلک کی جانب بلانے لگے اور اگر کبھی کسی نے ان کو یہ بتانے کی کوشش کی کہ یہ روش مناسب نہیں تو اس نصیحت پر تنقید کی جانے لگی، اگر کسی نے کھلے ذہن کے ساتھ اور کھلے دل کے ساتھ سوچنے اور سمجھنے کی کوشش کی تو وہ بھی تنقید کا نشانہ بنا، تاریخ نے یہ بھی دیکھا کہ تقلید وعدم تقلید اور تجدید واحیاءدین کے مسئلہ پر شدید بحثیں ہوئیں، جزوی مسائل پر علمی وعقلی قوت صرف کی گئی، فقہی مسالک کی خصوصیات وامتیازات اور فضیلت پر کتابیں تصنیف کی گئیں، مستحب کو سنت اور سنت کو فرض کا درجہ دیا جانے لگا، آداب اور سلیقوں کو وجوب کے درجہ میں لے لیا گیا، یہ جو علماءکا ذہن بنا اس کی پہلی بنیادی وجہ منہج تعلیم وتدریس ہے اوراس کی دوسری وجہ خود علماءکا محدود ذہنی وفکری سانچہ ہے، حالانکہ علم تو وسعت و غیر جانب داری چاہتا ہے، غوروفکر چاہتا ہے، جس کا تقاضا یہ ہے کہ ایک رائے پر اصرار نہ ہو بلکہ مزید بہتر کی تلاش جاری رہے، اور اسی علم کا تقاضا یہ بھی ہے کہ حلم و تحمل پیدا ہو ، ایسا تحمل کہ جس میں دوسرے کی رائے کے لئے برداشت کی قوت پیدا ہوسکے، برصغیر میں ملت اسلامیہ کی جو صورتحال ہے وہ یہی ہے کہ اس میں ہر عالم کی آنکھ پر مسلک کا ایک چشمہ لگا ہوا ہے، جو چشمہ صرف اپنے ہم مسلک کو تلاش کرتا ہے اور اسی کو پہچانتا ہے، اس کے نتیجہ میں وحدت پر سخت ضرب لگی اور وہ مجروح ہوئی، صورتحال یہ ہے کہ (علمائ) نہ تو اعتدال وتوازن کی راہ اختیار کر رہے ہیں اور نہ ہی مسلکی اختلافات کو محدود کرنے اور کم کرنے کے لئے باہم مذاکرات کر رہے ہیں او رنہ ہی مسالک کے درمیان قربت و یگانگت پیدا کرنے کے لئے سنجیدہ کوشش کر رہے ہیں۔

برصغیر میں خاص طور پر پڑوسی ملک میں جس طرح مسلک کی بنیاد پر خونریزی ہوتی ہے وہ بہت المناک ہے ، ہندوستان میں یہ صورتحال تو نہیں ہے لیکن فکری دہشت گردی کا ماحول ضرور ہے جس میں ایک گروہ اپنی فکر کو دوسرے گروہ پر زبردستی مسلط کرنا چاہتا ہے، ترکی کے مشہور عالم علامہ بدیع الزماں نورسی کی یہ بات بہت اچھی ہے ”کہ آپ کو جب اس بات کا علم ہوجائے کہ آپ اپنے فکر وعمل میں حق پر ہیں تو آپ کے لئے یہ کہنا جائز ہے کہ میرا مسلک حق ہے یا میرا مسلک اچھا ہے لیکن یہ کہنا جائز نہیں کہ صرف میرا ہی مسلک حق ہے“۔

موجودہ صورتحال میں اعتدال کی راہ یہی ہے کہ شدت کے بجائے مودت کا طریقہ اختیار کیا جائے، دوسرے کی رائے کا احترام کیا جائے، اور طنز وتشنیع ، تحقیر وتوہین کے بجائے، دوسرے کی رائے کو باطل قرار دینے کے بجائے آپ جس طریقے کو حق سمجھتے ہیں اس پر عمل کریں لیکن دوسرے کو اس پر نہ مجبور کریں اور نہ ہی ایسے نفسیاتی حربے استعمال کریں کہ جس سے بنیادی آزادی کا خاتمہ ہوتا ہو۔ اختلاف کے جو آداب بیان کئے گئے ہیں اور ہر مومن کا جو مقام ومرتبہ ہے اس کے لحاظ سے محبت واخوت کی بنیاد پر تعاون وحسن سلوک کیا جائے کہ اس کے بغیر معاشرہ میں توازن پیدا نہیں ہوسکتا۔ مساجد ومدارس کے دروازے ہر مسلک کے لئے کھولے جائیں اور مساجد کے بہتر اور مدارس کو مسلک پر تنقید وتبصرہ کا مرکز نہ بنایا جائے۔

(۴)
موجودہ حالات میں تحریک اسلامی کے علماءکا منہج یہ ہونا چاہئے کہ وہ قرآن کو اپنی زندگی کے لئے آئینہ بنائےں اور اسی سے روشنی وتازگی حاصل کرےں، جب تک قرآن کو زندگی میں، مطالعہ میں، روزو شب میں، معمولات میں اولیت و افضلیت حاصل نہیں ہوگی اور جب تک آیات میں غور وخوض نہیں ہوگا اس وقت تک نہ دل کی حالت درست ہوگی اور نہ دماغ کی حالت، نہ ہی اخلاق وعادات میں تبدیلی آئے گی، اسی کے ساتھ اس بات کی کوشش بھی ضروری ہے کہ رسول ﷺسے محبت میں غیرمعمولی اضافہ ہو، یقینا اس کے لئے جاہ پرستی، زرپرستی، نفس پرستی، خود پرستی سے بلند ہونا ہوگا، اور ان سب کو ترک کرکے رسول سے محبت کرنی ہوگی تب اس کے نتیجہ میں اعتدال بھی پیدا ہوگا، رحم دلی بھی پیدا ہوگی، انسانیت کا خیال بھی پیدا ہوگا اور اس بات کی بھی فکر ہوگی کہ فقہی مسلک سے زیادہ بلند اللہ کا بھیجا ہوا پیغام ، آسمانی ہدایت (قرآن) ہے جس کی طرف انسانوں کو بلایا جانا چاہئے اور دعوت دینی چاہئے، جو گروہ بندی کے بجائے وحدت کا درس دیتا ہے۔

آخری بات یہ ہے کہ علماءجب تک اپنی فکر کو بلند نہ کریںگے اور اپنی فکر میں وسعت پیدا نہ کریںگے اور غیر جانب دارانہ انداز سے بحث وتحقیق نہ کریںگے اس وقت تک کوئی بڑی تبدیلی نہ آسکے گی۔ موجودہ زندگی، موجودہ سماج، اور پوری ملت اک تبدیلی، اک انقلاب اور تجدید چاہتی ہے، اسلام کی روشن ہدایات کے دائرہ میں کس طرح فکر کو ترقی دی جائے اور علوم کو تازگی بخشی جائے، یہ غور وفکر کا موضوع ہے۔
٭٭٭

حالیہ شمارے

براہیمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے

شمارہ پڑھیں

امتیازی سلوک کے خلاف منظم جدو جہد کی ضرورت

شمارہ پڑھیں