محمد قطبؒ

ایڈمن

محمد قطب عالم اسلام کے ایک عظیم فکری رہنما، ایک بے مثال ادیب اور مایہ ناز مصنف تھے۔ اُن کا شمار امت اسلامیہ کے اُن جیالوں میں ہوتا ہے، جن کی زندگی جدوجہد اور سخت جدوجہد سے عبارت ہے، جو…

محمد قطب عالم اسلام کے ایک عظیم فکری رہنما، ایک بے مثال ادیب اور مایہ ناز مصنف تھے۔ اُن کا شمار امت اسلامیہ کے اُن جیالوں میں ہوتا ہے، جن کی زندگی جدوجہد اور سخت جدوجہد سے عبارت ہے، جو سخت سے سخت حالات میں بھی مضبوطی کے ساتھ اپنے موقف پر قائم رہے، اور جنہوں نے کبھی پیچھے ہٹنے کا نام نہیں لیا۔ جس وقت عالم عرب میں مغربی افکار ونظریات کی زبردست لہر چلی ہوئی تھی، کالجز اور یونیورسٹیز میں مغربی افکارونظریات کی دھوم مچی ہوئی تھی، اُس وقت محمد قطب اور ان کے اخوانی ساتھیوں نے طلبہ ونوجوانوں کو سنبھالنے اور صحیح راستے کی طرف اُن کی رہنمائی کا بیڑہ اٹھا رکھا تھا۔ محمد قطب خواہ مصر میں مقیم رہے ہوں یا وطن سے ہجرت کے بعد سعودی عرب میں، کبھی خاموش نہیں رہے۔ ہمیشہ حرکت وعمل اور سعی وجہد کا نمونہ پیش کرتے رہے۔ اخوان المسلمون کی تاریخ میں محمد قطبؒ اور ان کے بھائی سید قطب شہیدؒ ، بلکہ آل قطب(تمام بھائی بہنوں)کا نام سنہری لفظوں میں لکھا جائے گا،کہ انہوں نے ہر آزمائش اور امتحان میں جس صبر اور ثبات قدمی کا ثبوت پیش کیا، وہ اپنی مثال آپ ہے۔
ابتدائی حالات: محمد قطب کی ولادت ۲۶؍اپریل ۱۹۱۹ ؁ء کو مصر کے ایک شہر ’موشا‘ (أسیوط) میں ہوئی۔ آپ کے والد کا نام قطب ابراہیم الشاذلی تھا، پیشے کے اعتبار سے آپ ایک کسان تھے۔ آپ کی والدہ ’فاطمہ عثمان‘ ایک پڑھے لکھے عربی خاندان سے تعلق رکھتی تھیں، آپ کے سبھی ماموں مصر کی عظیم اسلامی یونیورسٹی جامعہ ازہرسے فارغ تھے، جن میں’ا حمد حسین الموشی‘ اپنی ادبی وتصنیفی خدمات کے لیے معروف ہیں، اور مصری صحافت کے علاوہ مصری سیاست میں بھی اپنا ایک مقام رکھتے تھے۔آپ کی والدہ کی شدید خواہش تھی کہ ان کے بچے بھی اپنے ماموؤں کی طرح قاہرہ جاکر تعلیم حاصل کریں۔ محمد قطب بچپن ہی سے سماجی مسائل میں بہت ہی دلچسپی رکھتے تھے، چنانچہ آپ کو شروع ہی سے شہر میں عزت واحترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ مطالعہ کا شوق بھی بچپن ہی سے تھا، درسی اوقات کے علاوہ اپنے وقت کا بڑا حصہ غیردرسی کتابوں کے مطالعہ میں گزارتے تھے۔
تعلیم وتدریس: محمد قطب ابھی چند سال کے تھے کہ والد کا سایہ سر سے اٹھ گیا، چنانچہ والد کے انتقال کے بعد والدہ نے آپ کو دوبہنوں اور بڑے بھائی سید قطب کے ساتھ تعلیم کے لیے قاہرہ بھیج دیا۔ قاہرہ میں آپ کی تعلیم کا باقاعدہ آغازہ ہوا، وہیں سے ابتدائی اور ثانوی مرحلے کی تعلیم مکمل کی، ثانوی کے بعد آپ نے قاہرہ یونیورسٹی میں داخلہ لے لیا، اور وہیں سے ۱۹۴۰ ؁ء میں انگلش لٹریچر سے گریجویشن کیا، اور اس کے بعدسائیکولوجی میں ڈپلومہ کیا۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد تدریس کے میدان سے وابستہ ہوگئے، اور درمیان میں کچھ کچھ عرصے کے وقفے کے ساتھ زندگی بھر درس وتدریس کے میدان میں لگے رہے۔ ابتدا میں چار سال تک تدریسی خدمات انجام دیتے رہے، اس کے بعد وزارت معارف کے شعبہ ترجمہ میں ملازمت اختیار کی، تقریبا پانچ سال تک وہاں ملازمت کی، اور پھر دوبارہ تدریس کے میدان میں آگئے، اور تقریبا دوسال تک تدریسی خدمات انجام دیں، جس کے بعد وزارت تعلیم کے ایک پروجیکٹ میں لگ گئے۔ پھر ابتلاء وآزمائش کا طویل دور شروع ہوا، جس کے نتیجے میں ایک وقت آیا کہ وطن چھوڑ کر سعودی عرب کی جانب ہجرت پر مجبور ہوگئے۔وہاں جانے کے بعد بھی جب تک صحت رہی درس وتدریس ہی سے وابستہ رہے، اور وہاں کی مختلف بڑی یونیورسٹیز میں تدریسی خدمات انجام دیتے رہے۔
شخصیات جن سے متأثر ہوئے: محمد قطب کہتے ہیں کہ ان کی زندگی میں تین شخصیات نے گہرے اثرات مرتب کئے ہیں، ان کے بڑے بھائی ’سید قطب شہید‘، ان کے ماموں ’احمد حسین الموشی‘، اور معروف عربی ادیب ونقاد ’عباس محمود العقاد‘۔اتفاق سے تینوں ہی اپنے زمانے کے بڑے ادیب ومصنف ،اور قدآور شخصیت کے حامل تھے۔ محمد قطب کی اٹھان بنیادی طور سے بڑے بھائی ’سید قطب شہیدؒ ‘ کی سرپرستی میں ہوئی۔ سید قطب کی حیثیت آپ کی پوری زندگی میں ایک قائد ورہنما کی رہی۔ والد کے انتقال کے بعد وہ نہ صرف گھر بھر کی معاشی کفالت کے لیے تگ ودو کرتے تھے، بلکہ انہوں نے اپنے تمام بھائی بہنوں کی علمی وفکری تربیت کا عظیم کارنامہ بھی انجام دیا۔ عمر میں آپ محمد قطب سے بارہ سال بڑے تھے، چنانچہ آپ نے محمد قطب کے لیے والد کا بھی کردار ادا کیا، اور ایک بھائی اور دوست کا بھی۔ محمد قطب لکھتے ہیں کہ ’’جب میں شعور کی عمر کو پہنچا، اس وقت سے میں نے سید قطب کے افکار کا بہت قریب سے مطالعہ کیا۔ میں جب ثانوی مرحلے میں زیرتعلیم تھا، اس وقت سے سید قطب مجھے اپنے تفکیری عمل میں شریک کیا کرتے تھے، اور مختلف موضوعات پر مجھے ڈسکشن کا موقع فراہم کرتے تھے، یہی وجہ ہے کہ ہماری روح اور ہمارے افکار میں کافی یکسانیت پائی جاتی ہے۔‘‘آگے لکھتے ہیں ’’جہاں تک تربیت کا سوال ہے، تو سید قطب کے یہاں نرمی بھی تھی، اور سختی بھی۔۔۔ نہ ہی وہ بگاڑ دینے والی نرمی سے کام لیتے تھے، اور نہ ہی نفرت پیدا کردینے والی سختی سے۔ وہ مجھے مختلف میدانوں میں مطالعہ کا شوق دلایا کرتے تھے۔ خود بھی مطالعہ کا بہت شوق رکھتے تھے۔ بھائی کی اس رہنمائی نے مجھے بچپن ہی سے مطالعہ کا شوقین بنادیا تھا‘‘۔قاہرہ میں آپ اپنے ماموں ’احمد حسین الموشی‘ کے ساتھ رہے، ماموں سیاسی، صحافتی اور ادبی دنیا میں اپنا ایک مقام رکھتے تھے۔ چنانچہ ساتھ رہنے کی وجہ سے ماموں سے خوب خوب استفادہ کرنے اور رہنمائی حاصل کرنے کا موقع ملا۔ عباس محمود العقاد سید قطب کے استاذ تھے، اور اپنے زمانے کے زبردست ادیب، ناقد، اور دانشور تھے، ان کے بارے میں محمد قطب لکھتے ہیں کہ ’’کہہ سکتا ہوں کہ عقاد سے میں نے سیکھا کہ افکاروخیالات کا کس قدر گہرائی کے ساتھ تجزیہ کیا جانا چاہئے، اور سطحی قسم کے تبصروں سے گریز کرنا چاہئے، اور بات میں کس قدر محتاط اسلوب اختیار کرنے کی کوشش ہونی چاہئے‘‘۔
آل قطب پر ابتلاء وآزمائش کا طویل دور: محمد قطب کا خاندان ایک بہت ہی تعلیم یافتہ اور معزز خاندان مانا جاتا تھا۔ سید قطب اور محمد قطب دونوں ہی بہت تعلیم یافتہ اور اعلی شخصیت وکردارکے حامل مانے جاتے تھے، اور دونوں ہی وزارت تعلیم سے وابستہ تھے۔مصر کی مغرب نوازحکومت نے ان دونوں کو، بالخصوص سید قطب کو اپنا بنانے، یا اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی بہت کوشش کی۔ اس کے لیے سید قطب کو امریکہ بھی بھیجا گیا، تاہم حکومت کا کوئی بھی حربہ کامیاب نہ ہوسکا، اور ایک وقت یہ بھی آیا کہ امریکہ سے واپسی پر سید قطب باقاعدہ الاخوان المسلمون میں شامل ہوگئے، نہ صرف سید قطب بلکہ ان کے ساتھ محمد قطب اور تمام بہنیں بھی اخوان کے قافلے میں شامل ہوگئیں، اور تمام بھائی بہن مل کر اخوان کے ایجنڈے کے مطابق سماج کی تشکیل نو کے لیے سرگرم عمل ہوگئے۔ اس دور کے بارے میں محمد قطب لکھتے ہیں کہ ’’ان کے قلم نے ایک زبردست صحافتی اور سیاسی معرکہ شروع کردیاتھا، جس کے نتیجے میں آپ کو بار بار پوچھ گچھ کے لیے گرفتار کیا جانے لگا۔ ۔۔ یہ دو پہلوؤں سے ہمارے اہل خانہ کے لیے نیا تجربہ تھا۔ پہلا یہ کہ حقیقت کی دنیا میں باطل سے آمنے سامنے ہونے کا پہلی بار موقع ملاتھا، کیونکہ اب تک کا سارا معرکہ فکری محاذ تک ہی محدودتھا۔ دوسرا وقفے وقفے سے سید قطب کی گرفتاری تھی، کیونکہ وہ ہمارے گھر کے سرپرست تھے، اور ہمارے دل میں یہ بات بیٹھی ہوئی تھی کہ اللہ کے بعد اس گھر کے جملہ امور کے ذمہ دار وہی ہیں‘‘۔
۱۹۵۲ ؁ء کے بعد حالات مزید خراب ہونے لگے، اس سال ملک میں انقلاب آیا، جس کے بعد جمال عبدالناصر کو صدر بنایا گیا، اس انقلاب میں اخوان کا بڑا کردار تھا، بالخصوص سید قطب کی تحریروں اور تقریروں نے عوامی فضا بنانے میں مؤثر رول ادا کیا تھا۔ لیکن اس انقلاب کے بعد ہی حکومت کی نگاہوں میں اخوان کا وجود کھٹکنے لگا۔ چنانچہ مستقل کوئی نہ کوئی حادثہ پیش آنا شروع ہوگیا۔ تاہم سید قطب اور ان کے ساتھیوں نے جدوجہد جاری رکھی، اور اخوان کو منظم اور سرگرم کرنے کی کوششیں کرتے رہے۔ اسی دوران ۱۹۵۴ ؁ء میں ایک بہت ہی خطرناک منصوبے کے تحت جمال عبدالناصر نے اخوان پر اپنے قتل کی سازش کا الزام لگایا، اور اس کے بعد ہی سید قطب، محمد قطب اور اخوان کی اعلی قیادت کے متعددافراد گرفتار کرلیے گئے۔ یہاں ان سب جنگی قید خانے میں رکھا گیا، اورسخت ترین قسم کی تعذیب دی گئی، محمد قطب اس کے بارے میں لکھتے ہیں کہ ’’جنگی قیدخانے کی آزمائش نے مجھ پر بہت ہی گہرے اثرات ڈالے، یہ میرے لیے اپنی نوعیت کا پہلا تجربہ تھا، اس میں اس قدر سختی اور جارحیت کا معاملہ کیا گیا کہ اس نے مکمل طور سے مجھے تبدیل کرکے رکھ دیا‘‘۔ اس حادثے کے کچھ دنوں بعد محمد قطب کو رہا کردیا گیا، اور سید قطب کو پندرہ سال کی سزائے قید سنادی گئی۔ ۱۹۶۴ ؁ء میں ایک اور خطرناک منصوبہ تیار کیا گیا، اور اس کے تحت سید قطب کو پہلے تو رہا کیا گیا، اور پھر ایک سال بھی نہیں گزرا تھاکہ دوبارہ ان کو بھائی بہنوں کے ساتھ گرفتار کرلیا گیا۔ اس دفعہ سید قطب کو تختہ دار تک پہنچا دیا گیا، جبکہ محمد قطب کو ۶؍سال کی قید ہوئی، اور دیگر تین بہنوں کو بھی قید کیا کرلیا گیا، جس میں ایک بہن کے بچے کو تعذیب کے دوران شہید کردیا گیا، اور اس کی ماں کو دس سال قید کی سزا سنائی گئی۔ قیدوبند کے دوران آل قطب کو دوسرے اخوانی رہنماؤں کی طرح سخت ترین آزمائشوں اور تعذیب کے مراحل سے گزرنا پڑا، لیکن ان تمام مراحل میں انہوں نے بے مثال ثبات قدمی اور جرأتمندی کا ثبوت پیش کیا، اور اپنے خون جگر سے امام حسن البنا شہیدؒ کے لگائے ہوئے اس پودے کی آبیاری کا کام کرتے رہے۔
وطن سے ھجرت اور اس کے بعد: بھائی کی شہادت، اور اہل خانہ پر شدید ترین مظالم، اور اخوان کے لیے مصر کی سرزمین کو تنگ تر کردینے کے نتیجے محمد قطب کے لیے مصر کی سرزمین میں اب مزید قیام کرنا آسان نہیں تھا۔ چنانچہ ۶؍سال کی سزائے قید کے بعد ۱۹۷۱ ؁ء میں جب آپ رہا ہوئے تو سعودی عرب کی جانب ہجرت کرگئے۔ اس دور کو ہجرت کا دور کہا جاتا ہے، اس مرحلے میں بڑی تعداد میں اخوانیوں نے حکومت کے مظالم سے تنگ آکر دوسرے عربی ومغربی ممالک کی جانب ہجرت کی۔ سعودی عرب آنے کے بعد محمد قطب مکہ مکرمہ میں جامعہ ام القری کے کلیۃ الشریعۃ میں لکچرر ہوگئے، بعد میں جامعۃ الملک عبدالعزیز،جدہ میں بھی تدریسی خدمات انجام دیں۔محمد قطب کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہوں نے سعودی یونیورسٹیز میں اسلام پسند حلقوں کو مضبوط اور منظم کرنے میں بڑا اہم رول ادا کیا تھا۔ سعودی یونیورسٹیز سے آپ کی نگرانی میں فکری اور نظریاتی موضوعات پر متعددافراد نے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ آپ کی نگرانی میں لکھے گئے مقالات نے عالم عرب اور اس سے باہر اسلامی افکار کی اشاعت میں کافی اہم رول ادا کیا ہے۔ ان میں ’سیکولرزم‘ پر علامہ سفرالحوالی، ’جہاد‘ پر علی بن نفیع العلیانی، اور اس طرح متعدد اہم افراد کے تحقیقی مقالات دنیا بھر میں اپنے موضوع پر نمایاں مقام رکھتے ہیں۔ اسلامیات سے متعلق آپ کی خدمات کے اعتراف میں ۱۹۸۸ ؁ء میں آپ کو شاہ فیصل ایوارڈ بھی دیا گیا۔
علمی وفکری کارنامے: محمد قطب نے تحریک اسلامی کے علمی وفکری محاذ پر نمایاں خدمات انجام دی ہیں، افراد کی تیاری (جیسا کہ اوپر ذکر آیا)کے علاوہ انہوں نے مختلف فکری ونظریاتی موضوعات پر گراں قدر کتابیں بھی تصنیف کیں۔ مغربی افکارنظریات کے سیلاب کو روکنے کے لیے اور امت کے فکری سرمایے کی تجدیدمیں آپ کا نمایاں رول ہے۔ آپ کی سب سے اہم اور عزیزتر تصنیف ’اسلام اور مادیت‘ (الانسان بین المادیۃ والاسلام) ہے، یہ آپ کی اولین تصانیف میں شمار ہوتی ہے، اس میں مغرب کے مادی افکاروخیالات کا بھرپور تنقیدی جائزہ لیا گیا ہے۔ آپ کی اہم ترین تصانیف میں ’اسلام اور جاہلیت‘ (جاہلیۃ القرن العشرین)، اور ’دراسات قرآنیہ‘ بھی شمار کی جاتی ہیں۔ اس کے علاوہ آپ نے اسلام کے تربیتی نظام، جدید ذہن کے شبہات، اور قرآنیات وغیرہ سے متعلق تقریبا چالیس اہم علمی وفکری کتابیں تصنیف کی ہیں۔ آپ کی تصانیف میں جدت بھی پائی جاتی ہے، اور فکرمندی بھی۔ ان تصانیف کا مطالعہ کرنے سے قاری کو اپنی زندگی تبدیل کرنے اور اسلام کے لیے کام کرنے کا ایک حوصلہ اور شوق نصیب ہوتا ہے۔ (مرحوم کی تصانیف کا تفصیلی تعارف آئندہ کسی موقع سے کرایا جائے گا)
آخری سفر:محمد قطب آخری عمر میں کافی بیمار رہنے لگے تھے، برین ہیمرج کی شکایت تھی، جس کے نتیجے میں کئی سال تک بستر علالت پر رہے۔ بالآخر ۴؍اپریل ۲۰۱۴ ؁ء کو عالم اسلام کا یہ عظیم فکری رہنما جدہ کے ایک انٹرنیشنل میڈیکل سینٹر میں دورانِ علاج اس دارفانی سے کوچ کرگیا۔انا للہ وانا الیہ راجعون (ابن اسد)

حالیہ شمارے

براہیمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے

شمارہ پڑھیں

امتیازی سلوک کے خلاف منظم جدو جہد کی ضرورت

شمارہ پڑھیں