سعود فیروز
انسانی فطرت تاریخی طور پر سماج وابستہ واقع ہوئی ہے۔ اسی لئے علوم عمرانی میں فرد اور سماج ایک بنیادی اکائی کے طور پر ہمیشہ موجود رہے ہیں۔انسانی تاریخ کے ابتدائی ادوار میں جب انسان کا شعور اجتماع بالیدہ نہیں تھااور اس کا طرز زندگی سہل اور سادہ تھا تب بھی فرد اور سماج تو موجود تھے لیکن ایک مبہم شناخت کے ساتھ۔ انسان کا شعور جس قدر پختہ ہوتا گیا ہے، جس قدر اس کا لائف اسٹائل پیچیدہ تر ہوتا گیا ہے اسی قدر فرد اور سماج کی شناخت بھی واضح اور منفرد ہوتی چلی گئی ہے۔دور جدید کے آتے آتے ان دونوں اکائیوں میں اس حد تک انفرادیت پیدا ہوگئی کہ دونوں میں اصل کون ہے ،اس پر تنازعہ پیدا ہوگیا۔ مغرب میں سیاسی مفکرین کے ایک مکتبہ فکر نے سماج کو بنیادی اکائی ماننے سے انکار کرتے ہوئےفرد کی وکالت کی تو دوسرے نے فرد کا انکار کرتے ہوئے سماج کو کسی بھی سیاسی تجزیہ کی اساس قرار دیا۔اس نظریاتی کشاکش نے دو سیاسی نظریات کو جنم دیا۔ فرد مرکوز نظام یعنی آزاد انفرادیت یا لبرل ازم (Liberal Individualism) اور سماج مرکوز نظام(Communitarianism)۔ اس مختصر مقالہ میں انہی دو نظریات کا تعارف پیش کیا جارہا ہے۔
فرد اور سماج سے متعلق فکری جدال اسّی کی دہائی میں اس وقت شروع ہوا جب 1982 میں میکائل سیندل کی کتاب Liberalism and the Limits of Justice منظر عام پر آئی۔اس کتاب میں سیندل نے راولس کی کتاب A Theory of Justice مطبوعہ 1971 پر تبصرہ کرتے ہوئے اس کے لبرل افکارپر شدید تنقید کی۔سیاسی فکری حلقوں میں یہ بحث اسی وقت سے کسی نہ کسی شکل میں موضوع بحث بنی رہی ہے۔آج کے بہت سارے سیاسی مباحث در اصل اسی فکری جدال کے پروردہ ہیں۔دونوں افکار میں مرکزی اختلاف فرد اور سماج کی حیثیت کے تعین پر ہے۔ یعنی یہ سوال کہ اصل کون ہے فرد یا سماج اور ریاست؟ آیا فرد اپنے معاملات بذات خود طئے کریں، بہترین ریاست کسے کہا جائے،یہ بھی فرد ہی کی فلاح کے نقطہ نظر سے طئے کیا جائے یا ان معاملات میں سماج ،اجتماعی اداروں اور ریاست کا بھی عمل دخل تسلیم کیا جائے؟ اس سوال کے جواب میں دونوں نظریے مختلف اور متضاد نقطہ نظر رکھتے ہیں۔ان دونوں نظریات کو اس طرح کہا جا سکتا ہے کہ ایک نظریہ فرد کی آزادی اور فرد کے لامحدود حقوق و اختیارات کا علمبردار ہے ،جب کہ دوسرا سماج،اجتماعی اداروں اور ریاست کے رول پر زور دیتا ہے۔
لبرل ازم(Liberal Individualism) کا مفہوم اور اس کا ارتقا
فرد اور ریاست اور ریاست کے رول،ریاست کی سرگرمیوں کو بیان کرنے والے نظریات میں سے ایک لبرل ازم کا نظریہ ہے۔جو بات اس نظریہ کو دوسرے نظریات سے الگ کرتی ہے وہ اس کی فرد مرکوزیت ہے۔ اس نظریہ کو متعارف کروانے میں آدم اسمتھ اور ہربرٹ اسپینسر کا کلیدی کردار رہا ہے۔ بھارت میں مہادیو گووند رانادے اس نظریہ کے وکیل رہے ہیں۔
لبرل ازم کا نقطہ نظر یہ ہے کہ افراد آزاد، باشعور اور اس قابل ہیں کہ اپنی زندگی کے اچھے اور برے کا تعین بذات خود کرسکیں۔ افراد باشعور اس طور پر ہیں کہ اپنے مفادات کے بہترین عالم اور ناقد وہ خودہیں۔وہ اس قابل ہیں کہ ایک خوش حال زندگی کسے کہتے ہیں اس کا تصور خود ہی تشکیل دیں۔ایک شخص کے خوش حال زندگی کے تصور میں اس کے اعتقادات ، اخلاق و اقدار اور وہ ساری چیزیں شامل ہیں جن کے مطابق وہ اپنی زندگی گزارنا چاہتا ہے۔افراد آزاد اس معنی میں ہیں کہ وہ وہ قابلیت اور استحقاق رکھتے ہیں جس کی بنا پر موجود سماجی روایات اور سرگرمیوں میں وہ اپنی شمولیت یا عدم شمولیت کا دعوی پیش کر سکیں۔ یعنی افراد کسی بھی متعین سماجی تعلق کو قبول کرنے،رد کرنے یا اس پر نظر ثانی کرنے کے مجاز ہیں۔ایک شخص کو بحیثیت فرد یہ آزادی حاصل ہے کہ وہ اپنے آپ کو کسی بھی سماجی روایت سے کنارہ کش کرلے ،اور یہ سوال اٹھائے کہ ہمیں اس روایت کو برقرار رکھنا چاہئے یا نہیں۔فرد پر سماج کی طرف سے کوئی متعین ذمہ داری یا حدود عائد نہیں ہیں۔اسے یہ آزادی حاصل ہے کہ اپنا نصب العین اور اپنے حدود وہ اپنی خواہش کے مطابق طئے کرے۔اس سلسلےمیں راولس کا یہ مقولہ معروف ہے؛ بقول راولس ؛
The self is prior to the ends, which are affirmed by it.
ذات کا مقام حدود سے پیش تر ہے، ذات ہی حدود کا تعین کرتی ہے”
فرد کی اس آزادی کو تسلیم کرنے کے بعد لازم ہوجاتا ہے کہ فرد کو وہ بنیادی وسائل اور آزادیاں فراہم کی جائیں جن کے ذریعے وہ اپنے اعتقاد اور اقدار کے مطابق حیات بسر کرسکے۔لبرل نظریہ کے حامی افراد ان ہی خیالات کی روشنی میں فرد اور ریاست، ریاست کے اختیارات و فرائض اور اس کا دائرہ کار طئے کرتے ہیں۔
لبرل ازم اور ریاست
ریاست سے متعلق لبرل ازم کا نظریہ فرد سے متعلق اس کے اس نظریہ کی بنیاد پر ہے جس میں فرد آزاد، باشعور اور خود مختار ہے۔لبرل نظریہ کے مطابق فرد چونکہ آزاد،باشعور اور خود مختار ہے اس لئے بہترین اور خوش حال زندگی کسے کہا جائے، فرد کو کیسی زندگی گزارنی چاہئے،اس کے تعین کا موقع فرد ہی کو دیا جانا چاہئے۔جب بہتر زندگی کے تصور کو ریاست ڈیفائن کرنے لگتی ہے اور اسی تصور کو اپنانے پر افراد کو مجبور کرتی ہے تو افراد کے مفادات مجروح ہوتے ہیں۔اس نظریہ کے مطابق یہ تصور کہ فرد آزاد،باشعور اور خود مختار ہے،لازما ایک ایسی ریاست کے تصور کا مطالبہ کرتا ہے جو غیر جانبدار (Value-Neutral)ہو اور جس کی سرگرمیاں کم از کم ہوں۔چنانچہ ریاست کی غیر جانب داری ہی لبرل ازم میں سیاست کی بنیادی قدر ہونی چاہئے۔ریاست کا کم سے کم عمل دخل ہی درحقیقت لبرل نظریہ کی امتیازی خصوصیت ہے۔
‘غیر جانبدار ریاست ایک ایسی ریاست ہے جو فلاح اور کامیابی کے کسی انفرادی تصور کی حمایت،حفاظت اور تبلیغ نہ کرے، اسی طرح کسی تصور کی مذمت اور اس کے ساتھ امتیاز بھی نہ کرے۔بلکہ وہ ایک ایسا اجتماعی ماحول فراہم کرے جس میں مختلف اور متضاد تصورات کو اختیار کیا جاسکے۔اس نظریہ کے مطابق ریاست کوئی فطری ادارہ نہیں ہے۔کیوں کہ عوام کے پاس ایک فطری پری۔پالیٹیکل آزادی موجود ہے۔ حکومت انہی کی مرضی سے وجود پذیر ہوتی ہے جن پر حکومت کی جانی ہے۔اس لئے ریاست ایک مصنوعی اگرچہ ناگزیر ڈھانچےکا نام ہے۔بعض لبرل نظریہ ساز مفکرین نے ریاست کو ایک ‘ناگزیر برائی بھی قرار دیا ہے۔اب چونکہ ریاست ایک ناگزیر برائی ہے اس لئے بہترین ریاست وہ ہے جو پبلک لائف میں کم سے کم مداخلت کرے۔اس طرح ریاست کا رول ،افراد کے حقوق کی ضمانت اور تحفظ تک محدود ہے۔ریاست فرد کی آزادی میں صرف اس وقت مداخلت کر سکتی ہے جب ایک فرد کو دوسرے افراد کی آزادی مجروح کرنے سے باز رکھنا مقصود ہو۔
ریاست کا یہ تصور کہ وہ ایک محدود اور کم سے کم اختیارات رکھنے والا ادارہ ہے ،در اصل نظریہ laissez-faire کی ترجمانی کرتا ہے۔ یہ فرانسیسی محاورہ اب ایک سیاسی اصول بن چکا ہے ، اس کا مطلب ہے ’’تنہا چھوڑ دو‘‘ یا ’’ہمیں کرنے دو‘‘ یہ نظریہ اسی خیال کی وکالت کرتا ہے کہ فرد کو ریاست کی غیر ضروری اور ناقابل توجیہ مداخلت سے آزاد کر دینا چاہئے ۔لبرل ازم کے تصور فرد، تصور ریاست پر مختلف نظریاتی حلقوں کی جانب سے شدید تنقیدیں بھی کی گئی ہیں۔ ان میں فاشزم،سَرودَیا، کمیونزم اور فیمینزم قابل ذکر ہیں۔البتہ لبرل ازم پر سب سے زیادہ شدید تنقید نظریہ کمیونیٹیرین ازم (Communitarianism) میں نظر آتی ہے۔ ذیل میں اس کا جائزہ لیا جارہا ہے۔
کمیونیٹیرین ازم – ایک تعارف
اسّی کی دہائی سے ہی لبرل ازم کو کمیونیٹرین ازم کی جانب سے شدید چیلنج اور تنقید کا سامنا رہا ہے۔اس اصطلاح کو 1982 میں ،جیسا کہ اوپر ذکر آچکا ہے، میکائل سینڈل نے اپنی کتاب Liberalism and the Limits of Justice میں وضع کیا۔جس میں اس نے جان راولس کی پیش کردہ لبر ل ازم کی اساسات پر تنقیدی تبصرے کئے ۔ میکائل سیندل کے علاوہ بھی اس خیمے کے کئی سیاسی نظریہ سازوں نے لبرل ازم پر تنقیدیں کیں ۔یہ سارے نظریہ ساز ہیگل اور روسو سے متاثر تھے۔
کمیونیٹیرین ازم میں سب سے کلیدی توجہ سماج یا ریاست کو حاصل ہے۔دو یا دو سے زائد افراد اگر وہ فلاح کا مشترک تصور رکھتے ہیں تو وہ ایک طبقہ، ایک سماج بناتے ہیں۔ان کا یہ مشترک تصور فلاح ہی ان کی شناخت ہوتی ہے۔یہ کمیونیٹی ایک گہری دوستی، خاندانی رشتہ داری، پڑوسی اور حتی کہ ایک جامع سیاسی گروہ کی شکل میں ہوسکتی ہے۔ اس نظریہ کا اصرار ہے کہ ہر فرد اپنی شناخت، اپنی صلاحیت اور زندگی کا نصب العین سماجی تناظر میں ہی طئے کرتا ہے۔ہم قدرتی طور پر ایک سماجی مخلوق ہیں۔چوں کہ سماج ہی فرد کا مزاج طئے کرتا ہے، اس لئے سیاسی زندگی فرد مرکوز نہیں، سماج مرکوز ہونی چاہئے۔دوسرے لفظوں میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ ایک مثالی ریاست کو ڈیفائن کرنے والے فلسفیانہ مباحث میں محور غور و فکر فرد نہیں سماج ہونا چاہئے۔
کمیونیٹیرن ازم کے مطابق لبرل ازم کا سب سے بنیادی نقص یہ ہے کہ یہ ناقابل توجیہ اور ناقابل برداشت حد تک فرد کی آزادی کا قائل ہے۔فرد اور ریاست کے تعلق کے حوالے سے لبرل نظریہ ضرورت سے زیادہ محدود ہے اور یہ سماج کے صحیح کردار کی غلط نمائندگی کرتا ہے۔کمیونیٹیرین ازم کے مطابق فرد اور ریاست کا دو-سطحی تصور ؛ ایک تصور فرد کی سطح پر اور دوسرا سماج کی سطح پر، کافی نہیں ہے۔کمیونیٹیرین ازم کا یہ بھی ماننا ہے کہ فرد کے حقوق اور آزادی کو ریاست اور سماج کے حقوق و اختیارات پر ترجیح دے کر لبرل ازم سماجی ممبر شپ اور سماجی شناخت کو نظر انداز کر دیتا ہے۔
لبرل تصور ذات پر کمیونیٹیرین تنقید
کمیونیٹیرین فکر کے حاملین لبرل ازم پر بالعموم دو تنقیدیں کرتے ہیں؛ ایک تو یہ کہ لبرل نظریہ سماج کی تحقیر پر مبنی ہے اور اس کی اہمیت کو تسلیم نہیں کرتا، دوسرے یہ کہ یہ ذات اور اس کے حدود کے سلسلے میں غلط مفروضات پر مبنی ہے۔جیسا کہ اوپر اشارہ کیا گیا کہ لبرل ازم افراد کو سماج سے الگ ہوکر خود کفیل بننے کی تعلیم دیتا ہے۔فرد کی اچھی زندگی کے لئے سماج کی ضرورت اور اس کے کردار کو لبرل ازم تسلیم نہیں کرتا۔ ‘خوش حال زندگی کیا ہے ،اس کا تصور افراد خود ڈیفائن کریں۔ کمیونیٹیرین دانشوروں کا دعوی ہے کہ یہ ایک سطحی نظریہ ہے۔
کمیونیٹیرین نظریہ میں بہر حال فرد کی خوشحال زندگی کے لئے سماج ایک بنیادی عنصر اور جزو لاینفک ہے۔افراد خواہ کسی قدر آزاد ہوں، طبقات اور سماج سے پَرے ہوکر انسانی وجود کا تصور نہیں کیا جا سکتا۔عوام مکمل اور مستقل طور پر تنہا نہیں رہ سکتے۔بلکہ افراد کی تشکیل کی جاتی ہے، ان کی شناخت وہ ہوتی ہے جس طبقے سے اس کا تعلق ہوتا ہے۔بحیثیت انسان ہم بنیادی طور پر ایک خاندان، مذہب، قبیلہ،نسل اور وطن کے ممبر ہوتے ہیں۔یہی تعلقات یہ طئے کرتے ہیں کہ “ہم کون ہیں؟”اور “ہماری اقدار” کی تشکیل کرتے ہیں۔
اسی طرح فرد اور ریاست کے مابین تعلق،ذات اور اس کے حدود کے حوالے سے لبرل ازم کی کوتاہ نگاہی پر بھی کمیونیٹیرین نظریہ تنقید کرتا ہے۔ کمیونیٹیرین نظریہ کے مطابق ذات کے اس تصور کو قبول کرلینا کسی فرد کو لا تعلق سمجھنے کی طرح ہے۔اس میں فرد اور ریاست کا تعلق محض رضاکارانہ نوعیت کا ہو کر رہ جا تا ہے۔ کمیونیٹیرین دانشور اس رضا کارانہ تعلق پر تنقید کرتے ہیں۔ان کے مطابق یہ تصویر سماج سے ہماری حقیقی وابستگی کو نظر انداز کرتی ہے۔مزید تنقید کرتے ہوئے وہ سوال کرتے ہیں کہ جو اقدار موجود ہیں کیا انہیں تبدیل کیا جاسکتا ہے اور ان کی جگہ نئے اقدار لائے جا سکتے ہیں۔ان کا کہنا ہے انسان بنیادی طور پر ایک سماجی مخلوق ہے۔مثلا ہم اپنے سماجی اور طبقاتی تعلقات کو نہ کبھی منتخب کرتے ہیں نہ کبھی اس کی تردید ہی کرتے ہیں، ہم اسے دریافت کرتے ہیں۔ہم نہ آزاد ہیں اور نہ اپنے سماجی حدود سے بہت دور ہی کھڑے ہیں، بلکہ ہم اپنے آپ کو ان میں واقع اور موجود پاتے ہیں۔مثلا ہم پیدائشی طور پر اپنے خاندان، مذہب یا نسل کا انتخاب نہیں کرتے،بلکہ ہم اپنے آپ کواس میں موجود پاتے ہیں۔اس کے بعد ہی ہم فلاح اور خوشحالی کا اپنا تصور قایم کرتے ہیں۔پھر ہم اپنے خاندان ،مذہب یا ملک میں اپنی صحیح پوزیشن اور مقام و مرتبہ طئے کرتے ہیں۔کمیونیٹیرین ازم کے مطابق ہم اپنے سماجی کردار اور طبقاتی شناخت سے کبھی آزاد نہیں ہیں۔میکائل سیندل کہتا ہے کہ” میں اپنے اس کردار کی جس میں میں خود کو پاتا ہوں، توجیہ تو ضرور کر سکتا ہوں مگر سرے سے کردار ہی کا انکار نہیں کرسکتا۔اور نہ ان میں پنہاں اہداف کو بے کار قرار دے سکتا ہوں۔”یہی وہ نظریاتی بنیادیں ہیں جن کی اساس پر کمیونیٹیرین نظریہ لبرل ازم کے افکار و نظریات پر خط تنسیخ چلا دیتا ہے۔
غیر جانبدار ریاست کے تصور پر کمیونیٹیرین تنقید
کمیونیٹیرین نظریہ کے علم بردار لبرل ازم پر جو دوسری اہم تنقید کرتے ہیں وہ لبرل ازم کا ‘غیر جانبدار ریاست ‘ کا تصور ہے۔ جیسا کہ بتایا گیا،لبرل دانشور ریاست کو ایک غیر جانب دار اور کم سے کم اختیارات رکھنے والا سیاسی ادارہ مانتے ہیں۔جس کے اختیارات محض افراد کے حقوق اور آزادی کے تحفظ اور لاء اینڈ آرڈر کے استحکام تک محدود ہیں۔چوں کہ افراد آزاد، باشعور اور خود مختار ہیں، اور کسی بھی سیاسی نظام کی اساس ہیں، اس لئے ریاست کا غیر جابن دار ہونا لازمی ہے۔اور ریاست کے غیر جانب دار ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس کا کسی نظریہ زندگی سے تعلق نہ ہو۔جو فلاح اور بہتری کے مختلف تصورات کو برداشت کرتی ہو۔
کمیونیٹیرین دانشور فرد کی خود مختاری اور ریاست کی غیر جانب داری کے اس تعلق کی مخالفت کرتے ہیں۔ان کے مطابق یہ نظریہ اس غلط فہمی پر قایم ہے کہ فرد کی خود مختاری کی حفاظت صرف اسی صورت میں ہوسکتی ہے جب کہ بہتر طرز زندگی کا فیصلہ کسی سیاسی اتھاریٹی کے باہر ، محض افراد کی خواہشات کی بنیاد پر ہو۔چنانچہ اس مفروضہ کو مسترد کرتے ہوئے کمیونیٹیرین دانشور کہتے ہیں کہ درحقیقت فرد کو اپنے انفرادی فیصلے لینے کے لئے اجتماعی طور پر تجربات کے لین دین کی ضرورت ہوتی ہے۔ اسی لئے کمیونیٹیرین نظریہ اجتماعی مفادات کے حصول کے لئے انفرادی مفادات سے دست برداری کی وکالت کرتا ہے۔اجتماعی مفاد ایک پائیدار تصور کا نام ہے جو سماج کی صحیح تصور حیات کی طرف رہ نمائی کرتا ہے۔بجائے اس کے کہ مختلف انفرادی تصورات پر غیر جانب دار رہے، بہتری اور فلاح کا اجتماعی تصور افراد کے لئے وہ معیارات فراہم کرتا ہے جس کے ذریعے انفرادی ترجیحات اور اقدار کی جانچ پڑتال کی جا سکتی ہے۔الغرض فلاح کا اجتماعی تصورہی وہ اساس ہے جس کی روشنی میں انفرادی تصورات کی تعیین قدر کی جاسکتی ہے۔ یعنی اس بنیاد پر کہ انفرادی تصور اجتماعی تصور سے کتنی موافقت رکھتا ہے اور اس کے حصول میں کتنا تعاون کرتا ہے۔اسی لئے کمیونیٹیرین نظریہ کے مطابق انصاف پر قایم ریاست وہ نہیں ہے جو افراد کے ذاتی تصورات سے خود کو الگ تھلگ رکھتی ہو۔بلکہ انصاف پر قایم ریاست وہ ہے جو اجتماعی تصور فلاح سے مطابقت رکھنے والے مختلف تصورات اختیار کرنے پر اپنے شہریوں کہ حوصلہ افزائی کرے، اور ان تصورات کی نفی کرے جو اجتماعی تصور سے متصادم ہو۔اس طرح ریاست کا فرض یہ بھی ہے کہ وہ ایک بہتر حیات بسر کرنے کے سلسلے میں اپنے شہریوں کی رہ نمائی کرے۔اس نظریہ کا مزید ماننا یہ ہے کہ ایک اجتماعی تصور فلاح صرف افراد کی صحیح رہ نمائی کے لئے ضروری نہیں ہے بلکہ عدل و انصاف پر قائم ایک سیاسی اجتماعیت قایم کرنے کے لئے بھی ناگزیر ہے۔