ماحولیاتی بحران کے فکری پہلو

ڈاکٹر محمد رضوان

اب تک کے سلسلہ مضامین میں ماحولیاتی بحران اور اس کی فلسفیانہ بنیادوں کا ایک تنقیدی جائزہ پیش کیا جا رہا ہے۔ پچھلے مضمون میں فلسفہ افادیت پسندی اور ماحولیاتی بحران کے حوالے سے تفصیلات آ چکی ہیں۔ اب ایک…

اب تک کے سلسلہ مضامین میں ماحولیاتی بحران اور اس کی فلسفیانہ بنیادوں کا ایک تنقیدی جائزہ پیش کیا جا رہا ہے۔ پچھلے مضمون میں فلسفہ افادیت پسندی اور ماحولیاتی بحران کے حوالے سے تفصیلات آ چکی ہیں۔ اب ایک اور اہم ترین فلسفہ جس نے بہت ہوشیاری سے ماحولیاتی بحران کو گہرا کرنے میں اپنا کردار ادا کیا ہے وہ ٹیکنالوجی مرکوز نظریہ (Technocentricism) ہے۔
ٹیکنالوجی مرکوز نظریہ کیا ہے؟
ٹیکنالوجی مرکوز نظریہ کی اصطلاح سب سے پہلے سیمور پیپرٹ نے 1988ء میں تعلیم اور ٹیکنالوجی کے حوالے سے منعقدہ بین الاقوامی کانفرنس میں استعمال کی تھی۔ سیمور پیپرٹ ایم آئی ٹی کے پروفیسر تھے اور انہیں مصنوعی ذہانت (AI) کے موجدین میں سے ایک مانا جاتا ہے۔ بطور خاص تعلیم اور ٹیکنالوجی کے حوالے سے ان کی علمی خدمات مستند ہیں۔ امریکہ کی اختراع پذیر تعلیمی ماڈلوں کے موجد کے طور پر بھی وہ ساری دنیا میں مشہور ہیں۔ سیمور پیپرٹ نے یہ اصطلاح دو اصطلاحوں کے مرکب کے طور پر وضع کی ہے۔ خود ان کے الفاظ میں “میں نے یہ اصطلاح ‘پیجیٹ’ کے Egocentricism کے ابتدائی تین حروف کو حذف کرکے ترکیب کی ہے یعنی Ego کی جگہ Techno کا استعمال کیا ہے۔ اس کے پیچھے منطق یہ ہے کہ پیجیٹ نے یہ لفظ بچوں کی اس خاص نفسیاتی حالت کو دکھانے کے لیے استعمال کیا ہے جس میں اپنی نشوونما کے درمیان بچہ ہر نئی اور ہر نئے مسئلے کو اپنے شعور کی طرف منسلک کرتا ہے۔ بالکل اسی طرز پر ٹیکنالوجی مرکوز فکر ہر مسئلہ کو ٹیکنالوجی کی جانب موسوم کر دیتی ہے۔”1 پیپرٹ اصل میں اس تعلیمی کانفرنس کے اس مرکزی خیال کی طرف سامعین کا ذہن موڑنا چاہ رہے تھے جس کی رو سے ٹیکنالوجی اور تعلیم پر اس کے اثرات زیر بحث آنے تھے۔ چنانچہ ٹیکنالوجی مرکوز نظریہ کی دو تعریفیں ہیں۔
1۔ وہ نظریہ جس میں ٹیکنالوجی، تعلیم، معلومات اور طریقہ تدریس میں ٹیکنالوجی کے رول وغیرہ سے بحث کی جاتی ہے۔
2۔ وہ نظریہ اور نظام اقدار (Value System) جس میں ماحول، ماحول کا تحفظ اور ٹیکنالوجی کو ماحولیاتی بحران پر قابو پانے کے حوالے سے واحد ذریعہ کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔
ٹیکنالوجی مرکوز نظریہ مغرب کے ایک خاص ثفافتی اور الحادی ماحول میں پروان چڑھا ہے۔ اس کے ارتقا کی ایک مختصر تاریخ مندرجہ ذیل نکات میں بیان کی جارہی ہے۔
ماقبل صنعتی دور
ابتدائی انسانی سماج بنیادی طور پر دستی مزدوری اور سادے آلات کے استعمال سے عبارت تھا۔ مشینی اعتبار سے کسی طرح کی ٹیکنالوجی موجود نہیں تھی۔ بطور خاص رکازی ایندھن (Fossil Fuel) سے چلنے والے کسی طرح کے کوئی آلات نہیں تھے۔ عام طور پر انسانی زندگی فطرت سے بہت قریب تھی اور بطور کو ایک غیر مرئی اور انتہائی طاقت کے منبع کے طور پر تسلیم کیا جاتا تھا۔
نشاة ثانیہ کا دور
مغرب میں ظہور پذیر نشاة ثانیہ کے تصورات نے انسانی فکر میں ایک انقلاب برپا کر دیا۔ بطور خاص عقل اور سائنس کو آخری قوتِ مقتدرہ کے طور پر تسلیم کیا جانے لگا۔ مغربی فلسفی اور مفکرین جیسے فرانسیس بیکن اور رینے دیکارتے نے فطرت کو کوئی غیر مرئی شئے نہ مانتے ہوئے اس سے فائدہ اٹھانے اور اسے تسخیر کرنے کے تصورات پیش کیے۔ اس طرح انسانی فکر اور اس سے وجود میں آنے والے اختراعی آلات نے بالآخر اس فکر کو پیدا کیا کہ انسانی سماج کے بہت سارے مسائل کا حل نئی چیزوں کی ایجاد اور مختلف سائنسی مظاہر کے انطباق سے پیدا ہونے والی ٹیکنالوجی سے کیا جاسکتا ہے۔ ٹیکنالوجی مرکوز نظریہ کی ابتداء یہاں سے دیکھی جاسکتی ہے۔ واضح ہو کہ اس وقت تک ہمارے نزدیک یہ محدود ٹیکنالوجی مرکوز نظریہ (Restricted Technocentricism) کہا جاسکتا ہے۔
صنعتی انقلاب کا دور
انسانی تاریخ میں صنعتی انقلاب یقیناً ایک ایسے موڑ کے طور پر دیکھا جاسکتا ہے جس نے پوری انسانی تہذیب کو بنیادی طور پر بدل کر رکھ دیا۔ ٹیکنالوجی کی وہ اختراعات وجود میں آئیں جنہوں نے انسانی سماج کو بالکل نئے زاویے سے فطرت اور اس کی انسانی زندگی میں حیثیت کے حوالے سے دیکھنا سکھایا۔ مثلاً بھاپ کے ذریعہ چلنے والا انجن، ٹیکنالوجی مرکوز زراعت اور فیکٹریوں میں ہونے والی پیداوار نے انسانی سماج کو ایک نئی طبقاتی کشمکش سے روشناس کرایا۔
بیسویں صدی کا آغاز
بیسویں صدی کے آتے آتے غیر معمولی سائنسی ایجادات اور اس پر مبنی ٹیکنالوجی نے انسانی سماج کے ہزاروں مسائل کو حل کیا اور ماحولیات کے سینکڑوں مسائل کو جنم دیا۔
اکیسویں صدی
21 ویں صدی کے آتے آتے سائنسی حلقوں اور عوام میں بھی اس بات کا شعور پیدا ہونے لگا کہ ٹیکنالوجی کے بے لگام استعمال نے ماحولیات کو غیر معمولی طور پر نقصان پہنچایا ہے اور سب سے دلچسپ اور عجیب بات یہ ہے کہ ان ماحولیاتی مسائل کا حل بھی ٹیکنالوجی سے ہی مانگا جانے لگا۔ چنانچہ اب حالت یہ ہے کہ ہر نئی ٹیکنالوجی جتنے مسائل حل کرتی ہے اس سے زیادہ نئے مسائل پیدا کرنے کا سبب بنتی ہے۔
ٹیکنالوجی مرکوز نظریہ کے چار خصائص بیان کیے جاسکتے ہیں۔
1۔ ٹیکنالوجی فکس ذہنیت (Technological Fix mentality)
2۔ فطرت سے بے تعلقی (Disconnection From nature)
3۔ خطر فہمی اور کبر (Risk Perception and Hubris)
4۔ ذرائع و وسائل کا بے دریغ استحصال (Resource Exploitation)
ٹیکنالوجی فکس ذہنیت
ٹیکنالوجی مرکوز نظریہ کا یہ سب سے بڑا خاصہ ہے کہ وہ سارے ماحولیاتی مسائل کے متعلق یہ یقین رکھتا ہے کہ وہ ان سب کا حل نئی نئی ٹیکنالوجی کو ایجاد کرکے کرسکتا ہے۔ بلکہ اس سے آگے بڑھ کر وہ یہ مانتا ہے کہ ایسا صرف اور صرف ٹیکنالوجی کے ذریعہ ہی ممکن ہے۔ وہ ماحولیاتی مسائل کی جڑ میں موجود وجوہات کا بہت زیادہ قائل نہیں ہوتا ہے بلکہ یہ سمجھتا ہے کہ ان تمام وجوہات کا رول کم کیا جاسکتا ہے یا ختم کیا جاسکتا ہے اگر اس سطح کی ٹیکنالوجی پیدا کی جاسکے۔ عام طور پر ٹیکنالوجی مرکوز نظریہ کے قائلین اور مؤیدین اعتراض کرتے ہیں کہ ان پر یہ ایک غیر ضروری الزام ہے۔ لیکن عملاً ٹیکنالوجی مرکوز نظریہ کا یہ خاصہ ہم بہت سارے اقدامات میں دیکھ سکتے ہیں۔
انسانی آبادی کی تیز رفتار ترقی نے غذا کی ضرورت کو بہت زیادہ بڑھا دیا۔ جس کے نتیجہ میں زراعت میں میکانکی زراعت کو خوب ترقی ملی۔ جس سے کھیتی کے روایتی طریقوں سے ہٹ کر کھیتی کے میکانکی طریقوں پر انسان کا انحصار بڑھنے لگا۔ رکازیاتی ایندھن کا استعمال کرکے چلنے والی دیوہیکل مشینوں کا چلن پورے یوروپ میں تیزی سے بڑھا۔ جس سے فضا میں کاربن ڈائی آکسائڈ کی آلودگی بڑھنے لگی۔ یہ کہا جاسکتا ہے کہ زراعت میں ان مشینوں کے استعمال سے زیادہ موٹر کاروں اور فیکٹریوں کے ذریعہ بڑے پیمانے پر ہوائی آلودگی ہوئی ہے۔ لیکن میکانکی زراعت کے اثر کو کم نہیں کہا جاسکتا۔ یہاں تک تو پھر بھی ٹھیک تھا لیکن اناج کی مانگ نے ٹیکنالوجی مرکوز نظریہ کے ماننے والوں کو حیاتیاتی زرعی ٹیکنالوجی (Agricultural Biotechnology) کے استعمال کی طرف متوجہ کیا۔ چنانچہ اس ضمن میں غیر معمولی تحقیقات ہوئیں اور سب سے پہلے مخلوط بیج (Hybrid seed)بنائے گئے اور اب جدید دور میں جینیاتی طور پر تبدیل شدہ بیج (Genetically Modified Seeds)بنائے جا رہے ہیں۔
مخلوط فصلوں نے اناج کی پیداوار میں غیر معمولی اضافہ کیا لیکن ماحولیاتی اعتبار سے یہ تباہ کن ثابت ہوئیں۔ ان کے استعمال سے زمین میں موجود غذائیت غیر معمولی طور پر متاثر ہوئی۔ بعض مخلوط فصلوں میں بعض غذائی عناصر ہی غائب ہو گئے جس نے انسانی صحت کو بالکل الگ انداز سے متاثر کیا۔ کہا جاسکتا ہے کہ مخلوط فصلیں نہ بنائی جاتیں تو انسانی غذا کی ضرورت کو کیسے پورا کیا جاتا؟ لیکن حقیقت یہ ہے کہ کوشش یہ کی گئی ٹیکنالوجی کا استعمال کرکے آسان اور قریب تر حل کو اختیار کیا جائے۔ حالانکہ اس کے بالمقابل دوسرے طریقے، نظریہ اور اختراعات اختیار کی جاسکتی تھیں۔ لیکن چونکہ ٹیکنالوجی مرکوز ذہنیت فیصلہ سازی کے عمل پر قابض بھی تھی اور اسے منضبط بھی کرتی تھی۔ اس لیے مخلوط فصلوں کا ایک رواج چل پڑا۔ اب حالت یہ ہے کہ مخلوط فصلوں نے اصل فصلوں کو کامل طور پر پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ چنانچہ ابتدا میں اناج کی پیداوار میں جو غیر معمولی اضافہ ہوا تھا اس نے اب ارضیاتی ماحولیاتی بحران (Soil Crises)کو جنم دے دیا ہے۔ اب اس ارضیاتی ماحولیاتی بحران کو درست کرنے کے لیے زمین کی غذائیت واپس لانے کے لیے جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کرکے ایسے کیمیائی مادے بنائے جا رہے ہیں جو کسی حد تک زمین کی غذائیت تو واپس لے آئیں گے لیکن ان کے بنانے میں اور ان کے استعمال سے جو نئے قسم کے مسائل پیدا ہوں گے ان کا ادراک ہمارے پاس نہیں ہے اور نہ ہی ہمارے پاس ایسی طویل مدتی تحقیقات ہیں جو یہ ثابت کرسکیں کہ یہ کیمیائی مادے طویل مدت میں ارضیاتی ماحول کو کوئی نیا نقصان نہ پہنچائیں۔
یہاں تک تو پھر بھی ٹھیک تھا لیکن زراعت کے حوالے سے اب جینیاتی طور پر تبدیل شدہ فصلوں کی بات کی جانے لگی ہے۔ اس میدان میں غیر معمولی طور پر ترقی ہوئی ہے۔ بعض جینیاتی طور پر تبدیل شدہ فصلیں اب بازار میں موجود ہیں۔ ان فصلوں پر دونوں قسم کی تحقیقات موجود ہیں۔ بعض تحقیقات ان کے طویل مدتی نقصانات کی طرف اشارہ کرتی ہیں اور بعض انہیں انسانی غذائی مسئلے کا حل بتاتی ہیں۔ ٹیکنالوجی مرکوز ذہنیت یہ سمجھتی ہے کہ غذا کے مسئلے کا حل صرف اور صرف ٹیکنالوجی کے ذریعہ کیا جاسکتا ہے۔ اب اگر غذا کے مسئلے کا حل کرنے کی وجہ سے ماحولیاتی بحران پیدا ہوا ہے تو اس کا حل بھی ٹیکنالوجی کے ذریعہ کیا جاسکتا ہے۔ اوپر دیے گئے محاکمے سے یہ بات ثابت ہو جاتی ہے کہ کس طرح ٹیکنالوجی مرکوز ذہنیت ماحولیاتی مسائل کا حل صرف اور صرف ٹیکنالوجی کا استعمال کرکے کرنا چاہتی ہے۔ اس کو ایک اور سادہ مثال سے سمجھا جاسکتا ہے۔
یہ بات اب علمی حلقوں میں تسلیم شدہ ہے کہ زمینی آلودگی اور زراعت کی زمین میں آلائندے (Pollutants) کی موجودگی کی وجہ سے قابل کاشت زمین کم سے کم ہوتی جائے گی۔ اس مسئلے کے حل کے لیے بجائے اس کے کہ زمینی آلودگی کو جنگی پیمانے پر کم کرنے کی کوششیں تیز سے تیز تر ہوں ٹیکنالوجی مرکوز ذہنیت نے ہائڈرو پونکس زراعت کا تصور پیش کیا ہے جس میں پودوں کو زمین میں اگانے کی بجائے پانی کے برتنوں میں اگایا جائے گا اور معدنیات اور دیگر غذائیت جو پودوں کی نشوونما کے لیے ضروری ہوتی ہے وہ براہ راست پانی کے ذریعہ پودوں کو پہنچائی جائے گی۔ یہ تکنیک ابھی ابتدائی مرحلے میں ہیں لیکن اس کے بہت اچھے نتائج سامنے آرہے ہیں۔ لیکن طویل مدتی اعتبار سے یہ تکنیک غذائی زنجیر (Food Chain) پر کیسے اثر انداز ہوگی کہا نہیں جاسکتا۔ ٹیکنالوجی مرکوز ذہنیت کے علمبردار یہ سوال کرتے ہیں کہ اس طرح کی جدید ٹیکنالوجی کا استعمال ناگزیر ہے ورنہ غذائی اعتبار سے کمزور اور بنجر زمین سے کس طرح سے فصلوں کا حصول ہوگا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اصل زور اس پر ہونا چاہیے کہ کمزور اور بنجر زمین کا پھیلاؤ کن وجوہات کی بنا پر ہو رہا ہے اصل توجہ ان وجوہات پر ہونی چاہیے اور ان وجوہات کے تدارک کے لیے اصل تحقیق اصل ٹیکنالوجی کی پیداوار ہونا چاہیے۔ کاغذ پر یقیناً یہ کہا جاتا ہے کہ ایک طرف تو ان وجوہات کو دور کرنے کے لیے کوششیں جاری ہیں اور دوسری طرف ماحولیاتی بحران کے ذریعہ پیدا ہونے والی ارضی آلودگی کے چلتے زراعت کے لیے نئی ٹیکنالوجی کی ایجاد بھی جاری رہے لیکن عملاً اصل زور صرف دوسرے پہلو پر ہوتا ہے۔ اگر ان اعداد و شمار کا جائزہ لیا جائے جو اول الذکر پہلو کے حوالے سے موجود ہیں اور پھر ان کا موازنہ دوسرے پہلو کے اعداد و شمار سے کیا جائے تو صورت حال مایوس کن نظر آتی ہے۔ بطور خاص ایسی بنیادی قسم کی تحقیقات کے لیے فنڈس کی فراہمی جو اول الذکر پہلو پر مرکوز ہوں خال خال نظر آتی ہے۔
ٹیکنالوجی مرکوز ذہنیت کی سب سے واضح مثال ایلون مسک ہیں۔ ایلون مسک کو ہر کوئی جانتا ہے۔ مریخ پر انسانی کالونی کے بسانے کے ان کے خواب سے تقریباً ہر نوجوان واقف ہے۔ مریخ پر انسانی کالونی بسانے کا ان کا یہ خواب اصل میں اس لیے وجود میں آیا ہے کہ ماحولیاتی بحران کے چلتے جب کچھ عرصے بعد کرہ ارض انسانوں کے رہنے اور بسنے کے قابل نہیں رہے گا تب مریخ پر انسانوں کے بود و باش کا انتظام کیا جائے!
لاکھوں ڈالر خرچ کرکے مریخ پر انسان کی رہائش کے لیے ممکنہ ماحول کیسا ہوسکتا ہے اس پر تحقیق جاری ہے۔ اس کے لیے نئی ٹیکنالوجی کے پیدا کرنے کو ترجیحی بنیادوں پر فنڈ کیا جارہا ہے۔ یہاں تک کہا جارہا ہے کہ مریخ میں زمین جیسے ماحول کی تشکیل کے لیے Nuclear Fission کا استعمال کیا جاسکتا ہے۔
ٹیکنالوجی مرکوز ذہنیت زمینی ماحولیاتی بحران کو حل کرنے کے بجائے مریخ پر انسانی کالونی بنانے کو ترجیح دیتی ہے اور انسان کے ذریعہ پیدا کردہ ٹیکنالوجی اور اس سے ابھرنے والے ماحولیاتی بحران سے صرف نظر کرتی ہے اور ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے مریخ پر انسان کو پہنچانے کی بات کرتی ہے۔ (جاری)

حوالہ جات:
,1SEYMOUR PAPERT
A Critique of Technocentrism in Thinking About ,the School of the Future
,(s) Editor: Blagovest Sendov, Ivan Stanchev
,Children in the Information Age
,Pergamon
,1988 ,Pages 3-18
,ISBN 9780080364643
https://doi.org/10.1016/B978-0-08-036464-3.50006-5

[email protected]

حالیہ شمارے

براہیمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے

شمارہ پڑھیں

امتیازی سلوک کے خلاف منظم جدو جہد کی ضرورت

شمارہ پڑھیں