ندیم انصاری، پڑگھا
قوموں کے عروج و زوال کا انحصار ان کے تخیل کی بلند پروازی پر’ اعلٰی و ارفع خوابوں پر’ اور پاکیزہ تصورِ کائنات(World View) پر منحصر ہے۔ جس قوم سے اس کے خواب چھین لیے جائیں’ اس کے تصورِ کائنات کو دھندلا دیا جائے’ اس کا مستقبل بے سمتی کا شکار ہو جاتا ہے۔
امتِ مسلمہ تاریخ کے جس موڑ پر کھڑی ہے شاید وہ ملی تاریخ کی سب سے بڑی بحرانی صورتحال ہے۔ گو کہ ماضی میں ہم ایسے کتنے شدید حوادث جھیل چکے ہیں- مثلا ”جمل و صفین کی خانہ جنگیاں’ بغداد و غرناطہ کا سکوت’ مغل دہلی اور خلافت عثمانی کی تباہی” وغیرہ۔لیکن پیش نظر صورتحال ہمارے تخیل پر’ ہمارے تصورات کا ئنات پر ضرب لگاتی ہے۔جس کی وجہ سے ہم ایک نظریاتی بحران (ideological crisis) کا شکار ہیں ۔
سرد جنگ کے خاتمے کے بعد مغرب کو یہ محسوس ہوا کہ مغربی تہذیب کے بالمقابل اگر کوئی نظام انسانیت کی داد رسانی کر سکتا ہے تو وہ اسلام ہے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ ما بعد سرد جنگ کے دور میں مغرب کے دو بہترین دماغوں نے اپنی اپنی تھیوری کے زریعہ نظریاتی طور پر مغرب کی اسلام پر فوقیت ظاہر کرنا چاہی- فرانسس فوکویاما نے اپنی تھیوری ‘ تاریخ کی انتہا ‘کے ذریعے کہا کہ ویسٹرن لبرل ڈیموکریسی انسانی نظریات کے ارتقاء کی انتہا ہے۔ اور چونکہ اس میں پچھلی تمام بہترین چیزیں جمع ہوگئی ہیں اس لیے یہ تاریخ کی بھی انتہا ہے۔ تاریخ اس سے بہترین ماڈل نہیں دے سکتی اس لئے اب ساری دنیا کو اس ماڈل کو اپنالینا چاہیے۔ اسی طرح سیموئیل ہنگٹنگٹن نے اپنی تھیوری ‘تہذیبوں کے تصادم’ کے ذریعے کہا کہ اب تصادم بالخصوص مغربی تہذیب اور اسلامی تہذیب کے درمیان ہے، جس میں مغربی تہذیب بالآخر فتح یاب ہوگی۔
یہ ہے وہ نظریاتی بحران جو ہمیں لے ڈوبنے پر تُلاہوا ہے- ویسٹرن لبرل ڈیموکریسی کے اس نظریاتی ماڈل کے بالمقابل ہمارے پاس دنیا کو دینے کے لییکیا کوئی قابلِ عمل (Viable) ماڈل موجود ہے؟ کیا ہمارے پاس موجود اسلامی ماڈل جو نسلی افتخار’ قومی و ملکی تفرقات’ مسلکی و فقہی تنازعات’ دہشت گردی و حقوق نسواں کی صلب برداری کے داغوں سے پراگندہ ہے۔ کیا وہ انسانیت کے لئے قابل قبول بھی ہو سکتا ہے؟
اگر ہم اپنے اندرون میں گہرائی سے جھانک کر دیکھیں تو نظر آئے گا کہ ہمارا نظریہ کائنات، ہمارا تخیل، ہمارے خواب، ہمارا نظریہ عروج و زوال، ہماری ترقی کے ماڈل، قرآنی نظریہ سے میل نہیں کھاتے۔ ہم قوموں کے عروج و زوال کو سلطنتوں کی قوت و شوکت سے ناپنے کے عادی ہو گئے ہیں۔ یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ اسلام کے عروج کا مطلب empire building نہیں ہے۔ راشد شاز ‘ادراک زوال امت’ میں لکھتے ہیں کہ ’’رسول اللہ کی بعثت نا تو عرب سلطنت کے قیام کے لیے ہوئی تھی اور نہ ہی اسلامی فکر میں جابر بادشاہوں اور توسیع پسند حکمرانوں کے لیے کوئی گنجائش تھی۔ عباسی بغداد کا عہد زریں جس قوت و سطوت ‘جاہ و حشم سے عبارت تھا اس کی نظری اور تہذیبی بنیادیں غیر قرآنی ثقافت میں تھیں۔ ہم عرصہ ہائے دراز تک مسلم قوت کے عروج کو عروج کلمہ سمجھنے کی غلط فہمی میں مبتلا رہے۔‘‘
عرصہ دراز سے ہمارے بہترین دماغ اور اسلامی تحریکیں زوال کی تفہیم، دین کی طرف واپسی کو گردانتی ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ دین کی طرف واپسی سے انکی مرادکیا ہے?انکا فہم دین انتہائی ناقص اور تصورِ کائنات غیر قرآنی ہے۔ وہ عروج سے مراد قوت کے حصول، شان وشوکت، جاہ و حشمت اور ایمپائر بلڈنگ سے لیتے ہیں۔ وہ قوم مسلم کی سیاسی برتری کو دوسری اقوام پر لادنا چاہتے ہیں۔ بھلا ایسا ناقص ماڈل غیر اقوام کو کیا قابلِ قبول بھی ہو سکتا ہے؟ چنانچہ یہاں ضرورت پیش آتی ہے حقیقی اسلام کی بازیافت کی، اپنے تصورِ کائنات کو درست کرنے کی، یہ جاننے کی، کہ ہم کون ہیں اور تاریخ میں ہمارا رول کیا ہے؟ قرآن ہم سے کیا چاہتا ہے؟ تاریخ کے کس موڑ پر ہم کھڑے ہیں اور مستقبل میں ہماری اسٹریٹیجی کیا ہو؟
مسلمانوں کے عروج کی تاریخ کا مطالعہ کریں تو ہمیں نظر آتا ہے کہ ان کی غیر معمولی ترقی میں ان کے فہم دین، نظریہ تاریخ اور تصور کائنات کا اہم رول ہے۔ جب قرآن یہ کہتا ہے کہ ’’تم بہترین امت ہو جو لوگوں کے لئے پیدا کی گئی ہے تم نیک باتوں کا حکم کرتے ہو اور بری باتوں سے روکتے ہو‘‘۔ (آل عمران 110)۔ اُس کے ذریعے قرآن نے تاریخ میں مسلمانوں کا رول define کردیا اور دوسری امتوں کی امامت اس شرط کے ساتھ عطا کردی کہ ہم خدائی اسکیم کے نافذ کرنے والے اور خلیفہ ہیں۔ دوسرا اس نے یہ کیا کہ کائنات پر غور وفکر کو ایک مذہبی فریضہ کی حیثیت دے دی۔ اور پھر تمام علوم حاضرہ اور متقدمہ سے اکتساب کا فن سکھایا۔ قرآن نے یہ کیا کہ قوموں کے عروج میں کارفرما عوامل سے اسرار کی چادر ہٹا دی اور بتایا کہ کائنات میں پھیلی ہوئی عظیم طاقتوں اور اصولوں کو جو قوم بازیاب کرے گی وہ اقوامِ عالم کی قیادت کے شرف سے سرفراز ہو گی۔ اس قرآنی نکتہ نظر نے جہاں ہمیں اقوام عالم کی قیادت کے اعزاز سے سرفراز کیا وہیں کائنات پر غور وفکر نے ہمیں علوم و فنون میں دنیا کی امامت عطا کر دیں۔
یہ بات کوئی ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ medieval دور میں جب اسلامی تمدن اپنے عروج کی انتہا پر تھا یورپ کی تاریخ میں اسے Dark Ages کے نام سے پہچانا جاتا ہے۔ یورپ کو علوم و فنون سے روشناس کرانے میں، انکی نشاتہ الثانیہ کی افزائش میں، صقلیہ اور اندلس میں موجود ہماری جامعات کا اہم رول رہا ہے۔
ہمیں یہ کہنے میں کوئی شک و تردد نہیں کہ مسلمانوں کا عروج حقیقی اسلام کی بازیافت میں ، فہم دین کی درستگی میں، تصورِ کائنات کی دستیابی میں پوشیدہ ہے۔ وہ حقیقی اسلام جس میں رنگ ونسل و جنس کے افتخارات، قومی و ملکی تفرقات، مسلکی و فقہی تنازعات، صبغت اللہ کے رنگ میں رنگ جائیں۔ جہاں اسلام کی بالادستی، مسلم قوم کی سیاسی برتری نہ ہو کر اقوام عالم کے گائیڈ کی ہو، جہاں اقوام عالم کو اس کی رہنمائی میں تاریخ کا سفر طے کرنا ہو۔
تاریخ کے جس نازک موڑ پر آج انسانیت کھڑی ہے وہاں تاریخ ایک بے سمتی کا شکار ہے۔ آگے تاریکی ہی تاریکی نظر آتی ہے۔ ایسے میں ہماری ذمہ داری اور بھی دوچند ہوجاتی ہے۔ مغرب کے لیے ان کا ویسٹرن لبرل ڈیموکریسی ماڈل اپنی تمام تر خامیوں کے باوجود اس لیے قابل قبول ہے کہ اس ماڈل کے بالمقابل کوئی دوسرا بہتر قابل عمل ماڈل نظر نہیں آتا۔ مغرب کا ایک صاحب نظر فلسفی Oswald Spengler اپنی کتاب ‘مغرب کا زوال، میں مغربی تہذیب کی موت کا مژدہ سنا چکا ہے۔ ایسے میں تاریخ کا اسٹیج امت مسلمہ کے لئے پوری طرح سے خالی ہے کہ وہ آئیں اور اپنے قرآنی ماڈل کے ذریعے انسانیت کی داد رسانی کرے۔ لیکن کیا ہم اس کے لئے اپنے آپ کو تیار پاتے ہیں؟
نکل کے صحرا سے جس نے روما کی سلطنت کو الٹ دیا تھا
سنا ہے یہ قدسیوں سے میں نے وہ شیر پھر ہوشیار ہوگا
اقبال