ذوالقرنین حیدر سبحانی، الجامعہ الاسلامیہ، شانتاپرم۔ کیرلا
مدارس کے کارناموں کی تاریخ قدیم اور ان کی فہرست طویل ہے۔ ملک و ملت کی تعمیر و ترقی اورمسلمانوں کی خود آگاہی اور مقصد شناسی میں ان کا غیر معمولی کردار رہا ہے ۔مسلمانوں کو علمی و فکری میدان میں یہاں سے بہت کچھ غذا ملتی رہی ہے جس نے ان کو تہذیب و ثقافت کا استاد بنا دیاہے۔ ان کی حیثیت دین کے قلعے اور علم کے مینار کی رہی ہے ۔ اورامت کے مستقبل کی روشن توقعات بھی کسی حد تک انہی مدارس کی عظمت رفتہ کی بازیابی سے وابستہ ہیں۔
مدارس کی اسی قدر و منزلت اور اثر و رسوخ نے ہمیشہ ملت کے دردمند اور ہوشمند طبقے کو مدارس کے موضوع پر مستقل غوروفکر کرنے اور ان کے لئے ترقی کے نئے نئے راستے دریافت کرنے اور ان کی صورتحال کا بھرپور تجزیہ کرنے پر مجبور کیا ہے ۔ اور اسی اثر انگیزی کی صلاحیت کی بدولت مدارس ہر لمحہ دشمنوں کی ناپاک سازشوں اور خطرناک ریشہ دوانیوں کا نشانہ بھی رہے ہیں ، چنانچہ الزامات اور تہمتوں کا ایک سلسلہ ہے جو مدارس کو اپنے حصار میں لئے ہوئے ہے۔
بلندیوں کی فکر اور خوب سے خوب تر کی جستجو کرنے والے ہمیشہ تنقیدوں کو اپنی ترقی کا زینہ بناتے ہیں ۔ وہ واقعی اور اصلاح طلب خامیوں کو دور کرتے ہوئے آگے بڑھ جاتے ہیں، ناحق تنقیدیں اور بیجا ملامتیں پیچھے رہ جاتی ہیں ۔وہ کشادہ ظرف اور وسیع القلب ہوتے ہیں اور کسی اپنائیت یا اجنبیت کے جذبے کو راستہ دیئے بغیر ، تنقیدوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مستقل ترقی کے سفر میں رواں دواں رہتے ہیں ، وہ ہر لحظہ اور ہر گھڑی اپنے احتسابی عمل کے ذریعے ماضی کی فرو گزاشتوں کی تلافی کرتے ہوئے مستقبل کی خوب سے خوب تر منصوبہ بندی اور نقشہ سازی کے عمل سے گزرتے رہتے ہیں ۔
زیر نظر تحریر بھی اسی قسم کی ایک معمولی سی کوشش ہے ، جس میں مدارس کے تعلق سے پیش کی جانے والی تنقیدوں کا جائزہ لیتے ہوئے چند اہم پہلوؤں اور اصلاح طلب گوشوں کی طر ف توجہ دلانے کی کوشش کی گئی ہے، اس طور پر کہ نہ دشمنی و عداوت کا کوئی جذبہ راہ میں حائل ہو اور نہ عقیدت اور روایت پسندی کوئی رکاوٹ پیدا کرے ۔
مدارس پر گفتگو کرنے والوں کے بیچ سب سے تشویشناک اور قابل توجہ مسئلہ مدارس کے نصاب تعلیم اور نظام تعلیم سے متعلق ہے ۔ جو مختلف پہلوؤں سے غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے ، اور اس کی اصلاح بڑی تبدیلیوں اور حصولیابیوں کی ضامن بھی ہے ۔ نصاب کے حوالے سے سچی اور تلخ حقیقت یہ ہے کہ مدارس کے نصاب عموما گزرے ہوئے زمانے کے مزاج اور حالات میں تیارہوئے ہیں جو بدلتے ہوئے حالات کے ساتھ تبدیلی کے محتاج ہیں مگر زمانے سے احترام اور عقیدت کی بنا پر ان میں کسی بڑے رد و بدل کی جرأت نہیں کی گئی، اور آج بھی اسے ایک گستاخی اور بے ادبی کے طور پر دیکھا جاتا ہے ۔ جبکہ اس سے زیادہ تلخ حقیقت یہ ہے کہ زمانے میں غیر معمولی تبدیلی واقع ہوجانے، زمانے کے تقاضے اور ضرورتیں یکسر بدل جانے، اور زمانے کی ترجیحات اور انداز میں زبردست فرق آجانے، بلکہ زمانے کی زبان تک یکسر تبدیل ہو جانے کے باعث اس نصاب سے فراغت شدہ افراد اس کو استعمال کرنے کی کوئی مناسب اور دل پسند جگہ پانے میں نا کام رہتے ہیں، اور ایک عجیب بے بسی اور بے کیفی کی حالت سے دوچار ہوتے ہیں ۔ ہر سال ہزاروں کی تعداد میں مدارس سے فارغ ہونے والے طلبہ کے نکلنے کے باوجود سماج میں ان کی کمیابی اور نایابی کے شکوے ، ہر با اثر سطح پر ان کی غیر موجودگی اورنا اہلی اور ترقی میں کسی طرح کی حصہ داری یا شمولیت سے ان کی معذوری اور بے بسی ان کی تکلیف دہ صورتحال ہے۔ بلکہ اکثر فارغین زندگی کی دوڑ میں اپنا سایہ تلاش کرتے ہوئے زندگی گزار دیتے ہیں ، مدارس میں حاصل کی ہوئی تعلیم کے استعمال کا انہیں موقع نہیں مل پاتا اور بسا اوقات مدارس میں گزارے ہوئے زندگے کے سنہرے ایام کے صحیح استعمال نہ ہونے کی وجہ سے وہ اس پر ملال کرتے ہیں اور بسا اوقات ردعمل کے جذبات میں گرفتارہو جاتے ہیں۔
عوام کے اندر فارغین مدارس کی کم ہوتی بلکہ ختم ہوتی اہمیت بھی اسی نظام تعلیم کی کمزوریوں کا لازمی نتیجہ ہے ۔ مدارس کے فارغین کی کسمپرسی اور سراسیمگی میں اس نصابی خستگی اور نا اہلی کا بڑا ہاتھ ہے۔ مدارس کا اصل مقصد یعنی انسانیت کی ہمہ گیر اور ہمہ جہت قیادت و رہنمائی کرنا، اور ان کے جملہ مسائل کا حل پیش کرنا، اور اسلام کو در پیش چیلنجز کا بھر پور جواب دینا، اس سے فارغین یکسر عاجز و معذور ہوتے ہیں۔ زبانوں اور مضامین کے تنوع کا بھر پور لحاظ نہ کیا جانا بھی ایک اہم مسئلہ ہے۔ سیاسیات ، معاشیات اور سماجیات جیسے مضامین سے پہلو تہی کرنا کہ اس سے دین کا کو ئی تعلق نہیں، اور دین سیاست کرنے یا دولت کمانے کی تعلیم دینے نہیں آیا ہے ،اور انگریزی یا ہندی وغیرہ غیروں کی زبان ہے، لہذا اس سے اجتناب کرنا اور دور رہنا بہتر ہے ، ایک اہم مسئلہ ہے جو ہمیں شدت سے غور و فکر کی دعوت دیتا ہے۔
یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ مدارس کے نصاب عموماََ مسالک کی بنیاد پر ترتیب دیئے جاتے ہیں اور دوران تعلیم اپنے مسلک کو مزید قوت بخشنے اور اشاعت کرنے والے ذہن تیار کرنے کی کوشش کی جاتی ہے جو مسلکی تعصب اور تشدد میں مزید اضافے کا سبب بنتے ہیں ، حالانکہ یہ ایک خوش آئند حقیقت اور خوشگوار پہلو ہے کہ اب دنیا مسلکی اسلام سے کنارہ کش ہو کر اعتدال اور توازن پر مبنی خالص اسلام کی تلاش و جستجو میں ہے ۔ وقت اور زمانے کی گردش کے ساتھ روایتی اور تقلیدی ذہن تیزی کے ساتھ رو بہ زوال ہیں، چنانچہ ایسے میں مدارس کی یہ ذمہ داری اوربڑھ جاتی ہے کہ ان فرسودہ ،جامداور از کار رفتہ مواد کو حذف کر کے ایسا نفع بخش اور عملی نظام تعلیم از سر نو تشکیل دیا جائے جو زمانے کے تقاضوں کو پورا کرنے والا ،سماج میں زندگی پیدا کرنے والا ، معیار زندگی کو فروغ دینے والا، اتحاد اور ہم آہنگی پیدا کر نے والا، اور دنیا و آخرت کی کامرانی سے ہمکنار کرنے والاہو۔
اسی طرح مدارس کے نظم و ضبط کو مزیدپائیدار اور استوار بنانے اور اس کے نظام کو اور زیادہ مؤثر و کارآمد بنانے کے لئے اس کو جدید اور ترقی یافتہ آلات و وسائل سے آراستہ کیا جانا بے حد ضروری ہے ۔ جدید ترقیات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے تعلیم کو آسان اور مؤثر طور پر پیش کر نے کی پوری کوشش کی جانی چاہئے۔ طلبہ کی پوشیدہ صلاحیتوں کو نکھرنے کے بھر پور مواقع فراہم ہونے چاہئیں ۔ زمانے کی تیز رفتاری کے نتیجے میں پروان چڑھے جدید طرز تعلیم اور اسلوب تحقیق کو اختیار کرنا چاہئے تا کہ فارغین نہ صرف یہ کہ زمانے کی تیز رفتاری کا ساتھ دے سکیں بلکہ اس کی لگام اور باگ ڈور سنبھالیں اور زمانے کی بحسن و خوبی رہنمائی کر سکیں اور اپنے بلند مقاصد اور اعلی مشن کو پورا کر سکیں۔
ایک اہم مسئلہ مدارس کی بے انتہا جمود و تعطل اور رجعت پسندی کا ہے ، ان کی حالات حاضرہ اور موجودہ دنیا سے مکمل بے تعلقی اور لا علمی کا ہے، معاملہ جدید ترقیاتی آلات و وسائل کا ہو تو قبول کرنے میں حیرت انگیز جمود و تعطل اور جدید اعلی علمی معیار پر افکار و نظریات اور قدیم علمی سرمایہ کی نظر ثانی اور ان کی اصلاح کا معاملہ ہو تو رجعت پسندی اور فکری انحطاط کی قابل رحم تصویر ۔ ماضی کی بے جا محبت اور اندھی عقیدت اور ساتھ ہی حال کے تقاضوں اور مستقبل کے امکانات سے ناواقفیت اور بے شعوری اس کے اسباب ہیں ۔ اس کا ایک خطرناک منفی اثر ہے کہ مدارس جن کا کام زندگی کے مختلف گوشوں سے متعلق دینی رہنمائی کا فریضہ انجام دینا تھا، ان کی نا اہلی اور بے مائیگی کو دیکھتے ہوئے محض تبرک کے طور ان کو ایک محدود مقام پر کھڑا کردیا گیا ہے ۔
ایک اہم مسئلہ مدارس کی تنگ ذہنی اورغور و فکر سے احتراز بلکہ اس کو شجر ممنوعہ سمجھنے کا ہے ۔ تعجب خیز چیز یہ ہے کہ غور و فکر کی جس قدر دعوت اور عقل کے بھر پور اور خوب خوب استعمال پر جس تاکید کے ساتھ اسلام اور قرآن لوگوں کو ابھارتا اورترغیب دیتا ہے دنیا کے کسی مذہب اور کسی دین میں اس کی مثال نہیں ملتی، بلکہ قرآن کے مطابق اسلام کی بنیاد ہی غور و فکر پر ہے، اور قرآن غور وفکر کا عادی بنانے کی ایک عملی اور خوبصورت مشق ہے، اور یہی وجہ ہے کہ قرآن ہر حقیقت کو ثابت کرنے لئے عقل کے استعمال کی بار بار دعوت دیتا ہے اور اس کا یہ چیلنج ہے کہ اگر انسان غورو فکر کا عادی بن جائے اور عقل کا استعمال کرنے لگے تو حق کا ادراک اس کے لئے آسان ہو جائے گا ۔ امام غزالیؒ کا سنہری قول ہے کہ مجھے ان لو گوں سے کوئی اندیشہ نہیں جو غورو فکر کرتے رہتے ہیں گرچہ وہ راہ راست سے دور ہوں، کیونکہ وہ لوٹ کر وہیں آ ئیں گے اور پھر ان کو راہ راست سے کوئی چیز بہکا نہیں سکے گی، مگر مجھے ان لو گوں سے بہت خطرہ ہے جو اندھی تقلید میں راہ راست پر چل رہے ہوں کہ ٹوٹے پتے کی مانند ہوا ان کو کہیں بھی لے جاسکتی ہے ۔ مگر غور و فکر کی وسیع و پر اسرار کائنات سے سب سے دور اور اس کی سب سے زیادہ مخالفت کرنے والی قوم اگر کوئی ہے تو وہ یہی قرآن کی حامل اور اسلام کی علمبردار قوم ہے ۔
حوصلہ بخش اورامید افزا حقیقت یہ ہے کہ دنیا اب تقلیدی بھول بھلیوں سے نکلنے کے جتن کر رہی ہے اور اس کے لئے تیار ہے ۔ اب وہ کسی چیز کو محض تقلید اور روایت کی بنا پر قبول کرنے سے بیزار ہو چکی ہے ۔ وہ اب کھلی آنکھوں سے قبول یا رد کرنے کی خوگر بن رہی ہے ۔ وہ عقل اور دلائل کی بنیاد پر سچائی کی متلاشی ہے ، جبکہ تشویشناک صورت مدارس میں تیار اور پروان چڑھنے والی ذہنیتوں اور فکروں کی ہے جو ابھی بھی اندھی عقیدت اور شخصیت پرستی میں شدت کی حد تک یقین رکھتے ہیں ، وہ ہرگز اپنے عقیدت کے خول سے باہر نکلنے کو آمادہ نہیں ہیں ۔ وہ چیزوں کو دلائل کی بنیاد پر نہیں بلکہ نسبتوں کے نام پر قبول کرنے کے شیدائی ہیں ۔ اور یہ ایک توجہ طلب پہلو ہے جس کے تعلق سے بہت بیدار اور محتاط ہونے کی ضرورت ہے ۔ اور غور و فکر کی ایک مضبوط ،دلکش اور خوشگوار فضا فروغ دینے کی ضرورت ہے ۔ مسلمانوں کی فکری وحدت میں آزادی رائے کا غیر معمولی کردار اور اثر ہے ۔ غور و فکر کی آزادی وہ بیش بہا دولت ہے جو کسی قوم کے اندر پیدا ہوگئی تو اسے ترقی کرنے اور بلندی پر چڑھنے سے کوئی روک نہیں سکتا ۔
ایک اہم مسئلہ مدارس کے طلبہ میں مستقبل کی منصوبہ بندی کے تعلق سے حقارت آمیز تصور ہے ۔وہ مستقبل کی منصوبہ بندی اور کیرئیر پلاننگ کو ایک قابل مذمت چیز گمان کرتے ہیں ۔جبکہ ناقابل انکار حقیقت یہ ہے کہ جب تک آدمی کا ہدف متعین نہ ہو اس وقت تک نہ اس کے عمل میں زندگی آسکتی ہے اور نہ سبک رفتاری پیدا ہو سکتی ہے۔ مستقبل کی پیشگی منصوبہ بندی اور تیاری ، اپنے رجحانات اور وقت کے تقاضوں کو سامنے رکھتے ہوئے اپنے مستقبل کے خطوط کا تعین اور اس کے لئے بے لاگ جد و جہد اور تگ و تاز تا بناک مستقبل کی ضمانت کے لئے شرط کی حیثیت رکھتے ہیں۔
مشاہدہ یہ بتاتا ہے کہ عموماََ مدارس کے طلبہ فراغت کے مرحلے میں پہنچ جاتے ہیں اور ان کو اپنی منزل کا کوئی شعور نہیں ہوتا،جو وقت کے ضیاع اور صلا حیتو ں کی بربادی کا سبب بنتا ہے اور ساتھ ہی مقاصد کے حصول سے دوری کا ذریعہ بنتا ہے ۔ کارِ جہاں دراز ہے اور انسان کی عمر محدود، لہذا بہت طویل منصوبہ بندی اور مسلسل اور تیز گام جد و جہد کی ضرورت ہے ۔
ایک قابل ذکر چیز مدارس کے طلبہ میں سماج ، سماجی علوم، سماجی تحریکوں ،سماجی حالات اور جدید سماجی نظریات سے یکسر لاعلمی اور بے تعلقی ہے ، جبکہ سماج ہی مدارس کی کوششوں کا میدان کار اور مرکز ومحور ہے۔ سماج کی مثبت تبدیلی ہی مدارس کے قیام کا اہم مقصدہے۔ایسے میں سماج سے براہ راست متعلق ہونا، اور پھر اس کو تبدیل کرنے کی کوشش کرنا از حد ضروری ہے ۔ یہ دور نظریات اور افکار کی جنگ کا دور ہے ۔ ہر نظریہ اپنے نظریہ کی دلائل اور حقائق کی روشنی میں دوسروں پر بالادستی کی کوشش میں مشغول ہے ۔ ایسے میں اسلام کو بحیثیت ایک عملی اور بلند نظریہ کے پیش کرنے کا کام مدارس کے طلبہ کا ہے، مگر بد قسمتی سے یہ اس سلسلے میں کوتاہی اور نا اہلی کا ثبوت دیتے ہیں۔ ان کو نہ موجودہ نظریات کی کوئی معرفت ہے اور نہ موجودہ ترقی یافتہ اور نتیجہ خیز بحث و تحقیق کے معیار اور فن سے کوئی واقفیت ہے، اور نہ ہی اسلام کو ایک نظریہ کے طور پر پیش کر دینے کی کوئی اہلیت ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ اسلام کو اگر نظریاتی اور فکری معرکے میں اتارا جائے تو کوئی اس کے سامنے کھڑے ہو نے کی تاب نہیں لا سکتا، مگر شرط یہ ہے کہ اسے موجودہ عالمی اور تحقیقی منظرنامے پر اصولوں اور معیاروں کی شرائط پوری کرتے ہوئے پیش کیا جائے ۔
مطالعہ ایک طالب علم کی زندگی کا سب سے دلکش اور پر لطف مشغلہ ہوتا ہے ۔ یہ اس کی ضرورت سے کہیں زیادہ اس کا شوق بن جاتا ہے اور اسی کی صحبت اس کی زندگی کا سب سے بیش قیمت سرمایہ ہو تا ہے ۔ اسے معلوم ہوتا ہے کہ اچھے لوگ صرف زندگی میں نہیں بلکہ کتابوں میں بھی ملتے ہیں ۔ اسے اس کا بھی احساس ہو تا ہے کہ مطالعہ ہی سے انسان مکمل ہو تا ہے۔ اورمطالعے کے نتیجے میں وہ اپنی شخصیت کو عظیم، پر کشش اور نفع بخش بنا سکتا ہے اور لوگوں کے لئے اپنی عملی اور مستقبل کی زندگی میں خوب مدد اور خدمت بھی کر سکتا ہے ۔وہ کتاب وحی کے ساتھ ساتھ لوح ایام کا بھی گہرا اور باریک مطالعہ کرتا ہے ۔ وہ مطالعے کی ہر منزل اور ہر مرحلے سے شوق اور لگن کے ساتھ گزرتا ہے، کتاب خوانی سے لے کر جہاں بینی اور تخیلاتی پرواز تک سب اس کے محبوب اور پسندیدہ عمل ہوتے ہیں ۔ فی زمانہ ٹیکنا لوجی اور سماجی مواصلات اور سوشل میڈیا میں روز افزوں برق رفتار ترقی کے نتیجے میں پیدا ہوئی سہولت نے عموما طلبہ اور نوجوانوں میں مطالعے کے رجحان کو غیر معمولی حد تک کم کر دیا ہے اور مدارس کی صورتحال اس سلسلے میں اور نا گفتہ بہ ہے۔ وہاں ایک بڑی تبدیلی کی ضرورت ہے ۔ اولاََ تو وہاں نصابی کتب پر پورا انحصار کیا جاتا ہے جن کی اصل حیثیت محض ایک اشارے اور رہنمائی کی ہوتی ہے۔ اور پھر فکری کج روی اور گمراہی کے اندیشے کی بنا پر کتابوں کے ایک بڑے اور قیمتی ذخیرے سے ان کو محروم کر دیا جاتا ہے ، جبکہ اس فکری معرکہ آرائی کے دور میں ہمہ جہت اور ہر قسم کے مطالعے کی ضرورت بڑھ جاتی ہے چنانچہ مسلم مفکرین اور اسکالرس کے وسیع مطالعے ساتھ ساتھ غیر مسلم دانشوروں اور فلسفیوں کی کتابوں کا گہرا مطالعہ بھی اہمیت سے خالی نہیں ہے ۔
مطالعہ کی عام فضا ہموار کرنا اور مطالعے کے سلسلے میں غیرضروری حد بندیوں اور پا بندیوں کو رفع کرنا ، اور مطالعے کا ہمہ گیر مزاج پیدا کرنا مدارس کی ترقی کے لئے نا گزیر ہے ۔ یہ چند گوشے تھے ورنہ اس پر بڑے پیمانے پر سوچنے اور غوروفکر کرنے اور اہل دانش و بینش کے مشورے جمع کرنے اور قدم آگے بڑھانے کی ضرورت ہے ۔
مدارس اپنی معنویت اور اسلام کی عظمت کی بازیافت کے لئے ایک بڑے انقلاب کے منتظر ہیں ۔ بیداری کی ایک لہر چل پڑی ہے اس کو پورے طور سے حیات بخش اور روح افزا بنانے کی ضرورت ہے ۔ حالات سازگار ہیں اور تبدیلی کے تعاقب میں ہیں ۔ اسلام کا روشن مستقبل بہت حد تک مدارس کی بیداری و بحالی سے وابستہ ہے ۔ آج کا احتساب کل کی کامیابی کا پیش خیمہ ہے!!!
مدارس کی موجودہ صورت حال ایک جائزہ
ذوالقرنین حیدر سبحانی، الجامعہ الاسلامیہ، شانتاپرم۔ کیرلا مدارس کے کارناموں کی تاریخ قدیم اور ان کی فہرست طویل ہے۔ ملک و ملت کی تعمیر و ترقی اورمسلمانوں کی خود آگاہی اور مقصد شناسی میں ان کا غیر معمولی کردار رہا…