محمد آصف اقبال، نئی دہلی
اعتدال ایک ایسا طرز عمل ہے جس کے نتیجہ میں ہمیشہ خیر کا پہلو نمایاں رہتا ہے۔اس کے برخلاف بے اعتدالی ہر اعتبار سے فرد،ملت اور معاشرہ کو بگاڑ کی جانب گامزن کرتی ہے۔ایسا شخص جواعتدال سے تجاوز کرتا ہواور میانہ روی اس کی پہچان نہ ہودنیا میں کوئی بڑا کام انجام نہیں دے سکتا۔ ایک معتدل مزاج شخص ہر وہ ہدف حاصل کر سکتا ہے جس کی تمنا وہ اپنے دل میں لیے ہوئے ہے، جسے وہ حاصل کرنا چاہتا ہے۔مزاج کی بے اعتدالی دراصل فکر و نظر کے کمزور ہونے اور حقائق کی گہرائی یاگیرائی سے ناواقفیت کا نتیجہ ہے۔جس کے سبب انسان اندرون خانہ و بیرون زمانہ اپنے آپ کو اکیلا سمجھنے لگتا ہے،وہ ہر آزمائش کو بطور چیلنج قبول کرنے سے قاصر ہو جاتا ہے،یہاں تک کہ تھک ہار کر ان بڑے مقاصد کو چھوڑ بیٹھتا ہے،جنہیں وہ کبھی حاصل کرنا چاہتا تھا۔دوسری جانب انتہا پسندانہ اسکیمیں جو انتہا پسندانہ طریقوں سے چلائی جاتی ہیں، عام انسانوں میں اثر پذیری کے اعتبار سے ناکام ثابت ہوتی ہیں۔لہذاعام انسان ان طریقوں سے کراہیت محسوس کرتا ہے اور جو لوگ اس طریقہ کو اختیار کرتے ہیں۔ابتدا میں ضرورت سے زیادہ جوش و جذبہ میں ہر تنقید کو آزمائش سمجھتے ہیں لیکن رفتہ رفتہ ناکامی کے سبب ان میں مایوسی پیدا ہوجاتی ہے اور وہ معاشرہ میں کوئی بڑا کردار ادا کرنے کے لائق نہیں رہتے۔ان سب کی بنیادی وجہ فکر و نظر اور اعمال و طریقہ کار کایک رخا پن ہے۔اس کیفیت میں مبتلا ہوکر متذکرہ افراد و گروہ کو تصویر کا ایک ہی رخ نظر آتا ہے اور وہ دوسرے رخ کو دیکھنے سے قاصر رہتے ہیں۔انتہا یہ ہوتی ہے کہ ضرورت سے زیادہ فرد و گروہ اپنے نقطہ نظر کے علاوہ کسی دوسرے کو اہمیت نہیں دیتا،اپنے طریقہ کار میں تبدیلی کے لیے راضی نہیں ہوتا،ضرورت سے زیادہ اپنی بات پر اصرار کرتا ہے،اختلاف رائے کی گنجائش ختم ہو جاتی ہے،یہاں تک کہ دوسروں کی نیتوں پر شکو ک و شبہات کرنا عام بات ہو جاتی ہے،کشمکش، دھڑے بندی شروع ہوجاتی ہے اور صلاحیت کا جنازہ نکل جاتا ہے۔اس پس منظر میں بے اعتدالی کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ اعتدال کے معنی و مفہوم سمجھیں جائیں۔ اس پر اپنے شب و روز کے اعمال کو قائم کیا جائے۔ قرآن وسنت میں بہت سی ایسی آیات واحادیث ہیں جو اسلام کی وسطیت اور اس کے افراط وتفریط سے پاک متوازن ومعتدل ہونے پر دلالت کرتی ہیں۔ ایسی وسطیت جس میں کوئی انحراف وکجی نہیں ہے۔ بحیثیت مسلمان ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم غلو وتقصیر اور افراط وتفریط سے پاک زندگی بسر کریں۔ نہ اس میں انتہا پسندی ہواور نہ سستی وکاہلی ہی۔
سورہ لقمن میں حضرت لقمٰن اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:”بیٹا، کوئی چیز رائی کے دانہ برابر بھی ہو اور کسی چٹان میں یا آسمانوں یا زمین میں کہیں چھُپی ہوئی ہو، اللہ اُسے نکال لائے گا، وہ باریک بیں اور باخبر ہے۔ بیٹا، نماز قائم کرنے کا حکم دے، بدی سے منع کر، اور جو مصیبت بھی پڑے اس پر صبر کر۔ یہ وہ باتیں ہیں جن کی بڑی تاکید کی گئی ہے۔ اور لوگوں سے منہ پھیر کر بات نہ کر، نہ زمین میں اکڑ کر چل، اللہ کسی خود پسند اور فخر جتانے والے شخص کو پسند نہیں کرتا۔ اپنی چال میں اعتدال اختیار کر، اور اپنی آواز ذرا پست رکھ، سب آوازوں سے زیادہ بُری آواز گدھوں کی آواز ہوتی ہے۔“(سورہ لقمٰن:16-19)۔یہ تمام صفات بندہ مومن کے اندر اسی وقت پیدا ہو سکتی ہیں جبکہ اس ہر عمل میں توازن موجود ہو۔قرآن کی ہرآیت اللہ رب العزت کی بطور ہدایت فراہم کردہ آیت ہے۔جسے مسلمانوں کو اختیار کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ ان آیات کے آخر میں ”چال میں اعتدال“پیدا کرنے کی نصیحت و ہدایت کی گئی ہے،جسے سمجھنا ضروری ہے۔ بعض مفسرین نے اس کا مطلب یہ لیا ہے کہ”تیز بھی نہ چل اور آہستہ بھی نہ چل، بلکہ میانہ روی اختیار کر۔“لیکن سیاقِ کلام سے معلوم ہوتا ہے کہ یہاں رفتار کی تیزی و سستی زیر بحث نہیں ہے۔ آہستہ چلنا یا تیز چلنا اپنے اندر کوئی اخلاقی حسن و قبح نہیں رکھتا اور نہ اس کے لیے کوئی ضابطہ مقرر کیا جا سکتا ہے۔ آدمی کو جلدی کا کوئی کام ہو تو تیز کیوں نہ چلے؟ اور اگر وہ محض تفریحاً چل رہا ہو تو آخر آہستہ چلنے میں کیا قباحت ہے۔ میانہ رو ی کا اگر کوئی معیار ہو بھی تو ہر حالت میں ہر شخص کے لیے اسے ایک قاعدہ کلّیہ کیسے بنایا جا سکتا ہے۔ دراصل جو چیز یہاں مقصود ہے وہ تو نفس کی اُس کیفیت کی اصلاح ہے جس کے اثر سے چال میں تبختر اور مسکینی کا ظہور ہوتا ہے۔ بڑائی کا گھمنڈانسان کے اندر موجود ہو تو وہ لازماً ایک خاص طرز کی چال میں ڈھل کر ظاہر ہوتا ہے۔ جسے دیکھ کر یہ معلوم ہو جاتا ہے کہ آدمی کسی گھمنڈ میں مبتلا ہے۔بلکہ چال کی شان یہ تک بتا دیتی ہے کہ کس گھمنڈ میں مبتلا ہے۔ دولت،اقتدار،حسن،علم، طاقت اور ایسی ہی دوسری جتنی چیزیں بھی انسان کے اندر تکبُّر پیدا کرتی ہیں۔ ان میں سے ہر ایک کا گھمنڈ اس کی چال کا ایک مخصوص ٹائپ پیدا کر دیتا ہے۔ اس کے برعکس چال میں مسکینی کا ظہور بھی کسی نہ کسی مذموم نفسی کیفیت کے اثر سے ہوتا ہے۔ کبھی انسان کے نفس کا مخفی تکبُّر ایک نمائشی تواضع اور دکھاوے کی درویشی و خدا رسیدگی کا روپ دھار لیتا ہے۔ اور یہ چیز اس کی چال میں نمایاں نظر آتی ہے۔ کبھی انسان واقعی دنیا اور اس کے حالات سے شکست کھا کر اور اپنی نگاہ میں آپ حقیر ہو کر مریل چال چلنے لگتا ہے۔حضرت لقمان کی نصیحت کا منشا یہ ہے کہ اپنے نفس کی ان کیفیات کو دور کرو اور ایک سیدھے سادھے معقول اور شریف آدمی کی سی چال چلو۔جس میں نہ کو ئی اینٹھ اور اکڑ ہو، نہ مریل پن، اور نہ ریا کارانہ زہد و انکسار۔صحابہ کرام ؓ کا ذوق اس معاملہ میں جیسا کچھ تھا اس کا اندازہ اس سے کیا جا سکتا ہے کہ حضرت عمرؓ نے ایک دفعہ ایک شخص کو سر جھکائے ہوئے چلتے دیکھا تو پکار فرمایا”سر اُٹھا کر چل، اسلام مریض نہیں ہے۔“ایک اور شخص کو اُنہوں نے مریل چال چلتے دیکھا تو فرمایا ”ظالم، ہمارے دین کو کیوں مارے ڈالتا ہے۔“ان دونوں واقعات سے معلوم ہوا کہ حضرت عمرؓ کے نزدیک دین داری کا تقاضا ہر گز یہ نہیں تھا کہ آدمی بیماروں کی طرح پھونک پھونک کر قدم رکھے اور خواہ مخواہ مسکین بنا چلا جائے۔ کسی مسلمان کو ایسی چال چلتے دیکھ کر انہیں خطرہ ہوتا تھا کہ یہ چال دوسروں کے سامنے اسلام کی غلط نمائندگی کرے گی اور خود مسلمانوں کے اندر افسردگی پیدا کر دے گی۔ ایسا ہی واقعہ حضرت عائشہؓ کو پیش آیا۔ انہوں نے دیکھا کہ ایک صاحب بہت مضمحل سے بنے ہوئے چل رہے ہیں۔پوچھا انہیں کیا ہو گیا؟ عرض کیا گیا کہ یہ قرّاء میں سے ہیں (یعنی قرآن پڑھنے پڑھانے والے اور تعلیم و عبادت میں مشغول رہنے والے)۔ اس پر حضرت عائشہؓ نے فرمایا ”عمر سید القراء تھے، مگر ان کا حال یہ تھا کہ جب چلتے تو زور سے چلتے، جب بولتے تو قوت کے ساتھ بولتے اور جب پیٹتے تو خوب پیٹتے تھے۔“وہیں اس چال میں ہمارا ہر وہ عمل بھی شامل ہے جسے ہم انجام دیتے ہیں۔زندگی میں انجام دی جانے والی ہر سرگرمی کے لیے اعتدال بہت ضروری ہے۔میانہ روی، طرفین کے بیچ معتدل موقف سے عبارت ہے، جس میں افراط وتفریط نہ ہو، غلو وزیادتی، اور کمی و کوتاہی نہ ہو۔ یہ روحانیت ومادیت، واقعیت ومثالیت اور انفرادیت واجتماعیت کے درمیان ایک درست پیمانہ ہے۔ جیسا کہ کہاگیا ہے ”ألوَسطُ فَضِیلَۃ بَینَ رَذِیلَتَینِ“،یعنی دو کمتراعمال کے درمیان ایک فضیلت وبرتری اعتدال اور میانہ روی کہلاتا ہے۔
یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ اسلام امن وسلامتی، تحمل و برداشت، رواداری اور احترام آدمیت کا سب سے عظیم مذہب ہے۔اسلام کی نگاہ میں سب انسان بغیرکسی تفریق و امتیاز کے احترام کے مستحق ہیں۔اسلام میں عدم برداشت اور انتہا پسندی کا کوئی تصور نہیں ہے۔اسلام وہ آفاقی عظیم مذہب ہے جس نے ساری کائنات کو امن وسلامتی اور بنی نوع انسان کے لیے احترام کا درس دیا ہے۔ یہ اسلام کی شان اور عظمت ہی ہے کہ اس نے اشرف المخلوقات کے لیے پر امن بقائے باہم مذہب و ملت لَکُم دِینُکُم وَلِیَ دِین (تمہارے لیے تمہارا دین ہے اور میرے لیے میرا دین)کا عظیم تصور پیش کیا۔ اسلام ہی نے انسانی عظمت کے مینار کو بلند کرتے ہوئے اس کو غیر جانبداری، اعتدال پسندی اور امن و سلامتی کا وہ منشور و فلسفہ عطا کیا جس پر اسلام کی عمارت تعمیر ہے۔ اسلام نے ساری کائنات کی مخلوق کو یہ درس دیا کہ ملت اسلامی کا رب سارے جہاں کا رب ہے۔اس کی سب سے بڑی عظمت و شان یہ ہے کہ وہ رحمان و رحیم ہے۔ غفور الرحیم ہے۔آج ملک سے مذہبی انتہا پسندی کے خاتمے، فرقہ واریت سے نجات، دینی اور ملی یگانگت کے لیے ضروری ہے کہ اسلام کے اخوت و مساوات اور اتحاد و یگانگت، روشن خیال اور اعتدال پسندی کے پیغام کو عام کیا جائے۔اعتدال پسند معاشرے کی تشکیل کے لیے تجاویز، اسلامی معاشرے میں امن کے قیام، مملکت کے استحکام اور پر امن بقائے باہم کے لیے ضروری ہے کہ تحمل و برداشت، عفو و درگزر، حلم و برد باری، رواداری، روشن خیالی اور اعتدال پسندی کو فروغ دیا جائے۔یہی وہ تعلیمات ہیں جن پر عمل کرکے ہم فرقہ واریت سے نجات اور مذہبی انتہا پسندی کا خاتمہ کرسکتے ہیں نیز فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو فروغ دے سکتے ہیں۔
اللہ کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا”خبردار میرے بعد کفر کی طرف نہ لوٹ جانا کہ ایک دوسرے کی گردن مارنے لگو۔“یہی بات قرآن حکیم میں اللہ تعالیٰ نے بھی فرمائی ہے کہ: ”سب ملک کر اللہ کی رسی (ہدایت کی رسی) کو مضبوطی سے پکڑلواورتفرقہ میں نہ پڑو۔“(سورہ آلِ عمران، آیت103)۔ایک موقع پر فرمایا:”قائم کرو اس دین کو اور اس میں متفرق نہ ہو جاؤ“ (سورہ الشورٰی، آیت 13)۔مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ رسول اکرمؐ کے اسوہ حسنہ کے متعلق لکھتے ہیں ”اللہ تعالیٰ نے رسول اکرمؐ کو جس اعلیٰ درجے کے اخلاق اور اعلیٰ درجے کے طبعی و خلقی موزونیت سے نوازا تھا۔ وہ آنے والی صدیوں اور موجودہ و آیندہ نسلوں کے لیے معراج کمال ہے اور اسے ہم اعتدال فطرت(اعتدال پسندی، میانہ روی) سلامت ذوق، لطافت شعور، توازن و جامعیت اور افراد و تفریط سے پاک تعبیرکرسکتے ہیں۔حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ کو جب دو کاموں میں کسی ایک کو ترجیح دینی ہوتی تو آپؐ ہمیشہ اسے اختیار فرماتے جو زیادہ سہل ہوتا۔ بشرطیکہ اس میں گناہ کا شائبہ نہ ہو، اگر اس میں گناہ ہوتا تو آپؐ اس سے سب سے زیادہ دور ہوتے۔
درمیانی روش کے سلسلے میں اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم میں ایک فرمایا ہے کہ:”اِسی طرح تو ہم نے تمہیں ایک ’اُمَّت وَسَط‘بنایا ہے تاکہ تم دُنیا کے لوگوں پر گواہ ہو اور رُسول تم پر گواہ ہو۔“(سورہ البقرہ، آیت143)۔آیت کی تفسیر میں مولانا سید ابوالاعلی مودودی ؒ لکھتے ہیں یہ اُمّتِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی امامت کا اعلان ہے۔ ’اسی طرح‘ کا اشارہ دونوں طرف ہے: اللہ کی اُس رہنمائی کی طرف بھی، جس سے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی قبول کرنے والوں کو سیدھی راہ معلوم ہوئی اور وہ ترقی کرتے کرتے اِس مرتبے پر پہنچے کہ ”اُمّتِ وَسَط“ قرار دیے گئے، اور تحویلِ قبلہ کی طرف بھی کہ نادان اسے محض ایک سَمْت سے دُوسری سَمْت کی طرف پھرنا سمجھ رہے ہیں۔ حالانکہ دراصل بیت المقدس سے کعبے کی طرف سَمْت قبلہ کا پھرنا یہ معنی رکھتا ہے کہ اللہ نے بنی اسرائیل کو دُنیا کی پیشوائی کے منصب سے باضابطہ معزُول کیا اور اُمّتِ محمدیہ کو اس پر فائز کر دیا۔’اُمتِ وَسَط‘ کا لفظ اس قدر وسیع معنویت اپنے اندر رکھتا ہے کہ کسی دُوسرے لفظ سے اس کے ترجمے کا حق ادا نہیں کیا جا سکتا۔ اس سے مراد ایک ایسا اعلیٰ اور اشرف گروہ ہے، جو عدل و انصاف اور توسّط کی روش پر قائم ہو، جو دنیا کی قوموں کے درمیان صدر کی حیثیت رکھتا ہو، جس کا تعلق سب کے ساتھ یکساں حق اور راستی کا تعلق ہواور ناحق، ناروا تعلق کسی سے نہ ہو۔ پھر یہ جو فرمایا کہ تمہیں ’اُمّتِ وَسَط‘ اس لیے بنایا گیا ہے کہ’تم لوگوں پر گواہ ہو اور رسُول تم پر گواہ ہو‘،تو اس سے مراد یہ ہے کہ آخرت میں جب پوری نوعِ انسانی کا اکٹھا حساب لیا جائے گااُس وقت رسُول ہمارے ذمّہ دار نمائندے کی حیثیت سے تم پر گواہی دے گا کہ فکرِ صحیح اور عملِ صالح اور نظامِ عدل کی جو تعلیم ہم نے اُسے دی تھی۔ وہ اس نے تم کو بے کم و کاست پوری کی پوری پہنچا دی اور عملاً اس کے مطابق کام کر کے دکھا دیا۔ اس کے بعد رسُولؐ کے قائم مقام ہونے کی حیثیت سے تم کو عام انسانوں پر گواہ کی حیثیت سے اُٹھنا ہوگا۔ یہ شہادت دینی ہوگی کہ رسُول نے جو کچھ تمہیں پہنچایا تھا۔وہ تم نے انہیں پہنچانے میں، اور جو کچھ رسُول نے تمہیں دکھایا تھا وہ تم نے انہیں دکھانے میں اپنی حد تک کوئی کوتاہی نہیں کی۔
اس طرح کسی شخص یا گروہ کا اس دُنیا میں خدا کی طرف سے گواہی کے منصب پر مامور ہونا ہی درحقیقت اس کا امامت اور پیشوائی کے مقام پر سرفراز کیا جانا ہے۔ اس میں جہاں فضیلت اور سرفرازی ہے وہیں ذمّہ داری کا بہت بڑا بار بھی ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ جس طرح رسُول صلی اللہ علیہ وسلم اس اُمّت کے لیے خدا ترسی، راست روی، عدالت اور حق پرستی کی زندہ شہادت بنے۔ اسی طرح اِس اُمّت کو بھی تمام دُنیا کے لیے زندہ شہادت بننا چاہیے۔ حتّٰی کہ اس کے قول اور عمل اور برتا ؤ، ہر چیز کو دیکھ کر دُنیا کو معلوم ہو کہ خدا ترسی اس کا نام ہے۔ راست روی یہ ہے، عدالت اس کو کہتے ہیں اور حق پرستی ایسی ہوتی ہے۔ پھر اس کے معنی یہ بھی ہیں کہ جس طرح خدا کی ہدایت ہم تک پہنچانے کے لیے رسُول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذمّہ داری بڑی سخت تھی۔ اگر وہ اِس میں ذرا سی کوتاہی بھی کرتے تو خدا کے یہاں ماخوذ ہوتے۔اُسی طرح دُنیا کے عام انسانوں تک اس ہدایت کو پہنچانے کی نہایت سخت ذمّہ داری ہم پر عائد ہوتی ہے۔ اگر ہم خدا کی عدالت میں واقعی اس بات کی شہادت نہ دے سکیں کہ ہم نے تیری ہدایت، جو تیرے رسُولؐ کے ذریعے سے ہمیں پہنچی تھی،تیرے بندوں تک پہنچا دینے میں کوئی کوتاہی نہیں کی ہے، تو ہم بہت بُری طرح پکڑے جائیں گے اور یہی امامت کا فخر ہمیں وہاں لے ڈوبے گا۔ ہماری امامت کے دَور میں ہماری واقعی کوتاہیوں کے سبب سے خیال اور عمل کی جتنی گمراہیاں دُنیا میں پھیلی ہیں اور جتنے فساد اور فتنے خدا کی زمین میں برپا ہوئے ہیں۔اُن سب کے لیے ائمہء شر اور شیاطینِ انس و جِنّ کے ساتھ ساتھ ہم بھی ماخوذ ہوں گے۔ ہم سے پوچھا جائے گا کہ جب دُنیا میں معصیت، ظلم اور گمراہی کا یہ طوفان برپا تھا، تو تم کہاں مر گئے تھے؟اس پوری گفتگو سے یہ بات خوب اچھی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ بے اعتدالی یا شدت پسندی اسلام کا حصہ نہیں ہے۔کیونکہ اس طرح کی چیزیں فرد واحد کو بھی اور کل اجتماعیت کو بھی دنیا و آخرت میں ناکامی سے دوچار کرنے والی ہیں۔اس کے بالمقابل اعتدال پسند اور میانہ روی اسلام کے شایان شان ہے۔ لہذا اس کا اظہار ہمارے فکر و نظر اور عمل سے ظاہر ہونا چاہیے۔
MOAHAMMAD ASIF IQBAL
Media Secretary,
JIH Haryana & Delhi